ملک زادہ منظوراحمد: ایک کامیاب ناظم مشاعرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی

Share

malik zada  منظور پروفیسرملک زادہ منظور احمد
ایک کامیاب ناظم مشاعرہ، بہترین شاعراورسحرطرازانشاپرداز

ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی
حیدرآباد ۔ دکن
ای میل :

گذشتہ تھوڑے دنوں میں کئی ادبی شخصیتوں کا انتقال ہوا ،ڈاکٹر ملک زادہ منظوراحمد بھی جو مشاعروں کے روح رواں اور شعر وادب کی دنیا کے رطل گراں تھے اللہ کو پیارے ہوگئے ۔سفر آخرت جمعہ کے دن ہوا، یہ مغفرت کی بشارت ہے ،سامان مغفرت ان کے لئے ان کا ادبی ماہنامہ امکان بھی تھا جس کہ ہرشمارہ میں پابندی کے ساتھ شروع میں ایک حمد اور اس کے بعد نعت کا التزام ہوتا تھا اور یہ ان کی طرف سے اس بات کا اعلان تھا کہ ان کا تعلق اہل ادب کے اس گروہ سے نہیں ہے جو منکر خدا ہیں اور خدا اور مذہب کے ساتھ شوخیاں روا رکھتے ہیں انہوں نے اپنے اس ادبی ماہنامہ میں تین سال قبل دو قسطوں میں ایک اداریہ بھی لکھا تھا جس میں انہوں نےٍ ان ادیبوں اور ناقدوں کو اپنی تنقید کانشانہ بنایا تھا جو اہل دین کی ادبی تحریروں کے ادب اور حسن انشاء کا اعتراف نہیں کرتے اورپھر انہوں نے اپنی بات کو اس طرح مدلل کیا تھا کہ گلاب کا پھول تو ہرحال میں لائق تعریف ہے چاہے وہ میخوانہ کے دروازہ پر کھلے یا مسجد کے صحن میں اپنی بہار دکھائے ۔ حق گوئی سے لبریز ایسا ادایہ لکھ کر انہوں نے کاغز کو سیاہ لیکن اپنے نصیب کو روشن کیاتھا ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ شبلی اسکول ، ندوۃ العلماء اور دار المصنفین نے ایسے بہترین اہل قلم پیدا کئے جن کی تحریر انشاء کا معیاراور ادب کامل عیار ٹھہری ۔ یہ ساری باتیں دین اسلام سے ان کی وابستگی کی دلیل ہیں۔ماہنامہ امکان میں انہوں نے جو اداریے لکھے تھے ان کا مجموعہ شائع ہونا چاہئے ۔

