کرونا وائرس سے متعلق چند سوالات کے جوابا ت (2) :- مفتی امانت علی قاسمیؔ

Share
مفتی امانت علی قاسمی

کرونا وائرس سے متعلق چند سوالات کے جوابا ت
(دوسری قسط)

مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند

کرونا وائرس کی وجہ سے آئے دن نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور لوگ ان کا حل جاننے کے لیے مختلف طریقوں سے رابطہ کرتے ہیں، گزشتہ ہفتہ چند سوالات کے جوابات دئے گئے تھے جسے عام لوگوں کے علاوہ اہل علم نے بھی پسند کیا تھا،

اس کے بعد سے بھی سوالات کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور اب بھی بہت سے سوالات ایسے ہیں کہ عام لوگ ان کا جواب معلوم کرنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں اسی لیے مزید چند سوالات کے جوابات کو اختصار کے ساتھ یہاں پرلکھا جاتا ہے، تاکہ افادہ آسان ہو۔ اس کی کوشش کی گئی ہے کہ دلائل سے گریز کیا جائے تاکہ طوالات کی وجہ سے پڑھنا بوجھل نہ ہوجائے۔
سوال (۱)گزشتہ جمعہ،جمعہ کی نماز کے سلسلے میں علاقے میں کافی اختلاف اور الجھاؤ پایا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ مختلف اداروں کی طرف سے ہدایات مختلف تھیں کسی میں گھر میں جمعہ پڑھنے کی اجازت تھی تو کسی میں ظہر باجماعت اور کسی میں تنہا ظہر پڑھنے کی بات تھی؟ اس کی وجہ کیا تھی اور اس جمعہ کو ہمیں کیا کرنا چاہیے اور لوگوں کا جوعمل مختلف رہا اس میں کن کا عمل درست تھا؟
جواب (۱)اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا، بات بہت واضح تھی،جن جگہوں پر پہلے سے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی اور وہاں کے لوگ دوسرے علاقوں میں جمعہ پڑھنے کے لیے جاتے تھے ایسے لوگ نہ مسجد میں جمعہ کریں گے اور نہ ہی گھر میں جمعہ کریں گے؛ بلکہ یہ لوگ ظہر کی نماز جماعت سے پڑھیں اور اگر جماعت نہ بناسکیں تو تنہا ظہر پڑھ لیں۔
جن علاقوں میں جمعہ کی نماز ہوتی تھی وہاں مسجد میں چند افراد (چار، پانچ)جمعہ کی نماز پڑھ لیں، باقی افراد اپنے گھروں میں نماز پڑھیں چوں کہ وہاں پر جمعہ کی نماز ہورہی ہے اس لیے گھر وں میں بھی جمعہ کی نماز کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ اس لیے کہ اگر سارے لوگ ایک جگہ جمعہ نہ پڑھ سکتے ہوں تو دوسری جگہ جمعہ کرنے کی اجازت ہے یہاں پر ایسا ہی ہورہا ہے کہ سارے لوگ جمعہ ایک جگہ نہیں پڑھ سکتے ہیں چاہے کسی وجہ سے ہو اس لیے دوسری اور تیسر ی جگہ جمعہ کرسکتے ہیں۔
لیکن ہمارے اکابر نے جمعہ کے بجائے ظہر پڑھنے کی تاکید ہے اس لیے کہ موجودہ حالات میں چند لوگوں کا اجتماع بھی مضر اور نقصان دہ ہوہے،بہت سی جگہوں پر لوگوں نے گھر وں میں پچیس پچاس لوگ مل کر جمعہ کی اور ان پر مقدمہ ہوگیا ظاہر ہے کہ متبادل کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو پریشانی میں ڈالنا درست نہیں ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ جمعہ کا مختصر مجمع بھی نہیں کیا جائے اور اکابر کی ہدایات کے مطابق ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔
