افسانہ : چابی ٍ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حنیف سیّد

Share

haneefافسانہ : چابی

ٍحنیف سیّد
آگرہ ۔ یوپی
موبائل : 09319529720

’’ارے واہ…!کون کہے گاایم ۔ایس۔سی ،آپ کو…؟‘‘ایک نسوانی قہقہہ۔جیسے ہوا کے دوش پردیے کی تھر تھراتی لو؛ جیسے شبنم کے قطرے پرسورج کی جھلملاتی کرن؛جیسے ساون کی گھٹامیں لہراتی برق؛جیسے شیر خواربچّے کی کلکاری؛جیسے پھولوں سے لچکتی شاخ؛جیسے سہاگن کی چوڑیوں کی کھنک؛جیسے چمن میں چڑیاکی چہک ؛جیسے اردو زبان کی لچک ولہک بے اختیار،بے ساختہ،بے باک…!

’’قلم پکڑناتک تو آتانہیں آپ کو…!‘‘لوپھر تھر تھرا ئی،کرن پھر جھلملائی ،برق پھرلہرائی،بچّہ پھر کھلکھلایا،شاخ پھرلچکی،چوڑیاں پھر کھنکیں، چڑیا پھرچہکی،زبان پھرلہکی اورپھر اُبلتے دودھ پر پانی پڑ گیا ہو،جیسے۔جیسے سافٹ ویئر اُڑگیا ہوموبائل کا ، اچانک۔
’’اَرے بھئی..!قلم،یوں پکڑیے..!اے..!ایسے،ایسے، یوں..! ہاں… !!! اَب ہوئی نا بات….!‘‘
یادوں پر بھلا پہراکِس کا…؟پانی کے باندھ جیسا۔پانی کوذرا بھی راستہ ملے، بہہ نکلتا ہے،پہلے آہستہ، آہستہ،پھر تیز؛پھر، بہت ہی تیز؛ طوفان جیسا۔
عرصے سے دراز میں پڑے قلم کونکال کرجیسے ہی اُس نے آفس کی فائل پر چلانا چاہا:اُس کے ذہن کاباندھ ٹوٹ گیا۔اُسے اپنی مرحومہ بیوی رجنی کے قلم پکڑانے کا اَنداز سکھانے کی اَدایادآگئی۔اُس نے ذہن کوجھٹکادیا۔پھر وہ سمجھ گیاکہ اُس کے ہاتھ میں وہی قلم ہے، جورجنی اُس کے لیے امین آباد سے لائی تھی،اور پھراُس کا مذاق اُڑاتے ہوئے:اُس کے قلم پکڑنے کے اَنداز کودرُست کیاتھا۔اِس وقت رجنی کے قلم پکڑانے کااَنداز یاد آتے ہی اُس کے ذہن کی ٹی۔ وی۔کافیوزاورچہرے کارنگ اُڑ گیا،اُس کے شعور کے نیٹ ورک جاتے رہے۔اور اُس نے تلملاکر قلم توڑ کر کوڑے دان کی نذرکر دیا۔
اُس کولگا: آفس گھومنے لگاہو،جیسے؛جیسے طوفان آگیا ہوکوئی،اور پھرفلمی پردے کی طرح رجنی اُس کے سامنے آگئی۔
’’میری نشانی توڑ پھینکنے سے بھُلا سکیں گے ،مجھ کو…..؟‘‘وہ زور سے ہنس کر سنجیدہ ہو گئی۔
’’نہیں نہیں،میرا اور آپ کاتو اَٹوٹ بندھن ہے:پتی، پتنی کا؛ جنم، جنم کا؛اَٹوٹ بندھن:اِسی بندھن کے ناتے تویم راج سے چھیناتھامیں نے،آپ کو؛ ساوِتّری بن کر ۔ اپنے گھٹنے ٹیک دیے تھے نا.!یم راج نے، اِسی بندھن کے آگے…؟لیکن آپ نہیں جانتے شاید۔جانتے ہوتے، توجلاکرمارڈالتے، مجھ کو..؟میں خوب صورت تھی نا…؟خوب صورت. ..! دکھائی پڑی مجھ سے زیادہ خوب صورت ، کوئی اور..! آپ کو…؟ بھگوان ؛ایک ہی چیز تو دیتا ہے۔حسن ،یا دولت….!