افسانہ : مُتَلَوِّن گرگٹ ؛سہ بُرُوْتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حنیف سیّد

Share

 گرگتافسانہ
مُتَلَوِّن گرگٹ ؛سہ بُرُوْتی

حنیف سیّد ۔ آگرہ
09319529720

نوٹ:ماہ نامہ ’تریاق‘ ممبئی ،اگست ۲۰۱۶ ؁ ء میں افسانہ بلاعنوان کاعنوان کچھ شرائط کے تحت بتانے پر پچاس ہزار روپیے کاانعام تھا، افسوس کہ کوئی بھی صحیح جواب موصول نہ ہوا۔
——–
محوِغفلت تھا مَیں؛پہلے پہل…! پھرلگا الکٹران، پروٹان ٹکرا گئے ہوں ؛ آپس میں ،بل کھاکر…!اورنا قابلِ برداشت دھماکے سے موالیدثلاثہ کا ذرّہ ذرّہ لرز گیا ؛ کرب سے،تھرّاکر….!جیسے کائنات کو؛دوپیالوں میں کس کربگھاردیاہوکسی نے جامنوں کی طرح، جھلّا کر….! پھر میرے یخ وجود میں ہلکی سی انگڑائی لی؛ حرارت نے، مسکراکر..! اُس کے بعدمیرے احساس کے ساکت سمندر کی سطح پردستک دی ؛ہوا کے معصوم جھونکے نے ،شرما کر..!اور جب میرے شعور کی کالی رات کواُفق کی نئی نویلی کرن نے احساس کرایا؛اپنے وجودکا، جگاکر.!تومیرے سامنے ایک عجیب وغریب، لحیم شحیم، نٹ کھٹ، تین مونچھوں والا گِرگَٹ ؛کھڑا مسکرارہا تھا۔

’’ت،ت،تم ہو کون……؟‘‘ مَیں نے جھجک کرپوچھا۔
’’کیوں…..؟ ڈر گئے کیا…..؟‘‘اس نے جواب دینے کے بجاے ،اپنی گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے ،سوال کیا ،مجھ سے ۔
’’ہاں …..!‘‘ مَیں نے اپنے شعور کے تانے بانے توڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ؛داعش کی زد میں آئے معصوم ومظلوم بچّے کی مانندگھبراکرہانپتے کانپتے جواب دیا۔
’’ڈرناکیا،اِس میں..؟‘‘گِرگَٹ نے کہتے ہوئے اپنی آنکھیں پھرگھمائیں؛ گول مٹول۔پھر مٹک مٹک کرچلتے ہوئے زمین پرایک دائرہ بنایا؛گول گول۔پھر اپنابدرنگاجسم پھُلایا،لمبی دُم کواوپر اُٹھایا۔ پھراپنے اندر کے یکے بعددیگرے سبھی جبلّتی رنگوں کودِکھلایا، پھر اُچھل کر پیروں پر کھڑے ہوتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اپنی بائیں کالی مونچھ کوزمین میں اوربیچ کی کھچڑی دار مونچھ کوموالیدثلاثہ کے ذرّے ذرّے میں پھیلایا،پھر دائیں سفید مونچھ کو اوپر کی جانب لہرایا۔یعنی کہ اپنے سارے کے سارے کرتب دکھا ڈالے؛داعش کے کسی خوں خوار سرغنہ کی مانند، اِٹھلااِٹھلاکر۔
’’دائیں طرف کی تمھاری سفیدمونچھ توجارہی ہے صدرۃالمنتہیٰ کو اور بائیں طرف کی کالی مونچھ تحت الثریٰ کو۔اوربیچ کی کھچڑی دار مونچھ ؛کائنات کوگرفت میں لیے ہوئے ہے ؛جوکبھی اوپر کی سفید مونچھ میں پیوست ہو نے کی کوشش کرتی ہے ،تو کبھی نیچے کی کالی مونچھ میں۔‘‘ مَیں نے ڈرتے ہوئے قصیدہ پڑھا، اُس کا۔
’’تو اس میں حیرت کیا ہے…..؟جناب…..!‘‘
’’ہے کیوں نہیں حیرت….. ؟‘‘
’’ یہ آج سے تو ہیں نہیں، میری مونچھیں؛یہ تو ازل سے ہیں، بچّو…! اور رہیں گی بھی، ابد تک ۔یہ تو سبھی جانتے ہیں، بھائی…..!‘‘
’’پر مَیں نہیں جانتا،اَنکل…..!‘‘ مَیں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بھولے انداز میں کہا۔
