ممتازفکشن نقاد جناب سکندراحمد سے انٹرویو۔ ۔ ۔ ۔ اسد ثنائی

Share
asad سکندر
اسد ثنائی

ممتاز نقاد جناب سکندراحمد سے انٹرویو

اسد ثنائی
مدیرالانصار
الانصار پبلکیشنز ۔ حیدرآباد

نوٹ : معزز قارئین ! اُردو فکشن کے تنقید نگاروں کے اگر نام گنوائے جائیں تو شاید ایک ہاتھ کی پوری اُنگلیاں بھی زیادہ پڑجائیں ۔ ہاں اگر سطحی ناقدین کے نام لیے جائیں تو ہاتھوں اور پانوں ‘ دونوں کی اُنگلیاں بھی کم پڑجائیں گی ۔ اس لیے یہاں ناقدین کے ناموں کو الگنی پر لٹکانے کے بجائے ایک متین‘ فطین اور تازہ دم نقاد سکندر احمد صاحب سے 2005 میں لیا گیا انٹرویو پیش کیا جارہا ہے جو آج بھی موضوع اور مواد کے اعتبار سے نہایت روشن ہے ۔ اسد ثنائی

اسدثنائی: فکشن سے آپ کی کیا مراد ہے اور آپ فکشن کو کس نظریہ سے دیکھتے ہیں ؟
سکندراحمد: دیکھئے جہاں تک فکشن کا تعلق ہے یہ ایک انگریزی کا لفظ ہے اور اُردو میں عام طورپر فکشن کا ترجمہ افسانہ کردیا جاتا ہے جب کہ ایسا ہے نہیں ۔ مغربی ادب میں جب فکشن کی بات ہوتی ہے تو عام طورپر ناول پر گفتگو ہوتی ہے ۔ اُردو میں جب بات آتی ہے تو عام طورپر سارا فوکس افسانوں پر چلا جاتا ہے ۔ اب اُردو کے حوالے سے آپ کہیں گے تو فکشن سے مراد ناول بھی ہوسکتا ہے ۔ فکشن سے مراد افسانے ہوسکتے ہیں اور فکشن سے مراد داستانیں بھی ہوسکتی ہیں ۔ پھر اگر داستانوں کو لیں تو مثنویاں بھی ہوسکتی ہیں ۔ مثنویاں بھی منظوم کہانیا ں ہیں ۔ لیکن آج کے تناظر میں ہم بات کریں گے تو بالعموم ناول اور افسانے اور بالخصوص افسانے ہی اس زمرے میں آئیں گے ۔ اُردو کے حوالے سے ۔ یہ تو ایک صنف کی بات ہوئی ۔ جہاں تک فکشن کا تعلق ہے اُردو کے حوالے سے تو یہ ایک آزادانہ صنف کی حیثیت رکھتی ہے مگر آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ مغرب میں آج کے دن بھی فکشن کو دوسرے درجہ کی تخلیق سمجھا جاتا ہے ۔ میں نے اپنے مضمون میں بھی اس کا ذکر کیا ہے ۔ ویسے بھی اس مضمون میں جو حوالے ہیں وہ کچھ پرانے ہیں ۔ میں آپ کو 2000کا ایک حوالہ بتارہا ہوں۔ ایک صاحب ہیں J.Hartman انہوں نے فکشن کی حمایت میں سن 2000 میں ایک مضمون لکھا تھا ۔ مضمون کا نام تھا Brevity is the soul of fiction یعنی ’’اختصار افسانے کی روح ہے ‘‘ ۔ یہ مضمون Strange Horizons میں شائع ہوا تھا ۔ انھوں نے اپنے مضمون میں اس بات کا ذکر کیا کہ افسانوں کو یعنی Short Storiesکو ادب میں وہ مقام نہیں ملا جو انہیں ملنا چاہئے تھا ۔ اور انہوں نے یہ بات بھی کہی کہ افسانے اپنے اختصار کی وجہ سے ناول پر فوقیت رکھتے ہیں اور انہوں نے بہت ساری خصوصیات گنوائیں ۔ مثلاً اگر آپ ایک رسالہ نکال رہے ہیں تو آپ اگر اس میں ناول شائع کریں گے تو اس میں بہت سارے تجربات کی گنجائش نہیں رہے گی ۔ لیکن آپ افسانے شائع کریں گے تو اس میں تجربات کی گنجائش بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ہوسکتا ہے کہ دوچار افسانے لوگوں کو ناپسند آئیں ۔ ہوسکتا ہے کہ دوچار افسانے لوگوں کو پسند بھی آجائیں ۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سن 2000 تک میں بھی صنفی حیثیت سے افسانے کے لئے argumentکی ضرورت پڑی کہ افسانے (Short Stories) صنفی اعتبار سے ناول سے کچھ کم نہیں ۔ یہ بات تو ہے مغرب کی لیکن اُردو کے حوالے سے فکشن میں سب سے زیادہ مرکزیت افسانوں کو ہی حاصل ہے اور پھر جب بات اور آگے بڑھے گی تو ناولٹ تک بھی جائے گی ۔
اسد ثنائی: بحیثیت مجموعی آپ افسانے اور ناول میں کیسے فرق کریں گے ؟ کیا فکشن شاعری سے کمتردرجے کی صنف ہے ؟
سکندر احمد: دیکھئے اگر آپ فکشن میں ناول کو لیں گے تو اس میں آپ کو فالتو باتیں کہنے کی بہت گنجائش ہوگی ۔ مثلاً آپ کی ہماری گفتگو ہورہی ہے اس میں اگر آپ کے حلیے کی بات کروں کہ آپ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں اس کا براہِ راست گفتگو سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ یعنی کہ اس میں فروعات کی بہت زیادہ گنجائش ہے ۔ ایک بات تو یہ ہے دوسری بات یہ کہ فروعات کس طرح سے فکشن کی اصل میں ضم ہوجائیں ۔ یہ ایک فن ہے جس سے بہت سارے افسانہ نگار واقف نہیں جب کرشن چندر وہ کشمیر کا حسن بیان کریں گے تو’’بالکنی‘‘ میں وہ بیان کریں گے ۔’’ شکست‘‘ میں بھی اور ’’طوفان کی کلیاں ‘‘میں بھی بیان کریں گے۔ تو معلوم یہ ہوا کہ یکساں منظر کشی سارے افسانوں میں یا سارے ناولوں میں یا سار ے فکشن میں Commonہے ۔ تو معلوم یہ ہوا کہ فکشن کی صنفی حیثیت بہت زیادہ بلند نہیں ۔ خاص طورپر افسانوں کی ۔ شعر کے مقابلے میں فکشن واقعات سے بندھا ہوا ہے داخلی سطح پر کچھ ہورہا ہے یا خارجی سطح پر کچھ ہورہا ہے ۔ کچھ ہورہا ہے یعنی کہ وقت گذررہا ہے ۔ یہ وقت سے بندھی ہوئی صنف ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ شاعری میں جو آفاقیت ہے وہ فکشن میں نہیں سماسکتی کیوں کہ یہ زمان و مکاں دونوں سے جڑا ہوا ہے ۔ جہاں زمان و مکان کی بات آئے گی توبہت سارے فروعات کی گنجائش نکل آئے گی اور خواہ مخواہ آپ اسے جیسے چاہے کھینچ سکتے ہیں ۔ اب آگر آپ کوئی ناول پڑھیں اور تین چار صفحے آپ چھوڑ بھی دیں تو بھی اصل سے سرا نہیں چھوٹتااور شعر میں ایک ایک لفظ اہمیت رکھتا ہے ۔ فکشن کی انتہا یہی ہے کہ شاعری بن جائے اور فکشن جب اپنی معراج کو پہنچ جائے گا تو یہ زمان و مکاں کی حدود سے آگے نکل جائے گا یعنی کہ ایک بیچ کی کڑی آپ ہٹائیں تو وہ گرجائے۔ شاعری کا درجہ فکشن سے بہت بلند ہے اور فکشن میں بھی ناول کا مقام افسانوں سے بلند ہے ۔ ناول میں آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے ناول میں آپ ایک آفاقیت پیدا کرسکتے ہیں چونکہ ضخامت اور طوالت کے اعتبار سے آپ کو یہ موقع ملتا ہے لیکن شارٹ اسٹوری میں یہ موقع نہیں ملتا اور وحدت تاثر کا چکر بھی ہے کہ صاحب وحدت تاثر ٹوٹ گیا تو فکشن بکھرگیا ۔ جیسے ایڈگر ایلن پونے کہا کہ آپ اسے ایک نشست میں پڑھ لیں ۔ ایک دیڑھ گھنٹے سے زیادہ نہیں جانا چاہئے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بات تو ہوئی جو تقابلی طورپر کہی جاسکتی ہے لیکن اپنے آپ میں آپ کسی بھی زبان کی اگر بات کریں گے تو Short Story کے بغیر اس کا ذکر مکمل نہیں ہوگا‘شاعری سے کمترسہی مگرافسانے کا مقام متعین اور مستحکم ہے ۔
اسد ثنائی: کیااُردو میں فکشن کا متبادل لفظ نہیں ہے ؟
سکندر احمد: اُردو میں اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں ہے ۔ ہم آپ کو ایک بار اور بتادیں آپ عربی ادب کی تاریخ پڑھ جائیے ظاہر سی بات ہے ہمارا تعلق مشرقی ادب سے ہے اور اُردو میں بھی عربی اور فارسی کے بغیر گفتگو نہیں ہوسکتی ۔ آپ عربی ادب کی پوری تاریخ پڑھ جائیے ۔ میرے پاس John Hopkinsیونیورسٹی کا تاریخ عربی ادب پر پورا مکالمہ ہے۔ پورے مکالمے میں ڈھونڈھنے سے بھی کہیں عربی ادب میں فکشن کے متعلق کوئی بات نہیں ملتی ۔ نثر کے حوالوں سے یا یوں کہیئے نثری ادب کا تذکرہ ہے ۔ میں نے یہ سمجھا کہ John Hopkins یونیورسٹی کا اپنا نظریہ ہوگا لیکن احمد زیادت کی ایک کتاب ہے عربی ادب پر جس کا پاکستان میں ترجمہ ہوا ہے اس کو شروع سے آخر تک پڑھ جائیے نثر کے حوالے سے ، انشاپردازی پر خوب لکھا ہے ۔ بیوروکریسی میں ان کے یہاں بنو امیہ میں ، بنو عباس میں نوٹس جو لکھے جاتے تھے اور نوٹس پر جو حواشی لکھے جاتے تھے ان تک کا ذکر ہے ۔ اور ان کی نثری حیثیت کیا ہے یا گفتگو کے دوران کوئی کوئی جملہ کسی کے منھ سے نکل جائے اُس تک کا ذکر ہے ۔ اسلوب کا ذکر ہے ۔کئی بڑے بڑے ناموں ابن المفقع ‘ رئیس جاحذ کا ذکر ہے لیکن انشاپردازی کے حوالے سے تاہم نثری افسانوں کے حوالے سے عربی ادب کی تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ عربی ادب میں اگر آپ بعد کی چیزیں پڑھیں گے تو وہاں بھی نثری افسانوں کا ارتقاء لگ بھگ اُردو افسانوں کے ساتھ ہی ہوا ہے اور فارسی میں بھی یہی صورتحال ہے اس لئے آپ جب فکشن کی بات کریں گے تو آپ کو لامحالہ مغربی حوالوں سے ہی بات کرنی پڑے گی ۔
