افسانہ: مکالمہ بہت ضروری ھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید مہتاب شاہ

Share

mehtab-shah-9افسانہ
مکالمہ بہت ضروری ھے

سید مہتاب شاہ
کراچی

اپنے آپ میں رھنے والا محسن اپنے گھرمیں سب سے بڑاتھا،اکثررشتہ داراس سے شاکی رھتے تھے کہ وہ ان سے کم کم ملتا ھے کسی کے ھاں آجانا بھی بس خوشی اور غم تک ھی محدود تھا اس کا،ایک روزایک تقریب میں سب ھی خاندان والے شریک تھے ،محسن نے سب دعاسلام اورحال احوال چاھا لیکن انتہائی قریبی رشتہ داروں میں سے اکثرلوگ اس سے دوردوررھنے کوترجیح دیتے پائے گئے ۔

محسن نے اکثرتقاریب میں ان لوگوں کے اس رویوں کو دل ھی دل میں محسوس کرکے بہت تکلیف محسوس کی تھی،مگراس کی عادت تھی کہ وہ کسی سے کوئی شکوہ تک نہیں کیا کرتا تھا،بس وہ ھرقسم کے دکھ درد کو اپنے اندرھی گُھٹ گُھٹ کرپی جانے کا عادی ھوچکا تھا،علی اس کی خالہ کا بیٹا اور بچپن کا دوست تھا،وہ بھی سعودیہ سے آیا ھوا تھا،علی نے محسوس کیا کہ محسن دن بہ دن کمزورھوتا جارھا ھے ،کم کم بولتا ھے ،گم سم سارھتا ھے آخرکیوں ؟
ایک دن علی نے محسن کی دعوت کی اور کھانے کی ٹیبل پر محسن خاموشی سے کھانا کھانے میں مگن تھا علی اسے کافی دیرتک بغوردیکھتا رھا ،لیکن محسن لاشعوری طورپراس سے بالکل لاتعلق تھا،علی نے خود ھی بات چھیڑتے ھوئے محسن سے کہا
"زندگی بھی بڑی عجب شے ھے ناں محسن ؟”
ھاں وہ زندگی ؟
محسن نے چونکتے ھوئےکہا،علی نے محسوس کرلیا تھا کہ محسن میرے پاس ھوتے ھوئے بھی وہ یہاں نہیں ھے ،علی نے محسن کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
” محسن ـ میرے بھائی ـمیرے دوست،تجھے آخرھواکیا ھے ؟تم ھروقت کیوں کھوئے کھوئے سے رھتے ہو،؟کسی سے بات کیوں نہیں کرتے ؟”
محسن نے انگلیاں چاٹتے چاٹتے ایک ٹھنڈی سی آہ بھری اور سامنے دیوارمیں نصب واش بیسن پرہاتھ دھونے لگا،تولیہ لیا ہاتھ خشک کیئے واپس آکرعلی کے برابروالی کرسی پربیٹھ گیا اور علی کے کاندھے پرہاتھ رکھ کربولا
"علی تم تو مجھے پچپن ھی سے جانتے ھو،کیا میں نے خاندان میں آج تلک کسی کے ساتھ بھی کوئی برائی کی ھے ؟کوئی بدسلوکی ؟کوئی ناانصافی ؟کوئی جھگڑہ یا فراڈفریب دھوکہ ؟”
علی نے محسن کی بات کاٹتے ھوئے فوراََ کہا
” نہیں محسن ایسا کچھ نہیں ھے، کس نے کہا ھے ؟کیا کسی نے کچھ کہا ھے تم سے ؟میرامطلب ھے کسی نے کوئی شکوہ شکائت ؟؟”
ارے نہیں ناں علی ۔مجھے اسی بات کا دُکھ ھے کہ اگرمجھ سے کوئی خطا سرزد ھوئی ھے ،اگرمجھ سے کوئی غلطی ھوئی ھے تو مجھے بلائیں یا میرے پاس آئیں ۔بیٹھ کربات کریں ،مکالمہ کریں ۔ یوں دلوں میں بدگمانیاں پال لینے سے تو معاملات بہت بگڑجایا کرتے ہیں،دلوں میں رنجشیں پیداھوجایا کرتی ہیں،قربتیں فاصلوں میں تبدیل ھوجایا کرتی ہیں،میرے دوست تم ھی بتاوکہ مجھے کیسے پتہ چلے گا یا تمہیں کیسے پتہ چلے گا کہ ھم میں سے کون کتنا اچھا یا براھے ،کون گنہگارھے ؟کون غلط ھے کون نہیں ؟غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کی وجہ سے اگرکوئی مجھے قصوروارسمجھتا ھے تو ہزاربارسمجھے علی ،مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں ھوگی ،سمجھے تم ؟”
