میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 9

Share

mohsin osmaniشعرالہند ۔ میری اردو شاعری کی بیاض ۔ قسط 9
(شعراء کے دواوین اور سوانح سے کشید کیا ہواآب حیات )
ذوقؔ و ناسخؔ

پروفیسرمحسن عثمانی ندوی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری اردو شاعری کی بیاض قسط ۔ 8 ۔ کے لیے کلک کریں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ (۱۷۸۸۔۱۸۵۴ء)

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کی پیدائش دہلی کی تھی، وہیں ابتدائی تعلیم مکتب میں حاصل کی، مطالعہ کتاب او رشعر و ادب کا ذوق ابتداء میں ہی پیدا ہوگیا تھا، اور اسی شاعری کی بدولت انھوں نے شہزادہ دہلی ولی عہد مرزا ابو بکر تک رسائی حاصل کی ، ان کا مطالعہ وسیع ہوچکا تھا، انھوں نے مرزا ابو ظفر کے اشعار کی اصلاح کی بہاد شاہ ظفر کے زمانہ ولی عہدی سے وہ ان کے استاذ بن چکے تھے اور جب بہادر شاہ ظفر تخت نشین اورنگ سلطنت ہوئے تو ان کو ملک الشعراء کا خطاب ملا، وہ دربار شاہی سے منسلک رہے، اور تاحیات بادشاہ کے کلام پر اصلاح دیتے رہے-

لیکن دہلی کے زوال اور انگریزوں کے غلبہ کے وجہ سے تمام اہل شعور اور اہل منصب کی طرح وہ بھی حیران وپریشان تھے، حکومت اور اقتدار سب کا خاتمہ ہورہا تھا، اور اس غم کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت سے اہل منصب نے طاؤس و رباب کا راستہ اختیار کر لیاتھا، اس لئے شیخ ابراہیم ذوق کے کلام میں یأس اور قنوطیت بہت ہے ان کے یہ اشعار دیکھئے :
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر اسے گذا ر کہ رو کر گذار دے
لائی حیات آئے، قضاء لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلاگئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
فروغ عشق سے ہے روشنی جہاں کے لئے
یہی چراغ ہے اس تیرہ خاکداں کے لئے
ذوق ؔ کا زمانہ وہی ہے جو غالب کا زمانہ ہے، دونوں بادشاہ کے دربار سے وابستہ تھے، نظام حیدرآباد نے شیخ ابراہیم ذوق کو دیوان راجہ چند کے ذریعہ دکن آنے کی دعوت دی، لیکن ذوق دکن نہ جا سکے ، اور یہ شعر لکھ کر بھیج دیا :
آج کل گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
دلی میں قلعہ معلی کی فصیلوں کے درمیان حضرت ذوق کی شاعر ی پروان چڑھتی رہی، ذوق کے کلام میں محاوروں او رروز مرہ کا استعمال بیحد خوبصورتی سے کیا گیا ہے، ان کے کلام میں ردیف اور قوافی میں ندرتیں پائی جاتی ہیں، وہ تصوف پسند اور محرمات سے بچنے والے شاعر تھے، چنانچہ ان کی یہ نصیحت ہے :
اے ذوق دیکھ دختر رز کو نہ منھ لگا
چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی

امام بخش ناسخؔ (۱۷۷۲۔۱۸۳۸ء)

شیخ امام بخش ناسخ ؔ کے والد کا نام خدا بخش تھا جنھوں نے لاہور سے آکر فیض آباد میں سکونت اختیار کی ، بعد میں ناسخ لکھنؤ منتقل ہوئے، یہ زمانہ آصف الدولہ کا تھا، عربی اور دیگر علوم فرنگی محل میں حاصل کئے ، وہ میر تقی میر سے متأثر تھے، اور شاعر کے لئے ان کے کلا م کو انھوں نے معیار اور نمونہ بنا یا تھا، انھوں نے لکھنؤ کی صاف ستھری زبان میں غزلیں کہی ہیں، حیدر علی آتش سے ان کی چشمک رہتی تھی، بہت خوش خوراک تھے، اور جسم کسرتی تھا، اس لئے لوگ ان کو پہلوان سخن کہتے تھے، ان کا کلام آج بھی متداول ہے، جیسے یہ اشعار :
تمام عمر یوں ہی ہوگئی بسر اپنی
شب فراق گئی روز انتظار آیا
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
چوٹ دل کو جو لگے آہ رسا پیدا ہو
صدمہ شیشے کو جو پہونچے تو صدا پیدا ہو
دو روز ایک وضع پر رنگ جہاں نہیں
وہ کو نسا چمن ہے کہ جس کو خزاں نہیں
کسی کا کب کوئی روز سیہ میں ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
ہر روز روز ہجر ہے ہر شب شب فراق
نفرت ہوئی ہے یاں کے سفید وسیاہ سے
اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا
عمر عزیز کا آخری زمانہ لکھنؤ میں گذرا، ان کے شاگر د بہت تھے، اور انھوں نے بہت نام پیدا کیا، ان کے دو تین مرتب ہوکر شائع ہوئے ، جن میں غزلیات بھی ہیں رباعیات بھی ہیں، انھوں نے کسی کے مدح سرائی میں قصیدے نہیں لکھے، مذکور ہے کہ دکن کے راجہ چندو لال نے دو مرتبہ دعوت نامے بھیجے اور کثیر رقم بھیجی اور یہ یقین دلایا کہ ان کو دکن آنے کے بعد ملک الشعراء کا خطاب دیا جائے گا، اور دربار شاہی میں حاضر ہونے کی پابندی بھی نہ ہوگی، لیکن انھوں نے معذرت کی ، مزاج میں استغناء تھا، ایک طویل عمرپانے کے بعد لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا اور اپنے مکان میں مدفون ہوئے۔ آخر میں ناسخ کے دو شعر اور:
روٹھے ہوئے تھے آپ کئی دن سے من گئے
بگڑے ہوئے تمام مرے کا م بن گئے
حرف سخت اس نے کہے مجھ سے لب لعلیں سے
جائے حیرت ہے ہوئے لعل سے پتھر پیدا

Share
Share
Share