گھر میں ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے یا تنہا ظہر؟ اس سلسلے میں حضرات اہل علم کی آراء مختلف ہوئیں ہیں۔میں یہ سمجھتاہوں کہ ایسی صورت میں تنہا ظہر کی نماز پڑھنی چاہیے؛اس لیے کہ جو لوگ جمعہ میں شریک نہ ہو سکتے ہوں ان کے لیے حکم یہ ہے کہ تنہا ظہر پڑھ لیں جیسے کہ قیدی حضرات کو تنہا ظہر کی نماز پڑھنے کا حکم ہے موجودہ حالات میں ہماری مثال بھی قیدیوں کے ہی مماثل ہے۔تاہم تینوں آراء ہیں میں کسی پربھی عمل کرلیا جائے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے کہ ہر طرح کے دلائل ہیں اور ہر رائے کو ہندوستان کے معتبر دارلافتاء اور ارباب افتاء کا اعتماد بھی حاصل ہے۔اس لیے کہ ہر طرح کا عمل درست ہے کسی کو اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال(۲) اگر گھر میں جمعہ کی نماز پڑھی جائے تو کیا عورتیں بھی شامل ہوسکتی ہیں؟
جواب(۲)جی ہاں خواتین بھی شامل ہوسکتی ہیں لیکن چوں کہ جمعہ میں دوسرے حضرات بھی شامل ہو سکتے ہیں اس لیے عورتوں کو پردہ سے شامل ہونا چاہیے۔ عورتوں پر جمعہ نہیں ہے لیکن اگر جمعہ میں شریک ہوجائے تو جمعہ درست ہوجائے گی جس طرح کہ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے لیکن اگر مسافر کسی مسجد میں جاکر جمعہ پڑھ لے تو اس کی جمعہ کی نماز درست ہوجاتی ہے۔
سوال(۳) جمعہ میں اذن عام کی شرط ہے جب کہ موجو دہ حالات میں تو مسجد میں بھی اذن عام نہیں ہے عام طور پر مسجد میں تالا لگا ہوا ہے او رچند افراد نماز پڑھتے ہیں تو مسجد میں بھی جمعہ نہیں ہونی چاہیے؟
جواب (۳)جمعہ کے لیے اذن عام کی شرط ائمہ اربعہ میں سے صرف احناف کے یہاں ہے اور احناف کے یہاں بھی ظاہر الروایت نہیں ہے اسی وجہ سے صاحب ہدایہ نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا ہے ہاں نوادر کی روایت کے مطابق اذن عام کو شرط قرار دیا گیا ہے اس لیے اس وقت جو حالات ہیں وہ اس میں اگر نوادر کی اس روایت پر عمل کیا جائے تو دنیامیں کہیں بھی جمعہ کی نماز صحیح نہیں ہوگی اس لیے بہتر ہے کہ موجودہ حالات میں ظاہر الروایت کے مطابق اذن عام کو شرط قرار نہ دیا جائے اس طرح مسجد میں بھی اور دیگر جگہوں میں بھی جمعہ کی نماز درست ہوجائے گی۔ مساجد تو خدا کا گھر ہے جہاں ہر حال میں اذن عام پایا جاتا ہے اس وقت اگر ناگزیر حالات کی بنا پر عام لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کیا جارہاہے یہ درحقیقت نماز سے روکنا نہیں ہے بلکہ مضر صحت ہونے کی وجہ سے بھیڑ سے روکنا ہے اس سے مسجد کے نماز جمعہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، اس لیے مسجد میں جمعہ کی نماز بلاکراہت درست ہے۔جہاں تک مسئلہ ہے گھر میں اذن عام کا ہونا یا نہ ہونا، یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اگر کسی علاقے میں جمعہ کے شرائط پائے جاتے ہوں تو وہاں پر اذن عام کی اس درجہ شرط ضروری نہیں بلکہ اگر کسی وجہ سے عام لوگوں کو منع بھی کیا جائے تو بھی جمعہ کی نماز ہوجاتی ہے حضرت اکابر نے اس فیکٹری اور کمپنی میں نماز جمعہ کی اجازت دی ہے جس میں سیکیورٹی اورسامان کی حفاظت کی خاطر عام لوگوں کو اس میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔
سوال(۴)اگر گاؤں کے لوگ گاؤں کی ہی مسجد میں جہاں پنچ وقتہ نماز ہوتی ہے لیکن جمعہ نہیں ہوتی ہے جمعہ کی نماز ادا کرلی تو نماز جمعہ ہوگئی یا پھر بعد میں ظہر لوٹانا ہوگا؟
