کوئل KOEL : ایک خوش گو پرندہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی

Share

550px-Australian_Koel
ایک آواز جو دلوں میں امنگ بھر دیتی ہے
کوئلKOEL..
وہ پرندہ جس کے بچوں کو کوّا (Crow)پالتا ہے

ڈاکٹرعزیز احمد عرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375

دنیا میں کچھ ایسے پرندے بھی پائے جاتے ہیں جن کی آواز اور نغمگی سننے والے کو مسحور کردیتی ہے اورانسان نغموں کی دنیا کی لطافتوں اور نیرنگیوں میں کھو جاتا ہے ۔ان پرندوں کی یہ دلکش اور شیریں آوازیں جب انسان کی سماعتوں سے ٹکراتی ہیں تو نہ صرف اس کے ذہن و دل کو شادابی عطا کرتی ہیں بلکہ اس کی روح کو بھی بالیدہ بنا دیتی ہے۔ایسی ہی خوبصورت آواز رکھنے والے ایک پرندے کا نام ہے ’’کوئل‘‘ Koel۔ یہ ہندوستان کا کافی معروف پرندہ ہے۔اس پرندے کا مشہور نغمہ ’’ کوؤ۔۔کوؤ۔۔کوؤ ۔۔‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اسی آواز کی وجہہ سے اس کا نام’’ کوئل‘‘ ہوا ،

یہ دراصل سنسکرت کا لفظ ہے جس کو اس کی آواز سے اخذ کیا گیا اور ’’کوکیلا‘‘ نام دیا گیا۔کوئل کا سائنسی نامEudynamys scolopaceus ہے اس کو ایشین کوئل بھی کہا جاتا ہے۔اس کو تیلگو میں بھی’’ کوکیلا‘‘ہی کہا جاتا ہے۔کوئل Cucoliformes سے تعلق رکھنے والا پرندہ ہے اس کا خاندان Cuculidae ہے اس میں کوئل کے علاوہ کوکو،Roadrunners وغیرہ شامل ہیں ۔اس پرندے کا تذکرہ ہندوستانی شاعری میں زیادہ ہوتا ہے۔اردو شاعری میں کوئل کی آواز یعنی کوئل کی ’’کوک ‘‘کا ذکر زیادہ ہوتا ہے،یونانی تہذیب میں Heraدیوی کے لئے یہ پرندہ اہمیت کا حامل ہے۔یونانی مذہبی کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے ہندوستانی تہذیب میں بھی یہ پرندہ ’’کام دیوا‘‘ کے لئے مقدس رہا ہے۔ ویدوں(Vedas)میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔
جب خوش الحان پرندوں اور ان کی آوازوں کی گفتگو چلی ہے تو یہاں یہ بتاتا ہوا آگے بڑھوں کہ سائنسدانوں نے اپنی تحقیق کے مطابق دنیا کے مختلف پرندوں کی آواز ، نغمگی اور لحن کا جائزہ لینے کے بعد دس ایسے پرندوں کی فہرست مرتب کی ہے جن کی آواز انسانی دل میں مٹھاس بھر دیتی ہے۔
محقیقین نے دنیا کی سب سے زیادہ نغمگی رکھنے والی چڑیا کی حیثیت سے بلبل کو اول درجہ دیا ہے اگر دل لگا کر کوئی اس کو سننے لگے تو یہ آواز نجانے انسان کو کہاں کہاں کی سیر کروادیتی ہے۔دوسرے نمبر پر ان سائنسدانوں نے ہندوستانی چڑیا ، پانڈیچری کی ریاستی چڑیا کوئل کو رکھا ہے، اس کی آواز کی نغمگی اور خوش الحانی سننے سے تعلق رکھتی ہے اور آج کا میرا مضمون اسی چڑیا کی دور حیات اور اس کی آواز کی نزاکت پر مبنی ہے۔تیسرے نمبر پرنر یعنی Male ’’کناری‘‘ Canary چڑیا ہے جو تنہائی میں چہچہاتی ہے تو ماحول میں اس کی آواز اُداس دلوں کو چہکا دیتی ہے اور اس کی مادہ بے چین ہوکر سیدھے آکر نر سے بغلگیر ہوجاتی ہے۔