اسلام کا تصورِعبادت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share

mohiuddin habibi
اسلام کا تصورِعبادت

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

اسلام کے تصورِ عبادت کے تعلق سے بہت سے لوگ بشمول چند مسلمان، غلط فہمی کا شکار ہیں۔ عام طور سے عبادت کا مطلب ، رسمی عبادات جیسے روزہ ، نماز اور خیر خیرات ہی سمجھا جاتا ہے۔ عبادت کا یہ محدود تصور تصویر کا صرف ایک ہی رخ پیش کرتا ہے، جب کہ روایتی اصلاح کے مطابق ’’اسلام‘‘ میں عبادت کا تصور ایک جامع تصور ہے، جو ایک فرد کی ساری زندگی کو محیط ہے۔ دوسرے الفاظ میں ’’عبادت میں ایک شخص کے وہ تمام ظاہری اور باطنی اعمال داخل ہیں جو خدا کی نظر میں پسندیدہ ہیں۔‘‘ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ہمارا ہر قول و فعل عبادت کے مفہوم میں داخل ہے۔‘‘ یقیناًاس میں بدنی عبادت جیسے نماز، روزہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ ہمارا ایمان و یقین، سماجی خدمات اور انسانی برادری کے لیے انجام دی جانے والی ہر بھلائی اور فلاح و بہبود کے کام بھی شامل ہیں۔