’’ہو تو تم بڑے فطرتی؛ نسلاً۔یعنی کہ عالم، فاضل ،اور نہ جانے کیا کیا… .؟اُس پر اَشرف المخلوقات بھی،اوراتنا نہیں جانتے ….؟‘‘
’’نہیں انکل…! مَیں نہیں جانتا،یہ سب۔‘‘
’’بڑے بھولے ہو،نا…!بھولے کاہے کو۔یوں کہو کہ فطرتی، جیسی کہ فطرت ہے ،تمھاری۔ یعنی کہ عام لوگوں جیسی۔وہی تو بول رہی ہے ؛اندرسے تمھارے ۔تمھارے آباواجدادجیسی ،تمھاری اپنی فطرت۔‘‘امریکا ؛جیسے شیر نے دریا کا پانی میمنے کے گندا کرنے سے انکارپر،الزام اس کے باپ پر تھوپتے ہوئے آنکھیں،مجھ پر نکالیں۔
’’نہیں…..! مَیںیہ کچھ نہیں جانتا، فطرت وطرت۔‘‘ مَیں نے بھی میمنے کی طرح، پانی گنداہونے کی لا علمی ظاہر کی۔
’’آ ……ہاہاہا…..!کیا بات کہہ دی۔کوئلے کی کان میں رہ کر؛ کوئلہ نہیں پہچانتے…..؟سمندرکے واسی؛پانی نہیں جانتے….؟ آگ میں رہ کر؛ شعلوں کو نہیں گردانتے…؟ اپنی مونچھوں کو؛ مونچھیں نہیں مانتے….؟دیکھو ….!دیکھوذرا غورسے….!‘‘اس نے رعب سے آنکھیں نکال کر،سینہ تان کر، اپنی مونچھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اشارہ کرتے ہوئے آگے کہا:’’ یہ ہیں میری، مونچھیں…!یہ مونچھیں توہمیشہ رہی ہیں، میری ۔صرف میرے ہی نہیں ،سبھی کے ہوتی ہیں ،یہ مونچھیں۔ تمھارے بھی ہیں ۔ہیں کہ نہیں….؟‘‘اس نے آنکھیں مزیدنکال کر انگلیاں ہوا میں نچاتے ہوئے سوال کیا۔
’’نہیں.!میرے توہیں نہیں مونچھیں۔‘‘مَیں نے اپنے ہونٹوں کے اوپر ٹٹول کر جواب دیا۔
’’ہیں؛ہیں،ہیں…..!ہیں مونچھیں،تمھارے بھی۔مکمل ہیں، پوری طرح ہیں،سمجھے…!لیکن ؛ابھی پیٹ میں ہیں ،دوست…! تم محسوس بھی کر رہے ہو۔لیکن، چھپا رہے ہوتم، اپنی ان مونچھوں کو، اپنی فطرت کے مطابق۔ایک تم ہی نہیں ، سارے کے سارے چھپائے رہتے ہیں، اپنی اِن مونچھوں کو؛ایک دوسرے سے۔اور مصنوعی چہرہ عیاں رکھتے ہیں سب؛اپنااپنا۔ اورجب بھی موقع ملتا ہے؛اینٹھنا شروع کر دیتے ہیں ؛ مونچھوں کو، بڑے رعب کے ساتھ۔ جو سب کرتے ہیں ؛ وہی تم بھی کر رہے ہو،بچّو….!‘‘ گِرگَٹ نے غصّے میں پہلے جسم پھلا یا،پھر فٹافٹ اپنے رنگوں میں بدلاولایا۔ بڑی بڑی مونچھیں دکھاکر امریکا کی طرح اپنے سارے ہتیاروں اور بین الاقوامی رسوخ کی دھونس دیتے ہوئے ،بندر گھڑکی کے ساتھ اُچھل کود کرتے ہوئے ،پہلا مدار ہلا ڈالا۔
’’اچھا؛یہ بتاؤ….!تمھاری اوپراورنیچے کی مونچھوں میں تضاد کیوں ہے، اتنا….. ؟‘‘ مَیں نے سوال کرنے کی جسارت کی۔
’’تضاد…!تضادکاہونابہت ضروری ہے،پیارے…!یہ تضاد سبھی میں ہوتا ہے؛ بڑی اہمیت ہے تضاد کی ، اسی تضاد سے مدارج قائم ہیں۔مثلاً تحت الثریٰ نہ ہو تو صدرۃ المنتہیٰ کی اہمیت کیا….؟اور اگر صدرۃ المنتہیٰ نہ ہو تو تحت الثریٰ کا کیا مقام…؟نہیں سمجھے …؟‘‘ اس نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں ….!‘‘ میں نے انکار کیا۔
