ابن صفی کے ناولوں کا بین المتون مطالعہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرحبیب نثار

Share

habeeb nisarابن صفیؔ کے ناولوں کا بین المتون مطالعہ

ڈاکٹرحبیب نثار
شعبہ اردو ۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد
ای میل :

اسرار احمد ابن صفی ۲۶؍جولائی ۱۹۲۸ء ؁ کو پیدا ہوئے۔ والد بزرگوار کو مطالعہ کا شوق تھا۔ گھر میں اچھا خاصہ کتب خانہ موجود تھا۔ ننھا اسرار احمدا بھی ساتواں برس ختم کرکے آٹھویں سال میں قدم رکھا تھا کہ اس کے ہاتھ طلسم ہوشربا لگی۔ بیان دلچسپ خود ابن صفی سے سنئے۔
’’نصابی کتب کے علاوہ پہلی کتاب جو ہاتھ لگی وہ طلسم ہوش ربا کی پہلی جلد تھی۔ ہرچند کہ اس کی زبان آٹھ سال کے بچے کے بس کا روگ نہیں تھی پھر بھی کہانی تو پلّے پڑہی گئی تھی۔ پئے در پئے ساتوں جلد یں چاٹ ڈالیں…….پھر یاد نہیں کہ کتنی بار ساتوں جلدیں دہرائی گئی تھیں۔
(ص ۹۳۔۹۴ بہ قلم خود‘قومی زبان اگست ستمبر ۲۰۱۱ء)

یہ اقتباس ہمارے موضوع کی تقسیم او رتعمیر کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ابن صفی نے لکھا ہے کہ انہوں نے زبان سمجھ میں نہ آنے کے باوجود’’طلسم ہوش ربا‘‘ کی ساتوں جلدیں چاٹ ڈالیں……یہاں چاٹ ڈالنے کا بیان اہم ہے کہ انھوں نے صرف نظریں نہیں پھیریں تھیں بلکہ لفظ بہ لفظ از ابتداً تا انتہا پڑھی تھیں ابن صفی نے اسی اقتباس میں یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ’’اس داستان بزرگ‘‘ کو بار بار‘ بار بار کئی بار پڑھا کہ پڑھے جانے کی تعداد تک انھیں یاد نہیں۔ ابن صفی اس داستان سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ اگر یہ داستان انھیں پڑھنے کے لیے دستیاب نہ ہوتی تو وہ بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ مطالعہ کے عشق کا تیر ان کے ذہن و دل میں ترازو ہو چکا تھا کہ اپنی تسکین کا سامان کرنے کی غرض سے انہوں نے قلم کو تھامہ اور ساتویں جماعت میں انہوں نے اپنا پہلا افسانہ’’ناکام آرزو‘‘ تخلیق کیا۔
ایک لمحہ کے لیے یہاں ’’داستان کو روکتے‘‘ ہیں۔ او راس بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا حسن اتفاق ہے کہ سات‘ آٹھ برس کی عمر میں ابن صفی نے پہلی مرتبہ طلم ہوش ربا کی ’’سات‘‘ جلدوں کا مطالعہ کیا اور ساتویں جماعت میں پہلا افسانہ لکھا۔ افسانے کا عنوان ’’ناکام آرزو‘‘ بھی ہماری توجہ چاہتا ہے۔
یہ’’ ناکام آرزو‘‘ کیا تھی وہ افسانہ پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا لیکن اسی سوانحی مضمون میں اپنی آرزوؤں کا بیان ابن صفی نے کیا ہے لکھتے ہیں۔
