شاہانِ عادل شاہیہ کا ذوق و شوقِ موسیقی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرحبیب نثار

Share

habeeb nisar
شاہانِ عادل شاہیہ کا ذوق و شوقِ موسیقی

ڈاکٹرحبیب نثار
شعبہ اردو‘ حید رآباد سنٹرل یونیور سٹی‘
حیدرآ باد ۔

ابر ہیم عا دل شا ہ ثا نی ‘ شاہان عا دل شا ہیہ میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُ س کی واحد تخلیق کتا ب نورس ہے اورکتابِ نورس فنِ مو سیقی کی کتا ب نہیں ہے۔
عادل شاہی سلطنت کا بانی یوسف عادل شا ہ کو محمد قا سم فرشتہ نے ’’ اولاد سلا طین روحیہ المشہور باآل عثما ن ‘‘ لکھا اور علی بن طیفور بسطامی نے اُ سے ’’ ازبزرگ زاد گان بلدہ ساوہ‘‘ قرار دیاہے۔ایک اندازے کے مطا بق شہزادہ یوسف بن مراد ۸۵۸ھ میں پیدا ہوا۔ اپنی ماں کی خواہش پرجان بچا نے کی غرض سے وہ اپنے ملک سے ہند وستان چلا آیا ۔

ہندوستان میں بہمنی سلطنت اپنے عروج پر تھی ۔ شہزادہ یو سف نے بھی بیدرکا رخ کیا اور خواجہ محمود گاواں کی ملا زمت اختیار کی ۔اپنی قا بلیت اور ذاتی جو ہر‘ ایمانداری و بہادری کی بنا پرترقی کرتا گیا حتیٰ کے ۸۹۰ھ / ۱۴۸۵ء میں اُسے عا دل خا ں کے خطا ب سے سر فراز کیا گیا اورصوبہ بیجاپور کا حا کم بنا دیا گیا۔ مرکزی حکومت کی کمزوری اورانتشارکو دیکھتے ہوئے ۸۹۷ھ /۱۴۹۰ء میں یوسف عادل خاں نے خود مختاری کا اعلان کیا۔
ڈاکٹرجمیل جا لبی لکھتے ہیں:
’’ شعروشاعری کا اُ سے بچپن سے شوق تھا ۔ خود بھی فارسی میں شعرکہتا تھا ۔ علما ء وفضلا ‘ اہل فن اورارباب ہنر کا بڑا قدردان تھا ۔خود باشاہ بنا تو اس ذوق کواورترقی دی۔‘‘
علی بن طیفوربسطامی لکھتا ہے کہ خوش نویسی اورعلم عروض سے اسے بڑا شغف تھا اور فن موسیقیِ سے بھی دلچسپی تھی ۔سیدعلی بلگرامی ’’ تا ریخ دکن ‘‘ ( حصہ اوّل ص ۲۸۹) میں لکھتے ہیں ’’ طنبور اورعود بجانے میں اُ سے کمال حاصل تھا ‘‘ جب کہ فرشتہ لکھتا ہے۔
’’ فنِ موسیقی میں ایسی دستگا ہ بہم پہنچا ئی تھی کہ وہ اپنے عہد کے ممتازموسیقاروں میں شمار کیاجاتا تھا ۔ اس کے عہد میں ایرانی فنکار ‘ زمان گیلا نی اور حسین قروینی ‘ سا زندہ‘ بیجاپور بلوا ئے گئے تھے۔‘‘
اس اقتباس سے اتناتو اندازہ ہوتا ہے کہ یو سف عادل خاں موسیقی سے وا قف وبا خبرتھا اورغالباً اُ سے ایرا نی موسیقی میں دستگا ہ تھی ‘ مہا رت تھی ‘ ہندوستا نی موسیقی سے وہ علا قہ نہ رکھتا تھا لیکن تا ریخ فرشتہ کے اردو مترجم لکھتے ہیں:
’’علم موسیقی میں بھی اس کوکمال حصول تھا ۔ بڑے بڑے قوال کلاونت اس کے روبرومنہ نہ کھولتے تھے ۔ دھرپد ‘ خیال ‘ ٹپہ خوب گاتا تھا ۔ طنبور‘ عود ‘ ستاراور طبلہ ایسا بجایا کہ پکھاوج کوشرمایا۔‘‘(جلد دوم ص ۲۲‘ ۲۳)
