عربی میں غزل کی روایت -از۔ سیّد تالیف حیدر

Share

عربی میں غزل

عربی میں غزل کی روایت

سیّد تالیف حیدر
موبائل : 09540321387

غزل کیا ہے ؟ اس تین حرفی لفظ پر گفتگو کرنا اس عہد میں صرف گزری باتوں کا اعادہ کرنا ہے ۔ ہمارے اکابرین اس غنائی صنف کے متعلق اتنا کچھ تحریر کر گئے ہیں کے جس کی روشنی میں غزل کا ہر پہلو پوری طرح نمایاں ہوچکا ہے۔ اب اس بات کی امید کرنا کہ کوئی طالبِ علم یا عہدِ حاضر کا معلّم غزل کے بارے میں کسی نئے انداز میں کچھ تحریر کرئے گا تو یہ بات میرے نزدیک بہت غیر سنجیدہ ہے۔ مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ عہدِ قدیم اور عصرِ جدید کے تقاضوں سے غزل کے ارتقاوارتفاع پر کچھ بات کی جاسکتی ہے ا ور تاریخ کو مدِّ نظر رکھ کر ہم بھی اسی زاویے سے بحث کرنے کی کوشش کریں گے۔

غزل کے سنِ پیدائش کا تعین کرنا بہت مشکل امر ہے ہاں مگر یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اس کا مقامِ پیدائش عرب ہی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔عرب کا وہ جاہل عہد ہی اس کی پیدائش کا شاہد ہے جس عہد کے باشندے اپنی فنِ سخنوری کی مثال پیش کر کے دنیا کو متحیر کیے ہوئے ہیں ۔میری اس بات سے شایداردو داں حضرات کا ایک بڑا طبقہ اتفاق نہ ظاہر کرے مگر تاریخ کے مطالعے اور غزل کے لغوی معنی کومدِ نظررکھ کر اگر اس بات کا مشاہدہ کیا جائے تو حقیقت پوری طرح سامنے آجائیگی اورغزل کا مبتدی انھیں بدّووں کو ٹھہر ایا جائے گاجنہوں نے محبوب کے سراپا،محبوب کی شبیہ سازی اور محبوب سے غائبانہ تکلّم کی شروعات نظمیہ انداز میں غیر مردف کلام سے کی ۔پھر اس صنف کو چاہیں وہ اپنے عہد میں کسی بھی نام سے یاد کرتے ہوں مگراس میں غزل کی ابتداء کہیں نا کہیں پوشیدہ ضرور تھی۔غزل چونکہ ادب کی ایک پختہ صنف ہے جو کئی شدائد جھیلنے کے بعد بھی شاعر کے لہجے میں زندہ رہنے کا فن جانتی ہے اور ادب میں اپنا ایک عظیم مقام رکھتی ہے اس لیے اور اس کے علاوہ کئی دیگر تقاضوں کی بنیاد پر میں غزل سے پہلے ادب کے متعلق عربوں کا مختصر نظریہ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں عرب کا عہدِ جاہلی ہو یا ما بعدِ جاہلیت کازمانہ تمام خطہۂ عجم ان سے گفت و شنید میں اعلیٰ مقام حاصل نہ کر پائے گا چونکہ اس کی وجوہات بیان کرنے میں موضوع کا روخ دوسری طرف ہو جائے گااس لیے لسانیات سے ادب کی طرف آتے ہیں۔جناب ساحلؔ شہسرامی اپنی کتاب ’’عرفانِ عرب‘‘ میں ادب کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
’’ادب کو مختلف زمانے میں دعوت ، تہذیب،اخلاق ، تربیت،تعلیم،اور خاصے وسیع مفہوم مجمو عہ فنون کے معنی میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