اسد ثنائی : آپ اپنے حالیہ مضمون ’’افسانے کے قواعد‘‘مطبوعہ شب خون شمارہ ۲۸۵میں جن افسانوں اور افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے اُن افسانوں میں علائم ‘ تمثیل ‘ تجریدیت یا اشاریاتی زبان کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جب کہ جدیدیت میں ان کا ہونا لازمی ہے ۔ میرے خیال میں انتظار حسین ‘ انور سجاد ‘ سمیع آہوجہ اور مظہر الزماں خاں کے ہاں کثرت سے یہ چیزیں پائی جاتی ہیں ؟
سکندر احمد : آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔ انور سجاد کا ذکر میں نے کیا اور آپ نے جو نام لیا ہیں ان کا بھی میں نے ذکر کیا ۔ ان کے یہاں تمثیل ‘ اشاریے ‘علامتیں پائی جاتی ہیں ۔ کوئی ضروری نہیں کہ جدید افسانوں میں یہ ہوں اور کوئی ضروری نہیں کہ جدید افسانوں میں یہ نہ ہوں ۔ آپ فکشن کی اگر بات کریں گے تو ایک بندھا ٹکا فارمولہ کے کردار ہوں گے ‘ واقعات ہوں گے ‘ پلاٹ ہوگا ‘ زاویہ نگا ہ ہوگا لیکن جدید افسانوں نے اس فارمولہ بازی کو بالکل توڑدیا ہے ۔ جدید افسانوں نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ بندھے ٹکے فارمولے سے روگردانی کرکے بھی کہانی لکھی جاسکتی ہے ۔ بغیر پلاٹ کے بھی کہانی لکھی جاسکتی ہے ۔ انتظار حسین نے بھی کہیں یہ لکھا ہے کہ یہ کب کا پرانا ہوچکا ہے ۔ مشتاق احمد یوسفی کا ’’آبِ گم‘‘ آپ نے پڑھا ہوگا ۔ آپ دیکھئے اس میں کہیں پلاٹ نہیں ۔ واقعات کا تسلسل بھی ۔ آغاز بھی ہے ۔ اختتام بھی ہے لیکن کہیں بھی پلاٹ نہیں ہے ۔ آبِ گم اُردو فکشن کا ایک سنگ میل ہے ۔ آپ دیکھئے کہ ایک ہی کردار کو لے کر افسانے لکھے گئے ۔ آپ تجربہ کرکے تو دکھاسکتے ہیں کہ میں نے ایک کردار کو لے کر پورا افسانہ لکھ دیا ۔ لیکن پورا پورا ناول لکھ دیں اور اس میں کہیں کوئی پلاٹ نہیں ہے یہ بڑی بات ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ جدیدیت کے اسلوب میں لکھا گیا ’’آب گم‘‘ شاید اُردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناول کی حیثیت کا حامل ہے ۔ جدیدیت سے کہانی پن غائب ہونے کا رونا رونے والوں کو ’’آب گم ‘‘پڑھنا چاہئے اور ضرور پڑھنا چاہئے ۔
اسد ثنائی : آپ کو اُردو دنیا ایک ایسے شخص کی شکل میں پہنچانی ہے کہ جس نے ’’مابعد جدیدیت ‘‘ کو اُردو ادب میں داخل ہونے سے پہلے ہی باہر کا راستہ دکھادیا ۔ آپ کا کیا کہنا ہے ؟
سکندراحمد : دیکھئے مابعد جدیدیت کوئی قلعہ نہیں تھا جسے میں نے منہدم کردیا ۔ یہ ایک ہوائی قلعہ تھا ‘ ایک فریب نظر (Optical Illusion) تھا جسے چند شعبدہ باز نقادوں نے کھڑا کیا تھا ۔ انہوں نے ’’معمار ادب ‘‘ نام کا ایک ترجمان بھی شروع کیا تھا ‘ جس کا اسقاط ہوگیا ۔ مابعد جدید ادب کا کوئی خدوخال نہیں ‘ کوئی ڈکشن نہیں ‘ کوئی اسلوب نہیں ۔ کسی Optical Illusion کو منہدم نہیں کیا جاسکتا صرف یہ بتایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک فریب نظر ہے ۔ میں نے صرف یہی کیا ہے ۔ مابعد جدیدیت کو بے نقاب کرنے میں احمد ہمیش کا بھی اہم رول ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