یہاں کئی باتیں محل امرہیں۔ اس اقتباس میں تین اصنافِ نغمہ کا بیان کیا گیا ہے‘ دھرپد ‘ خیال اور ٹپہ ۔۔۔یہ اصناف ہندوستانی موسیقی سے تعلق رکھتے ہیں۔ خیال اس عہد میں صرف خانقاہوں کی زینت بنا ہوا تھا۔دھرپد کی اختراع مان سنگھ تو مار سے منسوب ہے وہ زمانہ مابعد کاموسیقار ہے۔ ٹپہ البتہ سرحد کانغمہ ہے یہ نغمہ افعانستان اور ایران میں بھی مستعمل رہا ہے ۔بہت ممکن ہے یوسف اس میں مشق رکھتا ہو درک رکھتا ہو ۔ سید علی بلگرامی نے طنبور اور عود بجانے میں اُس کی مہارت کا ذکر کیا ہے ۔ جس ساز ‘ طنبور‘کا ذکرکیا گیا ہے وہ یقیناًکوئی اور ساز ہوگا جسے بجایاجاتا تھا آج کا طنبور یا طنبورہ نہیں جو صرف مرکزی فنکار کی آواز کے ارتعاش کو سہارا دینے کی غرض سے چھیٹرا جاتا ہے۔آج کے مروج طنبورہ کوانگلیوں سے چھیڑا جاتا ہے جبکہ ظہوری کی ایک رباعی جو اس نے ’’ موتی خا ں‘‘ کی تعریف میں کہی ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ طنبورہ مضراب سے بجایا جاتا تھا ع ’’ مضرا ب قلم سا ختہ بنوسید‘‘۔ تاریخ فرشتہ کے مترجم نے یوسف عادل خاں کی چار ساز بجا نے میں مہا رت کا ذکر کیا ہے‘ طنبورہ ‘ عود اور ستار ‘ تار والے ساز ہیں اور کسی ایک ساز پر مہا رت حاصل ہو جا نے پر دوسرا ساز بجانا آسان اور ممکن ہو جاتا ہے لیکن یہاں جن سا زوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ دنیا کے دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔عود ‘ عربی و ایرا نی ساز ہے اور ستار ہند وستا نی ‘ عود میں پردے نہیں ہوتے ستار میں پردے ہوتے ہیں یہ خالص ہند وستانی ساز ہے۔ یوسف عادل خاں نے۹۱۵ھ/ ۱۵۱۰ء میں انتقال کیا اور اسمٰعیل عادل خاں تخت نشین ہوا۔ اسمٰعیل کو بھی ’’ مو سیقی اور شاعری سے دلچسپی تھی اور بقول ڈاکٹر زینت ساجدہ ’’ نہا یت کمال حاصل تھا اور اس کا کوئی حریف نہ تھا ۔ (کلیا ت شا ہی ص ۷مقدمہ ) چونکہ اسمٰعیل کا رجحان فارسی اور ترکی کی جا نب زیادہ تھا بہت ممکن ہے کہ وہ ہندوستانی موسیقی کے بجا ئے ایرانی موسیقی میں مہارت رکھتا ہو ۔ اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اسمٰعیل نے فا رسی کو سرکاری زبان باقی و برقرار رکھا تھا۔
اسمٰعیل نے پچیس سال کامیاب حکمرانی کے بعد ۹۴۰ھ میں انتقال کیا اور ابراہیم عادل شاہ اوّل تخت نشین ہوا۔ڈاکٹر ایم ۔ اے نعیم اپنی تصنیف External Relations of Bijapur میں لکھتے ہیں ’’ ابراہیم پہلا عادل شاہی حکمراں ہے جس نے ’’ شا ہ‘‘ کا لقب باقاعدہ طور پراختیار کیا تھا۔‘‘ابراہیم نے نظم و ضبط پر مکمل قابو پانے کی غرض سے مقا می روایات کی پا سداری کی اور آفاقیوں کو فوج سے خارج کیا ۔ اسی طرح اس نے فارسی کی جگہ مقا می زبا ن دکنی کو دفتری زبان قرار دیا تھا ۔جس کا ذکر فرشتہ نے کیا ہے اور جس کی تا ئید خافی خاں کے بیان سے ہو تی ہے ۔ وی ۔ سی ۔ ور ما History of Bijapur میں لکھتے ہیں کہ ابراہیم نے شاہی دفتروں میں فارسی کی جگہ مرہٹی کو اپنایا تھا ۔ یہا ں عرض یہ کرناہے کہ مرہٹی یا کنڑی کوکبھی لفظ ’’ ہندی ‘‘ سے یاد نہیں کیا گیا ا س کے برخلا ف ابتدا ء ہی سے دکنی کے لئے ’’ ہندوی ‘‘ یا ’’ ہندی ‘‘ کی اصطلا ح ملتی ہے۔ ابراہیم عادل شاہ اول پہلا عادل شاہی حکمراں ہے جس کے دربار میں ہندوستا نی مو سیقی کے نغمے اور ساز فضا میں نغمگی بکھیرتے نظر آ تے ہیں۔ایشوری پرشاد نے ابراہیم عادل شاہ اول کا سنہ وفا ت ۱۵۵۸ء بتایا ہے اور جان برگس نے ۱۵۵۶ء تحریر کیا ہے ۔ دراصل آخر الذکر سن صحیح ہے اور اسی سن میں علی عادل شاہ اول تخت نشین ہوا ہے ۔ اس عادل شاہی سلطان کا زمانہ جنگوں سے عبا رت ہے کہ کبھی رام راج اورکبھی نظام شاہی حکمران کلیانی شولا پور اور دوآ بہ را ئچورپرحملہ آ ور ہوا کئے ۔ اس ماحول میں بھی علی عادل شاہ اول نے فنون لطیفہ سے دلچسپی لی اور انھیں فروغ دینے کی سعی مشکور کی ۔یہی اسباب تھے کہ ۹۸۸ھ /۱۵۸۰ء کے آ تے آ تے مو سیقی اس قدر شبا ب آ ور ہو چکی تھی کہ ابر اہیم عا دل شا ہ ثا نی کو اس فنِ لطیف میں اپنی جو لا نیا ں دکھا نے کا مو قع ملا ۔ پر و فیسر سیدہ جعفر لکھتی ہیں۔
’’ علی نے خا ندانی روا یا ت کو بر قرار رکھا اور مو سیقی کی سر پر ستی کی ۔ علی کے عہد حکو مت میں عراق ‘ عر ب ‘ ایر ان اوردو سر ے مقا ما ت سے علما ء آ کر بیجا پور میں مقیم ہو گئے تھے۔(تا ریخ ادب اردو جلد اول ص ۲۰۵)
علی عا دل شا ہ اول کے انتقا ل پر اس کا بھتیجا ابر اہیم نو بر س کی عمر میں تخت نشین ہوا۔
ابراہیم عادل شاہ ثا نی کے بارے میں مشہور ہے کہ ’’ مو سیقی کے شو ق اورلگن میں وہ موسیقی کی دیوی سرسوتی کا پجاری بن گیا تھا۔‘‘ ابراہیم عادل شاہ ثانی کے لئے یہ لکھتا ہے کہ اس نے خود کو سرسوتی کا پجاری بنا لیا تھا یقیناًزیادتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ابراہیم نے سرسوتی کی مدح میں شعر موذوں کئے ہیں لیکن کسی کتا ب میں یہ نہیں لکھا ہے کہ اُس نے سرسوتی کی پوجا کی ہے ۔بجنترخاں (چترخاں )کلا ونت جوخیال اور دھرپد گانے میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا اسی کے دربار سے وابستہ تھا۔ جس نے بعد میں جہانگیر کے دربار کی زینت بڑھائی ۔تاریخ کی کتابوں میں ابراہیم عادل شاہ ثانی کے خطا ب ’’ جگت گرو‘‘ کے بارے میں مرقوم ہے کہ یہ لقب اُ سے موسیقی میں مہارت کی بنا پر دیا گیا تھا ۔ شمس اللہ قا دری ’’ اردوئے قدیم ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ ابراہیم عادل شاہ کوموسیقی میں بے حد مہارت حاصل تھی خا ص کرسرودِ ہندی میں ایسا کمال پیدا کیا تھا کہ اس عہد کے تما م گوئیے اُ سے جگت گرو کہا کر تے تھے۔‘‘
لیکن ابراہیم عادل شاہ ثانی کو دئیے گئے خطا ب کا’’ جگت گرو ‘‘ کی حقیقت کواس تو جیع سے کوئی تعلق نہیں رکھتی ۔ یہ خطا ب ابراہیم عادل شاہ ثانی کو اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ ایک اچھا اور قابل با دشاہ تھا ‘بہادر سپاہی تھا اور اُ س کے عہد میں تمام ریاست خوشحا ل تھی ۔ چنا نچہ صاحبِ بساتین السلا طین اس خطاب کی توجہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’ درمیانِ عالم بجگت گرو مشہور گردیدہ این لفظ دراصل دکہنی است مردم برصورت و سیرت آں بادشاہ حمیدہ خصال پسندیدہ افعال بجان راضی و خوش حال بودہ درباب اواین لفظ با ستعما ل آور دندومعنی آں شاہ جہاں است۔‘‘