’’اورسمجھو گے بھی نہیں، ابھی تم…..! چلو سمجھاتا ہوں،تمھاری بھاشا میں، تم کو۔ یوں سمجھو کہ کالارنگ نہ ہو تو؛کیا مقام ہے ،سفید کا…..؟ اورسفید نہ ہوتو؛کیا اہمیت ہے ،کا لے کی…..؟ گرمی نہ ہو تو، سردی؛ اور سردی نہ ہو تو؛ کیا مقام ہے ،گرمی کا…..؟ سمجھے…..؟ یا نہیں…..؟اگر نہیں ….! تواورسمجھاؤں….؟ یعنی کہ تفصیل سے۔ ویسے مَیںیہ جانتا ہوں کہ تم سمجھتے سب کچھ ہو۔چوں کہ میری انھیں مونچھوں کی طرح تمھارے اندر بھی لبادے ہیں ۔ اسی لیے تم اندر کے کالے پن کو،سفیدی کے لبادے سے ڈھانکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہو۔دنیا والوں کی طرح۔کیوں کہ تم رہ ہی رہے ہو،اس دنیا میں ۔ جونہ اوپر میں ہے ؛اور نہ نیچے میں۔نہ سفید میں ہے؛ اور نہ کالے میں۔نہ دن میں ہے؛ اور نہ ہی رات میں ۔ مطلب یہ کہ نہ اِدھر میں ؛ اور نہ اُدھر میں۔چوں کہ مَیں بھی اسی دنیا میں ہوں ۔اسی لیے نہ اِدھر میں ہوں؛ اور نہ اُدھر میں۔دنیا بھی اِدھرُ ادھر کے چکّر میں لٹک گئی ۔ اس لیے توکچھ بھی نہ رہی ۔ہاہاہا…..!‘‘اس نے زوردارقہقہہ لگاتے ہوئے آگے کہا:’’ایک بات اور بتاؤں…؟ معرکے کی ۔لو،سن لو….. ! اگریہ اوپر ہوتی، تو سبھی کچھ ہوتی ، اور نیچے ہوتی؛ تب بھی سبھی کچھ ہوتی ۔اگر یہ اُوپر ہوتی، تو اُوپر ہونے کا اندازہ کس سے لگایا جاتا…؟ تحت الثریٰ نہ ہوتا تو…..؟غالبؔ نے یہی کہا ہے :’’نہ تھاکچھ تو خدا تھا؛ کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا: ڈبویا مجھ کو ہونے نے؛ نہ ہوتا مَیں ،تو کیا ہوتا…..؟‘‘غالب ؔ چچا کو جانتے ہو…..؟‘‘اس نے رک کر سوال کیا۔
’’وہ تو میرے ابّا تھے۔‘‘ مَیں نے خوشی سے اچھل کر بتایا۔
’’ان کے اولاد تو تھی نہیں کوئی ، پھرتم کہاں سے ٹپک پڑے غالبؔ کے ابّا…..؟‘‘پہلے تو وہ اُچھل کر ہنسا، پھر اس نے اپنے ہاتھ کے پنجے کے بیچ کی انگلی اٹھا کر ہوا میں دائرہ بناتے ہوئے گھمائی اور آگے پوچھا:’’اپنے ابّا کا کوئی شعر یاد ہے، تم کو…..؟‘‘
’’شیر….. !شیر تو کوئی تھا نہیں، میرے یہاں۔‘‘
’’یہی امید تھی تم سے،غالبؔ کے ابّا….!‘‘اس نے ٹھٹّا لگا کر آگے کہا :’’شعر(اشعار) تو بے شمار تھے، اُن کے، کچھ کو تو جلا کر تاپ گئے ہو گے ۔کچھ ردّی میں بیچ کر پتنگیں اُڑاڈالی ہوں گی، اچھا ہوا،جوکچھ بھی ہوا،اور ہوتا بھی کیا اُن کا……؟پڑھنے والے ہی کتنے رہ گئے ہیں ،اُن کے….؟‘‘وہ کچھ سوچ کر آگے بولا:’’ہاں ،تو مَیں کیا کہہ رہاتھا….؟ ہاں…! مَیں کہہ رہا تھا کہ کسی اور نے بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے؛ غالبؔ سے ملتا جلتا :’’ تو مثلِ سیاہی؛ حرف ہوں مَی58ں: توآبِ بقا؛اور برف ہوں مَیں: جب حرف مٹا؛ اور برف گلا: تواور نہیں؛ مَیں اور نہیں۔یعنی کہ کوئی فرق ہی نہ ہوتا۔‘‘ سمجھے…! اور اگر اب بھی نہیں، تواور آگے سمجھاؤں….؟لو وضاحت کیے دیتا ہوں۔یہ کالا پن؛ وہ ہے، جس سے سفیدی کا معیار قائم ہے۔ مَیں بھی چاہتا ہوں کہ یہ میری بائیں کالی مونچھ ؛جوتحت الثریٰ میں پیوست ہے؛ کسی طرح سفید ہو جائے۔اور مَیں پھراپنے اُسی مقام پرپہنچ جاؤں۔یا پھر یہ دائیں طرف کی سفیدمونچھ؛ جو صدرۃ المنتہیٰ کی جانب لپک رہی ہے ؛ کسی طرح کالی ہو جائے۔تو بھی بات بن جائے۔ یوں تو نہ اِدھر کا ہوں؛ اور نہ اُدھر کا ۔اوریہ جو بیچ کی مونچھ ہے،نا..؟ یعنی کہ کھچڑی دار…؟ جو موالید ثلاثہ میں پیوست ہے،یعنی کہ دنیا کوجکڑے۔ اوپر نیچے دونوں میں شامل ہونے کے باوجودنہ اِدھر کی ہے؛اور نہ اُدھر کی۔یعنی کہ معلّق ۔ بس اِسی طرح مَیں بھی ہوں،اور تم بھی۔کہیں دور نہ جاؤ….! صدرالمنتہیٰ اور تحت الثریٰ کی بات بھی چھوڑ و..!دنیا کو ہی لے لو۔چلے جاؤ .!اُوپر،یعنی کہ پہاڑ پر۔ کیا ملے گا …..؟صاف ہوا ۔ شفاف پانی۔سفیدہی سفیدبرف۔ ٹھنڈا ٹھنڈا کول کول۔کیا کہلاتا ہے….؟پہاڑ…! یعنی کہ سب سے بڑا ، سب سے اُونچا۔پھر برف کی طرح پگھلو….! چلے آؤ بہتے ہوئے نیچے ۔ پتھروں سے ٹکراتے ہوئے۔دنیا کی غلاظت سمیٹتے ہوئے؛ اپنے پہلو میں۔ کیا بن گئے اب…..؟سمندربن گئے ،نا..؟ یعنی کہ سب سے بڑے۔ اوپر تھے؛ تب بھی بڑے ۔ نیچے پہنچے، اب بھی بڑے۔ بیچ میں کیا تھے…..؟کچھ بھی تو نہیں۔ یعنی کہ غلاظت ہی غلاظت۔‘‘
’’پانی کیساہوتا ہے، سمندر کا …؟کھارا۔ یعنی کہ بدمزہ۔وہی جب اُوپر چلاجاتا ہے، پھر ٹھنڈاٹھنڈا کول کول۔وہی غرور اُسے لے آتا ہے نیچے، میری طرح۔یعنی کہ غلاظت ہی غلاظت۔ اور جب اس میں عاجزی وانکساری آجاتی ہے ،تو زمین اُس کے وجودکواپنے میں جذب کر کے پاتال میں لے جا کر پھرشفاف، ٹھنڈا اور شیریں بنادیتی ہے۔ اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو پاتال کے پانی سے سیکھو..!پہاڑپر رہو. ..! یا پاتال میں ۔پسند کیے جاؤ گے ، بیچ میں کچھ نہ پاؤ گے ۔گندے نالے کا کوئی مقام نہیں ۔کچھ بننا ہے دنیا میں ۔ تو اندر کے کالے پن کو نکال پھینکو۔یاپھر سفید پن کو۔ سب کچھ بن جاؤ گے۔دنیاسلام کرے گی، جھکے گی تمھارے سامنے، یہ دنیا۔آمیزش میں کچھ نہ ملے گا۔لیکن مَیں جانتا ہوں ۔کہ مکمل طور سے نکال نہ سکو گے ،کسی کو بھی۔ کیوں کہ یہ دنیا نکالنے ہی نہ دے گی ،کبھی۔کوشش تومیں بھی کر رہا ہوں، ازل سے۔ لگتا ہے؛ نکال نہ سکوں گا کبھی۔کاجل کی کوٹھری میں ہوں،نا.؟ دیکھو …! اس کالی مونچھ کو…! کئی بار کاٹ چکا ہوں اسے، لیکن بار بار نکل آتی ہے،کم بخت۔اسی طرح تم بھی نہ بچ سکو گے، کاجل کی کوٹھری سے ۔کیوں کہ جو مَیں ہوں؛ وہی تم بھی ہو۔ ہو، ناوہی تم….؟ یعنی کہ دنیا والے ۔خربوزے کی طرح ایک دوسرے کارنگ پکڑ نے والے۔شاہین جیسی فطرت اب کہاں،تم میں…؟تم بھی چھپائے رہتے ہواپنی مُتلوِّن فطرت، ایک دوسرے سے،میری طرح۔‘‘
’’آدم علیہ صلاۃ والسلام کا نام توسنا ہو گا….؟‘‘اُس نے کچھ سوچ کر سوال کیا۔
’’ہاں ،ہاں۔‘‘میں نے برجستہ اقرار کیا۔
’’کیوں نہیں،ابّاجوتھے تمھارے وہ ،کبھی اُوپر تھے ، سفید پوش ۔ پھر میرے ایک اشارے پر یعنی کہ قدرتی نظام کے تحت نیچے آگئے،دھڑام سے ؛ہاہاہا…ہا..!۔کہتے ہیں:تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغامبر آئے ،دنیا میں۔ سارے کے سارے، سفیدپوش۔ سفیدچہروں پرمونچھیں لیے ، سفیدسفید۔پیغام بھی دیے ،اپنی نسل کو ۔ لیکن اولادوں کی مونچھیں نکلیں پھر کالی ، بھیڑوں جیسی چال والی۔تم بھی وہی ہو،نا….؟‘‘
’’ میں کہاں….؟‘‘میری آواز ممیا گئی ،شیر کے سامنے۔