’’کتابوں کے ڈھیر گاؤں ہی میں رہ گئے۔ اسکول سے واپس آکر بڑی الجھن میں مبتلا رہتا۔ پھر ہوائی قلعے بننے لگتے اور خود کو طلسم ہوشربا کی حدود میں پاتا۔ کسی مظلوم جادوگرنی کے لیے کوئی کارنامہ انجام دے کر اس کی آنکھوں کا تارا بننا اور اس کی مدد سے پورا مطبع و کتب خانہ منشی نول کشور کا اٹھوا منگایا۔ (ص ۱۷۰) ابن صفی کے خواب و خیال کی یہ دنیا میرے مقالے کے موضوع سے خاص تعلق رکھتی ہے کہ اسی سے جاسوسی دنیا کے قابل مصنف کے شعور اور لاشعور کا ہم مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ابن صفی نے لکھا ہے کہ وہ آٹھ برس کے تھے کہ انہوں نے طلسم ہوشربا کا مطالعہ کیا تھا اور ساتویں جماعت میں انہوں نے اپنی پہلی تخلیق افسانہ کی شکل میں لکھی تھی۔ ساتویں جماعت میں ان کی عمر تقریباً گیارہ یا بارہ برس رہی ہوگی۔ چودہ برس کی عمر میں جگر مرادآبادی ان کے ’’حو اس پرچھائے ہوئے‘‘ (ص ۹۴) نظر آتے ہیں اور پھر وہ باقاعدہ شاعری کرتے ہیں اور مشاعرے بھی پڑھتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء ؁ میں وہ بی اے کے طالب علم تھے اور ڈاکٹر سیداعجاز حسین کے ’’لکچرز نے ذہنی نشوونما کے نئے باب‘‘ وا کیے تھے۔ابن صفی کی تعلیم اور تخلیق کا سفر اپنی ارتقائی منازل کی جانب رواں تھا لیکن آٹھ سال کا وہ بچہ جس نے پہلی مرتبہ طلسم ہوشربا کا مطالعہ کیا تھا ان کے تحت الشعور سے باہر آکر اپنے سحر سے ان کے حواس اور قلم کو اپنے قابو میں کر لیتا تھا۔ اپنے مضمون بہ قلم خود میں لکھتے ہیں۔
’’میں ہی سب کچھ کرتا رہا۔ لیکن آٹھ سال کا وہ بچہ جس نے طلسم ہوشربا کی ساتوں جلدیں چاٹ ڈالیں تھیں‘ کسی طرح بھی میرا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں تھا ۔ شعرکہنے بیٹھا تو سامنے آکھڑا ہو تا۔ نثر لکھتے وقت تو قلم ہی پر ہاتھ ڈال دیتا۔ او رپھرمیں جھلا کر اس کے پیچھے دوڑ پڑتا۔ اس کا تعاقب کرتا ہوا طلسم ہوشربا کی فضاؤں سے گزرتا۔(ص ۹۵)
عرض کرنا یہ ہے کہ آٹھ برس کی عمر سے بیس برس تک ۱۹۴۸ء ؁ طلسم ہوشربا اس کے واقعات و کردار‘ ابن صفی کے خواب و خیال کا اہم حصہ بن گئے تھے اور خواجہ عمرو اور ان کے شاگرد ان کا روزمرہ قرار پائے تھے۔ او رمارچ ۱۹۵۲ء ؁ میں انہوں نے جب اپنا پہلا جاسوسی ناول ’’دلیر مجرم‘‘ لکھا تو امیر حمزہ اور عمروعیار نے اس ناول کے بین السطور خود کو ظاہر کیا۔
گراہ کشایان سلسلہ سخن و تازہ کنندگان افسانہ کہن فسانہ طلسم کے گوہرابدار سخن کو زیب گوش سامعین ذی ہوش کرتے ہوئے یہ حقیرعرض کرتا ہے کہ ’’جن صاحبین نے استادانِ قدیم و جدید کو سماعت فرمایا ہے لیکن حقیر کی آبرو پڑھاتے ہیں۔‘‘(جلد ششم)
طلسم ہوشربا کی سات جلدیں محمد حسین جاہ اوراحمد حسین قمر نے ۱۸۸۳ء سے ۱۸۹۳ء تک لکھ دی تھیں۔
اس داستان کے بارے میں یہاں عرض کر دینا مناسب ہو گا کہ یہ خالص اردو کی ’’چیز‘‘ ہے کسی او رزبان سے مترجمہ نہیں۔ عیاری اور ساحری اس داستان میں اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔(آج اسی کو جاسوسی کہا جاتاہے) یہ داستان جو داستان امیرحمزہ کا حصہ ہے یہ حق اور باطل کی لڑائی ہے یہاں اسلام و کفر میں جنگ ہے یہ مسلمان اور ہندو کی جنگ نہیں یہاں اسلام پسند امیر حمزہ او رجادوگر افرا سیاب کے درمیان میں جنگ ہوتی اور طلسم ہوشربا کی ساتویں جلد میں جب اسدغازی طلسم کشائی کرتے ہیں تو حق کی فتح ہوتی ہے۔میں نے ابن صفی کے ناولوں کے بین المتون مطالعہ کے لیے چار عناصر کا انتخاب کیا ہے۔