اس اقتباس سے ہمارے مورخین اور ادیبوں کو ہونے والے تسامح کی تصحیح ہوجاتی ہے اور یہ بات سامنے آ تی ہے کہ ابراہیم عادل شاہ ثانی کوموسیقی میں کامل دستگاہ اوراستادی کی بنا پر جگت گرو کا خطاب نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ خطا ب سکندرِثانی ‘ عالمگیر ‘ شاہ عالم وغیرہ کی طرح خطابِ بادشاہی تھا اور اس کا کوئی تعلق موسیقی سے نہیں۔
محمد عادل شاہ ‘ ابراہیم عادل شاہ ثانی کا سچّا جانشین ثابت ہوا ۔ اُس نے اپنے پیشرو کی روا یات کی پاسداری ہی کوعین ایمان قرار دیا تھا۔اُس کے عہد کی موسیقی کا علم ہمیں اس زما نے میں لکھی جا نے والی ادبی و تاریخی کتابوں سے ہوتا ہے ۔ حسن شوقی نے محمد عادل شاہ کی شادی کے موقع پر مثنوی میزبانی نامہ لکھی ہے جس میں موسیقی کی محافل کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ اشعار دیکھئے:
تنبورے جنتر بتیا سُر منڈل
کلمبک اگر تبلیا کا منڈل
شہر گشت کے مو قع پر کہتا ہے۔
جیتے بھانت باجا ہے سو دار میں
و تے بھانت باجے بھار میں ص ۱۲۶
طبل ‘ ڈھول ‘ جم جم کر یں دھمدھا
فرنگیاں و تالاں کیرا کڑ کڑا ٹ ص ۱۲۸
نوا ب مظفرخاں کی میزبانی کے بیان میں کہتا ہے۔ ص ۱۳۲
نیا رنگ ہور را گ کرلا ہوا
و لے مست و غلطاں سوں ورلا ہوا
بھنگے بھا ٹ نٹو ے کہ کنچن ملے
سونو کھنڈ کے سب کنچن ملے
کماچی و دھاڑی عطائی کیتے
مغنی سو چینی خطائی کتے
الاپیا گلا تان کرتان خاں
رنگیلا سگھڑ تھا خوش آواز خاں
ریجھا وے چترخاں ہورسا زخاں
چرایا ہے اوس میں سو سُر گیان خاں
چتر کار جھنکار میں چت کیا
جیتے تار اوتار کے رُت کیا
میزبانی نامہ کے ان اشعارسے پتہ چلتا ہے کہ محمدعادل شاہ کا دربا ر موسیقی کے فنکاروں سے معمورتھا اور ہرفنکار کی خوبی و خصوصیت کے اعتبار سے بادشاہ نے خطابات عطا کئے تھے ۔ تان خاں ‘ خوش آواز خاں ‘ سا زخاں ‘ سُرگیان خاں ‘ یقیناًفنکا روں کے لقب ہیں افسوس اسی بات کا ہے کہ کسی ماخذ سے ان فنکا روں کے اصل نام معلوم نہیں ہوتے ہیں۔
علی عادلشاہ ثانی شاہی ؔ کی موسیقی سے دلچسپی اور موسیقی نوازی معلوم و مشہورہے۔ عوام نے اُ سے ’’استادِ عالم ‘‘ کا خطاب دیا تھا ۔ کلیاتِ شاہی میں موجود گیت سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی نہ صرف اپنے دادا ابراہیم عادل شاہ ثانی کی اس روایت کا پاسدار تھا جس کے تحت ابراہیم نے راگ ؍ راگنیوں میں گیت موذوں کئے تھے بلکہ وہ اپنی موسیقی فہمی کا ثبوت اپنے دادا کے لکھے ہوئے گیتوں کی تعداد سے زائد را گ ؍ را گنیوں میں موذوں کرتے ہوئے دیتا ہے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی نے کتاب نورس میں جملہ ستا ون(۵۷) گیت سترہ (۱۷)را گ ؍ را گنیوں میں قلمبند کئے ہیں۔ یعنی ایک راگ ؍ راگنی میں کئی گیت موذوں کئے ہیں ۔جبکہ علی عادل شاہ ثانی شاہی نے صر ف اکیس (۲۱ ) گیت موذوں کئے ہیں لیکن راگ ؍ راگنیوں کی تعداد انیس (۱۹) ہے ۔ یعنٰی گیت کم لکھے لیکن زا ئد راگ ؍ را گنیوں کا استعما ل کیا ہے۔ ڈ ا کٹرزینت ساجدہ نے انہی اسبا ب کی بنا پر شاہی کو ’’ کا میاب گیت کار‘‘ قرار دیا ہے اور شاہی کے گیتوں کو ’’ راگ گیت ‘‘ کا موذوں ترین نام دیا ہے۔

Share
Share
Share