کیونکہ ہم عربی ادب کی گفتگو عربی نثر نہیں بلکہ نظم کے حوالے سے کررہے ہیں اس لیے جاحظؔ عرب کی شاعری اور شعرا کے ضمن میں اپنی کتاب’’ البیان والتبیین‘‘(۳؍۲۸) پر کیا لکھتا ہے ملا حظہ فرماےئے۔
’’عربوں کا تمام تر سرمایہ برجستہ گوئی ہے ۔ اس کی حیثیت الہام کی سی ہے۔عربی شاعر اپنے ارادے کو جب کسی خاص جانب متوجہ کردیتا تومعانی والفاظ کی آمد شروع ہوجاتی اور وہ ان چیزوں کو ضبطِ تحریر میں نہیں لایا کرتا تھا۔‘‘
شاعری کی کئی اقسام ہوتی ہیں اور ہر طرح کی شاعری کا ادب میں ایک الگ مقام ہوتا ہے۔متاثر کرنے والا ادب وہ ہوتا ہے جس میں جذبہ،نظریہ،خیال اور اسلوب یہ چار عناصر موجود ہوں اور شعری اقسام کو وجدانی،بیانی، اور تمثیلی ان تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔عرب کی شاعری میں کون سے اثرات زیادہ پائے جاتے ہیں اس پرجغرافیائی اعتبار سے ساحل صاحب رقم طراز ہیں۔
’’شاعری کی فکر مشاہدات اور محسوسات کی مدد سے اپنا خاکہ تیار کرتی ہے جب کہ عرب کے گرد وسیع صحرا،اونچے پہاڑ، قریہ جاتی سادگی اور حرب و ضرب کے سوا کچھ نہ تھا ان کی فکریں آزاد، طبیعتیں پر جوش،نگاہیں مناظرِ فطرت سے آشنا، دل محبتوں سے لبریز، جذبات نازک اور فطرت سچائی پسند تھی ا س لئے ان کے یہاں تمثیلی شاعری کا مصنوعی پیکر اور قصصی شاعری کا سیاسی خاکہ بالکل نہیں ملتا۔ان کی شاعری بس ہے تو جذبوں کی تر جمانی اور موسیقیت سے لبریز ۔وہ شعر گوئی کا آغاز گنگناہٹ سے کرتے اسی لئے وہ نظم کو انشودہ اور نظم گوئی کو انشادکہا کرتے مشہور جاہلی شاعر اعشیٰؔ کو اس لئے ’’صنّاجۃالعرب‘‘ کہا جاتا کہ وہ شعر کو لَے سے پڑھا کرتا تھا۔‘‘
اس اقتباس سے ہمیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ عرب غنائی شاعری کو زیادہ محبوب جانتے تھے اور اپنے جذبات، احساسات، مشاہدات، تجربات ، اور خیالات کا اظہار لَے میں کرتے تھے اس بات سے ہم اور آپ بہت خوب واقف ہیں کہ نغمہ سرائی میں ہجرو فراق کی باتیں ،محبوب کی بے وفائی، معشوق کی شرارتوں کے قصّے، کسی اجنبی سے ملاقات کی امید اور عشق کے دیگر خیالات کی مسجع بیانی ہی غزل کی اصل حقیقت ہے ۔ اور عرب اسی فن میں ہمیں ماہر نظر آتے ہیں اب اپنی بات کی وضاحت میں عرب کے کچھ عظیم شعراکے کلام کا منتخب حصّہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس میں شاعر کئی طرح کی تشبیہات اپنے محبوب کے لیے استعمال کرتا نظر آتا ہے۔تشبیہات میں عرب شعرا بہت ماہر تھے اس کے حوالے سے میں آپ کے سامنے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔
’’وہ عورت کو آفتاب ، ماہِ کامل، موتی ، گڑیا، تلوار،بادل، گائے،ہرنی وغیرہ سے تشبیہ دے کر جذبوں کی تسکین کا سامان کرلیتے ہیں۔ان کے یہاں محبوب کی انگلیاں گل بابونہ،دندان بلوری، رخسار آئنہ،بال سانپ اور رسّی، چہرہ دینار ، بدن کی خوشبو مشک،لعابِ دہن شراب وشہد،آنکھیں چشمِ غزالاں ونیل گایاں ہیں۔لیکن اشیاء کی محدودیت کے باوجود کھلے صحرا اور آغوشِ کوہ میں پرورش پانے والی نگاہیں بڑی عقابی تھیں ،اس لئے ان کی جزئیات نگاری کا بھی جواب نہیں تھا۔انہوں نے تلوار کے سات سو اور شیر کے ایک ہزار اسماء تجویز کئے ہیں۔اونٹنی کی پیکر تراشی میں ان کے فکروخیال نے جو اوصاف تراشے ہیں،وہ ان کے مطالعے کی گہرائی کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔‘‘
(ص ۳۰ عرفانِ عرب :ساحلؔ شہسرامی)
یہ وہ نطقِ اعرابی ہے جس سے متاثر ہو کر علّامہ اقبال اپنی شاعری میں عرب کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔عرب کے شعراہر طرح کے بیان کو یکساں مہارت سے بیان کرنے پر قادر ہیں وہ چاہیں المیہ لکھیں یا طربیہ،استنباط،تصنع ہویا تنوع،ماہیئت کی گفتگوہویا مادّیت کی عرب اپنی جلالی شخصیت سے شاعری کو طرح طرح کے رنگین لباس پہنانے کا کام بخوبی انجام دیتے نظر آتے ہیں۔
عرب کے چار شعراکے کچھ منتخب اشعار میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں جو عرب کے اولین شعراکی حیثیت رکھتے ہیں ۔ایک روایت کے مطابق عربی شاعری کی شروعات سجع سے بتائی جاتی ہے مگر اس شاعر کا کوئی کلام تحریری شکل میں موجود نہیں اس لیے اسے ہم اردو کے مسعود سعد سلمانؔ کی طرح تسلیم کر سکتے ہیں جسے اردو شاعری کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ مگر کلام کی غیر موجودگی کی بناپر حضرت امیر خسرو سے ہی ابتداء کرنی پڑتی ہے۔بہر حال ان چار شعرا کی فہرست میں شنفریٰ،امرؤالقیس،ابو نواس اور متنبّی کو شمار کیا گیا ہے۔ان میں اول الذکردو شاعر عہدِ جاہلی کے ہیںآخری دونو اسلامی دورِ حکومت قائم ہونے کے بعد کے۔ان کی شاعری میں غزل کے اثرات کتنے نمایاں ہیں مثال سے دیکھیے۔
شنفریٰ
فَیا جَارَتِی وَاَنتِ غَیرُمُلِیمَۃٍ اِذاذَکَرتِ وَلَا بِذَاتٍ تَقَلَّتِ
ترجمہ: اے میری پڑوسن !(امیمہ)۔جب تو کسی کا ذکر چھیڑتی ہے تو نہ کسی کو ملامت کرتی ہے اور نہ کسی سے نفرت کا اظہار۔
لَقَد اَعجَبَتِنی لَا سُقُو طاً قِنَا عُھَا اِذا مَا مَشَت وَلَا بِذَاتٍ تَلَفَّتِ
ترجمہ:مجھے اس کا یہ طرز بہت اچھا کہ جب وہ چلتی ہے تو نہ اس کا دوپٹہ سر سے ڈھلکتاہے اور نہ وہ ادھر اُدھرمڑ کر دیکھتی ہے۔
امرؤالقیس
فَفَا ضَت دُمُوعُالعَینِ مِنَّی صَبَابَۃً عَلیٰ النَّحرِحَتّٰی بَلَّ دَمعِیَ محمِلِی
ترجمہ:(اپنی محبوبہ عُنیزہ کی جدائی پر) فرط عشق میں میری آنکھوں سے آ نسو سینے پر بہنے لگے یہاں تک کہ میری تلوار کا تسمہ بھیگ گیا۔
