اونٹ کا دودھ – – – – – – – ڈاکٹرعزیزاحمد عُرسی

Share

camel-milkاونٹ کا دودھ

ڈاکٹرعزیزاحمد عُرسی
ورنگل ۔ تلنگانہ
موبائل : 09866971375

عرب کی تہذیبی روایت ہے کہ وہ اپنے خاص مہمانوں کیلئے اونٹ کے گوشت کو خصوصاً کوہان کو زینت دسترخوان بناتے ہیں اسکے علاوہ عرب اونٹ کے دودھ سے بھی مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں جو ہلکا نمکین اور نہایت لذیذ ہوتا ہے اور اس میں 6.5فیصد چربی پائی جاتی ہے اونٹ کا دودھ ایک مکمل غذا ہے جو آسانی سے ہضم ہوتا ہے اس میں وٹامنس، معدنیات، پروٹین اور دوسری اہم وضروری اشیاء موجود ہوتی ہیں ۔صحیح بخاری کی حدیث کے مفہوم کے مطابق اس کے دودھ میں شفا ہے

گذشتہ دنوں ہوئی تحقیق کے مطابق اونٹ کے دودھ کو کینسر کے علاج کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ، چوہوں پر ہوئے تجربات کے سائنسدانوں نے صد فیصد نتائج حاصل کئے ہیں۔ اونٹ کے دودھ کا Lactoferrin ضد بیکٹیریا اور ضد وائرل خصوصیت رکھتا ہے، اس کے استعمال سے ٹیومر نہیں بنتا۔اس میں وٹامن ’سی‘ کی مقدار گائے کے دودھ کے مقابلے تین گنا زیادہ ہوتی ہے، اس میں وٹامن B اور لوہا بھی کثیر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ان کے بالوں میں سورج کی نقصان دہ شعاعوں کو منعکس کرنے کی صلاحیت ہے جس کی باعث اونٹ نہ صرف گرمی سے بچتے ہیں بلکہ دھوپ کی شدت سے ہونے والی بیماریوں سے بھی بچے رہتے ہیں۔ اسی لئے ان دنوں ان کے بالوں(Hairs) سے ملبوسات تیار کئے جارہے ہیں تاکہ نہ صرف دھوپ بلکہ جلدی بیماریوں خصوصاً جلدی کینسر سے بچا جاسکے۔اونٹ کا Colostrum ،جن کا استعمال خود ان کے بچوں میں مامونیت (Immunity) پیدا کرتا ہے انسانوں کے لئے بہت مفید ہے خصوصاً بچوں کی اعصابی بیماریوں کے لئے Colostrum(وضع حمل سے قبل دودھ سے پہلے خارج ہونے والا مادہ) بہترین دوا ہے۔اس میں چربی گائے کے مقابلے کم ہوتی ہے
Daniel H. Rasolt کی تحقیق کے مطابق اونٹ کا دودھ ذیابطیس ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 میں کافی مفید ہے اس میں قدرتی طور پرجسم کی شوگر کو اعتدال پر رکھنے کے لئے ضروری اجزا موجود ہیں۔گذشتہ کچھ عرصہ قبل اونٹ کے دودھ کو امریکہ میں بیچنے پر پابندی تھی بلکہ یہ سخت ترین جرم قرار دیا جاتا تھا لیکن2009 میں ایک سائنسداں Hinkle Dr نے Food and Drug Administration’s (FDA) کمیٹی ،امریکہ کو اونٹ کے دودھ کی افادیت بتاتے ہوئے اس خصوص میں موجود قانون کو بدلوانے پر زور دیا۔ اس سائنسدان کے مطابق مرض شوگر کے نہ صرف عام مریض بلکہ ایسے مایوس مریض جن پر دوائیں کم اثر کرتی ہیں اونٹ کے دودھ کے استعمال سے شفا پاسکتے ہیں کیونکہ اس میں قدرتی انسولین کی اس قدرمقدار موجود ہوتی ہے جو ایک انسان کو روز مرہ صحت مند زندگی گذارنے کے لئے کافی ہوتی ہے،علاوہ اس کے اونٹ کا دودھ کینسر، توحد (Autism) اور بے شمار بیماریوں جیسے ٹی۔بی، ہیضہ، HIV، یرقان سی، پیچش،امراض معدہ کے لئے تیر بہدف علاج ہے۔
