اردوزبان کی اصل اورتاریخ پردوکتابیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرتہمینہ عباس

Share

urdi ki lisani tasjkil تاریخ

اردو زبان کی اصل اور تاریخ پر دوکتابیں

ڈاکٹرتہمینہ عباس
کراچی

نوٹ : خلیل اللہ بیگ کی کتابوں پر تبصرہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے ’’ڈان‘‘ کے لیے کیا تھا اس تبصر ے کا ترجمہ ڈاکٹر تہمینہ عباس نے کیا ہے
جامعہ کراچی میں ٹیچرز ایجوکیشن پروگرام کے حالیہ اجلاس میں جب یہ بحث کی گئی کہ کیا اردو واقعی لشکری زبان ہے یا یہ نام نہاد نظریہ ہے توکچھ کالج اساتذہ نے اس بات پر اصرار کیا کہ اردو لشکری زبان ہے یہ ہی نظریہ معتبر اور درست ہے اس لیے اس کو نصاب سے خارج نہیں کرنا چاہیے ان میں سے کئی ایک کو اس حقیقت کے بارے میں علم نہ تھا کہ لشکری زبان کا نظریہ نوے سال قبل لسانی ماہرین اور محقیقین کی طرف سے غلط قرار دیا جا چکا ہے۔