اسدثنائی : یہ تو ہمارے لئے انکشاف ہے کہ مابعد جدیدادب کی کوئی شناخت نہیں ؟
سکندراحمد : یہ میری ذاتی رائے ہی نہیں ‘ ماہرینِ مابعدجدید ادب بھی یہی فرمارہے ہیں ۔ Michael Berube (مائکل بیروب) جنہیں Illinois University میں دس برسوں تک Postmodernism and American Fiction ‘‘ پڑھانے کا شرف حاصل تھا ‘ ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا "Teraching Post modern fiction without being sure that the genre exists” یعنی ’’مابعد جدید فکشن کی تدریس بغیر یہ جانے ہوئے کہ آیا یہ صنف ہے بھی یا نہیں ‘‘ ۔ مضمون میں آگے چل کر انہوں نے اعتراف کیا کہ مابعد جدید فکشن کی کوئی صنفی حیثیت نہیں ۔
اسدثنائی : مائکل بیروب کوئی جانا پہچانا نام تو نہیں ؟
سکندراحمد : بجافرمایا ‘ مگر کیا کیجئے کہ اہاب حسن نے اپنے اسی انٹرویو میں جسے انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی کے فرینک سیافی کو دیا تھا ‘ خود کہا کہ وہ رابرٹ سٹور کے اس خیال سے متفق ہیں (اور نہیں بھی) کہ مابعد جدیدیت ذہن کو پراگندگی کی طرف دھکیل دیتی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ان کا مشہور خاکہ جس میں انہوں نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے فرق کو واضح کیا تھا‘ پراگندگی کا شکار ہے یعنی وہ عوامل و نکات جن کے ذریعے ‘ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے فرق کو واضح کیا تھا ‘ آپس میں مدغم نہیں ۔
اسدثنائی : یہ چارٹ کہاں دستیاب ہے ؟
سکندراحمد : یہ اہاب حسن کے مضمون Towards a concept of post modernism کا حصہ تھا ‘ جسے انہوں نے Dismemberment of Orphens کے پس نوشت کے طورپر شامل کیا ہے ۔
اسدثنائی : آخر یہ لفظ Post modernism آیا کہاں سے ؟
سکندراحمد : سب سے پہلے اسے برطانوی پینٹر John Watkins Chapman نے ۱۸۷۰ء میں استعمال کیا ۔ بعد ازاں‘ فریڈریکو ڈی آنس ‘ برنارڈ اسمتھ ‘ ڈڈلی فٹس ‘ آرنلڈ ٹائنبی ‘ چارلس آلسن ‘ ارونگ ہو‘ ہیری لیون وغیرہ نے تواتر سے استعمال کیا ۔
اسد ثنائی : بعض اس کا کریڈٹ اہاب حسن کو دیتے ہیں ؟
سکندراحمد : اہاب حسن کو اس سے انکار ہے ۔
اسدثنائی : آپ نے کہا کہ مابعد جدیدیت کے ادبی خدوخال واضح نہیں ہیں ایسی صورت میں بدنام زمانہ مصنف سلمان رشدی کے ناول "The Satanic Verses” کو مابعد جدید ناول کیونکر کہا جاتا ہے ؟