یہ قدرت ہے جس نے ان میں یہ عجیب خصوصیت رکھی ہے یہ چڑیا اس وقت اپنا چہچہانا بھول جاتی ہے جب اس کے پہلو میں مادہ ہوتی ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود یہ گانا تو کجا سامعین کو اپنی آواز تک سنانا پسند نہیں کرتی۔ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر جاندار اور ہر پرندے کی نغمگی اپنے مخالف جنس کو بلانے کے لئے ہی استعمال ہوتی ہے، خوبصورت سیٹی جیسی آواز نکالنے والے پرندے Whistling Cockatiel کو ان محقیقین نے چوتھا نمبر دیا ہے Whistling Cockatiel پرندے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت کئی قسم کی آواز نکال سکتا ہے،علاوہ اس کے اور ماحول میں سنائی دینے والے گانوں اور گونجنے والی مختلف آوازوں کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور ان تمام آوازوں کو ایک مخصوص آہنگ میں لحن کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔پانچویں نمبر پر ان محقیقین نے Malabar Whistling Thrush کو رکھا ہے جس کی آواز میں عجیب قسم کی جاذبیت پائی جاتی ہے۔اس کی آواز کا اتار چڑھاؤ دل نشین نغمگی پیدا کرتا ہے۔ہلکے سروں میں شروع ہونے والی آواز رفتہ رفتہ وجدان آمیز تیزی کی طرف بڑھنے لگتی ہے اور انسان کا دلاس آواز کی لے پر ہچکولے کھانے لگتا ہے جیسے کوئی کشتی ہے جو پانی کے تموج کے ساتھ ساتھ اٹکھیلیاں کرنے لگی ہے۔ Veery ایک خوبصورت پرندہ ہے جس کی آواز ایک جادو ہییہ سحر انگیز آواز ہر لمحہ اپنی کیفیت بدلتی رہتی ہے۔کبھی کبھی تو یہ خود اپنی آواز کی نقل کرنے لگتی ہے اس کی آواز میں ایک گول گھماؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے جو اپنے اندر ابدی مٹھاس رکھتی اورجب آواز کی پاکیزگی بڑھنے لگتی ہے تو یہ کراماتی دائرے میں داخل ہو کر شیریں تقدس حاصل کر لیتی ہے۔ساتویں نمبر پر ان سائنسدانوں نے Mockingbird کو رکھا ہے جو عام طور پر امریکہ میں پایا جانے والا پرندہ ہے۔جب یہ پرندہ آواز کرتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی آواز کا نغمہ ا بھی ختم نہیں ہوا اور اس کے صوتی آلے نے دوسرے نغمے کا آغاز کردیا ۔اسی لئے اس کی آواز کا پہلا حصہ اس کی آواز کے دوسرے حصے پر منطبق ہونے کی کوشش کررہا ہو ۔اسی لئے اس کے نغمے میں ایک گونج کی کیفیت سنائی دیتی ہے ۔ اس پرندے کی آواز سنیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نغمے کو سیٹی کی شکل میں گول گھما کر چھوڑدیا گیا ہے اور وہ آواز آہستہ آہستہ فضاؤں میں سفر کرتی ہوئی اپنی آواز کی ہیت بدلتی جاتی ہے اور لحن کی خوبصورتی کے اعلیٰ درجے پر پہنچ جاتی ہے۔گلابی سینہ رکھنے والی چڑیا Rose-breasted Grosbeakکو ان افراد نے آٹھویں نمبر پر رکھا ہے پہلے اس پرندے کا ’’نر’’ اپنی مادہ کو بلانے کے لئے نغمے کا آغاز کرتا ہے جس کے بعد اس کے سُر میں مادہ بھی سُر ملانے لگتی ہے اور یہ نر ، مادہ مل کر ایک سماں باندھ دیتے ہیں جو سننے والوں کی دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کردیتا ہے۔