اسلام فرد کو ایک مکمل اکائی کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے ایک انسان مکمل اعتبار سے ’’بارگاہِ الٰہی‘‘ میں اپنے آپ کو سپرد کردے، جیسا کہ قرآن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فرمائیں کہ میری نماز ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس ذاتِ وحدہ کا کوئی شریک نہیں، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ’’مسلمین‘‘ یعنی فرمانبرداروں میں رہوں۔‘‘ (۶:۱۶۲۔۱۶۳)
اس طرح کی ’’سپردگی‘‘ اور فرمانبرداری‘‘ کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک بندہ کے تمام اعمال اور افعال ، کامل طور پر الٰہی احکامات کی مطابقت ہی میں انجام پاتے ہیں۔ اسلام، ایک نظامِ حیات ہونے کی حیثیت سے اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مذہبی یا غیرمذہبی ہر معاملہ میں اسلامی تعلیمات کی اتباع ہی میں اپنی زندگی کو ڈھالیں۔ یہ بات ان لوگوں کو نہایت عجیب لگے گی جو ’’مذہب‘‘ کو ’’اللہ‘‘ اور ’’بندہ‘‘ کے درمیان ایک ’’خانگی معاملہ‘‘ خیال کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ چند مخصوص عبادات کے دائرہ کے باہر اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ درحقیقت اسلام ایسی عبادات کو جو میکانیکی انداز سے انجام دی جاتی ہیں، کوئی اہمیت نہیں دیتا تاآنکہ اس کی تاثیر باطنی زندگی میں محسوس کی جائے۔ قرآن مجید ، ایمان والوں اور اہل کتاب سے خطاب کرتے ہوئے ’’ تبدیلئ قبلہ‘‘ کے تعلق سے یوں مخاطب ہے:
’’کمال یہ نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو، لیکن (اصلی) کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور تمام آسمانی کتابوں پر اور پیغمبروں پر اور مال خرچ کرتا ہو اللہ کی محبت میں ، رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں اور مسافریوں کو اور سوال کرنے والوں کو اور (غلاموں کو) آزاد کرانے میں اور نماز کی پابندی رکھتا ہو اور زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہو اور جو اشخاص اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہوں جب عہد کریں اور صبر کرنے والے ہوں تنگ دستی میں اور بیماری میں اور قتال میں، یہ لوگ ہیں جو حقیقی (کمال کے ساتھ) ہیں اور یہی لوگ ہی سچے متقی کہے جاسکتے ہیں۔
(سورۂ بقرہ: ۱۷۷)
مذکورہ بالا آیات میں جن ’’اعمال‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے وہ تمام ’’اعمالِ صالحہ‘‘ ہیں، جو ’’عبادت‘‘ کا ایک جزو ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ’’ایمان‘‘ کے باریمیں بتلایا ہے، جو ’’عبادت کی بنیاد ہے اور جس کی کوئی ۶۰ سے زائد شاخیں ہیں اور سب سے اعلیٰ ترین بات ’’توحیدِ ا لٰہی‘‘ ہے ، یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور (ایمان کا) سب سے کم ترین درجہ یہ ہے کہ عام راستہ سے کسی رکاوٹ یا کوڑا کرکٹ کو دور کردیا جائے۔ کسی بھی اچھے کام کو اسلام میں عبادت کا درجہ دیا گیا ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی محنت و مشقت کے بعد تھکاوٹ کے ساتھ رات کی آغوش میں چلا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔‘‘ (یعنی مزدور کی تھکن بھی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح علم کی تحصیل بھی عبادت کا ایک اعلیٰ درجہ متصور ہوتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ ’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے ایک (مذہبی) فریضہ ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث نبویؐ ہے کہ علم کی تحصیل میں ایک گھنٹہ صرف کرنا ستر سالوں کی عبادت سے افضل ہے۔ سماجی فلاح و بہبود اور امداد باہمی ، اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اختیار کیے جائیں تو وہ عبادت کا ایک حصہ بن جاتے ہیں، جیسا کہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’اپنے کسی دوست کا ایک مسکراہٹ کے ساتھ استقبال صدقہ (نیکی) ہے۔ کسی شخص کے لیے جانور پر ’’بوجھ‘‘ کے لادنے میں مدد کرنا بھی صدقہ (نیکی) ہے اور اپنے پڑوسی کے مشکیزہ میں پانی بھر دینا بھی صدقہ (نیکی) ہے۔
یہاں تک کہ کسی شخص کا کوئی تفویض کردہ کام کرنا بھی عبادت تصور کیا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی بتلائی ہے کہ جو شخص بھی اپنے اہل خاندان کے لیے مال خرچ کرتا ہے وہ بھی ایک قسم کی نیکی ہے۔ اگرچہ وہ اس کو قانونی اعتبار سے حاصل کرتا ہے تب بھی اس کو انعامات سے نوازا جائے گا۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنا بھی عبادت میں داخل ہے چہ جائیکہ اپنی بیوی کے منہ میں ایک نوالہ ہی ڈال دیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسی تفریح بھی جو ارشاداتِ نبویؐ کی ہدایات کے مطابق انجام دی جائے اس کو بھی عبادت کا درجہ مل جاتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے یہ تک فرمایا ہے کہ ’’اپنی بیویوں کے ساتھ ہم بستری کرنے والا بھی نوازا جائے گا۔ اس پر صحابہؓ نے حیرت و استعجاب کے ساتھ پوچھا : ’’کہ جس کام میں ہم اپنی نفسانی خواہش پوری کرتے ہیں وہ کیسے نیکی کا موجب ہوسکتی ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’فرض کرو اگر تم غیرقانونی طریقہ سے (یعنی زنا کے ذریعہ) اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہو تو یہ کیا موجبِ سزا نہ ہوگا ؟