۱) جاسوسی دنیا میں تجسس‘ تحیر۔داستان روکنا۔
۲) تکنیک۔قصہ در قصہ۔ انجام۔(خصوصاً فریدی سیریز)
۳) عشق او رانحراف۔ اور
۴) کردار و قصہ کا جغرافیہ جاسوسی دنیا کی مقبولیت کا اہم راز اس میں واقعات کے ذریعہ ابھارا جانے والا تجسس ہے اور سراغرسانی کے دوران واقعات اچانک وقوع پذیری ہوتا ہے۔ جاسوسی دنیا میں تجسس اس طرح ابن صفی نے تخلیق کیا ہے کہ کسی ایک واقعہ کا جب وہ خاتمہ کرتے ہیں(ایک باب کا) تو یہ نا مکمل ہوتاہے۔ اور پھر کیا ہوا۔ یہ جاننے کے لیے کم ازکم ایک باب تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ابن صفی نے اپنے ناول’’ٹھنڈی آگ‘‘ میں حمید کی زندگی اسی کی زبانی بیان کی ہے اس ناول کا پہلا باب او راس کے خاتمہ کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’بہر حال وہ وہی شام تھی جب اس کہانی کا آغاز ہوا۔ مجھے یہی اطلاع تھی کہ کرنل اس وقت لائبریری میں موجود ہیں لیکن انھوں نے مجھے تجربہ گاہ میں بلوا بھیجا۔ ان کی تجربہ گاہ اوپری منزل ہے۔ میں اوپر پہنچا لیکن تجربہ گاہ میں قدم رکھتے ہی چکر سا آگیا۔ سامنے ہی میز پر ایک آدمی کی لاش پڑی ہوئی تھی جس کا پیٹپھٹ گیا تھا۔ آنتیں باہر آگئی تھیں او رتازہ تازہ خون میز پر چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔(ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ ص ۱۴)
ابن صفی کے اس ناول کا پہلا باب یہاں ختم ہو جاتا ہے ۔ اور دوسرے باب میں حمید کی کہانی نہیں بلکہ کوئی اور ہی قصہ بیان ہوا ہے۔اس تکنیک کو داستان کی اصطلاح میں ’’داستان روکنا‘‘ کہتے ہیں۔ جس سے قارئین/سامعین کو آگے آنے والے واقعات سے دلچسپی ہوتی ہے اور انھیں جاننے کا تجسس پیدا ہوتا ہے۔ ابن صفی نے اپنے ناولوں کے لیے داستانوں کی اسی تکنیک کو اپنایا ہے۔
داستان کی خصوصیت اورشناخت میں قصہ در قصہ تکنیک ہے۔ ابن صفی نے جاسوسی دنیا میں اسی طریقہ کارکو اپنایا ہے۔ فریدی سیریز کے ناول اس راز کو اس طرح واشگاف کرتے ہیں کہ کوئی پردہ نہیں رہتا۔ داستانوں میں یہ قصہ ادھورا رہتا ہے اور اختتام میں ہرقصہ کا انجام سامنے آتا ہے۔ ابن صفی کے جاسوسی دنیا فریدی سیریز کی بھی یہی صورت حال ہے۔ فریدی انجام ناول کے آخر میں بیان کرتاہے او رہر واقعہ کے تمام حصوں کو مکمل کرتا ہے۔
طلسم ہوشربا کی عمدہ زبان کا اعتراف کلیم الدین احمد ‘ راز یزدانی‘ عشرت لکھنوی‘ گیان چند جین او رشمس الرحمن فاروقی نے کیا ہے۔ اور جاسوسی دنیا کی زبان کی قسم مجنوں گورکھپوری‘ مشتاق احمد قریشی‘ پروفیسر انوار الحق‘ مرزا حامد بیگ‘ علامہ اعجاز فرخ اور پروفیسر سیدمجاور حسین رضوی وغیرہ لکھاتے ہیں۔یہاں فریدی کے ناول سے ایک اور عمران سیریز کے ناول سے ایک اقتباس پیش کیا جاتاہے۔
’’سرداؤد نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپالیا۔‘‘
’’فریدی اسے ترحم آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔‘‘
’’میں سمجھتا ہوں سرداؤد‘‘ اس نے کہا’’آپ مطمئن رہیں۔ میر ی تفتیش کی کہانی منظرعام پر نہیں آ نے پائے گی۔
