بونال : تلنگانہ کا خصوصی تہوار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

bonalu بونال
بونال : تلنگانہ کا خصوصی تہوار

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘
شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

ہندوستان ایک بڑا ملک ہے۔یہاں تہذیبی‘ مذہبی‘ سماجی ‘ تہواروں کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ ہندوستان میں جتنے بھی تہوار‘ میلے یا تقاریب منائے جاتے ہیں۔ ان کی اپنی تاریخ ہے۔ ہندوستان میں تقریباً سبھی تہوار چاہے وہ بڑے یا چھوٹے ہوں موسموں کی بنیاد پر منائے جاتے ہیں۔ اسی طرح تلگو بولنے والے لوگوں میں بونال کا تہوار بہت ہی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار خاص کر آشاڑھ اور ساون کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ ساری دھرتی ہری بھری دکھائی دیتی ہے۔ گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دھرتی نے ہری چیز پہن لی ہو۔ اسی زمانے میں آندھرا اور تلنگانہ کی سہاگن عورتیں لڑکیاں بونال کے اس تہوار کو بڑے ہی احترام کے ساتھ مناتی ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بونم یہ تلگو زبان کا واحد لفظ ہے۔ یہ تہوار اجتماعی طور پر عورتیں مناتی ہیں۔ اس لئے اسے بونال کہتے ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بونم کیا ہوتا ہے۔ دراصل بونم ایک خاص قسم کی کھچڑی ہوتی ہے‘ جو دال چاول اور ہلدی ملاکر پیتل کے برتن میں پکائی جاتی ہے۔ بونم کے پکنے پر برتن کو نیچے اتار کر صاف کرلیا جاتا ہے اور برتن کو چاروں طرف سے ہلدی اور نیم کے پتوں سے برتن کو سجایا جاتا ہے۔ اس پر ایک کنچلر رکھا جاتا ہے۔ جن میں دیپک وغیرہ روشن کئے جاتے ہیں۔ خاص کر یہ تہوار انگریزی ماہ کے لحاظ سے جولائی میں ہی اتوار کے دن منایا جاتا ہے۔ اس دن صبح سویرے عورتیں جلدی اٹھ کر سر سے نہاتی ہیں اور اپنے گھر میں دیوی کی پوجا کرکے محلہ کے پوچما کے دیوی گڑی(مندر) کو جاتی ہیں۔ اپنے اپنے سروں پر تیل کا کلش (برتن) رکھ کر آہستہ آہستہ باجے گاجے کے ساتھ ’’اماں پوچما کا پار ڈماہ (ہے ماں ہماری رکھشا کرو ہمیں خوش رکھو کا گیت گاتی ہوئی دیوی مندرکو پہنچتی ہیں۔
پہلے زمانے میں بونالوں کے موقع پر جانوروں خاص کر بکری‘ بھینس‘ کھلگا‘ مرغی وغیرہ کو بھینٹ کیا جاتا ۔ مگر عصر حاضر میں جانوروں کی بھینٹ کا طریقہ رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اتر بھارت میں اس تہوار کو کسی دوسرے طریقے سے منایا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں بھی چیت کے مہینے میں گوری ماں کی پوجا کی جاتی ہے۔ ایک دن قبل پکوان پکایا جاتا ہے اور دوسرے دن اس پکوان کو دیوی کے سامنے بھوگ لگایا جاتا ہے۔ اسے باسوڑہ کہتے ہیں۔ باسوڑہ کے معنی ٹھنڈا کے ہیں۔ دوسرے دن اسی باسوڑہ پکوان کو کھانا نیک مانا جاتا ہے۔ بونالوں کے دوسرے دن جلوس نکالا جاتا ہے۔ یہ طریقہ تقریباً ۱۹۴۵ء سے شروع ہوا ۔ اس کے قبل بونال کی رات کو ہی بلی پگیا نکلتا تھا۔ اب بلی گمپا کی جگہ گول کدو وغیرہ بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔ دوسرے دن کے جلوس نکالنے میں مرحوم بی وینکٹ سوامی مشہور آریہ سماجی لیڈر نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔ پرانے فرسودہ رواجوں میں آجکل تبدیلی لائی گئی ہے۔ یہ جلوس شہر حیدرآباد کے تمام چھوٹے بڑے دیوی کے مندروں سے نکل کر حیدرآباد کے شاہ جہاں محمد قلی قطب شاہ کے تاریخی عمارت چار مینار پر اکٹھا ہوتے ہیں جس کا سواگت ریاستی گورنر یا چیف منسٹر یا کوئی رہنما کرتے ہیں۔ جلوس میں کئی قسم کی جھانکیاں ہوتی ہیں۔ پوتراج کا اپنا مقام ہوتا ہے۔ شہر حیدرآباد کی تاریخی عمارت چارمینار پرلوس کا سواگت ہونے کے بعد یہ جلوس مچکندہ پل (نیاپل) پر وسرجن ختم ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہر حیدرآباد گنگا جمنی تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے۔ اس تاریخی عمارت پر ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے جلوس و تقاریب کا بھی سواگت کیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ بونال کا تہوار بدی پر نیکی کی فتح کا ہے۔ آج کل بونالوں کے تہوار میں مسلم بھائی بھی حصہ لے رہے ہیں۔ اپنے اپنے دوکانوں کو سجاتے ہیں۔ مختلف محلہ جات میں بونال کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ جن کے ذریعہ سماجی‘مذہبی‘ تحریری و تقریری پروگراموں کا انعقاد عمل میں آتا ہے۔ بونالی تہوار کو خیر سگالی و بھائی چارگی کا پیام دیتا ہے۔
ریاست تلنگانہ کے قیام کے بعد بونال کو ریاستی تہوار کا درجہ دیاگیاہے اور اسے بڑے پیمانے پر منایا جانے لگا ہے ۔
Md.Razi Uddin Moazzam
محمد رضی الدین معظم

Share
Share
Share