میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 1۔ امیرخسرو ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

Share

ameer

شعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 1
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
امیر خسرو(۱۲۵۳۔۱۳۲۵ء)

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

نوٹ : پروفیسرمحسن عثمانی ندوی ’ عربی ادب کے مایہ ناز اسکالر ہیں ۔وہ انٹرنیشنل فارن لینگوجس یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر کے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اردو ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔ مختلف اخبار و رسائل میں آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں ۔ جہانِ اردو کے لیے آپ نے ایک طویل مقالہ بطورخاص ارسال کیا ہے جو اردو کے منتخب شعرا کی حالات زندگی اور ان کے منتخبہ کلام کو محیط ہے ۔ اس سلسلے کی پہلی قسط احباب کے لیے پیش خدمت ہے ۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ پسند کیا جاے گا ۔

ابو الحسن یمین الدین خسرو اصل نام تھا، لیکن امیر خسرو کے نام سے شہرت پائی شمالی ہند کے شہر پٹیالہ میں ان کی پیدائش ہوئی ان کے والد کا نام امیر سیف الدین محمود تھا، جو شمس الدین التمش کی فوج میں ملازم تھے، یہی وہ زمانہ ہے کہ جب حضرت نظام الدین الیاء کا طوطی بول رہا تھا، اور خدا کی مخلوق ان کی گرویدہ ہو رہی تھی، اور ان کی خدا ترسی اورآخر ت رسی اور روحانیت کے چرچے خاص وعام میں پھیل چکے تھے، امیر خسرو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے قریب او ران کے عاشق زار ہو گئے تھے، ان کی قبر بھی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی قبر سے متصل ہے، امیر خسرو کا نام اردو زبان کے اولین شعراء میں آتا ہے، اس طرح سے اردو غزل کی عمر سات سو سال شمار کی جا سکتی ہے، امیر خسرو کا یہ شعر بہت سے مشہور گانے والوں نے گایا ہے۔
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
امیر خسرو سرکار دربار سے بھی وابستہ رہے، جلال الدین خلجی سے بھی ان کی مصاحبت رہی، اور اس کے بعد جب قیقباد تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوا تو اس نے بھی خسرو کی صلاحتوں کا ا عتراف کیا، اور انھیں منصب دار کے منصب پر فائز کیا اور اپنے ندیموں میں شامل کرکے، ایک ہزار دو سو تنکہ سالانہ وظیفہ مقرر کیا، حکومت اور دربارسے روابط کے ساتھ ساتھ امیر خسرو نے تصنیف وتالیف پر سب سے زیادہ توجہ دی، اور پانچ بے حد اہم رسالے لکھے جن میں آئینہ سکندری، مطلع انوار، اور ہشت بہشت شامل ہیں، اور بعد میں جب دہلی کی حکومت غیاث الدین تغلق کے ہاتھ میں آئی تو خسرو اس کے دربار میں بھی شامل ہوگئے، شہزادہ جونا خان (محمد بن تغلق)کے ساتھ جب وہ دیوگری (دولت آباد ۔مہارشٹر)گئے، تو وہاں کے خوشنما مناظر سے بیحد متأثر ہوئے، اور انھیں کے مشورے پر شاید محمد تغلق نے اپنا پایہ تخت دہلی سے دولت آباد منتقل کرلیا، غیاث الدین تغلق حضرت نظام الدین اولیاء سے ناخوش رہتا تھا، اور بنگال کے مہم پر جانے سے پہلے اس نے حضرت نظام الدین یہ حکم بھجوایا تھا کہ وہ اس کی واپسی سے پہلے دہلی چھوڑ دیں، جب فتح مند سلطان بنگال کی مہم سر کر کے واپس دہلی کے قریب آیا تو اس نے دہلی پہونچنے سے پہلے حضرت نظام الدین اولیا ء کو کہلا بھیجا کہ میرے دہلی پہونچنے سے پہلے دہلی چھوڑ دیں۔ امیر خسرو کے شیخ ومرشد نے وہ مشہور جملہ فرمایا: کہ بادشاہ سے کہہ دو کہ’’ ہنوز دہلی دور است‘‘، چنانچہ بادشاہ کے دہلی پہونچنے سے پہلے غیاث الدین تغلق کا ایک حادثہ میں انتقال ہوگیا۔
امیر خسرو ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، صاحب سیف بھی تھے صاحب قلم بھی تھے، وہ شاعر بھی تھے، نثر نگار بھی تھے، تاریخ نویس بھی تھے، سپاہی بھی تھے، صوفی بھی تھے، اور ماہر موسیقار تھے، ہندوستانی موسیقی کو انھوں نے، ستار اور طبلہ کا تحفہ دیا۔ امیر خسرو کے زمانے میں افغانستان ،غزنی، عراق، ایران، اور وسط ایشیاء سے ارباب کمال اور علماء اور ادباء ہجرت کرکے ہندوستان آرہے تھے، اور مختلف قوموں کے اختلاط سے ایک نئی زبان کی تشکیل ہورہی تھی، اس زبان کو امیر خسرو نے ہندوی کا نام دیا، یہ ہندوی بعد میں ریختہ کہلائی اور پھر اردو بن گئی اور انیسویں صدی کے وسط میں دہلی کے قلعہ میں پہونچ کر اردو معلی کہلائی، اور جب محمد تغلق نے پایہ تخت تبدیل کیا اور دولت آباد کو اپنا در السلطنت بنایا تو پھر یہ زبان دکن میں پروان چڑھی ، اور دکنی کہلائی، دکن میں ۱۷۰۷ء میں ولی دکنی جیسا شاعر اردو زبان میں پیدا ہوا، اور جب دکن کی اردو غزلیں دہلی پہونچیں تو وہاں فارسی شاعری کا چراغ ٹمٹما رہاتھا، ولی کی غزلوں نے اردو شعراء کو ایک نیا ولولہ عطا کیا، اور پھر میر تقی میر اور مرزامحمد رفیع سودا جیسے شاعر پیدا ہوئے۔
امیر خسرو کو اردو زبان کا پہلا شاعر یا باوا آدم کہنا چاہئے، ان کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ’’خالق باری ‘‘یہ کتاب نظم کی کتاب ہے، اور ایک لغت بھی ہے، اور ہندی اور فارسی والوں کے لئے ترجمہ کی گائڈ بک بھی ہے، یہ کتاب اس شعر سے شروع ہوتی ہے، جس میں فارسی اردو یا ہندوی میں ترجمہ ہے،
بیا برادر ، آؤرے بھائی
بنشیں مادر ، بیٹھ رے مائی
حضرت امیر خسرو فارسی کے بھی شاعر تھے اور اردو یا ہندوی کے بھی شاعر تھے، اور انھوں نے دونوں زبانوں کو ملا کرکے بھی بہت خوبصور ت اشعار کہے ہیں مثال کے طور پر یہ دو شعر دیکھئے
زحالِ مسکیں مکن تغافل برائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں
شبان ہجراں دراز چوں زلف وروز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
امیر خسروسے منسوب کچھ پہیلیاں بھی ہیں ، چونکہ وہ عوام کی زبان میں گفتگو کرتے تھے تو لوگوں نے بھی ان کے گیت اور راگنیاں خوب خوب گائیں، اور صدیاں گذر جانے کے بعد ان کے بول اب بھی دلوں میں محفوظ ہیں، اور زبانوں پر جاری ہیں ، یہ صوفی شاعر اپنے اشعار کے ذریعہ صدیاں گذر جانے کے باو جود ابھی تک زندہ ہے۔
Prof. Mohsin Usmani
mohsin osmani

Share
Share
Share