پھردولت کہاں سے آتی میرے پاس…؟اورآپ تھے دولت کے پرستار…!کچھ ماہ تک تو ڈوبے رہے میرے شباب میں۔ پھر آپ کی فطرت نے انگڑائی لی،اور آپ نے میرے پتا جی سے پچّیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا؛پورے پچّیس ہزار کا۔وہ غریب تھے نا؟ کہاں سے لاتے اتنی رقم..؟اور آپ کوشراب کے لیے ضرورت تھی، رقم کی۔اسی لیے ٹوٹ کرپیار کیاآپ نے ،مجھ سے؛دکھاوے کا۔میں بھی باولی ہو گئی تھی، آپ کے پیار میں۔پھر بھی آپ نے ایک روزمکان اورمیراکمرااندرسے بندکرکے، اِسپرٹ سے بھرا کنستر:میرے کمرے میں رکھ کر،کچھ اِسپرٹ فرش پر گرا دی،اور کمرا بند کردیا۔میں جانتی سب تھی آپ کے منصوبے۔میں نہیں جانتی تھی تو کیا…؟میری آتما تو جا نتی تھی:یادرکھیے….! اَگنی کے سات پھیرے پتنی کی آتما کوپتی کی آتما سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جوڑ دیتے ہیں۔ اِسی لیے توہرپتنی ؛اپنے پتی کے ہراشارے کواپنی آتما کی آنکھ سے اچھی طرح بھانپ لیتی ہے ،یہ بات الگ ہے : وہ اپنے پتی کوبھگوان مانتے ہوئے،اُس کی ساری حر کتیں نظر انداز کر دے۔ میں تو اِس وقت بھی آپ کے اندر کی بات جانتی ہوں۔اِس وقت آپ کے اسکوٹر میں تیل کی ایک بوندتک نہیں،اورنہ ہی ہے آپ کی جیب میں پھوٹی کوڑی ۔اب آپ اپنی اسٹینوسے پرس گرجانے کابہانہ کر کے رقم اینٹھنا چاہتے ہیں،گھبرائیے نہیں۔وہ رقم دے گی آپ کو،کیوں کہ اُس کے پاس بھی ایک عورت کادھڑکتا ہوادِل ہے۔وہ آپ کی میٹھی میٹھی باتوں میں آکر پیار بھی تو کرنے لگی ہے، آپ سے؛ میری طرح۔ اِسی لیے تو آپ کورقم دے گی، وہ ۔‘‘
’’ایک بات اور بتاؤںآپ کو..؟آپ کی جیب میں زہر سے بھرا ایک کیپ سول ہے، جس کوآپ آج اپنی دوسری بیوی مالتی کوکھلا کرمار ڈالنا چاہتے ہیں۔حالاں کہ اُس بے چاری کے پِتانے اپنی جایِداد فروخت کر کے شادی پر ساٹھ ہزار کاچیک دیاتھا،آپ کو۔لیکن آپ مطمئن ہونے والے کہاں…. ؟ اِسی لیے توآپ کی نظراب اپنی اسٹینو پرہے:جولاکھوں کی وارث ہے۔اب تو یقین ہوگیاآپ کو،کہ میں آپ کے دِل کی ہربات جانتی ہوں۔جانتی ہوں نا…؟جانتی تو پہلے بھی تھی۔لیکن آپ میرے مجازی خدا تھے،اِسی لیے تو آپ کی ہر رضا پر خوش تھی،اور پھر موت سے مطمئن بھی توتھی میں،کیوں کہ موت سے پہلے دِن بھرکی جُدائی کے بعد گھڑی دوگھڑی آپ کاساتھ ہوتا تھا، اوراب…؟اب تو ہرپل ہوں، آپ کے ساتھ۔یقین نہ ہو تواپنے دِل پر ہاتھ رکھ کر دیکھیے…! اورسوچیے…!:جس دِن سے آپ نے مجھ کو موت کے گھاٹ اُتاراہے،ایک پل بھی الگ ہوئی ہوں، آپ کے دِل ودماغ سے…؟ہردم آپ کے رو بہ رو رہنے کاشوق ہی تو تھا،اِسی لیے توکچھ نہیں کہا میں نے ،آپ سے۔