محسن غصے میں اُٹھ کرجانے لگتا ھے ،اتنے میں علی کی امی یعنی محسن کی خالہ میٹھے کی ڈش لاکرٹیبل پررکھتے ہوئے مخاطب ھوتی ہیں
” کیوں کھانا اچھا نہیں لگامیرے بیٹے کو اپنی خالہ کے ہاتھ کاپکا ھوا؟ہیں ناں محسن بیٹا؟”
محسن دوبارہ سے کرسی پربیٹھتے ہوئے خالہ جان سے مخاطب ھوا
"نہیں خالہ جان آپ کودیکھ کرتواماں مرحومہ کی یاد آجاتی ہے اور پھرآپ کے ہاتھ میں تو وھی لذت ھے جو اماں جان کے ہاتھوں میں ہواکرتی تھی ،اللہ جنت نصیب فرمائے انھیں ،اچھا خالہ اب میں جارھا ھوں ،بچے آنے والوں ھونگے ٹیوشن کے ”
علی نے ماں کی طرف آنکھ کا اشارہ کیا اورخود اُٹھ کرسامنے اپنے کمرے میں چلاگیا۔خالہ محسن کے قریب والی کرسی پرآکربیٹھ گئیں اور محسن کو گلے لگاتے ہوئے اسے پیارکیا اور سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ھوئیں
” محسن بیٹاایسی بھی کیامصروفیت ھے بیٹا؟ آج پورے تین برس کے بعد تم نے میرے گھرمیں قدم رکھا ھے ،آخرکوئی تووجہ ھوگی؟”
"خالہ جان آپ تو جانتی ہیں کہ میں نے خاندان بھرکے لوگوں کے ساتھ نیکی ھی کی لیکن میری ذات سے کسی کو رنج نہیں پہنچا ھوگا”
محسن نے خالہ جان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا،
خالہ نے محسن کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
” ھاں بیٹا میں بہت اچھے سےجانتی ھوں کہ تم نے اپنے تمام بہن بھائیوں ،بھانجے بھانجیوں بھتیجے بھتیجیئوں اورتواورمحلے والوں کے ساتھ بھی اپنی استظاعت سے بڑھ کربہت کچھ کیا ھے ، لیکن میں نے خودبھی محسوس کیا ھے بیٹا بہت سے لوگ تم سے نالاں ہیں اور کچھ لوگ تم سے بہت شاکی بھی ہیں ،آخراس کی وجہ کیا ھے ؟”
"خالہ آپ تو جانتی ہیں کہ میرے چھوٹے بھائی نے ابوجان کے دل میں میرے لیئے کچھ ایسی بدگمانیاں پیدا کردی ہیں کہ وہ مجھ سے ناراض رھنے لگے ،میں نے بارھا کوشش کی کہ انھیں اپنی صفائی پیش کروں لیکن نہ جانےکیوں انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کی جھوٹی باتوں کو میری سچی باتوں پرترجیح دیتے ہوئے میری عمربھرکی محنت اور تابعداری کو ایک سائیڈپررکھ دیا،جس کی وجہ سے میرے چچا،ماموں حتی کہ تمام رشتوں نے مجھ سے مُنہہ پھیرلیا،ایسے میں اچانک سے شہرکے حالات کچھ اس طرح سے خراب ھوئے کہ میرا سارا کاروباربھی ٹھپ ھوکررہ گیئا،آپ تو جانتی ہیں کہ میں ٹرانسپورٹرتھا ،ایک ھی دن میں ظالموں نے میری تین کوچوں اور دوٹیکسیوں اور چاررکشوں کو آگ لگا کرخاکسترکردیا ،میری ساری عمرکی جمع پونجی گھنٹوں مین جل کرراکھ کا ڈھیربن گئی ،خالہ جان جب میرے پاس دولت ختم ھوگئی تو تمام رشتوں نے مجھ سے مُنہہ پھیرلیئے !
ــــــــ

Share
Share
Share