’’کہانا….؟ مَیں نے…..؟ تم چھپارہے ہوخود کو ،مجھ سے۔ دیکھو…! مَیں تمھارا ہی بھائی ہوں، پہچانتا خوب ہوں، تم کو۔ مجھے بے وقوف بنا رہے ہو…! دائی سے پیٹ چھپا رہے ہو….؟‘‘اُس نے پھر گھڑکی دی۔
’’نہیں بھائی،ایساکچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ میں کانپ گیا۔
’’ہے… ،ہے….؛ایسا ہی ہے کچھ۔ابھی اُتارتا ہوں ،تمھارے کپڑے۔کرتا ہوں ننگا سرِعام ،تم کو؛ پیاز کے چھلکوں کی طرح۔ سمجھے….!‘‘اس نے لمباسانس لے کر آگے پوچھا:’’اچھا پہلے یہ بتاؤ….! کہ تم ہو کون…..؟‘‘
’’اُسی آدم کی اولاد……!جس کی تم بات کر رہے تھے۔‘‘
’’اوہ…..! آدم…..؟ تھا جو مسجودِملائک، تم وہی آدم ہو….؟‘‘
’’ہاں ،ہاں وہی وہی…..!‘‘
’’ہاں ہاں وہی وہی….!تھے توآبا ،وہ تمھارے ہی؛ مگر تم کیا ہو……؟اوپر سے تو آئے تھے ،آدم کے روپ میں۔ مگر اب کیا ہو، وہی وہی….؟میرا مطلب سکھ ہو…؟ ہندو ہو…؟یا پھر عیسائی… .؟ کچھ تو بولو…!میرے بھائی….؟کون ہو، اُن میں سے تم…؟وہی وہی…!‘‘ اس نے ایک ہاتھ اٹھلا کرانگلیاں نچاتے ہوئے میرا مذاق بنایا۔
’’ مَیں تومسلمان ہوں،بھائی۔‘‘
’’مسلمان…..!آگئی خاک کی چٹکی کوبھی پرواز ہے کیا…..؟ شور ہے، ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود…..!مسلمان ،اب رہے کہاں …؟ابے نمرود…!بت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے؛ بت گر ہیں۔ہوگا ،تو ہوگاکوئی؛ ڈُکا چھپا۔ میری نظر میں تو کوئی ہے نہیں مسلمان،اب۔ ہاں،نام نہاد تو ہیں ؛اوربے شمارہیں؛‘‘اس نے ذرا رُک کر پوچھا :’’ جانتے ہو…؟ نام نہاد مسلمان،کیا ہوتاہے….؟‘‘
’’بالکل جانتا ہوں۔‘‘مَیں نے وثوق سے کہا۔
’’بتاؤ توذرا ….؟‘‘اس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
’’پکا مسلمان،میری طرح۔‘‘ مَیں نے برجستہ بتایا ،جس پر وہ ہنستے ہنستے لوٹ گیا،پھر بڑی دیر میں پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ،ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولا:’’چلو مان لیتا ہوں کہ پکے مسلمان ہو، یعنی کہ نام نہاد۔مگریہ تو بتاؤ میرے دوست کہ تم ہوکون سے مسلمان …..؟‘‘
’’کون سے مسلمان…..!‘‘ مَیں نے تعجب کیا۔
’’ہاں بھئی ہاں،ہوکون سے مسلمان ….؟مسلمانوں کی کٹاگری ایک دو تو ہیں نہیں۔ دنیا بھری پڑی ہے ،مسلمانوں کی کٹاگری سے…! اور ان کی مسجدیں الگ الگ ہیں، بھائی…..!خداایک ،اور اس کی مساجد کے خدا،جداجدا ؛یعنی کہ بے شمار….!سمجھے کہ نہیں…..؟‘‘اس نے مجھ کو ٹارگٹ مان کر مِزائل داغ دیا۔
’’نہیں سمجھا۔‘‘اور میں نے نہیں کہہ کرخود کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ۔
’’ سمجھوگے بھی نہیں تم ،اور نہ ضرورت ہے سمجھنے کی، ابھی تم کو ۔بس ،نام ہی کے بنے رہو مسلمان ۔ آپس میں مار کاٹ کرنے والے ۔ کچھ دنوں میں خود ہی سمجھ جاؤ گے ۔ ابھی تو اتنا بتاؤ…! میرے بھائی کہ ہو کون سے مسلمان ….؟شام کے نصری….؟ عمان کے عبادی ….؟دروز…؟ داعش….؟ کردوں…؟ خارِجی تکفیری…؟ داؤدی بوہرا …..؟ آغاخانی بوہرا…..؟ ایزدی…..؟سنّی……؟یا پھر شیعہ….؟‘‘اُس نے میراسراغ لگانے کے لیے مجھ کٹی پتنگ کو پھانس کر لانے کے لیے اپنی پتنگ کی ڈھیل مزیدبڑھا دی ۔