ورنہ تو کیا میں آپ کے ارادوں سے واقف نہ تھی..؟جس دن مجھ کوجلایا تھا،آپ نے.؟ اُسی دِن آپ نے اپنے دوستوں کے ہم راہ فلم کا نائٹ شو دیکھنے کا بہانہ کر کے مجھ سے کمرا اندر سے لاک کرادیا،پھر آپ کمرے سے ملے ہوئے باتھ روم کے باہری دروازے سے نکل کر،باہر سے باتھ روم لاک کر کے چلے گئے،اور فلم کی صرف دوریلیں ہی دیکھ کر واپس چلے آئے۔پھر اُسی باتھ روم کے باہری دروازے سے داخل ہو کر ، آپ نے بجلی کاسوئچ آف کرکے،میرے کمرے میں اندھیرا کرکے میرے کمرے کے کواڑ دھیرے سے کھٹکھٹائے۔میں جاگی توکمرے میں اندھیرا تھا۔میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے روشنی کے لیے ماچس کی تیلی جلائی،اور کمرے کی فضا میں اسپرٹ ہونے کے باعث کمرا آتش فشاں بن گیا۔آپ نے فوراً بجلی کاسوئچ آن کردیااور اُسی باتھ روم کے باہری دروازے سے سرک گئے،اور فلم ختم ہونے کے بعداطمینان سے لوٹے۔تو مکان میں محلّے کے لوگ اوراُن کے ہاتھوں کواڑ ٹوٹے ہوئے ملے آپ کو۔پھر آپ مگر مچھ کے آن59سوبہاتے ہوئے چیختے پکارتے میرے پاس آگئے۔آپ نے دیکھاہوگا: میں کھلی آنکھوں کے ساتھ آپ کی منتظر تھی نا….؟‘‘
’’میں تو اب جانتی ہوں آپ کی،ہر بات۔اِس کاایک ثبوت اور دیتی ہوں آپ کو..! ہاتھ، جیب میں ڈال کر اپناپرس نکالیے..!اب اُس کو کھولیے..!اوردیکھیے…!اُدھار کے پرچے کے پاس فلم کاآدھا ٹکٹ ،اب تک محفوظ ہے کہ نہیں، آپ کے پاس…؟ آپ اس کومحض اِس لیے رکھے ہوئے ہیں کہ کبھی بات اُٹھنے پراِس کوپیش کر کے سنیما میں ہونے کا ثبوت دے سکیں…! مگر چھوڑیے بھی اِس کو۔کون پوچھتا ہے صاحب…؟مجھ جیسی لاکھوں غریب ،بھولی اورمظلوم بیویاں ،تم جیسے :امیر، چالاک اور لالچی مردوں کے ہاتھوں آئے دِن جلا کر مار دی جاتی ہیں،اور اُن غریبوں کی موت کو رسوخ اور دولت کے بل بوتے خود کشی یا اتّفاقاً موت قرار دے دیا جاتاہے،مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اِس طرح اُن کو مار دینے سے اُن کی آتمائیں مر جاتی ہیں…؟ہر گز نہیں صاحب…! آتمائیں کبھی نہیں مرتیں ۔ آتمائیں تو آتمائیں ،جسم تک فنا نہیں ہوتے صاحب.!بل کہ عناصر میں تبدیل ہوکردنیا کے چمن میں رنگ بھرتے ہوئے، اپنے محبوب کاپیچھا کرتے ہوئے، اُن کی رہ نمائی کرتے ہیں۔اسی لیے تودنیا کی ہر شے میں نظر آتی ہوں آپ کو…؟آتی ہوں نا…؟پھر قلم توڑ پھینکنے سے کیااپنے دل و دماغ سے مجھ کونکال سکتے ہیں آپ..؟میں ہردم، ہرجگہ آپ کے ساتھ رہتی ہوں،یہاں تک کہ میں آپ کی دوسری بیوی مالتی اورآپ کی اسٹینوکی رگ رگ میں پیوست ہوں، اسی لیے تواُن دونوں کے اَنگ اَنگ میں صاف نظر آتی ہوں،آپ کو۔‘‘