نویں نمبر پر جنوبی امریکہ کا باتیں کرنے والا طوطا ہے جس کا نام Orange-winged Amazonہے۔یہ پرندہ آواز کی کامیاب نقل اتارتا ہے ،سیٹی بجاتا ہے مختلف گانے بھی گاتا ہے اور عجیب و غریب آوازیں بھی نکالتا ہے اور دسویں نمبر پر Common Loonہے جوشمالی امریکہ میں کثرت سے پایا جاتا ہے اس کی آواز سننے پر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دور وادیوں میں آواز گونج کر پلٹ رہی ہے۔بڑی دلکش آواز جب سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو لگتا ہے پورے وجود میں مٹھاس دوڑ گئی۔تحقیق اور تجزئیے میں عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے اسی لئے سائنسدانوں نے ایک دوسرے گروپ نے Song thrush(سمنۃ مطربہ)یعنی Turdus philomelos یوریشیا کی رہنے والی چڑیا کی آواز کو دنیا کی سب سے خوبصورت آواز قرار دیا ہے۔لیکن ہر تحقیقی ادارے نے بلبل کو پہلا یا دوسرا نمبر ضرور دیا ہے اور اپنی فہرست میں لازماً کوئل (Koel)کو شامل کیا ہے۔
کوئل کالے رنگ کا معروف پرندہ ہے۔ ’’نر’’کوئل(Male Koel) گہرے چمکدار نیلگوں کالے رنگ کا پرندہ ہے جس کی چونچ زردی مائل سبز ہوتی ہے اور آنکھیں سرخ ہوتی ہیں جو تقریباً کوّے کے سائز کا ہوتا ہے لیکن کوّے کے مقابلے اسکا جسم پتلا ہوتا ہے اور اس کی دُم لمبی ہوتی ہے،مادہ کوئل کا رنگ بھی کالا ہوتا ہے لیکن اس پر ہلکے سفید رنگ کے دھبے یا لکیریں پائی جاتی ہیں۔اس پرندے کی لمبائی 12تا 18انچ ہوتی ہے،اس کا وزن دو سو سے تین سو گرام کے درمیان ہوتا ہے۔کوئل کی غذا نرم پھل جیسے انجیر، گلّر، کیلے وغیرہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پرندہ ، کیڑے مکوڑے (Worms)،کارٹر پلّر اور کبھی کبھی دوسرے پرندوں کے انڈے اور بیریز وغیرہ بھی استعمال کرتا ہے
یہ پرندہ ہمیشہ درختوں پر زندگی گزارتا ہے عام طور پر پرندے کو زمین پر اترتے ہوئے نہیں دیکھا جاسکتا۔ نرکوئل موسم بہار میں صبح کی اولین ساعتوں ہی سے اپنی آوازکا جادو جگانا شروع کر دیتااس کی آواز دراصل’’ مادہ‘‘کو بلوانے کے لئے بھجوایا جانے والا پیغام ہے جس کا سلسلہ شام کے آخیر حصے تک چلتا رہتا ہے۔مادہ کی آواز میں وہ شیرینی اور نزاکت نہیں پائی جاتی بلکہ مادہ کوئل کی آواز صرف ’’ کِیک ۔۔ کِیک ۔۔ کِیک ۔۔ ‘‘ تک محدود ہوتی ہے ۔ جب کہ ’’نر‘‘ کوئل کی ’’کوک‘‘ میں مادہ کو رجھانے کی صلاحیت، ایک امنگ ،ایک مٹھاس اورایک حوصلہ پایا جاتا ہے۔کوئل کا یہ نغمہ دراصل اس کی بامعنی گفتگو کا انداز ہے ۔ سائنسدانوں نے بعد از تحقیقات یہ ثابت کیا ہے کہ پرندوں میں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کار جحان پایا جاتا ہے ، پرندے بامعنی گفتگو کرتے ہیں اور بخوبی اپنی بات مقابل تک پہنچاتے ہیں۔صرف کوئل تک موقوف نہیں بلکہ بیشتر پرندے خوش گلوہوتے ہیں۔ان کی آواز سریلی اور دل کو لبھانے والی ہوتی ہے۔ ان کے دلکش راگ کو سن کر مادہ پرندے نر کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔اس طرح پرندوں کا یہ گانا ، یہ راگ ونغمہ چڑیا کو رجھانے اور انہیں قریب بلانے کے انداز ہیں تاکہ کورٹ شب انجام پاسکے، اسی لئے بعض سائنسداں اس کو نغمہ محبت قرار دیتے ہیں یعنی کوئل کی کوک ہو یا بلبل کا ترانہ ایک اشارہ ہیجس میں خوش الحان چڑیا نہ جانے کیاکیا عہدو پیمان بھردیتی ہے کہ اس کی جانب مادہ کی توجہہ مبذول ہوجائے اور نسل کے تسلسل کاذریعہ چلتا ر ہے۔موجودہ دور میں پرندوں کی اس رَموزی زبان کو حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر مستقبل قریب میں یہ ممکن ہوجا ئے توپھر ہم مخصوص صوت پیما (Sonogram)کی مدد سے پرندوں کی خوش الحانی یعنی پراسرار گفتگو کو سمجھ سکیں گے۔برگزیدہ نبیؑ حضرت سلیمانؑ پرندوں کی گفتگو سمجھتے تھے جو میرے نزدیک اس بات کا ثبوت ہے کہ پرندوں کی خوش الحانیاں بے معنی نہیں ہوتیں۔علاوہ اس کے اگر ہم دوسرے انداز سے سوچیں تو پرندوں کی دلکش آواز ممکن ہو پرندوں کی اپنے خالق کے حضور عبادت کا ایک انداز ہو۔ یہ آوازیں ان کی تسبیح ہوں جس سے ہم واقف نہیں ۔ حضرت داؤدؑ کو حق تعالیٰ نے ظاہری کمالات میں سے ایک کمال حسن صوت کا بھی عطا فرمایا تھا۔ جب وہ زبور پڑھتے تو پرندے ہوا میں ٹھہر نے لگتے اور ان کے ساتھ تسبیح کرنے لگتے۔ ہر مخلوق کی عبادت اور تسبیح کا طریقہ جدا گانہ ہے جس سے وہ مخلوق بخوبی واقف ہے۔ خالق ہی نے تمام مخلوقات کو تسبیح کے طریقے سکھائے ہیں جس سے ہم انسان واقف نہیں، پرندوں کا تسبیح میں شریک ہوجانابہ تسخیر خداوند ی بطور معجزہ ہے اور معجزہ وہی ہے جو عقل کو عاجز کردے۔ اس لئے یہ ضروری نہیں کہ معجزہ کا جس شے پرراست اثر پڑرہا ہے وہ اپنے اندرکوئی قدرت رکھتی ہے یانہیں بلکہ یہاں اہم معجزہ کو صادر کرنے والی قوت ہے جو بے جان میں بھی زندگی پیدا کردیتی ہے، یہی قوت مالک وخالق کائنات ہے اسی خالق نے کل کائنات میں اپنی عادات کو جاری فرمادیا ہے اور ان ہی عادات خداوندی کو انسان معمولات دنیا کا نام دیتاہے حالانکہ ہر معمول خداکی قدرت کا مظہر ہے۔ اسی لئے اللہ فرماتا ہے کہ’’ وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتے ہیں اور یہ سب جو کچھ کررہے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے‘‘ (النور) ۔ ’’انسانو۔ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔‘‘(الاسراء)۔
دنیا میں انسانوں کی آبادیاں زائد از چالیس پچاس ہزار برس سے موجود ہیں اور کوّے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ انسانی آبادیوں کے قریب آکر بس جاتا ہے اور جب کوّے کہیں آکر آباد ہوجاتے ہیں تو وہاں کوئل از خود پہنچ جاتی ہے اور خدا نے کوئل میں ایک عجیب صفت رکھی ہے کہ یہ پرندہ اپنا گھونسلہ نہیں بناتا ۔