سکندراحمد : "The Satanic Verses”کی شہرت کی وجہ مابعد جدیدیت ہی نہیں بلکہ کچھ اور بھی ہے جس سے آپ بھی واقف ہیں یہ صحیح ہے کہ اسے ایک مابعد جدید فکشن کے نمائندہ متن کی شکل میں دیکھا جاتا ہے تاہم سلمان رشدی کی کتابوں میں مابعد جدید نکات کی تلاش ‘ شائع ہونے کے بعد کی گئی ۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ رشدی کی کتابوں سے پہلے پہل مابعد جدیدیت Brian Mchale نے دریافت کیا جو کبھی امریکہ اور کبھی اسرائیل میں تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں ۔ سلمان رشدی اور مابعد جدید کا ایک Vicious Circle ہے یعنی رشدی جو کچھ لکھتے ہیں مابعد جدیدیت بن جاتی ہے اور جو کچھ مابعد جدیدیت کہتی ہے وہی رشدی لکھتے ہیں ۔ اگر آپ عقل مند ہیں تو آپ مابعد جدیدیت کے اغراض و مقاصد کو آسانی سے دریافت کرسکتے ہیں ۔
اسد ثنائی : آواں گارد تحریک اور مابعد جدیدیت کے مابین کوئی تعلق ہے ؟
سکندراحمد : ہے تو مگر دور کا ۔ بریڈ ہالینڈ (Brad Holland) نے اپنے مضمون "Express yourself : It’s better than you think” میں اس کا تذکرہ کیا ہے ۔ آواں گارد تحریک فرانسسی لاابالیوں (French Bohemian) کی تحریک تھی ۔ ان کے نزدیک آرٹ کا مقصد ہے کہ مڈل کلاس کو چونکا دیا جائے ۔ مابعد جدیدیت کچھ ایسا کرنا چاہتی ہے کہ آواں گارد خود چونک جائیں ۔
اسد ثنائی : اگر ایسا ہے ‘ تو مابعد جدیدیت کے امام گوپی چند نارنگ نے ‘ صلاح الدین پرویز کو اُردو کا آواں گارد کیونکر کہا ‘ ایسے میں تو پرویز مابعد جدید نہ ہوکر جدیدیت کے علم بردار ہوگئے ؟ ایسا گوپی چند نارنگ نے وارجرنلس کے دیباچے میں لکھا ہے ؟
سکندراحمد : میں ان حضرات کے متعلق گفتگو نہیں کرنا چاہتا ‘ بہتر ہے آپ ان لوگوں سے ہی دریافت کریں ۔
اسدثنائی : کیا آپ کے خیال میں مابعد جدیدیت دم توڑ چکی ہے ؟
سکندراحمد : دم ہی نہیں تھا ۔
اسد ثنائی : مابعد جدیدیت کے حوالے سے عجیب و غریب اصطلاحات سامنے آتے ہیں جو ڈکشنری میں نہیں ملتے ؟
سکندراحمد : جی ہاں ایسے اصطلاحات ہیں ۔
اسدثنائی : مثلاً ؟
سکندراحمد : اصطلاحات تو بہت ہیں ‘ آپ کی مراد کن اصطلاحات سے ہے ؟
اسدثنائی : Deconstruction‘ hyper reality ‘ hyper tex‘ sinulecra‘ metanarrative وغیرہ ۔
سکندراحمد : اسد صاحب یہ اصطلاحات اپنے آپ میں کافی گنجلک ہیں تاہم میری کوشش ہوگی کہ انہیں سہل ترین انداز میں سمجھا جائے۔ ڈی کنسٹرکشن دریدا کی وضع کردہ اصطلاح ہے ‘ مختصراً آپ یہ سمجھ لیں کہ متن جو کہ ایک لفظ پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے کے کوئی متعین معنی نہیں ہوتے ۔ اب آپ اسے یوں سمجھیں کہ آئن اسٹائن نے بلیک بورڈ پر لکھا 3اور ہیرو شیما اور ناگا ساکی آگ میں جھلس گئے ۔ اگر آپ ڈی کنسٹرکشن پر یقین رکھتے ہیں تو آئن اسٹائن اس المیے کی اخلاقی ذمہ داری سے بچ نکلے گا ۔ Hypertext کو آپ زائد از متن کہہ سکتے ہیں ۔ یہ ایک متن ہے جو بیک وقت تہہ بہ تہہ چلتا ہے ‘ اس کی متعین سمت نہیں ہوتی ‘نہ ہی کوئی منطقی انجام ہوتا ہے ۔