ہندوستان میںCamelus dromedarius اونٹ پائے جاتے ہیں ، جو خاندان Camelidae سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کو ایک ہی کوہان پایا جاتا ہے،ہندوستان کے علاوہ یہ اونٹ مشرقی وسطی کے صحراؤں اور آفریقہ میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ عربی اونٹ بھی ایک کوہان والا ہوتا ہے بعض اونٹوں میں کوہان بڑا تقریباً30 انچ تک ہوتا ہے، ہندوستان میں خصوصاً راجستھان میں زمانہ قدیم ہی سے اونٹوں کوذرائع حمل و نقل کے طور پر استعما ل کیا جاتا رہا ہے، ان علاقوں میں بار برداری کا کام اسی جانور سے لیا جاتا ہے،نہ صرف راجستھان بلکہ کسی بھی صحرا میں یہ جاندار گروپ کی شکل میں سفر کرتے ہیں، دوران سفر عموماً ’’نر اونٹ ‘‘ گروپ کے پچھلے حصے سے نہ صرف نگرانی کرتے رہتے ہیں بلکہ گروپ کی رہبری کی ذمہ داری بھی اسی نر اونٹ کی ہوتی ہے۔ اسی لئے ریگستانی اور خصوصاً ہندوستان میں راجستھانی تہذیب میں اونٹ کافی اہمیت رکھتا ہے، شاید یہی وجہہ ہے کہ حکومت راجستھان کے محکمہ سیاحت کی جانب سے ہر سال جنوری کے مہینے میں بیکانیر کے قلعے کے قریب "Camel Festival”کا اہتمام کیا جاتا ہے ، خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً چار ہزار برس سے ہندوستان میں اونٹوں کو پالتو بنا کر ان سے کام لینے کا رواج جاری ہے،اونٹ کا وزن 500 کلو تا 750 کلو تک ہوتا ہے اور قد 8تا 10 فٹ اور لمبائی 7تا11فٹ ہوتی ہے اس کی دم 20انچ ہوتی ہے، معدے میں چار خانے پائیجاتے ہیں، بعض ماہرین اس کو تین خیال کرتے ہیں معدے کے ان خانوں میں مائع بھرا رہتا ہے جو دراصل ہضمی سیال ہے۔ ہندوستانی اونٹ ہر برس اپنے جسم کے بال بدلتے ہیں ۔ان کے بال دو کوہانی اونٹ کی طرح مختلف سائز کے نہیں ہوتے بلکہ مکمل سال بھر ایک جیسے ہوتے ہیں، اس نسل کے اونٹ عام طور پر خاموش رہتے ہیں لیکن زمانہ تولید میں بھپرا ہوا انداز اختیار کر لیتے ہیں۔ ان میں مدت حمل 15مہینے ہوتی ہے،یہ پانچ سال میں بلوغیت کو پہنچتے ہیں لیکن ان کی مادہ صرف تین برس میں سن بلوغ کو پہنچتی ہے، اونٹ جب پیدا ہوتا ہے تو صرف کچھ ہی گھنٹوں بعد چلنے لگتا ہے اور اپنی غذا آپ فراہم کرتا ہے، ویسے یہ نومولود عام طور ہر ایک تا دو سال اپنی ماں کے ساتھ زندگی گذارتا ہے،ان کا وزن تقریباً 40کلو ہوتا ہے اور ان کو کوہان نہیں ہوتا۔
اونٹ کا کوہان (Hump) جلد میں چربی کی ذخیرہ اندوزی سے نمودار ہوتا ہے۔ اس میں ہڈی نہیں پائی جاتی،اگر کوہان میں اٹھان موجود نہ ہوتو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اونٹ بھوکا اور پیاسا ہے۔ان کے پیر لمبے ہوتے ہیں جس میں صرف دو انگوٹھے پائے جاتے ہیں۔ پیروں میں مخصوص لمبی ہڈیاں پائی جاتی ہیں جو اس قدر مضبوط ہوتی ہیں کہ اپنے جسم کے وزن کے برابر وزن اٹھا سکتی ہیں ۔ ریت میں بآسانی چلنے کیلئے پیروں میں نمدہ نما پائے جاتے ہیں۔ دانت 34ہوتے ہیں۔ اوپری جبڑے میں تیسرا کترنے کا دانت نوکیلا ہوجاتا ہے جو دفاع میں بھی مدد دیتا ہے۔اسمیں موجود حسی اعضا ریگستانی زندگی کیلئے متناسب ہوتے ہیں۔ آنکھوں پر بال (Eyelashes) پائے جاتے ہیں، اور پلکیں دو قطاروں میں پائی جاتی ہیں۔ اونٹ میں نتھنے بند کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس کے کان چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان میں سننے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ان کے کانوں پر بال موجود ہوتے ہیں جو ریگستانی طوفان سے ان حسی اعضا کو بچاتے ہیں۔ اسکی آنکھیں تیز ہوتی ہیں یہ 250 کیلو سے زائد وزن اٹھا کر روزانہ تقریباً 200کیلو میٹر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قوت شامہ اسقدر تیز ہوتی ہے کہ میلوں دور پانی کی موجودگی کا پتہ بہ آسانی لگا لیتا ہے۔اونٹ ایک ذہین جانور ہے جس کی یاداشت مثالی ہے ، ریگستانی سفر میں جب انسان راہ بھولنے لگتا ہے تو اونٹ اپنی یاداشت کے سہارے اپنے