’’ شیعہ شیعہ۔‘‘ مَیں نے برجستہ کہا۔
’’پرکون سے شیعہ ہو بھائی…؟ کون سے شیعہ..؟ علوی…؟ حسنی…؟یاپھرحسینی…؟ زیدی…؟باقری…؟جعفری…؟کاظمی…؟ رضوی…؟تقوی…؟نقوی…؟ عسکری…؟ کچھ توبولو بھائی…!‘‘ یا پھر آنے والے منہدی…..؟‘‘
’’نہیں نہیں، شیعہ نہیں ۔مَیں توسنّی ہوں؛ سنّی، یعنی کہ ٹنا ٹن سنّی۔‘‘
’’اوہ…!ٹنا ٹن سنّی..؟ سمجھ گیا ،سمجھ گیا مَیں؛ پوری طرح سمجھ گیا ، تم سنّی ہو؛ یعنی کہ ٹنا ٹن سنّی۔ مگر ٹنا ٹن سنّی صاحب….! یہ تو بتاؤ؛ ہو کون سے سنّی ٹنا ٹن..؟سلفی..؟شافعی..؟صوفی…؟ مالکی…؟ حنبلی..؟ یاپھرحنفی…..؟‘‘
’’م ۔م۔ م۔ مَیں حنفی ہوں ،حنفی۔‘‘
’’کون سے حنفی بھائی….؟ بریلوی ….؟ یادیو بندی…..؟‘‘
’’دیو بندی۔‘‘
’’کون سے دیوبندی.؟‘‘وہابی..؟تبلیغی.؟مظاہری..؟قاسمی..؟ جماعت اسلامی..؟ مودودی..؟ سرسیّد والے نیچری..؟ چکڑالوی …؟ قادیانی….؟ شمع نیازی….؟سلفی ….؟یااہلِ حدیثی…..؟‘‘
’’ نہیں نہیں ۔مَیں دیو بندی نہیں؛ بریلوی ہوں ،بریلوی۔‘‘
’’کون سے بریلوی بھائی…؟کون سے بریلوی.. .؟ قادری. .؟ سہروردی…؟نقشبندی…؟چشتی..؟قطبی…؟فریدی….؟ صابری.؟ واحدی…؟برکاتی ..؟اَشرفی..؟ رِضوی…؟عطاری….؟ قدیری….؟ فردوسی….؟یاسالمی..؟‘‘اصولی؟اخباری؟ملنگ؟اثنا عشری خوجہ.؟ مولائی.؟ دیوبندی ٹنا ٹن…؟بریلوی ٹنا ٹن … ؟ سلفی ٹنا ٹن …؟ حنفی ٹنا ٹن..؟ شافعی ٹنا ٹن…؟اہلِ حدیث ٹنا ٹن…؟مواحدون ٹنا ٹن..؟ خواجہ ٹنا ٹن…؟ یا کہ پھرصوفی ٹنا ٹن….؟تم ہوکون سے سنّی ٹنا ٹن،یہ تو بتاؤ….؟‘‘
’’ کون سے سنّی….؟‘‘ مَیں نے کہا۔
’’ارے بھئی ہاں۔ مجھے لگتا ہے کہ تمھیں پتا ہی نہیں کہ تم ہو کون…..؟ بھئی ٹنا ٹن سنّی صاحب ….!اگر تم نے بتا بھی دیا کہ مَیں فلاں سنّی ہوں؛ تو مَیں پھر پوچھوں گا کہ تم سیّد ہو….؟ادریسی ہو..؟ قریشی.؟عباسی..؟تیلی..؟نائی.؟دھوبی..؟تنبولی.؟بہشتی..؟رنگریزیا انصاری ..؟ یاکہ پٹھان….؟سلمانی،فاروقی،میراثی،کون ہو ٹنا ٹن بھائی….؟‘‘
’’پٹھان،پٹھان،پٹھان، بھئی پٹھان ہوں مَیں توپٹھان ،ٹنا ٹن پٹھان۔‘‘ مَیں نے برجستہ جواب دیا۔
’’پٹھان ..! او..ہ..! پٹھان ..؟ یعنی کہ خان بھائی ۔لڑھی جوت ، یا لال منہ کے پٹھان یا پھر چوڑی ہڈّی والے یعنی کہ..‘‘
’’ہاں ہاں… وہی وہی ۔‘‘میں نے اس کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی چوڑی ہڈی والے پٹھان ہونے کی حامی بھرلی۔
’’خان بھئی، پہلے اپنی پٹھانوی پر ایک لطیفہ سن لو، ایک پٹھان تھے یعنی کہ خان صاحب ؛ اور ایک تھے پنڈت جی۔ دونوں کی ایک دوسرے سے دوستی تھی،دانت کاٹی اور ایک دوسرے کے یہاں آنا جانابھی ۔ایک بار ہندو مسلم فساد ہوا،توخاں صاحب نے پنڈت جی کے یہاں جانابند کر دیا ،لیکن پنڈت جی برابر آتے رہے، خان بھائی کے یہاں ۔ پنڈت جی نے خاں صاحب سے ان کے نہ آنے کا شکوہ کیا تو خاں صاحب نے کہا :’’ پہلے آپ مسلمان ہو جائیں؛ تب ہی آؤں گا ، ورنہ نہیں۔‘‘پہلے تو پنڈت جی بہت چکرائے، لیکن جب محبت نے جوش ماراتو بے چارے مجبورہو گئے۔ انھوں نے خاں صاحب سے کہا :’’ مجھے بتاؤ ….! مَیں کیسے مسلمان بنو..؟ ‘‘خان صاحب نے برجستہ کہا :’’ قلمہ (کلمہ )پڑھو..! قلمہ (کلمہ)۔‘‘ پنڈت جی نے جوش میںآکر کہا:’’اچھا، پڑھاؤ کلمہ ..!‘‘ خاں صاحب پہلے تو کچھ دیر کے لیے خاموش رہے، پھر چکرا کر بولے :’’ قلمہ(کلمہ) توبھائی مجھے بھی نہیں آتا …!‘‘ لگتا ہے اسی طرح کے خان ہو،تم بھی …..؟ٹناٹن۔‘‘