بلکہ یہ مختلف مقاصد کے لئے مختلف پرندوں کے گھونسلے استعمال کرتا ہے جیسے جب یہ پرندہ انڈے دینے کے در پر پہنچ جاتا ہے توعام طور پر دوسرے پرندوں بالخصوص ’’کوّے‘‘ کا گھونسلہ استعمال کرتا ہے اس عمل کو Brood Parasitismکہا جاتا ہے۔ یعنی کوئل اپنے انڈے کوّے کے گھونسلے میں دیتی ہے جو ایک قدرتی طریقہ کار ہے، عام طور پر کوئل ایک گھونسلے میں ایک یا ایک سے زائد انڈا دیتی ہے ،تقریباً 12تا 20انڈوں تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے،کوئل یہ انڈے اُس وقت دیتی ہے جبکہ کوّا اپنے گھونسلے میں نہیں ہوتا۔کوئل کے انڈوں کو کوّا سیتا ہے یعنی کوئل کے انڈے کوّے کے انڈوں کے ساتھ حاضلہ پاتے ہیں یعنی Incubate ہوتے ہیں ۔کوئل اپریل سے اگسٹ کے درمیان میں انڈے دیتی ہے،کوئل کے انڈے کسی قدر چھوٹے ہوتے ہیں لیکن کوّا یہ فرق محسوس نہیں کر سکتااور یہاں خدا کی نشانی اور اس کی مصلحت ملاحظہ فرمائیے کہ کوّے کا بریڈنگ کا زمانہ بھی اپریل سے اگسٹ ہی ہوتا ہے۔ اس طرح کوئل اپنا گھونسلہ نہ ہونے کے باوجود بھی ان مراحل سے بآسانی گزرجاتی ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ ۔کیا۔کوّا اپنے اور کوئل کے انڈوں میں تمیز نہیں کرسکتا ،اگر اس میں صلاحیت ہو بھی تو اس معاملے میں وہ خدا کے ودیعت کردہ احکامات کا پابند ہے اور یہی جبلت ہے جو اس پرندے کے خون میں قدرت کا قانون بن کر دوڑ رہی ہے۔یہاں ایک بات مجھے اچھنبے میں ڈال دیتی ہے کہ قدرت کوّے کے گھونسلے میں پہلے کوئل کے انڈوں سے بچے نکالتی ہے، پہلے کوئل کے انڈے Hatchہوتے ہیںیعنی کوئل کے بچے انڈے توڑکر باہر آتے ہیں اور جب کوئل کے بچے اُڑنے کے قابل ہوجاتے ہیں تو کوّے کے انڈے Hatchہونا شروع ہوتے ہیں میری نظر میں یہ انتظام اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ کوئی قوت ہے جو اس نظام کو چلا رہی ہے اورشاید اسی کو قدرت کہا جاتا ہے۔قدرت نے کوئل کے پیدا ہونے والے بچوں خواہ وہ ’’نر‘‘ ہو یا ’’مادہ‘‘ مکمل کالے رنگ میں ملفوف کردیا ہے جس کی وجہہ سے کوّا اپنے اور کوئل کے بچوں کو پہچان نہیں سکتا ۔میں اس دلیل سے مطمئن نہیں کیوں کہ کسی بھی جاندار کی ماں اپنے بچوں کو پہچان لیتی ہے خواہ اس کے اور دوسرے پرندوں کے بچوں میں کیسی ہی مشابہت یا یکسانیت کیوں نہ پائی جائے۔علاوہ اس کے کوئل کے انڈے مختلف ہوتے ہیں ، اس کے بچے اور ان بچوں کی آواز بالکل علاحدہ ہوتی ہے اسی لئے مجھے اس دلیل کو ماننے میں تردُّد ہے ۔ بالفرض محال اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ کوّا رنگوں کے مابین دھوکہ کھا جاتا ہے تو میں کچھدیر کے لئے یہ مان لیتا ہوں لیکن یہاں مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ کوئل کوّے کے گھونسلے کو کیسے پہچان لیتی ہے۔اور دوسری شاخ پر بیٹھی یہ انتظار کیسے کر لیتی ہے کہ کوا کب اپنے گھونسے سے باہر آئے گا اور وہ کب اس کے گھونسلے میں انڈے دے گی۔ میری نظر میں یہ خدائی اشارے ہیں جو نہ صرف کوئل بلکہ ہر جاندار کو لمحہ بہ لمحہ خیال بن کر پہنچتے رہتے ہیں اور یہی خیال ان کی زندگی میں فیصلہ بن کر صادر ہوتا رہتا ہے۔