‘‘ تب صحابہؓ نے جواب دیا : ’’ہاں ! ضرور سزا ملے گی‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس لیے جب تم شرعی اعتبار سے اپنی بیویوں سے ہم بستری کروگے تو اس کی جزاء ملے گی۔ دوسرے معنوں میں یہ بھی گویا عبادت میں داخل ہے۔ اس طرح اسلام ’’جنسی خواہش کی تکمیل کو کوئی برائی کی بات نہیں سمجھتا کہ اس کو ترک کردیا جائے۔ یہ یقیناًایک برائی اور گناہ کی بات ہے، اگر اس کو ازدواجی زندگی کے علاوہ کہیں اور انجام دی جائے۔ مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ اسلام کے تصورِ عبادت ایک جامع تصور ہے، جس میں کسی فرد کا ہر مثبت اور نافع کام شامل ہوتا ہے، بلکہ ایسا نظامِ حیات ہے جو انفرادی ، سماجی، معاشی ، سیاسی اور روحانی ، غرض ہر سطح پر انسانی زندگی کو نظم و ضبط سے آراستہ کرتا ہے، کیوں کہ اسلام فرد کی زندگی سے متعلق چھوٹی سی چھوٹی بات کے لیے ہر سطح پر رہنمائی و رہبری کرتا ۔ اس طرح مندرجہ بالا نکات کی اتباع ، دراصل اسلامی ہدایات کی اتباع قرار پاتی ہے۔ یہ بڑی حوصلہ افزاء بات ہے کہ جب کوئی اس بات کا احساس کرتا ہے کہ اس کے تمام افعال کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نظر میں عبادت کا درجہ عطا ہورہا ہے ’’عبادت کا یہ تصور، ہر فرد کو اللہ کی رضامندی کا طالب بنانا چاہیے اور اسے ہر کام پورے اخلاص کے ساتھ انجام دینا چاہیے، چاہے وہ تنہا ہو یا پھر اس کو کوئی دیکھ رہا ہو، کیوں کہ ایک دائمی ہستی ، اس کے ہر عمل کی مسلسل بلاوقفہ نگرانی کررہی ہے، جو ’’اللہ بصیر بالعباد‘‘ ہے۔ جب ہم غیررسمی عبادت کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مقررہ عبادت کی اہمیت کو اور قدر و قیمت کو نہ گھٹائیں۔ حقیقتاً مقررہ عبادات (فرائض، واجبات،سنن وغیرہ) اگر صدقِ دل سے ادا کی جائیں تو وہ انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کا ضامن بن جاتی ہیں اور ہم ہر میدان میں ربانی ہدایات کے مطابق زندگی گذارنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ مقررہ عبادات میں نماز، دو کلیدی وجوہات کی بنیاد پر اہمیت کی حامل ہے۔ اوّل تو یہ ایک مؤمن کا نشانِ امتیاز ہے۔ دوم یہ کہ ایک فرد کو دن میں پانچ مرتبہ خالق کائنات کے سامنے حاضر ہونے کے باعث فسق و فجور اور فحش کاموں سے نفرت ہونے لگتی ہے، جب کہ وہ ’’راست رابطہ‘‘ کے ذریعہ اپنے ’’عہدِ بندگی‘‘ کی تجدید کرتا رہتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے بار بار رہنمائی کا طالب بن جاتا ہے۔ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں ’’صراط مستقیم‘‘ کی رہبری فرما۔‘‘ (قرآن) (۱:۵۔۶)
درحقیقت نماز، یقین و ایمان کا اوّلین عملی اظہار ہے اور ایک مؤمن کی صلاح و فلاح کے لیے قابل ترجیح بنیادی شرط ہے۔ ’’وہی ایمان والے کامیاب ہیں جو اخلاص کے ساتھ اپنے اللہ کو پکارتے ہیں۔ (عبادت کرتے ہیں‘‘ (۲۳: ۱۔۲)
اسی حقیقت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے: ’’جو لوگ نماز کو بڑی احتیاط ، خلوص اور پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں ان کے لیے ایک نور ہوگا ، جو بروزِ قیامت ان (نمازیوں) کی نجات اور ایمان کا باعث ہوگا۔‘‘ صلوٰۃ کے بعد زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ستون ہے۔ قرآن کریم میں کئی جگہ صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا ایک ساتھ ذکر آیا ۔ نماز کی طرح زکوٰۃ بھی ایمان کے اظہار کی ایک صورت ہے، جو ایک مسلمان میں اس بات کا ایقان پیدا کرتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی اس کائنات کی ہر شئے کے مالک ہیں اور جو کچھ بندوں کی ملکیت ہے وہ صرف اس کی (اللہ کی) امانت کے نگہبان ہیں اور اس کے احکامات کے مطابق ہی خرچ کرتے ہیں۔ ’’اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور اسی طرح خرچ کرو جیسا کہاس نے (اللہ نے) تمہیں ایک امانت دار بنایا ہے۔‘‘ (۵۷:۷)
اس طرح زکوٰۃ بھی ایک پاکیزہ عمل ہے، جو عبادت ہی کا درجہ رکھتا ہے اور جو ایک مؤمن کو اپنے مالک سے قربت عطا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زکوٰۃ ایک ایسا طریقۂ کار ہے جس کے ذریعہ دولت کی دوبارہ تقسیم عمل میں آتی ہے، تاکہ مختلف گروہوں اور جماعتوں کے درمیان موجود فرق کو کم کیا جائے۔ یوں زکوٰۃ، سماج کے استحکام میں بہت اہم حصہ ادا کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں زکوٰۃ، خودغرضیوں سے پاک کرکے ایک امیر کے ذہن کی تطہیر کرتی ہے اور اسی طرح ایک غربت کے طبقاتی نفرت کو فروغ دیتے ہیں۔ یہی وہ ممکنہ ماحول ہے جس سے اخوت اور یکجہتی کے چشمے امڈتے ہیں۔ یہ یکجہتی اور استحکام کسی امیر شخص کی سوچ کا آئینہ دار نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بنیاد ایک ایسے استحقاق پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہے کہ اگر امیر اس کا انکار کرے تو وہ زکوٰۃ کو ضرورتاً جبری طور پر بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔

Share

One thought on “اسلام کا تصورِعبادت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرمحی الدین حبیبی”

Comments are closed.

Share
Share