جنم اشٹمی ( گوکل اشٹمی ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

محمد رضی الدین معظمجنم اشٹمی (گوکل اشٹمی)

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

نوٹ : ہندوستان ‘ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کئی مذاہب کے ماننے والے اور بے شمار زبانیں بولنے والے بستے ہیں ۔ ہر ایک کی تہذیب و ثقافت جدا جدا ہے مگر پھر بھی یہ سب ہندوستانی ہیں ۔ قومی یکجہتی ہندوستان کا مقدر ہے۔قومی ایکتا کے لیے لازم ہے کہ ہم ایک دوسرے کی زبان ‘ مذہب ‘ تہذیب ‘ثقافت اور عید و تہوار کو سمجھیں تاکہ ہم میں کسی بھی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو اورہماری ایکتا متاثر نہ ہونے پاے ۔ اس ضمن میں محترم محمد رضی الدین معظم صاحب کے وہ مضامین جو ہندوستان کے مختلف عیدوں اورتہواروں کو محیط ہیں ‘ پیش خدمت ہیں امید ہے کہ احباب کو یہ سلسلہ پسند آے گا ۔

اس دور میں جب کہ سارے بھارت ورش کی زندگی آس و نراش کے دورا ہے پر کھڑی ہوئی تھی‘ انتشار و انا‘ کے گرد اب میں پھنسی ہوئی تھی۔ سماج میں زندگی و موت کی کشمکش نے ایک نئے درد کا احساس پیدا کردیا تھا۔ بھادوں کا مہینہ تھا۔ آسمان پر گھنگور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ موسلادھار بارش ہورہی تھی۔ بادل کی مہیب گرج اور بجلی کی خوفناک کڑک سے متھرا کے در و دیوار لرز رہے تھے۔ بھاگوت اور گرگ سنگھتا کے بموجب متھرا کے قید خانے میں جہاں شری بسدیوججی اور ماتا دیو جی اپنے ظالم بھائی کنس کے حکم سے محبوس تھے‘ روہنی پتھر ‘ تتھی اشٹمی کو ٹھیک بارہ بجے شب جبکہ تاریکی کے باعث ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہ دے رہا تھا۔ ایک نور پھیل گیا۔ بھگوان شری کرشن چتر بھیج روپ سے پرگٹ ہوئے سامنتی تہذیب کی بنیادیں اور کنس راج سنگھاسن ڈانوا ڈول ہواٹھا۔
آج کا مبارک دن گوگل اسٹمی یا شری کرشن جی کا جنم اشٹمی کے تہوار کے نام سے اسی مقدس واقعہ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جب شری کرشن جی کا جنم ہوا تو غم زدہ پتا بسدیوجی جیل کے دربانوں کو سوتا پاکر موسلادھار بارش میں بالک کرشن کو ڈولی میں چھپا کر چار میل دور‘ جمنا پار‘ گوگل جانے کے لئے نکلے ۔ ایشور کی لیلا کہ جس طرح حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے مقابلہ میں دریائے نیل نے راستہ دیا۔ اسی طرح اس تاریک طوفانی رات میں جمنا جی نے بھی انہیں راستہ دیا۔ گوگل میں نندجی کی پتنی جسد دھابی کے اس وقت‘ جوگ‘ مایا پرگٹ ہوئی تھیں۔ بسدیوجی نے اس لڑکی کو لے لیا اور بالک کرشن کو جسودھا جی کے پہلو میں جبکہ وہ سورہی تھیں‘ لٹا دیا اور راتوں رات جوگ مایا کو لئے۔ متھرا کے قید خانے میں واپس لوٹ آئے۔ صبح جب کنس کو اطلاع ملی کہ دیوی جی کے لڑکی تولد ہوئی ہے۔ اس نے لڑکی کو پتھر دے مارا‘ لیکن وہ بجلی کی طرح کنس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر ساکشات جوگ مایا دیوی بنکر آکاش میں الوپ ہوگئیں اورآکاش وانی ہوئی کہ اے ظالم! تیرا مارنے والا پیدا ہوچکا ہے۔ شری کرشن جی کی ولادت پر روایت کے انوسار تمام فرشتے ان کی زیارت کے لئے دھرتی پر اتر آئے تھے۔ اسی کی یاد میں دودھ کا ندوں‘‘ کا میلہ ہوتا ہے۔ شری کرشن بچپن ہی سے بڑے نٹ کھٹ تھے۔ اپنے ہم عمر چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہمراہ بندرا بن وغیرہ میں کھیل کر حیرت انگیز کام کرکھائے۔ گویہ شاہی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہیں گیارہ سال کی عمر تک گوالوں کے ساتھ پرورش پانی پڑی۔ اپنا نٹ کوٹ بچپن جس لطف و فرحت سے انہوں نے گوکل کے گوالوں میں بانسری بجاکر گذارا‘ اس بے پایاں مسرت کاا ظہار ناممکن ہے۔ کنس نے گوگل میں بھی مختلف ذرائع سے بالک کرشن کی طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں ‘ لیکن ان تمام آزمائشوں کا بالک کرشن نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بھگوان شری کرشن کا جنم پاپیوں کو ڈنڈ دینے اور مظلوموں کی رکھشا کے لئے ہوا۔ چنانچہ انہوں نے ’’نر کا سردیت‘‘ کو قتل کیا‘ جس کی یاد میں ’’ روپ چودس‘‘ یا ’’نرک چورس‘‘ کا تہوار مناتے ہیں۔ اندر کی پوچا بند کروائی ‘ جس کی یاد میں ’’گوبردھن‘‘ کا تہوار منایا جاتا ہے۔ بالآخر انہوں نے متھرا پہونچ کر اپنے حقیقی ماموں ظالم وجابر کنس سے جنگ کی اور اسے قتل کیا۔ اپنے ماتا پتا کو قید سے آزاد کرایا۔ کنس کی استری اس کی نعش کے ساتھ ہوئی تھی۔ متھرا میں گھاٹ کے کنارے ’’ستی کی یادگار‘‘ موجود ہے۔ اس تہوار کو ’’کرشن جینتی ‘‘ بھی کہتے ہیں اور ’’وہ راتری‘‘ بھی۔ دکن میں اسے ’’ودیا اشٹمی‘‘ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ یہ مقدس تہوار تمام ہندوستان کے ساتھ ساتھ ہیں۔ ممالک غیر میں بھی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ اجین میں اس تہوار پر ہندوؤں کا میلہ ہوتا ہے۔ بعض بعض جگہ بھادوں کی پڑوا سے آٹھ دن تک یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ بھجن و کیرتن اور مہابھارت کی کتھائیں ہوتی ہیں۔
کرشن بڑے دیالو‘ گیانی‘ کرم یوگی تھے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندو تہواروں سے وابستہ داستانیں اور روایتیں کسی نہ کسی اخلاقی درس پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان سے دھرم گیان دیراگ اور بھگتی کا اظہار ہوتا ہے۔ بھگوان سری کرشن نے گیت کا جو مقدس‘ اپدیش دیا وہ ان کی بے مثال اور عظیم قابلیت کا شاہکار ہے۔

Share
Share
Share