پروفیسر ملک زادہ منظور احمدایک بہت اچھے شاعر بھی تھے لیکن انہوں نے مشاعروں کے ناظم کی حیثیت سے عالمگیر شہرت پائی تھی، مشاعروں کی کامیابی کا سہرا شاعروں سے زیادہ ناظم مشاعرہ کے سر ہوتا ہے ،یہ ناظم مشاعرہ ہوتا ہے جو عبارت سے اشارت سے طرز ادا سے سامعین کو باندھ کر کے رکھتا ہے، کم تر درجہ کے شاعر کے کلام کوبھی سننے پر اور مناسب داد دینے پر مجبور کردیتا ہے اسی کی وجہ سے مشاعرہ میں شعر کا وقار اور شاعر کا اعتبار ہوتا ہے ، کیونکہ اعلی درجہ کا ادبی اورشعری ذوق رکھنے والے اور شائستگی سے اور آداب محفل سے بہرہ ور سامعین ہر مشاعرہ میں بہت کم ہوتے ہیں ، سب کو حدود میں رکھنا اورمحفل سماع کے آداب میں مقید رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے ناظم مشاعرہ در اصل ایسا انجن ہوتا ہے جو شاعروں کی برات کو یا تاروں بھری رات کو خراماں خراماں کامیابی کی منزل کی طرف لے کر چلتا ہے اور سامعین کو بڑے شاعروں کے کلام سنانے تک یہ کہہ کر صبر کا دامن تھامے رہنے پر مجبور کرتا ہے
ہے شام ابھی کیا ہے بجھتا ہے نہ جلتا ہے
کچھ رات ڈھلے ساقی میخانہ سنبھلتا ہے
ناظم مشاعرہ کے ادبی رعنائی سے لبریز پر لطف جملے مشاعرہ میں ایک خوبصورت شعری فضا پیدا کرتے ہیں ۔ لکھنو میں ایک شاعر ہوا کرتے تھے جو بہت خوش آواز تھے اور لحن داؤدی رکھتے تھے ، شہر میں ان کا ایک سیلون بھی تھا جس کا شعری ادبی نام بورڈ پر انہوں نے ’’ مرکز اصلاح گیسو ‘‘ لگھوایا تھا ، ترنم اچھا تھا مشاعروں میں بلائے جاتے تھے ۔ ایک مشاعرہ میں انہوں بڑی خوش نوائی کے ساتھ ابھی غزل کا پہلا مصرعہ پڑھا تھا ’’ کہیں دکھ بھی کہیں آرام بھی ہے ‘‘ دوسرا مصرعہ پڑھنے سے پہلے شامیانہ کے ایک گوشہ سے یہ مصرعہ بلند ہوا ’’ یہی شاعر کہیں حجام بھی ہے ‘‘ ایک قہقہ بلند ہوا ناظم مشاعرہ نے مجمع کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور یہ جملہ کہا ’’ حضرات مطلع اگرچہ غبار آلود ہو گیا ہے لیکن آپ توجہ سے سنیں یہ غزل ہلال آسا بھی ثابت ہوسکتی ہےٍ ۔‘‘ ملک زادہ منظور احمد نے اپنی سرگذشت ’’ر قص شرر‘‘ میں اور اپنی کتاب ’’شہر سخن ‘‘میں شعراء کی باتیں اور مشاعرہ کی رودادیں بھی کہیں کہیں لکھی ہیں ۔ پٹنہ میں ایک مشاعرہ تھا جناب ملک زادہ ناظم مشاعرہ تھے ، ایک ترقی پسند شاعر آئے اور یوم مئی کے عنوان سے انہوں نے نظم شروع کی سامعین نے انہیں ہوٹ کرنا شروع کردیا ناظم مشاعرہ کی سفارش بھی کام نہ آئی اور پھر ہوٹنگ اس قدر ہوئی کہ شاعرصاحب کو الٹے قدم واپس ہونا پڑا ، ملک زادہ صاحب کی آواز بلند ہوئی ا ‘‘ حضرات یہ میدان مشاعرہ کی پہلی شہادت ہے ‘‘ ۔ا یک مشاعرہ میں مشہور شاعر احمد فراز نازنینوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے بیٹھے تھے ناظم مشاعرہ ملک زادہ منظور احمد نے ان الفاظ میں انہں دعوت سخن دی کہ ’’ میں جناب احمد فراز سے درخوایت کرتا ہوں کہ وہ اب کوئے یار سے نکل کر فراز دار تک آجائیں ‘‘ ناظم مشاعرہ کی زبان سے نکلے ہوے اس طرح کے آبدار جملے شعراء کے کلام سے مل کر مشاعرہ کو شعرو ادب کی تربیت گاہ اور زبان اور ذوق کی ترقی کا ذریعہ بنا دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی شہرت ایک بہت کامیاب ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے شمیم گل کی طرح اردو ادب کے چمن میں پھیلی ہوئی تھی لیکن کتابوں کے مطالعہ کا ذوق اگر اردو کے حلقوں میں بالیدہ ہوتا تو لوگ ان کی کتابیں بھی پڑھتے، ان کو بہترین ادیب اور صاحب قلم کی حیثیت سے بھی یاد کرتے لیکن اردو دنیا میں کتاب نہ پڑھنے کی وبا ایک خطرناک وائرس کی طرح سرایت کرچکی ہے اب تعلیمیافتہ گھروں میں بھی کتابیں نہیں خریدی جاتی ہیں
کسی خوش حال گھر میں داخل ہوجائیے تو گھر میں اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت نظر آئے گی لیکن کتاب کی سب سے بڑی نعمت سے گھر خالی ہوگا ۔ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی یوں تو کئی کتابیں ہیں لیکن ان کی سرگذشت رقص شرر اتنی ہی اہم ہے جتنی شہاب نامہ اور یادوں کی برات ، بلکہ یادوں کی برات سے بہتر اس اعتیار سے ہے کہ شرافت قلم کا نمونہ ہے ،اس میں یادوں کی برات کی طرح بے حیائی اور آوارگی کے قصے نہیں ہیں ۔ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی نگارشات ادبی شگفتگی اور بلاغت کی جان ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب ’’شہر سخن ‘‘ میں مختلف شعراء کا تعارف کرایا ہے دیکھئے وہ ایک شاعرہ ’’ شاہ جہاں بانو یاد ‘کے تذکرہ میں ان کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں ’’ غزل اگر غزل سنائے ،ساز اگر ساز بجائے ، حسن اگر آئینہ دیکھے تو خواہ مخواہ دل ودماغ پر ایک تاثر چھا جاتا ہے یہی حال ان کا بھی ہے ، وہ ان کی گل پیرہنی ، ان کے پڑھنے کا انداز ، معانی ومطالب سے ان کے حرکات وسکنات کی ہم آہنگی ، فن موسیقی میں مہارت کی بنیاد پر ان کے ترنم کا زیر وبم ، ان کے لہجہ کا سوز وگداز پھر اس کے بعد سہل ممتنع سے پر ان کی سادہ وپرکار غزلیں ، ان تمام چیزوں نے مل کر ان کی شخصیت کو ابھارا ہے ‘‘
