چمپانزی Chimpanzee ——- ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی

Share

chimpanzee
چمپانزی Chimpanzee

ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی
ورنگل ۔ تلنگانہ

و لقد علمتم الذین اعتدوا من کم فی السبت فقلنا لھم کونوا قردۃًخاسیئن ۔ (البقرہ۔۶۵)
( پھر تمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ،ہم نے انہیں کہہ دیا کہ’’قرد‘‘ بن جاؤ،اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے ۔ (البقرہ۔ ۶۵)

قرآن میں اس جاندار یعنی بن مانس کا تذکرہ تین مرتبہ آیا ہے،بن مانس کو Apeکہا جاتا ہے۔ قرآن میں اس کا ذکرمندرجہ بالا آیت کے علاوہ مزید دو جگہ موجود ہے (۱) سورہ الاعراف کی آیت نمبر ۱۶۶ میں لکھا ہے کہ’’ پھر وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کئے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا ’’قرد‘‘ ہوجاؤ ذلیل و خوار ‘‘ اور (۲) سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۶۰ میں لکھا ہے ’’وہ جن پر خدا نے لعنت کی ، جن پر اس کا غضب ٹوٹا ،جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے‘‘
عربی زبان میں Apeکو’’ قرد‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ بندر کے لئے ’’سعدان‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن کچھ مفسرین اور مترجمین نے ’قرد‘ کا ترجمہ بندر کیا ہے جبکہ ’’وکیپیڈیا ‘‘ کی نئی عربی لغت کے مطابق قرد کے معنی Apeہیں،قدیم مفسرین کے بندر ترجمہ کرنے کی وجہہ شاید یہ رہی ہوگی کہ Ape کا لفظ اس صدی کے تقریباً وسط سے رائج ہے ،قبل ازیں اس کی تعریف وضع نہیں کی گئی تھی ویسے یہ اصطلاح عرصہ قبل وضع ہوئی لیکن اس کو عام انداز میں رواج پانے کے لئے کافی وقت لگا ۔علاوہ ازیں قدیم زمانے میں حیوانات کی جماعتApeسے متعلق جانداروں کو بندر ہی کہا جاتا تھا۔ دراصل Ape ایک وسیع خاندان کا نام ہے جس میں کئی ایک جاندار شامل ہیں ،یہ تمام جاندار ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار ہیں ،لیکن ہم جس کو بندر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں وہ Apeکا قریبی رشتہ دار نہیں ہے لیکن ان میں سائنسی اور درجہ بندی کے اصولوں کے لحاظ سے رشتہ ضرور ہے،بندر اور Apeمیں بڑا فرق ہوتا ہے بندر کو دم ہوتی ہے جبکہ Apeکو دم نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ آج دنیا میں گریٹ Apesکی تعداد چار ہے (۱) چمپانزی (۲) Orangutans (۳)Gorilla (۴) Bonobos۔جس طرح وھیل کو انواع کا خیال کئے بغیر ایک ہی جاندار تصور کیا گیا ہے اسی طرح دوسرا حیوانی عجوبہ Apesکو قرار دیتا ہوں لیکن تفصیلات صرف ایک ہی نوع یا جاندار کی بیان کی جائیں گی،یہ جاندار چمپانزی ہے۔پہلے میرا ارادہ تھا کہ چمپانزی کی جگہ ’’گوریلا‘‘ کے متعلق لکھا جائے لیکن مجھے زیادہ جاذبیت ’چمپانزی‘ میں نظر آئی۔ جیسے کہ بیان کیا جاچکا ہے چمپانزی ایک Ape ہے ، جیہ جاندارHominidae خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اسی خاندان سے درجہ بندی کے اعتبار سے حضرت انسان بھی تعلق رکھتے ہیں۔اسی لئے سائنسدان یہ ثابت کرنے پر مصر رہتے ہیں کہ انسان بھی ان Apesکے رشتہ دار ہیں،فارسی میں Apeکو’’ کپی ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ بندر کو ’’میمون‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں Apes ، بندر اور اس کے دوسرے قریبی جانداروں کا ذکر بار بار ملتا ہے، لارڈ ہنومانؔ کی شکل بھی Apes کی شکل پر ہے۔ دنیا کی قدیم تہذیبوں جیسے مصری، ہندی، ملائی وغیرہ میں بھی اس جاندار کا ذکر موجود ہے۔ قدیم عرب تہذیب میں اس جاندار کو شیطان کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔
چمپانزی کو دنیا کے ذہین جانوروں میں اونچا درجہ حاصل ہے۔ جسکی وجہ اسکے ذہن کی ساخت سوچنے سمجھنے کا انداز، خوشگوار طور طریقے اور سماجی برتاؤ ہے۔ چمپانزی کے DNAکا جب انسان کے DNA سے تقابل کیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انکا DNAانسان کے DNA سے 99.4 فیصد مشابہت رکھتا ہے۔ اسی لیے ہم اس جاندرا کو انسان کا قریبی رشتہ دار کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ میں نے Apeکو میری فہرست میں دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔ ان جانداروں کو تربیت دینا بہت آسان ہے کیونکہ ان میں سے سیکھنے کا مادہ دوسرے جانداروں کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسان نے جب خلا پر کمندیں ڈالیں تو کسی بھی انسانی زندگی کے ضائع ہونے کے خدشے کے پیش نظر خلانوردی کے لیے انہوں نے انسان کا انتخاب نہیں کیا بلکہ قرعہ فال چمپانزی کے نام اٹھایا کیونکہ اس جاندار میں احکامات کو سننے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔شاید یہی وجہ تھی کہ 1961میں امریکہ کی خلائی مہم پر Ham نامی چمپانزی کو روانہ کیا گیا جس نے نہایت کامیابی سے ذمہ داری کو نبھایا۔ اسکے علاوہ ایک مریخی مہم میں بھی چمپانزی ہی کو بھجوایا گیا جسکا نام Enosتھا۔
چمپانزی اپنے جذبات کا اظہار چہرے کے ذریعہ کرتا ہے۔ آئینہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے، اپنی تصویر کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چہرے کے خطوط کے ذریعہ خوشی یا ناراضگی کا اظہار کرتا ہے اور جب بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو تالیاں بجانے لگتا ہے۔ غصّے کی حالت میں دانت کپکپاتا ہے اور زبان سے بے ربط آوازیں نکالنے لگتا ہے اور دانت کچکچا کر مقابل پر حملہ کرنے کی سونچتا ہے،اس کے دانت انسان سے بہت زیادہ مشابہہ ہوتے ہیں ان میں جملہ 32 دانت پائے جاتے ہیں چونکہ اس جاندار میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو انسانی فطرت کا خاصہ ہیں اسی لیے ہم اس جاندار میں کچھ ایسے حرکات و سکنات دیکھتے ہیں جو انسانوں میں مستعمل روز مرہ طریقوں سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر دو چمپانزی کچھ عرصہ ایک ساتھ رہ لیں تو رخصت ہوتے ہوئے بالکل انسانوں کے رسم و رواج کا مظاہر کرتے ہیں یعنی انسانوں کی طرح وداعی سلام کرتے ہیں، ہاتھ کو ہاتھ سے مس کرتے ہیں یا اپنے چہرے کو دوسرے چمپانزی کے چہرے کے قریب لاکر بوسہ لیتے ہیں۔ انسانوں کی طرح یہ نہ صرف زندگی کے مسائل کو سمجھتے ہیں بلکہ انکا حل بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ان میں انسانی بیماریاں جیسے ملیریا، نمونیا وغیرہ بھی پائی جاتی ہیں اور یہ انسانوں کی طرح صرف 8یا 9گھنٹے ہی سوتے ہیں۔ بعض سائنس دان خیال کرتے ہیں کہ HIVبھی انسان میں چمپانزی کے توسط سے آیا لیکن ان میں یہ وائرس غیر فعال ہوتا ہے چمپانزی میں اس وائرس کو SIVکہا جاتا ہے۔ علاوہ اسکے اس جاندار کو قدرت نے ایک عجیب خصوصیت ودیعت کی ہے کہ ہر چمپانزی اپنا علاج خود کرتا ہے اس میں مرض کو نہ صرف سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے بلکہ یہ دوا تجویز کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں جیسے کہ پودوں کے مشہور خاندان Aspilia کے پتوں کے استعمال سے ظاہر ہے۔ اس خاندان کے پودوں میں Thiarubarin-A زیادہ پایا جاتا ہے جو نہ صرف دافع فنگس ہے بلکہ بہترین ضد حیاتیہ (Antibiotic) بھی ہے یہ اینٹی با ئیوٹک معدے کے کئی امراض میں کارگر ہے ۔ حتیٰ کہ یہ جاندار برتھ کنٹرول کی دواؤں سے واقف ہیں۔ چمپانزی اکثر اوقات اپنی غذائی تبدیلی کے باعث پیٹ کے درد یا معدئی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان بیماریوں کا تیر بہدف علاج بھی انکے پاس موجود ہوتا ہے جسکا وہ آئے دن مظاہرہ کرتے ہیں۔ پتوں کو پہچاننے کے لئے خدا کی عطائی صلاحیت کام آتی ہے کہ وہ Aspilia کے پتے کو پہچان جاتے ہیں حالانکہ اس جیسی شکل و صورت رکھنے والے کئی پتے گرد و ونواح میں پائے جاتے ہیں۔ انکے علاوہ انکی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ انسان کے مقابلے میں زیادہ تعدد (Frequency) کی آواز سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں انسان 24000ہر ٹزتک کی آواز سن سکتا ہے۔ جبکہ چمپانزی 33000کیلوہرٹز آواز سننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چمپانزی مخصوص تربیت کے بعد انسانی زبان سمجھنے لگتا ہے اور خود مختلف اشاروں سے گفتگو کرتا ہے یہ جسمانی زبان (Body Language) کو سمجھنے اور دوسرے جانداروں کو اس زبان میں سمجھانے میں ماہر ہوتا ہے۔ اس زبان کو Gestural Visual کہا جاتا ہے۔ یہ زبان بہرے افراد کے لیے استعمال کی جانے والی زبان سے بہت حد تک مشابہ ہوتی ہے۔ اپنی بات دوسرے جانداروں تک پہنچانے کا فن صرف حضرت انسان ہی کو نہیں آتا بلکہ کئی جاندار اس فن سے واقف ہیں لیکن ان کے طریقے جداگانہ ہیں۔ اسکی بہترین مثال شہد کی مکھی ہے جو اپنے سحر انگیز رقص کے ذریعہ دوسری شہد کی مکھیوں تک مختلف اطلاعات پہنچاتی ہے۔ کئی کیڑے بوئے برانگیختہ یعنی Phermonsکا اخراج عمل میں لاتے ہیں تاکہ مادہ کو راغب کرسکیں۔ ہاتھی اپنی مادہ کو بلانے کے لیے ایک مخصوص آواز نکالتا ہے جس کا تعدد (فریکونسی) انسانی کانوں کو سنائی دینے والی آواز سے کم ہوتا ہے لیکن یہ آواز کئی میل دور ہاتھیوں کو سنائی دیتی ہے۔ جہاں تک اپنی بات پہنچانے کا فن ہے چمپانزی میں یہ صلاحیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔تجربات سے ثابت ہے کہ جانوروں کی دنیا میں چمپانزی کے علاوہ دوسرا جاندار طوطا (پرندہ) ہے جو نہ صرف بہترین نقل کرتا ہے بلکہ سلیقے سے اپنی بات مقابل تک پہنچاتا ہے ۔اگر سدھائے ہوئے پرندے سے سوال کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ پرندہ اکثر سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مکمل سمجھ داری کا مظاہرہ کرتا ہے، حالانکہ ابتداً یہ سمجھا جاتا تھا کہ طوطا صرف نقل کرسکتا ہے اور اسکو عقل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا لیکن بعض تجربات نے اس خیال کو غلط ثابت کیا ہے۔ سائنس دانوں نے چمپانزی سے متعلق مختلف نتائج کو اخذ کرنے کے لیے Kanziاور Lanaنامی چمپانزی پر کئی تجربات کئے۔ چونکہ چمپانزی کا آواز پیدا کرنے کا آلہ انسان سے مختلف ہوتا ہے اسی لیے انسان نے اسکو ’’اشاراتی زبان‘‘ (Sign Language) سکھانے کی طرف زیادہ توجہ دی۔ نئی تحقیق کے مطابق انسانوں اور چمپانزی کے دماغ کا وہ حصہ جو لینگویج کو کنٹرول کرتا ہے ایک دوسرے سے بڑی حد تک مشابہ ہوتا ہے۔ اس کو Planum temporate کہا جاتا ہے کہ یہ عضو دوسرے جانداروں کے دماغ میں نہیں پایا جاتا اس عضو کی ان دونوں جانداروں میں موجودگی خود نظریہ ارتقاء کے لیے ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے۔ لیکن چمپانزی میں یہ عضو ترقی یافتہ نہیں ہوتا۔ اسکے باوجود چمپانزی اپنے جذبات کو ظاہر کرنے اور اپنے ساتھیوں کو بلانے کے لیے 34 مختلف طریقے استعمال کرتا ہے۔
مندرجہ بالا مثبت شواہدات کے باوجود بھی بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چمپانزی پر کی جانے والی تمام محنتیں رائیگاں گئی ہیں کیونکہ مسلسل محنت کے باوجود بھی وہ چند ایک الفاظ سیکھنے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس طرح یہ بات پایہ تقویت کو پہنچتی ہے کہ ان میں سیکھنے کا عمل انتہائی ابتدائی ہوتا ہے۔ جبکہ پرندوں پر کئے گئے تجربات ثابت کرتے ہیں کہ پرندوں میں زبان سیکھنے کی قوت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اسی لیے یہ نہ صرف کامیابی سے نقل اتارتے ہیں بلکہ تجزیاتی عمل کے ذریعہ سوالات کے صحیح جوابات دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے ارتقاء کی کہانی غیر حقیقی محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ اس نظریہ کے مطابق انسان کا قریبی رشتہ دار چمپانزی ہے اور انسان کی کئی ایک خصوصیات میں قوت نطق اہمیت کی حامل ہے اسی لیے چمپانزی میں الفاظ کی ادائیگی کم از کم ابتدائی شکل میں پائی جانی چاہئے۔ لیکن جب اس خصوص میں بغور جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان میں ایسی کوئی صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ Kanzi تجربات بچوں کا کھیل نظر آتے ہیں اور دل ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس دنیا کو خدائے تعالیٰ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا فرمایا ہے۔ دنیا کی ہرایک شئے، ہر ایک جانداربشمول حضرت انسان روزاول ہی پیدا کردئے گئے لیکن خالق نے اپنی تمام مخلوقات اور کائنات کی اشیاء کے مابین ایک عجیب رشتہ پیدا فرما دیا کہ ماحول اور وقت کے مطابق انسان کو ان جانداروں میں تبدیلیاں نظر آتی ہیں جس کووہ ارتقاء کا نام دیتا ہے ، میری نظر میں ارتقا دراصل خالق کا جاری کردہ ایک نظام قدرت ہے جس کے تحت ہر شئے اپنی تخلیق کے مقصد کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ اسی لیے فلاسفہ لفظ ’’کن‘‘ کو ایک لمحہ قرار نہیں دیتے بلکہ ایک مسلسل عمل کہتے جو آج بھی کچھ تحدیدات کے ساتھ کائنات میں جاری ہے اسی لیے شاعر کہتا ہے کہ ؂
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
بالفرض محال اگر مان لیا جائے کہ سائنس کے مطابق ارتقا ہوا تھا تو چمپانزی کو گفتگو کی شدھ بدھ ہونی چاہیے تھی۔ لیکن نظریہ ارتقاء کے حامی اس کی اشاراتی زبان کو باربط گفتگو سمجھنے پر مصر ہیں حالانکہ یہ ان کا خیال خام ہے۔ بعض سائنس دان چمپانزی کی کھوپڑی کے سائز سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ انسان سے قریب ہے لیکن اسکی دماغی صلاحیت کو بھول جاتے ہیں جب کہ سائز میں نہایت چھوٹا پرندوں کا دماغ صلاحیت کے اعتبار سے انسان سے قدرے قریب نظر آتا ہے کہ یہ کم از کم کامیاب نقل اتارنے کی کوشش کرتا ہے۔