جواب (۴) جن جگہوں پر جمعہ کے شرائط نہیں پائے جاتے ہیں وہاں ظہر کی نماز پڑھنی چاہیے جمعہ کی نماز درست نہیں ہے اگر کسی نے جمعہ کی نماز پڑھ لی تو اس کی نماز نہیں ہوئی ان کو ظہر کی نماز لوٹانی ہوگی۔
سوال (۵)ہمارا گھر مسجد کے پڑوس میں ہے مسجد میں مائک سے نماز ہوتی ہے کیا ہم مسجد کی نماز میں شریک ہوسکتے ہیں؟
جواب (۵)اگر گھر مسجد سے اس درجہ متصل ہو کہ مسجد اور گھر کے درمیان دو صف کا فاصلہ نہ ہو اور مائک کے ذریعہ امام کی نقل و حرکت کا علم ہورہا ہو تو مسجد کے امام کی اقتدا گھر میں کرنا درست ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ اپنی نماز الگ پڑھی جائے کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ مائک کا نظام خراب ہوجائے اور امام کی نقل و حرکت کا علم نہ ہوسکے۔
سوال(۶)کرونا وائرس میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس میں غیروں سے کیا اپنوں سے بھی دور رہنے کے لیے کہا جارہا ہے کیا ایسی صورت میں بیوی سے قربت درست ہے یا نہیں؟
جواب (۶) یہ صحیح ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے اگر ایک آدمی مریض ہے تو اس سے ملنے جلنے سے دوسرے میں یہ مرض منتقل ہوجاتا ہے اس لیے احتیاط کی ضرورت ہے،تاہم اگر گھر میں سبھی افراد تندرست ہوں اور میاں بیوی میں سے کسی کو بھی ایسی بیماری نہ ہو تو بیوی سے قریب ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ ہاں اگر میاں بیوی میں سے کسی میں بھی اس کا مرض ہو یا اس کے اثرات ہوں تو پھر احتیاط کے طور پر الگ رہنا ضروری ہے۔
سوال(۷)کیا کرونا سے مرنے والے شہید کہلائیں گے؟
جواب (۷) شہید کی دو قسمیں ایک شہادت حقیقی اور دوسرے دوسرے شہادت حکمی،شہید حقیقی تو اس کو کہتے ہیں کہ جو اللہ کے راستہ میں اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے شہید ہوجائے یاظلما شہید ہوجائے اس کو احکام الگ ہیں اس کو نہ تو غسل دیا جاتا ہے اور نہ ہی کفن بلکہ اسی کپڑے میں اس کی نماز جنازہ پڑھ کر اس کو دفن کردیا جاتا ہے،شہید کی دوسری قسم شہید حکمی ہے جس کو شہید اخروی بھی کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص وہ جو اپنی طبعی موت کے علاوہ مرجائے،حدیث میں آتا ہے جو شخص طاعون میں مرجائے یا ڈوب کر مرجائے یا جل کر مرجائے یا پیٹ کے درد میں مرجائے وہ شہید ہے اس اعتبار سے کرونا میں مرنے والے بھی شہید حکمی،اور شہید اخروی کہلائیں گے، غسل،کفن دفن اور جنازہ وغیر ہ میں اس کے ساتھ عام میت جیسا معاملہ کیا جائے گا۔
سوال(۸) کیا کرونا کو طاعون کے ساتھ تشبیہ دے سکتے ہیں؟
جواب (۸)کرونا کو طاعون کے ساتھ تشبیہ دینے کا اگر یہ مطلب ہے کہ جس طرح طاعون سے مرنے والا شہید حکمی ہے اسی طرح کرونا سے مرنے والا بھی شہید حکمی ہے تو تشبیہ دے سکتے ہیں اور اگر مرض کی نوعیت کے اعتبار سے تشبیہ مراد ہے توظاہر ہے کہ کرونا کا مرض طاعون کے مرض سے مختلف ہے اس لیے اس اعتبار سے تشبیہ من کل الوجوہ درست نہیں ہوگا۔
سوال (۹) کرونا سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر نیز قرآنی اوراد و وظائف کیا ہیں؟