’’اچھا…!اچھا؛اب تم بتاؤ…..! کہ تم کون ہو ….؟ ‘‘ مَیں نے گِرگَٹ سے پوچھا۔
’’ارے..! کمال ہے، کمال ہے بھائی…! ساری دنیاجانتی ہے ؛ اورتم نہیں پہچانتے ….؟‘‘
’’نہیں، مَیں نہیں پہچانتا ….!‘‘مَیں نے برجستہ کہا۔
’’ نہیں پہچانتے …؟تو سنو…! تم نے اقبالؔ کو تو پڑھا ہو گا..؟:’’گر کبھی خلوت میسّرہو تو پوچھ اللہ سے؛ قصّۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو: مَیں لرزتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح؛ تو فقط اللہ ہو،اللہ ہو،اللہ ہو۔‘‘
’’نہیں، مَیں نے تو نہیں پڑھا ۔‘‘
’’نہیں پڑھا، تو تم کیا جانو، اُن کو….؟‘‘
’’ہاں ،جانتا تو ہوں ۔‘‘
’’جانتے ہو….! مگر کیسے…..؟‘‘
’’وہ تو میرے چچا تھے ، گھنگرو باندھ کر ناچتے تھے ۔اور دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔‘‘ مَیں نے بتایااور اس نے بڑے زور سے ٹھٹّا لگایا۔
’’چلو شکر ہے ؛ اتنا توجانتے ہو اقبالؔ کو۔ وہ ناچتے تھے اور دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔ ‘‘اس نے ٹھنڈی سانس کھیچ کر آگے کہا:’’وہ بے چارے ناچ ناچ کرخود کو گھایَل کر کے زندگی بھردوسروں کو درس دیتے دیتے مر گئے،اورتم ان کے گھنگروؤں کی آواز بھی نہ سمجھ سکے، یار…..!اور اَب سمجھ بھی نہ سکو گے۔اب تو اُن کے گھنگرو ؤں کی وہ دل دوز جھنکار اردوہی چھین لی،مَیں نے، تم سب سے ، جس میں ان کا درس تھا،اور تمھارا سبھی کلچر بھی۔ جس سے شناخت تھی ،تمھاری۔اَب نہ رہابانس، اور نہ بجے گی بانسری،اب تو اپنی ہی بجے گی بانسری۔اور بج بھی رہی ہے۔ سنو…!اردو ختم کرنے والا کون..؟ حوّا کو بہکانے والا کون..؟ آدم کو نیچے لانے والا کون…؟ دنیا کو ملکوں میں بٹوانے والا کون ….؟ مذہبی تفریق پھیلانے والا کون..؟ مسلمانوں کومسلکوں میں بٹوانے والا کون..؟ انسان کو شیطان بنانے والا کون…؟ سمجھے ….؟ مالک نے ہر انسان کو انسان بنایا؛ہم نے اُسے انسان سے شیطان بنایا۔ انسان تو انسان ، بھگوان کی ہر شے کومذہبوں کے رنگ دے ڈالے ہیں، مَیں نے،سمجھے…؟ یہاں تک کہ چرندوں، پرندوں، سبزیوں، پھلوں،اَناجوں،کھانوں، مٹھائیوں،دِنوں،مقاموں،مکانوں کی گرستیوں،سمتوں، پیڑ،پودوں، ندیوں، پتھروں،لباسوں اور رنگوں تک کومذہبی رنگوں میں رنگ ڈالا ہے۔ساری دنیا میں میری ہی حکومت ہے،اِس وقت۔ یہ اُونچ نیچ ،ذاتیں ،میری ہی ہیں کراماتیں۔ ننگا ناچ، مَیں ہی تو کروا رہا ہوں ،دنیا میں۔یہاں تک کہ سڑکوں پر نیم برہنہ دوشیزائیں مٹکتی پھرتی ہیں، چھیل چھبیلی؛ خوش بودار،تنگ کپڑوں میں ،اپنے جسموں کی نمایش کرتی ہوئی؛ سرخی پاوڈر پوتے ؛میرے ہی اشارے پر تو۔