یہ آج بھی محقیقین کے لئے یہ سوالیہ نشان ہے کہ کوئل کے بچوں کو کوّے اپنے بچوں جیسی محبت سے غذا ۔۔ کیوں ۔۔ کھلاتے ہیں ۔ یوکلپٹس کی ڈالیاں جہاں کوّے اپنا گھونسلہ بناتے ہیں ان مناظر سے بھرے پڑے ہیں۔یہ صرف کوّے پر موقوف نہیں بلکہ تقریباً تمام پرندوں کا اپنے بچوں تک غذا کو پہچانا اور انہیں کھلانا ایک محنت طلب کام ہے ایک اندازے کے مطابق اس مقصد کے لئے ایک پرندہ کم از کم ایک ہزار بار اپنے گھونسلے سے اُڑکر غذا کے ٹھکانے تک پہنچتا ہے۔ کوئل کے بچوں کی پرورش کے لئے کوّا اس قدر محنت کر لیتا ہے اس عمل کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے کیونکہ کوّا چالاک پرندے کی حیثیت سے مشہورہے اور اس کی چالاکی یہ ہے کہ وہ اپنے اور کوئل کے انڈوں میں تمیز نہیں کرسکتا ۔کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مادہ کوئل میزبان کے گھونسلے میں پہنچ کر اپنے بچوں کو غذا کھلاتی ہے اور پھر درختوں کی ٹہنیوں پر لوٹ جاتی ہے ،لیکن پرورش کی زیادہ ذمہ داری میز بان ہی اٹھاتے ہیں اور کوّا یہ ذمہ داری بہتر انداز میں نبھاتا ہے ۔کبھی کبھی گھونسلے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ میز بان اور طفیلی کے بچوں میں غذا حاصل کرنے کا مقابلہ شروع ہوتا ہے۔ بعض افراد کا مشاہدہ ہے کہ جب نر اور مادہ کوئل کوّے کے گھونسلے میں اپنے انڈے دیکھنے کے لئے آتے ہیں تو وہاں موجود کوّے کے انڈوں کو گھونسلے سے باہر کر دیتے ہیں لیکن یہ عمل ہمیشہ دیکھنے میں نہیں آتا بلکہ کوئل کے بچے جو فطرتاً جارحانہ طبیعت رکھتے ہیں پورے گھونسلے کو دشمنوں سے بچاتے ہیں ۔ سائنسدانوں کے مطابق کوئل کے بچے گھونسلے کا دفاع کرتے ہوئے ایک بدبو دار سیال کا اخراج عمل میں لاتے ہیں جو ترشے، فینال، انڈول اور سلفر کے مرکبات پر مشتمل ہوتا ہے یہی کوئل کے بچوں کا بہترین دفاعی ہتیار ہے ۔ Canestrari ایک مشہور محقق ہے جس نے ثابت کیا کہ یہ سیال اکثر حملہ آوروں جیسے Catوغیرہ کو گھونسلے سے دور رکھتا ہے۔ لیکن اس عمل کے دوران کوئل کے بچے اپنے جسم کو مسلسل مرتعش یعنی Vibrate کرتے رہتے ہیں جس کی وجہہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی کوّے کے بچے گھونسلے سے باہر گر جاتے ہیں۔
کوّے کے علاوہ اس دنیا میں کئی ایسے جاندار ہیں جو دوسرے جانوروں کے بچوں کی خاطر اپنے بچوں کی خدمت بھی کبھی کبھی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔کوئل اور کوّے کے اِس ڈرامے میں بھی ہم یہی طرز خدمت دیکھ سکتے ہیں ۔ان کے پروان چڑھنے میں کوئی کجی باقی نہیں رہتی۔ زندگی کا ایک عرصہ مل جُل کر گزارنے کے باوجود ان کے عادات و اطوار ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ ان دو پرندوں کے ایک دوسرے سے متصل دور حیات کے باوجود دونوں پرندوں کی زندگی پُرسکون اور مکمل ہوتی ہے۔

Share
Share
Share