آواز کا پیدا ہونا ایک پیچیدہ عمل ہے اور جاندار کے لیے کسی بھی سوال کا قبل ازیں سماعت کردہ الفاظ کی صورت میں جواب دینا ایک منطقی عمل ہے جو اس جاندار میں عقل کے استعمال پر دلالت کرتا ہے۔ اس طرح پرندے سکھانے کے بعد عقل کے استعمال سے واقف نظر آتے ہیں لیکن چمپانزی اس صلاحیت سے عاری ہے اسی لیے نظریہ ارتقا ایک ڈھونگ محسوس ہوتا ہے کہ گذشتہ دنوں نئی تحقیق نے ارتقا کے اہم ترین ثبوت Archaeopteryx کے وجود سے انکار کیا ہے اور اسکو فراڈ قرار دیا ہے۔ اسی طرح کچھ برس قبل طوطے کے جبڑے کی ہڈی دریافت ہوئی جسکی عمر مختلف تجربات کے بعد 180ملین برس قرار دی گئیں لیکن جب اسکا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ موجودہ دور کے طوطے کی ہڈی اور اس قدیم ترین ہڈی کی ساخت اور دوسری جزیات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ 180ملین برس قبل کا زمانہ ٹائم اسکیل کے مطابق جیوراسک(Jurassic) دور تھا جس کے بارے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ دور رینگنے والے جانداروں کا دورتھا اور نظریہ ارتقاء کے لحاظ سے ابھی پرندے پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ لیکن موجودہ دورمیں دریافت ہوئی طوطے کی ہڈی نظریہ ارتقا کے حاملین پر ضرب کاری ہے جسکی مار سے یہ ابھی سنبھل نہیں پائے ہیں اسی لئے لایعنی دلیلوں میں دنیا کو الجھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس تمام جائزے کے بعد انسان اور چمپانزی میں رشتہ قائم کرنا
محض خام خیالی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ چمپانزی انسان کے قریب قریب تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔
چمپانزی ایک پستانیہ ہے جو Primatesکے ایک خاندان Hominidae سے تعلق رکھتا ہے۔ انسان کی Genus کا نام Homoہے جبکہ چمپانزی اور اسکے دوسرے قریبی جانداروں کی Genusکا نام Panہے۔ نئی تحقیق کے بعد سائنس دان اس جاندار کو Homo میں شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں کیونکہ انسان اور اس جاندار کے DNAمیں کافی زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے۔ چمپانزی کی چار انواع ہیں (۱)Pan troglodytus verus ۲) Pan troglodytus vellorosus (۳) Pan troglodytus troglodytus (۴)Pan troglodytus schewein furthi
چمپانزی کی عمر 40تا 50 سال ہوتی ہے۔ انکا قد 70 سے 100سینٹی میٹر تک ہوتا ہے ، ان کا ’’نر‘‘ مادہ کے مقابلے میں اونچا ہوتا ہے۔ان کا وزن 40 تا 60 کیلو کے درمیان ہوتا ہے۔ سارے جسم پر کالے یا بھورے بال ہوتے ہیں چہرہ انسان سے قدرے مشابہت رکھتا ہے۔ لیکن ہونٹ بڑے ہوتے ہیں عام طور پر چہرے اورہتیلیوں پر بال نہیں پائے جاتے۔ عام Apesکی طرح ان میں دم نہیں پائی جاتی۔ کان کافی بڑے ہوتے ہیں اگلے اور پچھلے جو ارح نہایت پتلے اور لمبے ہوتے ہیں یہ جاندار زیادہ تر یوگانڈا، تنزانیہ، نائیجیریا، گھانا، مالی، کانگو، انگولا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی بودوباش عموماً ایسے مقامات پر ہوتی ہے جہاں میدانی علاقہ ہوتا ہے۔ ویسے یہ کبھی کبھی گھنے جنگل یا گھاس والے علاقے میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انکی غذا پھل، پھول، پھلیاں، پتے، گھاس، انڈے، کیڑے وغیرہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ چھوٹے چھوٹے فقرئی جانداروں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ یہ غذا کے حصول اور شکار کے معاملے میں اتحاد کا ثبوت دیتے ہیں۔ اگر کسی جگہ غذا کا ذخیرہ دکھائی دے تو یہ آوازیں نکال نکال کر دوسرے ساتھیوں کو بلا لیتے ہیں اور سب مل جل کر کھاتے ہیں۔ یہ انسان کی طرح دن کے اوقات غذا تلاش کرتے ہیں اور رات کو آرام کرتے ہیں۔ غذا حاصل کرنے کے لیے اوزار اور مختلف ہتیار استعمال کرتے ہیں بلکہ یہ ہتیار بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ جاندار شہد کا بڑا رسیا ہوتا ہے اور شہد نکالنے کے لیے اوزار کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ دیمک بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور اوزار کی مددسے انکو بلوں سے نکالتے ہیں۔ Nuts یا اخروٹ کو توڑنے کے لیے پتھر کا استعمال کرتے ہیں اگر انکی حاصل کردہ غذا پر کوئی دوسرا قبضہ کرنے کی کوشش کرے تو اسکو پتھر مار مار کر بھگاتے ہیں۔ انکے پانی حاصل کرنے کا طریقہ دلچسپ ہوتا ہے، یہ پہلے خاص پتوں کو چبا کر اسکا گولہ بناتے ہیں اور اس گولے کو پانی میں بھگو کر اس میں جذب شدہ پانی کو اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ پانی سے کافی دور بھاگتے ہیں، تیراکی کا قطعی شوق نہیں رکھتے بلکہ بعض سائنس دانوں کے مطابق یہ تیرنا نہیں جانتے۔ فرصت کے اوقات میں ایک چمپانزی دوسرے چمپانزی کے بالوں سے چھوٹے طفیلی جانداروں کو علیحدہ کرتے ہیں۔ اگر جنگل میں کبھی انہیں baboons مل جائیں تو یہ ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہیں۔یہ عموماً چار پیروں سے چلتے ہیں لیکن کبھی کبھار انسان کی طرح دو پیروں پر چلتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انکے پیروں کی ساخت انسانوں جیسی ہوتی ہے۔ ان کی چال کو’’ مشت پیمائی ‘‘ (Knuckle-walking) کہا جاتا ہے، یہ زمینی جاندار ہیں لیکن اکثر اوقات گذر بسر درختوں پر کرتے ہیں، درخت کی شاخوں پر جھولتے ہوئے آگے بڑھنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ یہ درختوں پر گھونسلے بنا کر رہتے ہیں۔ دوسرے کئی جانداروں کی طرح یہ بھی گروپس کی شکل میں رہتے ہیں۔ ہر گروپ میں کئی نر اور کئی مادائیں ہوتی ہیں۔ گروپ میں افراد کی تعداد 20سے 150تک ہوتی ہے۔ ہر گروہ کی ایک سلطنت ہوتی ہے جسکا علاقہ جنگل میں 20کیلو میٹر
اورمیدانی علاقے میں 80کیلو میٹر پر محیط ہوتا ہے۔
چمپانزی میں بچوں کی نگہداشت کا بہت بڑا سلیقہ پایا جاتاہے۔مادہ 13اور ’’نر‘‘ چمپانزی 16 کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں ، ان میں 36دن کے وقفے سے ماہواری ہوتی ہے۔ ان میں مدت حمل 8مہینے ہوتی ہے۔ ایک جھول میں عموماً ایک ہی بچہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار جڑواں بچے بھی ہوتے ہیں۔ پیدائش کے وقت انکاوزن دو کیلو سے کم ہوتا ہے۔ تقریباً پانچ مہینوں تک ماں بچوں کی مکمل دیکھ بھال کرتی ہے۔ چھ مہینوں کے بعد بچہ چلنا شروع کرتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی انسان کی طرح ایک عرصہ دراز تک ماں پر منحصر ہوتا ہے۔ تین سال کی عمر تک دودھ پیتا ہے۔ چار سال کی عمر تک ماں کی پیٹھ پر بیٹھ کر ہی سفر کرتا ہے۔ اسکے بعد آزادانہ چلنا شروع کرتا ہے، جب ماں دوسری مرتبہ حاملہ ہوتی ہے تو یہ بچہ اس سے قدرے الگ ہوجاتا ہے اور اپنی ہی عمر کے دوسرے چمپانزی کے ساتھ دوستی گانٹھ لیتا ہے۔ اس عمر میں وہ گروہ کے تجربہ کار افراد سے رموز زندگی معلوم کرتا ہے۔ سماجی طور طریقے سے واقف ہوتا ہے اور غذا حاصل کرنے کے گر سیکھتا ہے۔لیکن ماں چمپانزی زندگی بھر انسانوں کی طرح بچے کو قریب کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے ،اور جب کبھی ملاقات ہوتی ہے تو اپنایت کے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔
چمپانزی آج معدومیت کے دہانے پر کھڑا ہوا ہے۔ دنیا کے مختلف مقامات پراسکو بچانے کی کوششیں چل رہی ہیں۔ اسی لیے اسکو Red Data Book میں شامل کیا گیا ہے۔ ساری دنیا میں آج انکی تعداد صرف ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے اورقدرتی حوادثات کی وجہ اس تعداد میں بھی مسلسل کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ جنگل کی کٹوائی کے باعث انکے قدرتی علاقہ رہائش میں کمی ہورہی ہے اس طرح یہ جاندار قدرت کی چیرہ دستیوں اور انسانی بے رحم ہاتھوں سے خود کو بچا نہیں پارہا ہے۔ کیونکہ جنگل میں ان جانوروں کے ساتھ رہنے والے جنگلی انسان اپنی غذائی ضرورت کے لیے انکا شکار کرتے ہیں اور مہذب انسان ان کی تعداد کو اپنی تحقیق کا زینہ بنا کر کم کرتے ہیں۔ یعنی دونوں صورتوں میں انکی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ میں جب کبھی سوچتا ہوں کہ ہر اعتبار سے انسان سے قریب رشتہ رکھنے والے ان جانداروں کو اگر قوت گویائی مل جائے تو شاید وہ ہمیں یہ کہتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ ’’اے درد مند دل رکھنے والے بھائیو۔ انسانوں کے بہترین مستقبل کے لیے ہمیں ہمارے انسانیکزن سے بچاؤ‘‘ آج بچاؤ کی مختلف تدابیر استعمال کرنے کے باوجود نہ صرف چمپانزی بلکہ اسکی قریبی انواع بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔مثلاً آج گوریلا کی تعدادصرف ایک لاکھ کے قریب ہے، Baboonکی تعداد پندرہ ہزار سے بھی کم ہے Orangutan صرف دو تا تین ہزار موجود ہیں اورایک اندازے کے مطابق Gibbon اس روئے زمین پر صرف دو ڈھائی ہزار باقی بچے ہیں۔ اگر یہ محدود تعداد بھی کسی وجہ ختم ہوجائے تو پھر ہم ان جانداروں کو کتابوں کے صفحات یا تصویری فلموں میں ہی دیکھ سکیں گے۔
جب کبھی یہ جاندار انسانی شہری آبادیوں میں آتے ہیں تو اکثر علاقوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ انسان ان سے محبت آمیز برتاؤ کرتا ہے اور چمپانزی بھی انسان سے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے یہ جاندار انسانوں سے بہت جلد مانوس ہوجاتا ہے اور اشاروں کی زبان میں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم سے دور مت بھاگو کیونکہ ہم بھی تم جیسے ہی ہیں اور تم بھی اس کو بخوبی سمجھتے ہو کہ ہم تم سے بہت قربت رکھتے ہیں اسی لیے جب کبھی تم کوئی نئی دوا دریافت کرلیتے ہو تو سب سے پہلے ہم ہی پر آزماتے ہو کہ ہم تم سے الگ نہیں۔ بلکہ ہم وہ ہیں جو ہماری زندگیوں کو تمہاری زندگی کی خاطر قربان کرتے ہیں اور ہمیشہ تمہاری سلامتی کے نئے نئے راستے تلاشتے رہتے ہیں۔
Dr.Aziz Ahmed Ursi
Photo Dr Azeez Ahmed Ursi, Warangal

Share
Share
Share