مالک کو یا کارواں کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔
Camelus bactrianus دوکوہان والا اونٹ ہے جو منگولیا کے صحرائے گوبی Gobi Desert میں پائے جاتے ہیں ۔یہ اونٹ ہندوستانی نسل کے مقابلے زیادہ شریف النفس ہوتے ہیں ، یہ اونٹ ہر برس اپنے جسم کے پرانے بالوں کو نئے بالوں سے بدل دیتا ہے خصوصاً موسم سرما میں ان کے بال گھنے اور موٹے ہوجاتے ہیں تاکہ موسمی حالات کا بآسانی مقابلہ کیا جاسکے۔کیونکہ کبھی کبھی ان علاقوں میں درجہ حرارت منفی 20 تا 50 ڈگری تک جا پہنچتا ہے ۔علاوہ اس کے یہ گھنے بال گرم ریت اور سورج کی روشنی کے درمیان حائل ہوکر جاندار کو گرمی کے مضر اثرات سے بھی بچاتے ہیں۔اونٹ کے کوہان غذا کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور ان کے دوردراز افسانوی سفر میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔عربی اونٹوں کے مقابلے میں دو کوہان والا اونٹ اپنی نسل اور اپنے وجود کی برقراری کے سلسلے میں خطرے سے دوچار ہے ۔
اونٹ نبات خور جاندار ہے۔جو عام طور پر پودے کانٹ لگے پتے وغیرہ کھاتاہے ، ایک اندازے کے مطابق یہ روزانہ چالیس تا پچاس کلو غذا کھا جاتے ہیں لیکن جب ضرورت آن پڑتی ہے تو یہ صرف دو تا تین کلو گھاس کھا کرایک مہنیے سے زیادہ مکمل محنت کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ اونٹ غذا کو چباتا نہیں بلکہ نگل جاتا ہے اور بعد میں عمل جگالی ذریعہ اس کو ہضم کرتا ہے جیسے گائے، بکری وغیرہ۔ اونٹ دو مہینوں تک پانی استعمال کئے بغیر زندہ رہ سکتا ہے اور اس حالت میں بھی وزن اٹھا کر اونچائی پر چڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے،چونکہ یہ پانی کم استعمال کرتا ہے اسی لئے اس کے گردے میں بڑی پیچیدگی اور نزاکت پائی جاتی ہے یہ جاندار پانی کی تنگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پیشاب بہت کم مقدار میں اور ٹھوس حالت میں خارج ہوتا ہے۔ یہ جاندار موسم سرمامیں پانی بالکل استعمال نہیں کرتا۔اگر اونٹ اپنی غذ امیں خار دارجھاڑیاں شامل کرلے تو پھر اس کو دو ہفتوں بعد پیاس محسوس ہوتی ہے ۔یہ قدرتی میکانزم ہے کہ جب جسم میں گرمی بڑھتی ہے تو اس کو اعتدل پر لانے کے لئے انسان پسینے کا اخراج عمل میں لاتا ہے چونکہ انسان گرم خون رکھنے والا جاندار ہے کہ اس کے جسم کی درجہ حرارت ہمیشہ مستقل (Constant) رہتی ہے۔ اسی تناظر میں جب ہم اونٹ کے تعلق سے سوچتے ہیں تو عقل حیران ہوجاتی ہے کیونکہ اس قدر گرمی سہار جاتا ہے لیکن جسم پر پانی کے قطرے نمودار نہیں ہوتے کیونکہ اس کو پسینہ نہیں آتا،اونٹ کے بال پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔ اوپری لمبے بالوں کے اندر چھوٹے چھوٹے بال موجود ہوتے ہیں جو اونٹ کو سورج کی شعاعوں سے بچاتے ہیں۔ موسم گرما میں بھلے ہی ہم اسکے بیرونی جسم کو ہاتھ نہ لگا سکیں لیکن اسکے اندرونی جسم کی حرارت نارمل رہتی ہے۔گرم خون رکھنے والے ہر جاندار کی درجہ حرارت متعین ہوتی ہے لیکن اونٹ کی اصل درجہ حرارت کا تعین بھی مشکل ہے کیونکہ دن میں ان کے جسم کی حرارت 40 ڈگری سنٹی گریڈ ہوتی ہے لیکن رات کے وقت 34 ڈگری تک گر جاتی ہے جو بجائے خود ایکعجیب بات ہے کہ دوسرے گرم خون رکھنے والے جاندار درجہ حرارت میں ایسے اچانک تغیر کے بعد زندہ نہیں رہ پاتے۔