ادبیت اور بازتخلیقیت کے روح رواں ۔۔۔ جمیل شیدائی – – – – پروفیسرمجید بیدار

Share
jameeeel ۔ جمیل شیدائی
جمیل شیدائی

جمیل شیدائی مرحوم
ادبیت اور بازتخلیقیت کے روح رواں

پروفیسر مجید بیدار
سابق صدر شعبۂ اردو ‘جامعہ عثمانیہ ‘ حیدرآباد

شعرو شاعری سے دلچسپی اور ادبی سرگرمیوں سے وابستگی اگر شہر حیدرآباد کی کسی شخصیت میں جلوہ گر نظر آتی تھی تو وہ بلاشبہ برجستہ ڈرامہ نویس اور ڈرامے کے فن کو نئی جہت سے آشنا کرنے والی شخصیت جمیل شیدائی کی تھی ۔ اردو ادب اور اس کی ادبی سرگرمیوں سے وہ جس قدر قربت رکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ ان کا مطالعہ انگریزی ادب اور ادبیات کے ساتھ ساتھ شاعری اور فلسفے سے بھی حد درجہ اٹوٹ تھا۔ جب بھی وہ گفتگو کرتے تو دوران گفتگو عالمانہ مزاج کی نمائندگی ہوتی رہتی تھی ۔