(۹)ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق یہ ایک متعدی مرض ہے لیکن اس میں بھی ایک مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ بیماری کا تعدیہ بھی اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا ہے، اس کے علاوہ محکمہ صحت کی جانب سے جو احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہے جس میں خاص کر سو شل ڈسٹینس کی بڑی اہمیت ہے اس پر عمل کرنا چاہیے، لوگوں سے ہاتھ ملانے سے پرہیز کرنا،صفائی ستھرائی کا خیال کرنا بھی احتیاطی تدابیر میں شامل ہے، جہاں تک اوراد و ظائف کی بات ہے، اس سلسلے میں قرآ ن و حدیث میں مختلف اوراد و وظائف کا تذکرہ ہے اس پر کو پڑھنا چاہیے، قرآن کی تلاوت، اور ہر نماز کے بعد سورہ فاتحہ، معوذتین آیت الکرسی کی تلاوت، حسبنا اللہ و نعم الوکیل کا کثرت سے وردکرنا چاہیے۔ اسی طرح مذکورہ دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے (۱)بسم اللہ الذی لا یضرہ مع اسمہ شئی فی الارض و لافی السماء و ہو السمیع العلیم (مسند احمد،حدیث نمبر ۴۴۷)اس اللہ کے نام سے جس نے کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔حضرت عثما ن کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح میں یا شام میں تین مرتبہ یہ دعا پڑھ لے تو اس دن کوئی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے (۲)اعوذ بکلمات اللہ التاماۃ من شر ما خلق (مسند احمد حدیث نمبر ۷۸۸۴)۔میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جواس نے پیدا کیا ہے۔حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں جو شخص شام ہونے پر تین مرتبہ یہ کلمات کہہ لے اس رات اسے کوئی زہریلی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔(۳) اللہم انی اعوذبک من البرص و الجنون والجذام و سئی الاسقام (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر ۱۵۵۴)اے اللہ ہم آپ کی پناہ چاہتے ہیں برص سے جذام سے جنون سے اور بیماریوں سے۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ اس دعا کا معمول تھا۔
سوال(۱۰)اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سے لوگ معاشی بحران کا شکا رہیں اور کھانے کو ترس رہے ہیں اس میں مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلم بھی کیا زکوۃ کی رقم سے ان کی مدد کی جاسکتی ہے؟
جواب (۱۰)موجودہ حالات میں انسانی بنیاد وں پرمسلم اور غیر مسلم ہر ایک کی مدد کرنی چاہیے یہی اسلامی تعلیمات کا تقاضہ ہے آپ ﷺ کے زمانہ میں بھی غیر مسلم تھے اور آپ ﷺ ان کو صدقات اور خمس سے ان کی مدد کیا کرتے تھے لیکن زکوۃ سے آپ نے ان کی مدد نہیں کی؛ بلکہ آپ نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ ان کو بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا اس لیے علامہ ابن منذر نے نقل کیا ہے کہ غیر مسلموں کو زکوۃ نہ دینے پر اجماع ہے۔،اس لیے غیر مسلم برادران وطن کی صدقات اور امداد کے فنڈ سے مدد کرنی چاہیے۔
سوال (۱۱) کیا بینک انٹرسٹ سے اس وقت مدد کی جاسکتی ہے؟
جواب (۱۱) جو لوگ زکوۃ کے مصارف ہیں ان کی بلانیت ثواب بینک انٹرسٹ سے بھی مدد کی جاسکتی ہے۔ اس رقم سے غیر مسلموں کو بھی دیا جاسکتاہے۔