توتم کیا سمجھتے ہو، یہ سب جنّت میں جائیں گی…..؟ ان کوبہلا پھسلا کر، بہکا کربے غیرت ، بے شرم، بے حیا اور ننگا اسی لیے کر دیا ہے کہ یہ سب جہنّم میں جھونکی جائیں، سمجھے…..؟اور مَیں عیش کروں ،اُن کے ساتھ،سمجھے….؟ عورتیں پسند ہیں، مجھ کو،کیوں کہ یہ اپنے شوہروں کی اتنی نہیں مانتیں؛ جتنی کہ میری۔ حوّا نے بھی میری مان کر آدم کو گندم کھلایا تھا۔ مَیں انھیں میں رہتا بھی ہوں،زیادہ تر یعنی کہ بٹورے پر۔وہیں اپنے رنگ ڈھنگ بدل بدل کر دل بہلاتاہوں، اِن کے ساتھ ۔‘‘
’’لے تو اُن کے شوہروں کو بھی جاؤں گا جہنم میں۔ پیر دبوانے کے لیے،اپنے۔ کیوں کہ وہ اپنی عورتوں کو آوارہ چھوڑ ے ہیں،بے لگام۔یہ لوگ اپنے ماں باپ کی خدمت نہ تو خود کرتے ہیں اور نہ اپنے بیوی بچّوں سے کرواتے ہیں ۔ضرورت تو بچّوں کی بھی ہوگی، وہاں۔ اسی لیے توبگاڑ رکھا ہے، اُن کو۔ وہ اب میرے اشاروں پر چلتے ہیں،وہ اب بڑوں کا کہنا نہیں مانتے اور نہ ہی پڑھنے میں من لگاتے ۔ ٹی۔ وی۔ اور موبائل چلاتے ہیں۔یہ لت مَیں نے ہی ڈال رکھی ہے،اُن میں ۔‘‘ گِرگَٹ نے اچھل اچھل کر ناچتے ہوئے بتایا۔
’’مگر یہ تو بتاؤ …!ایساتم کر ہی کیوں رہے ہو…..؟‘‘
’’اپنی بھلائی کے لیے۔‘‘
’’اپنی بھلائی کے لیے….؟‘‘ مَیں نے تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں بھئی ہاں، مَیں چاہتا ہوں زیادہ سے زیادہ لوگ جہنم میں جائیں ،اسی میں ہے ،میری بھلائی ۔اس کے بعد جب حساب ہو گا، تو ہم سے زیادہ اِن سب کے گناہ نکلیں گے ۔کیوں کہ سب جانتے ہیں کہ مَیں سب سے زیادہ عالم، فاضل ہوں اور خدا کی عبادت بھی مَیں نے ہی کی ہے ۔ بس ایک نافرمانی پر یہ سزا ملی مجھ کو ، اور تم سب تو بے شمار نافرمانیاں کرتے ہو،اللہ کی؛تم لوگ تو ہم سے کہیں زیادہ گناہ گارہو ۔ مَیں اَب بھی تم سب سے لاکھ گنا اچھا ہوں ۔تمھارے گناہ زیادہ ہونے کی وجہ سے تم سب جہنم میں ہو گے، اورمَیں بہشت میں عیش کروں گا ،حسیناؤں کے ساتھ۔ او ۔ کے۔‘‘ گِرگَٹ نے کہتے ہوئے اپنا سینہ تان کر اپنے سارے جسم کے سفید رنگ کو سمیٹ کر سفید مونچھ میں پیوست کر کے، سفید مونچھ کو مزید سفید کیا اور پھر ایک بھیانک آواز کے ساتھ، بھر پور زور لگاتے ہوئے آسمان کی جانب اُٹھاتا گیا؛ اُٹھاتا گیا۔ اور پھر ایک بھیانک دردناک چیخ کے ساتھ زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ اس کی سفید مونچھ آگ سے جھلس کر کالی پڑ گئی ۔
’’اس کا مطلب کہ توابلیس ہے …..؟‘‘جب وہ کافی دیر بعد ہوش میں آیا تو مَی58ں نے مسکرا کر پوچھا ۔
’’تم نے صحیح پہچانا ،دوست ….! مَیں ابلیس ہی ہوں۔‘‘
’’اچھا ٹھہر ….!تیرا علاج تو ہے میرے پاس …!‘‘ اور جیسے ہی لاحول پڑھا مَیں نے ۔ وہ بجلی جانے پرٹی۔ وی۔ کے اسکرین سے تصویر کی طرح غائب تو ہوگیا۔لیکن میرے وجود کے سیہ خانوں میں سہ بُرُوْتی کے کَلّے پھوٹنے لگے۔
*****
12\34 ,Sui Katra – Agra -282003 ,U.P. ,. http://hanifsyed.weebly.com

Share
Share
Share