اُس نے گھبراکردراز سے شراب کی بوتل نکال کرچڑھالی۔
وہ پھر ہنسی۔’’سچ کہیے صاحب..! کیاآپ کوشراب کے اِس سرور میں، میری اَلہڑ جوانی کے سرور کی راتوں کالطف نہیں آرہا ہے، کیا…؟کیاآپ کے سگریٹ کے دھوئیں میں چاروں طرف رقص کرتی دکھائی نہیں دے رہی ہوں میں…؟‘‘
اُس نے دیکھاکمرے میں چاروں طرف دھُویں میں رجنی ہی رقص کررہی ہے۔اُس نے فوراًسگریٹ مسل کرگھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھ دی۔
’’ہیلو صاحب…!‘‘اسٹینوآگئی۔
’’کتنی بار کہا کہ تم ’ صاحب ‘نہ کہا کرو…!مجھ کو۔‘‘اُس نے اسٹینو پر غصّہ کیا۔
وہ پھر ہنسی۔’’میں نے کہانا…!: آپ کی اسٹینومیں بھی ہوں، میں۔آپ اسٹینو کوبار بار’صاحب‘نہ کہنے کی تاکید آخر کرتے ہی کیوں ہیں…؟مجھ کوبھلانے کے لیے نا..!یاد رکھیے..! وہ ہر گز نہ چھوڑے گی ’صاحب ‘کہنا،کیوں کہ وہ اسٹینو نہیں، میں ہوں ،میں۔ اور ’صاحب‘ میرا تکیۂ کلام تھا،جوکبھی نہ چھوٹے گا،مجھ سے؛سمجھے….؟‘‘
اُس نے سر جھٹکا،اور فائل اسٹینو کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا: ’’تمھارے پاس کچھ پیسے ہوں گے…؟‘‘
’’وہائی ناٹ…؟‘‘اسٹینو نے چھوٹاسا سرخ پرس ،بلاؤز سے کھینچ لیا۔
’’دراصل میراپرس آج کہیں گر گیا۔‘‘وہ بے خیالی میں اسٹینوسے کہہ گیا۔
’’ڈونٹ مائنڈ…!‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹینو ؛میز پر رکھے ہوئے اُس کے پرس کودیکھ کر مسکرادی۔
وہ پھر ہنسی۔’’دیکھیے….! آپ گھبراہٹ میں اپنا پرس میز پر ہی بھول گئے،اور اسٹینو نے اُس کودیکھ لیا،لیکن گھبرائیے نہیں،وہ کہے گی کچھ بھی نہیں۔ہم پیار کے متوالے محسوس تو سب کرتے ہیں ،مگر کہتے کچھ بھی نہیں۔ بس …ًپی جاتے ہیں،سبھی کچھ،سبھی کچھ سہہ لیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ مرجاتے ہیں، اپنے محبوب کی رضا کے لیے ،ہے نا…؟‘‘
’’یہ لیجیے…!‘‘اسٹینو نے پانچ سوروپے پیش کیے،اوراُس کے خیال کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔اُس نے لمباسانس کھینچااور روپے سنبھالتا ہوا آفس سے نکل گیا۔پاس کے پٹرول پمپ سے تیل لیا،اورگھر کی جانب روانہ ہوگیا۔
گھر کے سامنے اُس نے اپنا اسکوٹر روکا،تووہ پھر بولی:’’وہ دیکھیے..! مالتی کے روپ میں دروازے پر انتظار کررہی ہوں ،آپ کا۔جب گھر آتے ہیں تومالتی کے روپ میں ہی توپاتے ہیں آپ، مجھ کو۔یقین نہ ہو توڈال دوپردہ اُس کے چہرے پر،اورٹٹول لواَنگ اَنگ اُس کا۔ میرے جیسا ہے کہ نہیں، سب کچھ اُس کا…..؟پھر کون کہتا ہے میراوجود فناہو گیا ….؟میں فنا ہونے والی نہیں۔ہر گز نہیں۔ آخر رُوح ہوں نا….؟ میں….!‘‘