یہ نظریہ ایک غلط تصور کے طور پر بہت بڑے پیمانے پر عالمگیر حقیقت مانا جا تا ہے کسی سے بھی سوال کیجیے حتی کہ اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی اردو کی ابتدا یا اصل کے حوالے سے یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اردو ایک لشکری زبان ہے کالج کی سطح پر کچھ ماہرِ تعلیم تک اتنے معصوم ہیں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک نئی زبان کی تشکیل مختلف زبانوں کے الفاظ کے ملاپ سے کی جاسکتی ہے۔جرمنی کے مشہور ماہرِ لسانیات میکس مولر کا کہنا ہے کہ دو زبانیں مل کر ایک تیسری زبان کو جنم نہیں دے سکتیں ۔اردو کی ابتدا کے بارے میں یہاں ہزاروں نظریات ہیں اردو کی ابتدا کے حوالے سے جو پہلا نظریہ ہے اس کی بنیاد لسانی تحقیق کے بجائے مفروضے پر رکھی گئی۔اس نظریے کے علمبردار میر امن ہیں جن کے مطابق اردو مختلف زبانوں مثلاََ،فارسی،عربی، ترکی، سنسکرت وغیرہ کا ملغوبہ ہے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ اردو زبان مغل فوج کے لشکر میں پیدا ہوئی جہاں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ موجود تھے جنھوں نے اس نئی زبان کو رابطے کے لیے استعمال کیا۔مغل فوج مختلف علاقوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں پر مشتمل تھی۔اس نظریے سے کسی حد تک کچھ مصنفین متفق ہیں جن میں سر سید احمد خان ،محمد حسین آزاد اور امام بخش صہبائی کا نام شامل ہے۔یہ نظریہ بالکل غلط ہے کیونکہ زبان، اس کی ساخت اور اس کے صرف و نحو کے ڈھانچے کی بنیاد پر اس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس زبان کی ابتدا کس علاقے سے ہوئی۔
الفاظ مختلف علاقوں کا سفر کرتے ہوئے مختلف زبانوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔اردو کی ساخت یہ بتاتی ہے کہ اس کی بنیاد ویدک بولی ہے یہ مکمل طور پر بر صغیر کی مقامی بولی ہے جس میں عربی ، فارسی اور کچھ دوسری زبانوں کے الفاظ کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کا وجود مغلوں کی آمد سے قبل موجود تھا۔انھوں نے سولہویں صدی میں حکومت قائم کی جب کہ اردو کے ابتدائی نمونے گیارہویں یا بارہویں صدی تک پرانے ہیں۔اس کے مختلف نام رہے اٹھارہوں صدی کے آخر سے پہلے اردو کا نام اردو نہیں تھا۔ڈاکٹر حافظ محمود شیرانی اور ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اپنی تصانیف میں اردو کی ابتدا کے حوالے سے شواہد پیش کیے ہیں ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے اپنا مقالہ جو لندن یونیورسٹی میں تحقیق کے حوالے سے ۱۹۲۰ء میں لکھا گیا یہ ثابت کیا ہے کہ اردو کی اصل اس بولی میں پائی جاتی ہے جو تقریباََ ایک ہزار سال قبل شمالی اور مغربی ہندوستان اور الہ آباد میں بولی جاتی تھی۔حافظ محمود شیرانی بھی اسی نظرے پر یقین رکھتے ہیں مگر انھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بولی جس نے اردو کو جنم دیا ہے پرانی پنجابی کی ایک قسم ہے جو لاہور کے اطراف میں بولی جاتی تھی۔ان کا دعوی ہے کہ افغان فاتحین جب لاہور آئے تو لاہور سے دہلی تک قبضہ کر لیا ۱۱۹۲ء ، ۱۱۹۳ء میں وہ اپنے ساتھ ایک نئی زبان لائے تھے جس میں مقامی زبانوں اور دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے چلے گئے یہ زبان افغان فاتحین کے ساتھ دہلی تک گئی اس زبان نے اپنے اندر مختلف بولیوں کے الفاظ جذب کیے اس نظریے کے مطابق اردو پنجابی سے پیدا ہوئی ہے۔اس نظریے نے کہ اردو پنجابی سے پیدا ہوئی مختلف نظریات کو جنم دیا اور ہر علاقے کے لوگ اردو زبان کی پیدائش کی اصل یا بنیاد کا دعوی کرنے لگے اور مختلف نظریات سامنے آئے کہ اردو دکن میں،سندھ میں، شمالی ہند میں یاملتان میں پیدا ہوئی۔محمد حسین آزاد کا کہنا ہے کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے۔آگرہ، متھرا اور یو پی میں بولی جانے والی زبان کا ملاپ ہے۔اس کے علاوہ کچھ غیر ملکی مستشرقین کے اپنے نظریات پیش کیے۔ان بے شمار نظریات کو پروفیسر مرزا خلیل بیگ نے واضح طور پر اپنی کتاب’’اردو کی لسانی تشکیل‘‘ میں پیش کیا ہے ۔پروفیسر مرزا خلیل بیگ ماہرِ لسانیات،نقاد اور ماہرِ تعلیم ہیں۔ڈاکٹر بیگ نے لسانیات علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھائی انھیں ڈاکٹر مسعود حسن صاحب کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے جو کہ خود ایک مشہور شخصیت ہیں۔مسعود حسن صاحب کا کہنا ہے کہ اردو دہلی اور اس کے اطراف میں پیدا ہوئی مسعود صاحب نے حافظ محمود شیرانی کے اس نظرے کی مخالفت کی کہ اردو پنجاب میں پیدا ہوئی۔ڈاکٹر خلیل اللہ بیگ نے اپنی کتاب ’’اردو کی لسانی تشکیل میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ شور سینی پرا کرت ایک بولی ہے جو مرکزی انڈیا شور سین میں بولی جاتی ہے شور سینی اب بھرنش نے ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں اردو پیدا ہوئی یہ کتاب انڈیا میں چارجلدوں میں شائع ہوئی تھی اور اب یہ کتاب ادارہ یاد گار غالب لائیبریری سے شائع ہوئی ہے اس کتاب کو ادارہ یاد گار غالب لائبریری سے شائع کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت لی گئی ہے اور پاکستان میں یہ ’’اردو کی لسانی تشکیل‘‘ کا پہلا ایڈیشن ہے ۔ڈاکٹر خلیل اللہ بیگ کی دوسری کتا ب ’’ اردو زبان کی تاریخ‘‘مختلف محقیقین کے مقالوں کا مجموعہ ہے اس کتاب میں چند مضامین ڈاکٹر خلیل اللہ بیگ کے بھی ہیں جس میں سے ایک اردو کی اصل لشکری زبان میں ہے۔یہ کتاب علی گڑھ ایجوکیشن بک ہاؤس سے شائع ہوئی۔اس کتاب کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور پانچواں شائع ہو نے والا ہے۔ اردو کے اساتذہ کو مباحثہ کرنے سے قبل یہ دو کتابیں لازمی پڑھ لینی چاہیے۔
۔اصل کالم کے لیے مندرجہ ذیل لنک دیکھیے۔
http://www.dawn.com/news/1242548/literary-notes-two-books-on-origin-and-history-of-urdu-language
بحوالہ : ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈان ۔۲۹ فروری، ۲۰۱۶:ترجمہ از ڈاکٹر تہمینہ عباس

Dr.Tahmina Abbas
tahmina تاریخ

Share

۲ thoughts on “اردوزبان کی اصل اورتاریخ پردوکتابیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرتہمینہ عباس”

Comments are closed.

Share
Share