’’میں نے اسے ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کی تھی۔‘‘سرداؤد روپڑا۔
’’آدمی بے بس ہے سرداؤد۔ مقدرات اٹل ہوتے ہیں۔‘‘
سر داؤد کچھ نہ بولا۔اس کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔
فریدی چپ چاپ باہر نکل آیا۔ حمید راہداری کے سرے پر اس کا منظر تھا۔
’’کیا آپ کو بوڑھے کی کہانی پر یقین آگیا ہے۔‘‘
’’یقین! ‘‘فریدی مسکرایا ’’یقین کی منزل بہت دور ہے۔ یقین مجھے اسی وقت آئے گا جب میری تفتیش اس کے بجائے کوئی دوسری کہانی سنائے۔‘‘
’’میرا دعویٰ ہے کہ سر داؤد ہی اس کی موت کا ذمہ دار ہے۔‘‘ اس نے اسے بالکنی کے نیچے پھینکا ہوگا۔ خود کشی کی کہانی میں مزید زور پیداکرنے کے لیے زہروالا ٹکڑا لگایا گیا ہے۔‘‘
’’او رپھر اس کے کسی آدمی نے میری فلٹ برباد کر دی کیوں؟
’’آ……..ہاں…….یقیناًاس طرح تھوڑا سا الجھا وا اور پیدا ہوگیا۔
’’اب پولیس جھک مارتی پھرے اگر اسے یہی پسند ہو۔‘‘
’’تم کافی دور رس نگاہ رکھتے ہو۔‘‘فریدی مسکرایا۔
’’اسی طرح مصرعوں کا اضافہ کرتے جاؤ پھر گرہیں لگا لگا کر غزل مکمل کر لیں گے۔‘‘
’’اچھی بات ہے آپ سمجھئے اسے بکواس لیکن آخر کار آپ کو پچھتانا پڑے گا۔‘‘
’’میں۔ ویسے بھی دن میں دو چار بار بچھتانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہوں۔‘‘ فرید ی نے کہا……
’’اب کہاں چل رہے ہیں۔‘‘ حمید نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
’’اُفق کے اس پار۔‘‘ فریدی نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’مجھے مویشی خانے کے پاس اُتار دیجئے گا۔‘‘ فریدی ہنس پڑا۔
یہ فریدی سیریز کے ایک جاسوسی ناول سے اقتباس اخذ کیا گیا ہے۔ اب ایکاقتباس مزید دیکھئے جو عمران سیریز کے ناول’’مونا لیزا کی نواسی‘‘ سے لیا گیا ہے۔
’’مم…….مم…….میں…….کہاں…….ہوں…….آپ ککون ہیں‘‘بر وقت بولا چہرے پر ایسا ہی تاثر تھا جیسے اب اُٹھ کر بھاگے گا۔
’’گھبراؤ نہیں‘سب ٹھیک ہے….لیٹ جاؤ۔‘‘ لڑکی بولی۔
میرا نام شلّی ہے او ریہ فوزیہ ہے۔‘‘
’’بس …..بڑی خوشی ہوئی۔ اس نے کہا اور کراہتا ہوا لیٹ گیا…..خوفزدگی نے چہرے پر چھائی ہوئی حماقت میں کچھ او راضافہ کردیا تھا۔
’’کچھ کھائیں پئیں گے آپ‘‘ شلّی نے پوچھا۔
’’جی نہیں’ شکریہ۔
’’آپ نے اپنا نام نہیں بتایا۔‘‘
’’علی عمران‘ ایم ۔ایس۔سی‘ ڈی ایس سی۔آکسن۔‘‘
’’بہت خوب‘‘ شلّی ہنس پڑی او راس نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
’’آپ کیوں ہنسے۔ فوزیہ نے پوچھا۔‘‘
’’نہ ڈگری کام آرہی ہے او رنہ ڈاکٹریٹ۔‘‘
’’کیا مطلب!!‘‘
’’پیاز کی آڑہت کرتا ہوں۔ وہ اٹھ کر بیٹھتا ہوا بولا۔
’’کمال ہے ! ڈگری اور ڈاکریٹ نقلی تو نہیں ہے۔‘‘
’’جی نہیں۔ آکسفورڈ کی ہے‘‘۔ وہ بڑی سادگی سے بولا۔
’’یہاں کیو ںآئے تھے۔‘‘
’’پیاز کی تلاش میں۔ دو ہزار ٹن مڈل ایسٹ بھجوانی ہے۔‘‘
’’بڑا کا روبار معلوم ہوتاہے۔‘‘
’’بھینسوں کی فارمنگ بھی کرتا ہوں۔‘‘
’’وہ کیسے ہوتی ہے‘‘