’’یہ دیکھیے…!مالتی نے میری ہی طرح آپ کا کوٹ اُتارا ، اور اب میری ہی طرح جوتے اُتارے گی آپ کے،کھانا دے گی ،پانی دے گی؛ میری ہی طرح تو…!میری ہی طرح باتیں بھی کرے گی،وہ میٹھی میٹھی ،بھولی بھالی،معصوم بچّوں جیسی۔دیکھیے..! اب پھیلادی ہیں اُس نے اپنی گھنیری ،درازاورسیاہ زلفیں۔دیکھتے جائیے …!میں ساری دنیا کواپنی گھنیری،درازاورسیاہ زلفوں میں سمیٹ رہی ہوں۔ آپ بھی نہیں بچ سکتے، اِن زلفوں سے۔‘‘
اُس نے گھبرا کرمالتی کی زلفوں جیسی سیاہ رات سے بچنے کے لیے بجلی کاسوئچ آن کر کے بلب روشن کردیا۔
’’لیجیے …!حاضر ہوں روشنی کے روپ میں بھی۔وہی جنم جنم کا ساتھ ہے،چراغ اور روشنی کا۔جب تک چراغ جلے گا،روشنی تورہے گی ہی نا،تب تک…..؟‘‘
اُس نے رجنی کے تصورسے چھٹکارا پانے کے لیے مالتی کوگلے لگالیا۔
رجنی نے اُس کے کان میں پھر سرگوشی کی:’’ہاں ہاں، لگا لیجیے گلے سے ،مجھ کو نہ سہی ؛مالتی کوسہی۔یہ بھی تومیں ہی ہوں نا …!ارے ارے….!یہ کرکیارہے ہیں، آپ….؟ میرے لاکھ سمجھانے پر بھی عقل نہ آئی، آپ کو….؟اب بھی یہ کیپ سول مالتی کوکھلاکر اُسے بھی مار ڈالنا چاہتے ہیں۔مجھ کومار کرتو بھلا نہ سکے ابھی تک، مجھ کو۔مالتی کو مار کر ایک اور بلا لگا لینا چاہتے ہیں، اپنے پیچھے؛ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ، آپ.؟ایسی نادانی دوبارہ نہ کریے جناب..! ورنہ بہت پچھتائیں گے، آپ…!اَب آپ کی بھلائی اِسی میں ہے کہ جس طرح میں آپ میں سما گئی ہوں،آپ بھی سما جائیے، مجھ میں مالتی کی زلفوں میں پناہ لے کر…!وہ بھی تو میرا ہی روپ ہے۔اُس کی زلفیں بھی تو میری زلفوں جیسی ہیں:گھنیری ،درازاورسیاہ بھی۔آتما بھی توہے اُس میں میری ہی۔ صرف نام ہی توبدل کر مالتی رکھ لیاہے، میں نے۔آئیے .! اور سو جائیے، میری گھنیری،سیاہ، اور دراز زلفوں کے سایے میں ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔‘‘
اُس نے محسوس کیا: مالتی اُس کواپنے میں جذب کرنے کے لیے بے قرار ہے۔ اسی اثنامیں اُس کے ہاتھ سے کیپ سول چھوٹ کر زمین پر گرگیا۔
’’ارے میری دوا….!‘‘جیسے ہی مالتی کوکیپ سول گرنے کا احساس ہوا،وہ لپکی۔
’’نہیں……!گری ہوئی دوا نہیں کھاتے، مالتی….!‘‘اُس نے فوراً کیپ سول کو جوتے سے مسل دیا۔پھر اُس کولگاجیسے: رجنی نے اُس کو اپنی گھنیری،دراز،اور سیاہ زلفوں کی مہکتی چادر میں سُلا لیا ہواور پھر سکون کی نیند نصیب ہوئی ہواُس کو،آج پہلی بار۔

Share
Share
Share