سوال(۱۲) موجودہ حالات میں جب کہ ساری دکانیں بند ہیں بعض عورتیں صاحب نصاب ہیں ان کے پاس زیورات ہیں اور کوئی دوسرا مال نہیں ہے لیکن ان حالات میں اس وقت وہ اس کو فروخت نہیں کرسکتی ہیں اور اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے جس سے وہ کھانے پینے کی چیز خرید سکے تو کیا ان کو زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟
جواب (۱۲) جو عورت صاحب نصاب ہے ان کو زکوۃ کی رقم دینا درست نہیں ہے ان کو امداد یا صدقات کی رقم دی جائے اس لیے کہ اگرعورت کے پاس سونا چاندی ہے تو وہ سونا چاندی گروی رکھ کر قرض بھی لے سکتی ہے اور ا س وقت سماج میں اس طرح کے لوگ مل جائیں گے جو ان کو قرض دے یا کم از کم سونا کو گروی رکھ کر قرض دے اور اگر کوئی اس طرح مدد کرنے والا نہ ملے تو جو ادارے زکوۃ کی رقم سے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ قرض دیں یا صدقات وغیرہ سے ان کی مدد کریں۔
سوال (۱۳) ایک شخص زکوۃ نکالتے وقت زکوۃ کی نیت کررکھا تھا اور تقسیم کرتے وقت صدقہ کی نیت کرلیا تاکہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کو دے سکے تو کیا اس صورت میں اس کی زکوۃ ادا ہوگی؟
جواب (۱۳) غیر مسلم کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے اس لیے جورقم غیر مسلموں پر خرچ کیا ہے اس کی زکوۃ ادا نہیں ہوئی۔
سوال (۱۴) حکومت اس وقت جو مدد کررہی ہے اس کا لینا درست ہے یا نہیں؟
جواب (۱۴) جی ہاں حکومت جو امداد کرتی ہے وہ عام شہریوں کا پیسہ ہوتا ہے جو عام اور غریب شہریوں پر حکومت تقسیم کرتی ہے، حکومت کے اس امداد سے فائدہ اٹھانا بالکل درست ہے۔
سوال (۱۵) کرونا وائرس ایک عالمی وبا ہے جس میں مرنے والوں میں مسلمان بھی ہیں، ان کے غسل کفن دفن اور جنازہ کی نماز کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے بعض جگہوں پر حکومت کے لوگ جنازہ ہی نہیں دیتے ہیں، بعض جگہوں پر جنازہ دیتے ہیں لیکن اس کو پلاسٹک میں اس طرح پیک کرکے دیتے ہیں جسے کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے اب اس کے غسل کفن اور جنازہ کے احکام کیا ہوں گے؟
جواب (۱۵) سوال کے دو جز ہیں ایک یہ ہے کہ وہ لوگ جنازہ نہیں دیتے ہیں صرف اطلاع دیتے ہیں ظاہر ہے کہ یہاں پر غسل کفن دفن کا کوئی سوال ہی نہیں ہے جہاں تک مسئلہ غائبانہ نماز جنازہ کا ہے توفقہاء احناف کے یہاں غائبانہ نماز جنازہ مکروہ ہے اس لیے کہ نماز جنازہ کے لیے میت کا موجود ہونا یا اکثر بدن کا موجود ہونا ضروری ہے موسوعۃ فقہیہ میں ایک مسئلہ لکھا کہ اگر کوئی شخص ڈوب کر مر گیا اور اس کی لاش نہیں ملی تو اس پر احناف کے یہاں جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔اس لیے موجودہ صورت میں اگر میت کی لاش حوالے نہ کی گئی ہو تو اس پر نماز جنازہ نہیں ہوگی بلکہ قرآن وغیر ہ پڑھ کر ایصال ثواب اور مغفرت کی دعاکی جائے۔
دوسری صورت جب میت کو پلاسٹک میں لیپٹ کر حوالہ کیا گیا اور کھولنے سے سختی سے منع کردیا گیا تو ایسی صورت میں پانی سے میت پر مسح کردیا جائے اور اسی پلاسٹک کو ہی کفن تصور کرکے اس پر جنازہ کی نماز پڑھ کر اس کو دفن کردیا جائے اس سلسلے میں بھی محکمہ صحت کی جو ہدایات ہوں اس پر حتی الامکان عمل کیا جائے۔

Share
Share
Share