’’بس ہو جاتی ہے۔ بہت سیدھی ہوتی ہیں بھیسیں……فارمنگ کرالیتی ہیں۔ والد صاحب پولٹری فارمنگ کرتے ہیں۔ دن بھر مرغیان انھیں دوڑاتی رہتی ہیں۔ بھینس بیچاری تو جہاں بیٹھ گئی بیٹھ گئی۔‘‘
(مونا لیزا کی نواسی‘‘ ص ۱۴ اور ۱۵)
(عمدہ زبان کی مثال کے سلسلے میں شعوری طور پر تلاش نہیں کی گئی ہے جو اقتباس سامنے آگیا یہاں درج کر دیا گیا ہے یقیناًڈھونڈنے پر اس سے بہتر مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔ ح ۔ ن)
ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں جو زبان ملتی ہے اس کی داد دیتے ہوئے مجنوں گورکھپوری فرماتے ہیں۔
’’ابن صفی کی زبان ایسے معیار کی ہوتی ہے جو تعلیم یافتہ طبقے میں بھی قبول او رپسند کی جائے ان کی زبان میں ادبی چاشنی بھی ہوتی ہے او رمحاوروں کا لطف بھی ہوتا ہے او افسانے کی گہرائی اور دلکشی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔‘‘ (’’اردو میں جاسوسی افسانہ‘‘ مشمولہ رسالہ آمد)
’ظرافت‘ طلسم ہوشربا میں عیاری اور ساحری کے بعد اہم عنصر ہے۔ شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں۔
’’وہ اپنے ماحول میں آسودہ تھے۔ ان کی روح مطمئن تھی ۔ دنیا و ماورا سے انہیں کوئی شکایت نہ تھی۔ اس لیے وہ ہنستے تھے تو سچی خوشی سے ‘ ان کی ہنسی میں گویا ان کی روح انگڑائیاں لیتی تھی۔ ان کی ظرافت ان کے اطمینان قلب کی آئینہ دار ہے۔ اور پڑھنے والوں کے اطمینان قلب کا سبب ۔‘‘
(ص ۴۷ حصہ طلسم ہوشربا)
جاسوسی دنیا میں عمران سیریز میں بھی ظرافت کہانی کا اہم جزو بن کر سامنے آتی ہے۔ عمدہ زبان کے سلسلے میں عمران کا جو اقتباس پیش کیا گیا ہے وہ ظرافت ‘ سنجیدہ ظرافت کی بھی سند پیش کرتا ہے۰
اب ہم آتے ہیں عشق کی جانب۔ راہی معصوم رضا کا کہناہے کہ’’ اس(طلسم ہوش ربا) داستان میں عشق ہی عشق ہے۔‘‘(۹۲) صر صر شمشیر زن‘اَفراسیاب کی جاسوس ساحرہ ہے وہ عمرو عیار کو چاہتی ہے۔ دونوں اکثر ایک وسرے کے مقابل ہوتے ہیں لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض واقعات میں اپنی مقصد براری کی خاطر مشترکہ دشمن سے نجات کی غرض سے دونوں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں اور اور پھر سے جانی دشمن ہو جاتے ہیں ایک دوسرے کو دور ہو جانے کی صلاح دیتے ہیں۔
جاسوسی دنیامیں عمران اور سنگ ہی کی ہی کیفیت ہے۔عشق ہی کے ہاتھوں مجبور ہو کر افراسیاب کے طلسم سے ملکہ بہار اور مخمور‘ امیر حمزہ سے مل جاتی ہیں۔ یہی کیفیتہمیں ابن صفی کے ناولوں میں عمران سیریز میں نظر آتی ہے کہ روشی اور جولی دونوں کا تعلق عمران کیمخالف گروہ سے ہے لیکن عمران سے متاثر ہو کر وہ اس کیلئے خدمات انجام دیتے ہیں۔
طلسم ہوشربا میں سب سے اہم حیثیت امیرحمزہ کی ہے لیکن بادشاہت انہوں نے اپنے بیٹے کو دی ہے اور امیر حمزہ سپاہ سالار بنے ہوئے ہیں۔ اس داستان کا اہم ترین کردار عمرو عیار ہے۔ فریدی‘ جاگیردا رطبقہ سے تعلق رکھتا ہے دولت مند ہے‘ لیکن کرنل کے عہدہ سے آگے ترقی نہیں چاہتا کہ سراغرسانی اس کی فطرت ہے۔ علی عمران۔ایکسٹوہے‘ لیکن ایک معمولی جاسوس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتاہے۔