اِذَامَا الَّثرَ یَّا فِی السَّمَاءِ تَعَرَّ ضَت تَعَرُّضَ اَثنَاءِالوِشَاحِ المُفَصَّلِ
المُفَصَّل :موتی کاہار جس میں سونے چاندی کے دانوں سے فاصلہ پیدا کیا گیا ہو۔
ترجمہ:(میری ملاقات شب کے اس پہر تھی)جس وقت آسمان میں ثریا اس طرح نمودار تھا جیسے فاصلے دار جڑاؤ ہار کا درمیانی حصہ۔
ابو نواس
فَقَامَ ذُووَفرَۃٍ مِن بَطَنِ مَضحَعِہِ یَمِیلُ مِنسُکرِہِ وَالعَینُ وسَنَاءُ
ترجمہ:تو ایک لمبی زلفوں والا اپنی خوابگاہ سے اٹھا ۔حالت یہ تھی کہ نشے سے جھوم رہا تھا اور اس کی آنکھیں اونگھ رہی تھیں۔
اِذَا تَغَنَّینَ لَا یَبقِیَنَّ جَانِحۃ اِلَّا بِھَاطَرَبیُشفیٰ بِہِالدَّاءُ
ترجمہ:جب پرندے نغمہ سنجی کرتے ہیں تو ہر دل ایسا مست ہو جاتا ہے کہ اس کی مستی سارے مرض کی شفا ثابت ہوتی ہے۔
متنبّی
اَمِنَ اِزدِیَا رَکِ فِی الدُّ جیٰ الرُّقَبَاءُ اِذ حَیتُ کُنتَ مِنَ الظَّلَامِ ضِیَاء
ترجمہ: میرے رقیب تاریکیوں میں تیر ے ساتھ میری ملاقات کے سلسلے میں بالکل مطمئن ہیں۔اس لئے کہ تو جہاں ہوگی وہاں تاریکیاں چمک اٹھیں گی(تو بھلا کسی سے چھپ چھپا کر تو شبِ تاریکی میں کیسے ملاقات کر سکتی ہے)
اَسَفِی عَلیٰ اَسَفِی الَّذِی دَلَّھتَنِی عَن عِلمِہِ فِیہِ عَلَیَّ خِفَاءُ
ترجمہ:مجھے افسوس تو اپنے اس غمِ عشق کا ہے جس کے علم سے تو نے مجھے بالکل بیگانہ بنا رکھا ہے۔اس کے معاملات تو مجھ پر بالکل پوشیدہ ہیں(یعنی تیری محبت نے مجھے خود سے بیگانہ بنا رکھا ہے کہ میں اپنے حالات سے بھی بے خبر ہو چکا ہوں)
یہ وہ شاعری ہے جس میں استعارات،کنایات اور تشبیب کا استعمال اپنی اولین منزلوں پر تھا اور ان باریک سے باریک پہلوں کو اپنی دسترس میں لاکر شاعر اتنا وسیع کر دیتا ہے کہ معاشرے کی ہر شئے مکمل ہوکرسامنے آجاتی ہے۔ہر شاعر اپنی محبوبہ کو یاد کر کے شعر کہنے میں اپنی مثال آپ ہے۔شنفریٰؔ اپنی پڑوسن امیمہؔ کے عشق میں گرفتار ہے امرؤالقیسؔ کو عُنیزہ ؔ سے محبت کا دعویٰ ہے اور وہ اپنی محبوبہ کی شان میں ایک قصیدہ رقم کرتا ہے جو سبع معلقہ میں ثبت کر دیا جاتا ہے۔اور عُنیزہ تاریخ کے صفحات میں روشن ہو جاتی ہے۔ابو نواس ؔ کو شراب سے الفت ہے۔اس کی شاعری میں جام و مئے خانہ بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔اور متنبّی تو اتنا ذہین شاعر تھا جو اپنی دانش مندی سے خود بہت مرعوب ہوگیا اور نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا خیر یہ ایک دوسرا معاملہ ہے یہ موضوع ان معاملات پر گفتگو کا نہیں ہے۔ بہر حال یہ شعراقابلِ صد تحسین ہیں جن کی نظیر اُس عہد سے اس عہد تک کہیں نہیں ملتی اور جن کی شاعری میں غزل قصائد کے دبیز پردے کے پیچھے پوری آب و تاب سے روشن نظر آتی ہے۔

Share
Share
Share