اسد ثنائی : یہ تو واہی تباہی ہوئی
سکندراحمد : سلمان رشدی کے ناول واہی تباہی نہیں تو اور کیا ہیں
اسدثنائی : اور Hyperreality
سکندراحمد : آپ اسے زائد از اصل کہہ سکتے ہیں ۔ مثلاً کسی قوم کے پاس کوئی آثار قدیمہ نہیں ہے ‘ مگر طاقت اور دولت ہے ۔ اگر وہ تاج محل کی نقل تیار کریں اور اس میں جدید ترین آلات نسب کر کے چند ایسی خصوصیات پیدا کردیں جو اصل تاج محل میں نہیں ہوں ۔ وہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اگرچہ تاج محل (Reality) ان کے پاس نہیں ہے تو کیا ہو ان کے پاس اس کا (Hyperreality) زائد از اصل تو ہے ۔
اسدثنائی : کیا یہ صحیح ہے کہ مابعد جدیدیت اخلاقی قدروں کی قائل نہیں ہے ؟
سکندراحمد : جی ہاں یہ صحیح ہے ۔ دراصل یہ کسی ازلی سچائی کی قائل نہیں ۔ ازلی سچائیاں Metanarrative ہیں ۔ جیسے ’’مظلوم کو مت ستاؤ ‘‘۔ مابعد جدیدیت لفظ مظلوم کی کچھ ایسی وضاحت پیش کرے گی کہ ظالم ہی مظلوم نظر آنے لگیں گے ۔ یہ Power game یعنی طاقت کا کھیل ہے ۔ الفاظ کے معنی کا تعین وہ کریں گے جن کے پاس طاقت ہے ۔ مابعد جدیدیت کے یہاں اصل کی کوئی قیمت نہیں ‘نقل اور اصل میں کوئی فرق نہیں ۔ میوزک کے سی ڈی اس کی مثال ہیں ۔ اس تصور کو ہی simulacra کہتے ہیں ۔ یہ جمع ہے واحد simulacrum ہے ۔ بودریار نے اس تصور کو پیش کیا ۔ اس نظریے کے مطابق عراق کی جنگ ‘ جنگ نہیں تھی بلکہ جنگ کی شبیہ محض تھی جو ٹیلی ویژن کے پردوں پر ڈرائنگ روم میں لڑی گئی ۔
اسدثنائی : اگر ایسا ہے تواُردو میں اس مخرب اقدار تصور کی کیا جگہ ہے ؟
سکندراحمد : یہ تو آپ اس کے رائدین اور مبلغین سے دریافت کریں ۔
اسدثنائی : ترقی پسند ادب کے اثرات کیا اب بھی باقی ہیں ؟
سکندراحمد : دیکھئے ‘ ترقی پسند خلاء میں پیدا نہیں ہوا تھا ‘ نہ یہ صرف اُردو کی حدود میں مقید تھا ۔ اشتراکیت کے دم توڑنے کے بعد تحریک کمزور تو ہوئی ختم نہیں ہوئی ۔ ویسے لوگ ابھی زندہ ہیں جو خود کو ترقی پسند کہتے ہیں ۔ بات ظاہر ہے جب تک ادیب زندہ ہے ادب زندہ ہے ۔ تاہم یہ تحریک قریب المرگ ہے ۔
اسدثنائی : کیا جدیدیت نے ترقی پسند ادب کو نقصان پہنچایا ؟
سکندراحمد : جی نہیں ‘ ترقی پسند ادب اپنے زوال کا ذمہ دار خود ہے ۔
اسدثائی : جدید ادب کی ترقی میں ’’شب خون ‘‘اور’’شمس الرحمن فاروقی ‘‘کا کتنا رول ہے ؟