امیر حمزہ کی سیرت و کردار کے بارے میں گیان چند لکھتے ہیں۔
’’امیر حمزہ نہایت بہادر پاکباز۔ صاحب ایمان او راصول پرست بزرگ ہیں۔ جنگ میں اپنے اصول سے سرِمولغزش نہیں کرتے مثلاً وہ حریف پرپیش دستی نہیں کرتے۔ طبل باز گشت بجنے پر فوراً دشمن سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ دشمن کو زیر کرنے پر اول اسلام لانے کا سوال کرتے ہیں۔ اگر اس نے ظاہر داری سے بھی منظور کر لیا تو چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا کوئی ساتھی یا عزیز اگر دشمن کے یہاں بے قاعدگی سے مکاری کر کے آتاہے تو اسے فوراً دشمن کے حوالے کر دیتے ہیں خواہ وہ عمرو ہی کیو ں نہ ہو۔ ساحروں کے مقابلے میں دیووں کو نہیں لاتے ورنہ سب ساحروں کو دیووں سے کھلوا سکتے تھے۔عمروکو اجازت نہیں کہ گلیم اوڑھ کر کسی کو قتل کرے۔غرض یہ ایک مثالی قسم کے پُر جلال مجاہد ہیں۔‘‘
(اردو کی نثری داستانیں‘‘ یوپی اکیڈیمی ایڈیشن ص ۷۷۹)
اور فریدی کے کردار و شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ابن صفی کے صاحبزادے احمدصفی لکھتے ہیں۔
’’فریدی ایک سنجیدہ طبیعت انسان ہے او رایک بہت واضح شخصیت کا مالک ہے اور اپنے کردار سے ایک لمحہ ادھر اُدھر نہیں ہونے پاتا ۔ کیپٹن حمید‘ شخصیت کی اس سخت گیر طبیعت کے تحت اسے ’’فادر ہارڈ اسٹون‘‘ کا نام دیتا ہے (ص ۱۸۵ آمد)
جس طرح عمرو عیار طلسم ہوشربا کا مرکزی کردار ہے اسی طرح سنگ ہی ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کا اہم کردار ہے۔ دونوں کرداروں کا تقابلی مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک چراغ سے دوسرا چراغ جلایا گیاہے۔
طلسم ہوشربا۔ عمرو عیار
’’ایک عیار‘ دبلا پتلا جس کی زیرہ سی آنکھیں‘ طباق سا پیٹ‘ ناریل ساسر‘ کلچے سے گال….ایک کرسی پر بیٹھا ہے……‘‘
(ہرمز نامہ ص ۱۷۰)

جاسوسی دنیا۔سنگ ہی
یہ ایک دراز قد اور دبلا پتلا چینی! اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں حیرت انگیز طور پر چمکیلی تھیں۔ عمران نے اتنے لمبے قد کا کوئی چینی آج تک نہیں دیکھا تھا۔ اس کی ناک چینی ضرور تھی…..عمران کو حیرت تھی کہ یہی مچھر سا آدمی سنگ ہی ہے۔
(لا شور کا بازار ‘ ص ۱۳۶ و ۱۳۸)
یہی نہیں۔ طلسم ہوشربا میں پانچ عیار ہیں اور یہی تعداد افراسیاب‘ فریدی او رعمران کے ساتھیوں کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
طلسم ہوش ربا:
امیر حمزہ کے عیار۔عمر و عیار۔مہتر قرآن‘ برق فرنگی‘ جاں سوز او رضر غام
افراسیاب کے ساحر۔ صر صر شمشیرزن‘ صبا رفتار‘ شمیمہ نقب زن‘ صنوبر کمند انداز اور تیز نگاہ خنجرزن۔
جاسوسی دنیا:
فریدی سیریز: کرنل فریدی‘ کیپٹن حمید‘ انسپکٹر آصف‘ انسپکٹر گلدیش اور انور
عمران سیریز: علی عمران‘ صفدر‘ ظفر الحسن ‘ جمن او رجوزف۔
استاد محترم پروفیسر سید مجاور حسین رضوی ابن صفی کے تعزیتی جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے ابن صفی کے کرداروں کے ماخذات کے سلسلے میں فرمایا۔