مولانا انور صابری پر ان کا ایک مضمون ہے اس مضمون میں ملک زادہ صاحب کی نثر دیکھئے ’’ میں نہایت دیانت داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ تقسیم ملک سے پہلے اور تقسیم ملک کے بعد پورے ہندو پاکستان میں مولانا کے اتنا زود گو دوسرا شاعر کم از میری نظروں سے نہیں گذرا ، زہد جس پر رندی رشک کرے ، سیاست جس پر شعریت قربان ، تردامنی جس سے فرشتے وضو کریں ، منکسرمزاجی جہاں کج کلاہی سرجھکائے ، طریقت جس پر شریعت نثار ہو ، مولانا کی شخصیت اور کردار کے مختلف پہلو ہیں ‘‘ ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کی تحریریں پڑھئے اس میں قدم قدم پر دامان باغباں اور کف گلفروش کا منظر روح کی بالیدگی کا سامان کرتا ہوا نظر آئے گا ، اس میں ادب کے ایسے نقوش مل جائیں گے جو نقش سلیمانی ہوں گے اور حرز جاں بنائے جانے کے مستحق ہوں گے اس دور میں اردو زبان کے طلبہ ہی کو نہیں بلکہ اساتذہ کو بھی اگر یہ نقوش تعویذ بنا کر پہنا دئے جائیں یا وہ ان کو اپنا وظیفہ صبح گاہی بنالیں تو ان کے بہت سے لسانی امراض کا ازالہ ہوجائے گا اور اللہ نے چاہا توشفائے کامل وعاجل نصیب ہوگی ،اچھی اردو لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے یہ موتی پرونے کا، ہیرے تراشے کا، گل کترنے کا،لفظوں سے چراغاں کرنے کا جملوں کی آتش بازی کرنے کا مضمون کے تاج میں کوہ نور آویزاں کرنے کا اور مرصع کاری کا ہنر ہے ۔اور کوہ نور کی بازیابی کی طرح ادب بھی ایک عسیر الحصول چیز ہے ۔ ملک زادہ منظور احمد کی کتابیں زبان وبیان کی رنگینی اور شیرینی دلکشی اور دلربائی شگفتگی اور نغمگی ، فنکاری اور پرکار ی کی وجہ سے تخلیقی ادب کا بہترین نمونہ ہیں ۔ ان کو لوگ صرف ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے جانتے ہیں ایک بہترین ادیب کی حیثیت سے بہت کم لوگ جانتے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھ سے اب کتاب چھوٹ گئی ہے کتاب اس قوم کے ہاتھ سے چھوٹ گئی ہے جسے پڑھنے کا حکم ( اقرا ) دیا گیا تھا اب کتاب کی جگہ پر لیپ ٹاپ موبائیل اور کمپیوٹرآگیاہے۔
ملک زادہ منظور احمد سے میری ملاقات حیدرابد میں ۲۰۰۸ می ہوئی تھی حیدراباد اردو اکیڈمی نے میری کتاب ’’ تقدیر امم کا رازداں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد‘‘ شائع کی تھی اکیڈمی نے کتاب کی رسم اجرا اور دوسرے پروگرام کے لئے ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد اور بعض دوسرے اہل قلم کو بلایا تھا ان کے ساتھ کئی نشستیں ہوئی تھیں ان سب کی یاد حافظہ میں تازہ ہے اس کے بعد مارچ ۲۰۱۵میں ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامی کے جلسہ میں شرکت کے لئے لکھنو جانا ہوا تو میں ملک زادہ صاحب سے ملنے ان کے گھر بھی گیا مقصد ان سے ملاقات بھی کرنا تھا اور اپنی نئی کتاب ’’ کلیم عاجز ، وہ ایک شاخ نہال غم‘‘ انہیں پیش کرنا تھا جسے حیدراباد میں ہدی پبلیکیشن پرانی حویلی نے اہتمام سے شائع کیا تھا ، کلیم عاجز کے وہ بہت قدرداں تھے جب کلیم عاجز کی پہلی کتاب ’’ وہ جو شاعری کا سبب ہوا ‘‘کے پہلے ایڈیشن کی رسم اجرا صدر جمہوریہ جناب فخر الدین علی احمد کے ہاتھ سے وگیان بھون میں انجام پائی تو اس موقعہ پر شعری نشت کی نظامت ملک زادہ صاحب نے کی تھی ،
ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد شاعر بھی تھے ادیب بھی تھے اور شرافت اور شائستگی کا مجسمہ بھی تھے انہوں نے اردو کی ترقی کے لئے بڑی خدمات انجام دی تھیں اس کاتذکرہ ان کے قلم سے تفصیل کے ساتھ رقص شرر میں موجود ہے ، ان کے تذکرہ نگاربھی اس کا تذکر ہ کریں گے یہ ستم ظریفی ہے کہ لکھنو اور اس کے مضافات سے جو اردو کا گہوارہ ہے اردو غائب ہوتی جارہی ہے اردو جتنی باقی ہے یہ دینی مدارس کا فیض ہے ، اردو والوں نے بچوں کو اردو پڑھانا چھوڑ دیا ہے ، قبرستانوں میں لوح مزار بھی اب ہندی میں لکھے ہوئے نظر آتے ہیں ، وائے بر مرگ غیرت وحمیت ۔
Prof. Mohsin Osmani Nadvi
mohsin osmani

Share

۳ thoughts on “ملک زادہ منظوراحمد: ایک کامیاب ناظم مشاعرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی”

Comments are closed.

Share
Share