اونٹ 16 تا 120 درجہ فارن ہیٹ حرارت کے تغیر کو برداشت کرسکتا ہے، دوسرے پستانیوں کی طرح سخت گرمی میں بھی اسکی سانس کی رفتار میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ہمیشہ کی طرح ایک منٹ میں 16مرتبہ سانس لیتا ہے۔ جبکہ کتا گرما میں ایک منٹ میں 300 مرتبہ سانس لیتا ہے۔ اونٹ کے منہ میں سخت Calluses کی استرکاری رہتی ہے جو اس جاندار کو کانٹے کھانے کے باوجود اسکو زخمی ہونے سے بچاتی ہے، اسکی جِلد نہایت موٹی ہوتی ہے سینے اور پیروں پر Calluses پائے جاتے ہیں جو اسکے جسم کو 60تا 70 ڈگری میں بھی جلنے سے بچاتے ہیں۔ جلد کے نیچے اور کوہان میں چربی کی ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے جو نامساعد حالات میں اسکے کارخانۂ حیات کو آگے بڑھاتی ہے۔ اسکے جسم میں پانی کوذخیرہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اونٹ کئی مہینوں تک مسلسل سفرکر سکتا ہے۔مسلسل سفر کے باعث اسکے جسم کا وزن قابل لحاظ حد تک گھٹ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کام کی رفتار میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن وزن بہت زیادہ گھٹ جاتا ہے،یہاں تعجب کی بات یہ ہے کہ سفر کے اختتام کے بعد جب اسکو پانی اور غذا میسر آجاتی ہے تو اسکے جسم کا وزن معمول پر آجاتا ہے۔ اور وہ دو مہینوں کی پیاس کو صرف دس منٹ مسلسل پانی پینے کے عمل سے بجھالیتا ہے،اور اپنے جسم کے وزن کو معمول پر لے آتا ہے۔ وہ ان دس منٹوں میں تقریباً 100لیٹر تا 130 لیٹر تک پانی پی سکتا ہے۔ اسکے جسم میں پانی Bloodstream خون میں محفوظ رکھا جاتا ہے کیونکہ اسکے خون میں موجود سرخ جسیمے (RBC) پانی کو بے پناہ انداز میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اسقدر پانی کا انجذاب کرتے ہیں کہ انکا سائز سہ گنا ہوجاتا ہے اور اس طرح پانی محفوظ ہوجاتا ہے، جب کبھی اس جاندار کو پانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو یہ جاندار اپنے خون سے درکار پانی کو حاصل کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے دوسرے پستانیوں کے مقابلے اسکے خون کے جسیمے تیزی سے تبدیل نہیں ہوتے اور یہ جسیمے دوسرے پستانیوں کی طرح گول نہیں ہوتے۔Caitlind L Alexander کے مطابق اونٹ کے کوہان میں چربی بھری رہتی ہے لیکن اسی کوہان میں ہائیڈروجن کی بھی وافر مقدار پائی جاتی ہے اسی لئے جب کبھی اونٹ کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے تو اونٹ کوہان کی اس چربی کو توانائی حاصل کرنے کے لئے جلاتا ہے جس کے لئے ہوا کے ذریعہ اندر آنے والی آکسیجن کو احتراق پذیری کے لئے استعمال کی جاتا ہے ، جب چربی سے توانائی خارج ہوجاتی ہے تو یہی آکسیجن کوہان میں موجود ہائیڈروجن کے سالمات سے ملتی ہے جس کے نتیجے میں پانی پیدا ہوتا ہے،اس طرح اونٹ بیک وقت کوہان کو نہ صرف تونائی حاصل کرنے کا وسیلہ بناتا ہے بلکہ بالراست پانی کے حصول کا ذریعہ بھی بناتا ہے اور اس طریقہ کار کا دوہرا عمل اونٹ کو بغیر بیرونی غذا و پانی کے مزید کئی دنوں تک زندہ رکھ سکتا ہے،یہی اور نجانے ایسی کتنی خصوصیات ہیں جن کی بنا پر ماہرین اسکو ایک منفرد خصوصیت کا حامل جانور سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس پر ابھی تحقیق باتی ہے، میرا بھی یہی خیال ہے کیونکہ قرآن نے اس جاندار کی تخلیق کا نہایت ہی ندرت آمیز اسلوب میں ذکر کیا ہے۔’’کیا یہ نہیں دیکھتے اونٹ کو کہ اسے کیسے تخلیق کیا گیا‘‘
———
Dr.Aziz Ahmed Ursi

Photo Dr Azeez Ahmed Ursi, Warangal

Share
Share
Share