’’دراصل فریدی اور حمید کے کردار داستان امیر حمزہ کے مرکزی کرداروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔‘‘
(’’سیاست ‘‘حیدرآباد‘ ۱۰؍ستمبر ۱۹۸۵ء ؁)
اقتباس میں پیش کیے گئے کرداروں کی مماثلت کیا صرف مشابہت رکھتی ہے۔ ہرگزنہیں۔ حقیقت کچھ اور بھی بیان کرتی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی‘ عمرو عیار اور دوسرے عیاروں کی ظریفانہ صفات کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’عیارتو گویا پیشہ و ر ظریف ہے ۔ ہنسنا ہنسانا ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ وہ لوگوں کو ہنساتا ہے لوگ اس پر ہنستے ہیں اور وہ دوسروں کو بیوقوف بنا کر ان پر خندہ زن ہوتا ہے۔ یعنی عیار بیوقوف نہیں ہوتا او راپنی حماقت‘ اپنی ابلہانہ حرکتوں یا بول چال سے قارئین کی ہنسی کا سبب نہیں ہوتا۔ ہوش مندی‘ ذہانت‘ظرافت او رنکتہ سنجی اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ شعوری طور پر اپنی دماغی تیزی اور تیز ظرافت سے مصرف لے کر ایک دیوار قہقہہ کھڑی کر دیتاہے۔ اس میں غور و فکر کا مادہ موجودہے۔ سنجیدگی میں کوئی اس سے سبقت نہیں لے جا سکتا ظاہری نادانی او رسبک سری کے بھیس میں کام کی باتیں کہہ جاتاہے۔
(مقدمہ طلسم ہوش ربا’’ص ۱۴۴ ناشر خدا بخش لائبریری ‘ پٹنہ)
شمس الرحمن فاروقی نے طلسم ہوش ربا کے عیاروں کی ظرافت او رسنجیدگی کے بابت جو کچھ لکھا ہے یہی تمام صفات جاسوسی دنیا کے کرداروں علی عمران او رکیپٹن حمید میں موجود ہیں اسی طرح کی ظرافت جو عیاروں کے یہاں ملتی ہے جاسوسی دنیا کے ان دونوں کرداروں کا بھی طرہ امتیاز ہے اور جب یہ دونوں کردار سنجیدہ ہوتے ہیں تو اس وصفِ خاص میں بھی منفرد ثابت ہوتے ہیں۔
داستان طلسم ہوش ربا او رجاسوسی دنیا کے ناولوں میں ایک اور بھی عنصر قابل توجہ ہے۔ ان قصوں میں زماں کا اندازہ تو متن میں پیش کیے جانے والے واقعات اور کہانی سے ہو جاتا ہے لیکن ’’مکان‘‘ کا کسی طور کہیں بھی پتہ نہیں چلتا۔ بعض واقعات کے ضمن میں چند مقامات اورممالک کے نام آجاتے ہیں لیکن افراسیاب کی طلسمی دنیا کہاں ہے اور فریدی و عمران کس ملک کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں اس کی واضح نشانیاں نہیں ملتیں۔ دراصل یہ ایک وصف ہے جو داستان سے تعلق رکھتا ہے او رزبانی بیانیہ کی تعریف میں آتا ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی زبانی بیانیہ کی صفت بیان کرتے ہوئے داستانوں میں مختلف ملکوں او رمملکتوں کے جغرافیہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں۔
’’یہی حال داستان کے جغرافیہ کاہے۔ تمام زبانی بیانیوں کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی ایک مقام یا کسی ایک ملک سے شروع ہوتے ہیں اور داستان جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے ‘ اس میں نئی نئی جگہوں نئے نئے ملکوں اور مملکتوں کا اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ہماری داستان امیر حمزہ(طلسم ہوش ربا) اس معاملے میں بھی دنیا کی داستانوں میں عدیم النظیرہے۔‘‘