سکندراحمد : آپ ‘ اسے یوں کہیں کہ اُردو ادب کی ترقی میں ان کا کیا رول ہے ۔ دیکھئے شب خون اور فاروقی صاحب نے اُردو زبان و ادب کو ایک معروضی سمت دیا ۔ فاروقی صاحب کی کتابیں‘ ’’شعر غیر شعر اور نثر ‘‘ ، ’’شعر شور انگیز‘‘ ،’’افسانے کی حمایت میں‘‘ ،’’اُردو کا ابتدائی زمانہ ‘‘ اس قدر اعلیٰ معیار کی ہیں جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ شب خون کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ لوگ اسے استناد کا اسٹامپ سمجھتے ہیں ۔ اس سے فائدہ تو اُردو زبان اور اُردو ادب کو پہنچا ‘ نقصان فاروقی صاحب کا ہوا ۔ فاروقی صاحب کے مخالفین میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کو ’’شب خون ‘‘میں جگہ یا خاطرخواہ پذیرائی نہیں ملی ۔
اسدثنائی : وہ نسل جس کی شب خون اور شمس الرحمن فاروقی نے آبیاری کی تھی ان میں آج کتنے شجر ثمر آور اور تناور ہوچکے ہیں ؟
سکندراحمد : شہریار‘ بلراج کومل ‘ غیاث احمد گدی ‘ شفیع جاوید ‘ شوکت حیات‘ سریندر پرکاش‘ ظفر اقبال وغیرہ ۔ نام تو کئی ہیں کن کن کا شمار کیا جائے ‘ آج کے تقریباً تمام بڑے نام شب خون اور فاروقی کے توسط ہی سے پایۂ استناد تک پہنچے۔
اسدثنائی : ان میں سکندراحمد بھی تو شامل ہیں ؟
سکندراحمد : No comments
اسد ثنائی : بہت کم عرصہ میں آپ نے انڈوپاک کے ممتاز نقادوں میں اپنے آپ کو شمار کروالیا ہے ؟
سکندر احمد : ابھی تو مجھے بہت لمبا سفر طے کرنا ہے اس لیے فی الوقت کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔
اسدثنائی : کیا فاروقی صاحب سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ؟
سکندراحمد : جی ہاں ‘ بالکل کیا جاسکتا ہے ۔
اسدثنائی : شب خون کے بعد ایسا کون سا رسالہ ہے جو شب خون کی کمی پوری کرسکے ؟
سکندراحمد : کوئی نہیں ۔
اسدثنائی : مابعد جدید نظریات سے آپ کس حد تک غیر مطمئن ہیں ۔
سکندراحمد : جس نظریے میں آسمانی صحیفوں کی کوئی حیثیت نہیں ‘ سچ اور جھوٹ کے درمیان کوئی فرق نہیں ‘ اخلاقی قدروں کا منبع طاقت قرار پائے ‘ مصنوعی صارفیت کا دور دورہ ہو ‘ اس نظریے سے کیسے متفق ہوا جاسکتا ہے ؟
اسدثنائی : مابعد جدیدیت کو آج کی نسل نے کس حد تک سمجھا ہے ؟
سکندراحمد : نئی نسل ہو یا پرانی نسل ‘ کسی نے نہیں سمجھا ہے ۔ سب اپنی اپنی روٹیاں سینکنے میں مصروف ہیں ۔
اسدثنائی : مابعد جدیدیت کو اُردو میں متعارف کروانے والوں کا مقصد کیا ہے ؟
سکندراحمد : نتائج آپ خود اخذ کریں ۔
اسدثنائی : مابعد جدیدیت کے حوالے سے چند مشہور شخصیات کے بارے میں بتائیں ؟
سکندراحمد : سلمان رشدی ‘ شیطانی آیا ت والے ‘ سیموٹل ہنٹنگن ‘ تہذیبوں کے تصادم والے ‘ فرانسسی فوکویاما ۔ تاریخ کی موت والے غرض یہ کہ Harward University کے تمام Neoeons ۔
اسد ثنائی : بات کچھ کچھ تو سمجھ میں آتی ہے ۔
سکندراحمد : شکریہ ۔

Share

۳ thoughts on “ممتازفکشن نقاد جناب سکندراحمد سے انٹرویو۔ ۔ ۔ ۔ اسد ثنائی”

Comments are closed.

Share
Share