(داستان او رحمزہ‘ زبانی بیانیہ‘ بیان کنندہ او رسامعین ص ۱۰۰)
ابن صفی کا طلسم ہوش ربا سے عشق اور اس کے پس منظر میں جب ہم کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ادارہ نکہت جنوری۱۹۶۱ء ؁ سے طلسمی دنیا کی اشاعت کرنا چاہتا ہے تو یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ جاسوسی دنیا حقیقتاً طلسم ہوش ربا ہی سے مستعار ہے۔
جاسوسی دنیا کی شعریات کے تعین کے سلسلے میں خواجہ امان نے داستان کے لیے جو خصوصیات ’’حدایق النظار‘‘ میں بیان کیے ہیں وہی اصول ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔
’’اول مطلب مطول و خوش نما جس کی تمہید و بندش میں تواردِ مضمون اور تکرار بیان نہ ہو۔ مدت دراز تک اختتام کے سامعین مشتاق رہیں۔
دوم بجز مدعا ئے خوش ترکیب و مطلبِ دل حسیب کوئی مضمون سا معہ خراش و ہزل…..درج نہ کیا جائے۔
سوم۔ لطافتِ زبان و فصاحت بیان۔
چہارم۔عبارت سریع الفہم کہ واسطے فن قصہ کے لازم ہے۔
پنجم۔ تمہید قصہ میں بحسنہ تواریخ گذشتہ کا لطف حاصل ہو نقل واصل میں ہر گز فرق نہ ہو سکے۔‘‘
(بحوالہ’’اردو کی نثری داستانیں‘‘ از گیان چند ص ۵۱)
ابن صفی کے ناولوں کے متن کا مطالعہ ہمیں طلسم ہوش ربا کے کرداروں کے مطالعے کی جانب متوجہ کرتا ہے جوعیاری و ساحری سے ہوتاہوا داستان کے اسلوب(ظرافت) اور زبان کے نفیس استعمال کے ذریعہ تخلیق کے فلسفیانہ نقطہ نظر کی یکسانیت تک رہنمائی کرتاہے۔
’’طلسم ہوش ربا‘‘ پر تحقیقی و تنقیدی انداز میں سوچنے اور لکھنے کا کام ۱۹۶۰ء ؁ کے بعد یعنی کلیم الدین احمد‘ گیان چند جین‘ سہل بخاری‘ راز یزدانی اور عشرت لکھنوی کے بعد ایک طرح سے منقطع ہو گیا تھا اور پھر ۱۹۸۸ء ؁ میں خدا بخش لائبریری کے زیر اہتمام منعقدہ یادگاری خطبہ کے ذریعہ شمس الرحمن فاروقی نے طلسم ہوش ربا کی شعریات پر پہلی مرتبہ اظہار خیال کیا اور ۱۹۹۸ء ؁ میں’’داستان امیر حمزہ‘ زبانی بیانیہ‘بیان کنندہ اور سامعین اور ساحری شاہی‘ صاحب قرانی داستان امیر حمزہ کا مطالعہ(دوجلد) ۱۹۹۹ء ؁ میں اردو کی اس طویل او راہم ترین داستان کی شعریات کا تعین کیا اور اس کی اہمیت کو واضح کیا۔
داستان ہی کی طرح ۸۱۔۱۹۸۰ء ؁ کے بعد ابن صفی کے جاسوسی ناول پر اب اس اکیسویں صدی میں پھر سے توجہ دی گئی ہے۔ جاسوسی دنیا(اور ایک حد تک طلسم ہوش ربا کو بھی) پاپولر ادب کا نام دیا جاتا ہے۔ پروفیسر خالد قادری کلچرل تھیوری کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’کلچرل تھیوری کا ایک اور اہم کارنامہ یہ بھی کہا جا سکتاہے کہ وہ لوکل عوامی یا پاپولر کلچر کو علمی و تحقیقی عمل کے دائرے میں لے آتی ہے۔‘‘
(تھیوری کے بعد’’مضمون مطبوعہ شعر و حکمت جلد اول ص ۷۲ مرتبین شہریار و مغنی تبسم)
عصرحاضر میں جاسوسی دنیاسے اہل ادب کی خصوصی دلچسپی دراصل کلچرل تھیوری ہی کاعمل ہے جس نے اس عوامی یا پاپولرادب کو علمی تحقیق کا حصہ بنادیاہے۔

Share
Share
Share