کبھی کسی کو کمتر سمجھ کر بات نہیں کرتے بلکہ ہر ایک کی عزت کا پاس و لحاظ رکھ کر اظہار و خیال کرتے اور فرد کی دلچسپیوں میں رکاوٹ بننے کے بجائے صاحبِ شخصیت کی فطری دلچسپیوں کی مناسبت سے بات چیت کرکے دوسروں کے دل کو موہ لینے کا ہنر جمیل شیدائی کو خوب آتا تھا۔ انسانوں کی عزت اور انسانیت کی قدر دانی ان کی فطرت کا خاصا تھا‘ پتہ نہیں انہوں نے یہ ہنر کہاں سے سیکھاتھا۔ اور اس ہنر کو دوسروں میں تقسیم کرکے خوش ہوتے اور فخریہ طور پر لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بناکر زندگی گذارنے کو عیش کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے پرُوقار زندگی گذاری لیکن اپنی زندگی کے عیش کو ادب سے وابستہ رکھا جس میں اخلاق و تہذیب ہی نہیں بلکہ انسانوں کی قدر کے جذبے کو اولیت حاصل تھی۔ وہ ہر فرقے ‘ ذات اور مذہب کے افراد سے ملاقات کرتے اور ان میں خلوص و محبت کا بیج بو کر ایسا ماحول تیار کرتے تھے کہ جس کی وجہ سے ہر فرد ان کی صلاحیتوں کا معترف اور ان کی خدمات کا ستائش کرنے والا بن جاتا تھا۔
یہ تو ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ جمیل شیدائی سے پہلی ملاقات حیدرآباد میں کب ہوئی اور کہاں ہوئی‘ لیکن ذہن کے گوشوں میں اتنا ضرورمحفوظ ہے کہ مغل پورہ کے مشہور علاقے خواجہ کے چھلے کے قریب ڈاکٹر راہی کا دواخانہ غالباً1960ء میں جمیل شیدائی کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہ ایسا دور تھا جبکہ مغل پورہ کی سرزمین سے مذہبی ماہنامہ ’’ارشاد ‘‘ پابندی سے شائع ہوتا تھا ‘ جس کی ادارت مشہور کانگریسی لیڈر اور جاوید ماڈل اسکول کے بانی جاوید قادری کے والد انجام دیا کرتے تھے۔ اس دور میں مغل پورہ جیسے محلے کو ادبی سرگرمیوں ہی نہیں بلکہ تعلیمی مرکز کا درجہ حاصل تھا۔ مغل پورہ کے ہر کونے میں ایک مدرسہ موجود تھا۔ جاوید ماڈل اسکول کے علاوہ لوڈال اسکول‘ نجمی ہائی اسکول‘ ڈیزلنگ اسکول اور کئی چھوٹے چھوٹے دینی مدارس بھی مغل پورہ کا حصہ تھے۔ اسی مغل پورہ میں مشاعروں کی روایت بھی موجود تھی۔ مجلس شہر ادب کی محفلیں اور نئے سال کا سالانہ مشاعرہ 31؍دسمبر کی رات کو وزیر داخلہ نواب میر احمد علی خان کی دیوڑھی میں پابندی سے منعقد ہوا کرتا تھا۔ جس کی صدارت عام طور پر مشہور کمیونسٹ شاعر مخدوم محی الدین کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ رام پرساد کی حویلی میں بھی مشاعرے منعقد ہوتے تھے اور دودھ خانہ اللہ رکھی بیگم کے احاطہ میں بھی مشاعروں کی سرگرمیاں جاری رہتی تھیں۔ تمام تر مغل پورہ ‘ نوابوں کی دیوڑھیوں اور مسجدوں سے آباد تھا۔ مساجد میں سیرت کے جلسوں کا اہتمام اور اس موقع پر مقررین کو پیش کرنے سے پہلے نعتیہ کلام پیش کرنے کی روایت عام تھی۔ اس اہم دور میں یہ دیکھا گیا کہ ماہانہ ’’ارشاد ‘‘ کے دفتر کے قریب شام کے وقت جمیل شیدائی اپنی دراز زلفوں کے ساتھ برآمد ہوتے اور کسی نہ کسی ادبی موضوع کو پر گفتگو شروع ہوئی اور محفل کے دیگر افراد کو متوجہ کرلیتے تھے۔ اس دور میں حقیرمغل پورہ مڈل اسکول کی طالب علمی سے گذر رہا تھا۔ خود مدرسہ میں طلبہ کی ذہن سازی کے لئے ریڈنگ روم کے علاوہ بچوں کا کتب خانہ موجود تھا ‘اس کتب خانے سے کلاس ٹیچر ہمیشہ کتابیں تقسیم کرتے اور ہفتہ عشرے کے بعد کتابیں واپس حاصل کرکے کتاب کے مواد کے بارے میں دریافت کیا کرتے تھے۔ سب سے پہلی مرتبہ جمیل شیدائی کو صوفیاء کرام اور مسلمان بادشاہوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ انہوں نے اورنگ زیب کے ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن اور بابا یوسف شریف صاحب ؒ کے علاوہ حضرت خواجہ حسن برہنہ شاہ کے واقعات اور ان کے کرامات کو کچھ انداز سے نمایاں کیا کہ طالب علمانہ ذہنیت میں مطالعہ کا سوداسمایا‘اور اس دور سے ادب کے علاوہ مذہب اور پھر تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کا کی طرف توجہ مرکوز ہوئے۔ ویسے طالب علمی کے زمانے میں والد بزرگوار کی لائبریری سے حاصل کئے ہوئے رسالے جیسے ’’مولوی‘‘، ’’ آستانہ‘‘ اور ’’دین دنیا‘‘ کے مطالعہ سے مذہب ‘ تاریخ اسلام اور مسلمانوں کی حریت سے واقفیت حاصل ہوتی رہی تھی‘ لیکن جمیل شیدائی نے پہلی مرتبہ توجہ کو عوامی خدمت کی طرف مائل کیا اور اورنگ زیب جیسے متقی بادشاہ ہی نہیں بلکہ حضرت بابا یوسف شریف صاحب ؒ اور خواجہ حسن برہنہ شاہ ؒ کی زندگی کے واقعات سے ان کی علم دوستی اور ادب پروری کے علاوہ انسانیت دوستی کو بھی واضح کیا۔ جس کی وجہ سے ادب سے دلچسپی کے ساتھ مذہب اور تاریخ سے دلچسپی کا رحجان بھی پیدا ہونے لگا۔ اس طرح طالب علمی کے کے زمانے سے ہی ادب کے علاوہ مذہب اور روحانیات سے دلچسپی کی طرف رغبت دلانے کا کارنامہ جمیل شیدائی کی کوششوں کا نتیجہ رہا۔ کچھ وقفے بعد جب سٹی ملٹی پرپز ہائی اسکول کے طالب علم ہوئے تو اسٹیٹ سنٹرل لائبریری ‘ افضل گنج کے کتب خانے سے استفادے کے دوران مذہبیات‘ روحانیات اور ہندوستانی تاریخ ہی نہیں بلکہ اسلامی تاریخ اور عالمی تاریخ کے تناظر میں کتابوں کے مطالعے کا ذوق بڑھتا گیا ۔اس وقت بھی جمیل شیدائی مغل پورہ کی نکڑ پر نمودار ہوتے ‘ کسی نہ کسی اہم موضوع پر تبادلہ خیال کرکے حیرت میں مبتلا کردیتے تھے‘ غرض ہم یہ محسوس کرتے تھے کہ ہمارے مطالعے کے مقابلے میں جمیل شیدائی کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ حد سے زیادہ گہرا ہے۔ طویل عرصے تک مغل پورہ کی نکڑ پر جمیل شیدائی سے ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور نشستوں کو بھول بھال بھی گئے لیکن پھر اچانک ایسا ہوا کہ اورنگ آباد کی سرزمین میں ملازمت انجام دیتے ہوئے جب اقبال بک ڈپو پر شام کے اوقات کو استعمال کرنے کے لئے کتابوں کی تلاش کا سلسلہ جاری رہا تو اس بک ڈپو پر جمیل شیدائی سے دوبارہ ملاقات ہوگئی۔ یہ دور ہماری ملازمت اور عملی زندگی کا تھا‘ جو کچھ پڑھا تھا اُسی کو بنیاد بنا کر مضامین لکھتے تھے اخبارات اور رسائل ہی نہیں بلکہ خاص جریدوں میں بھی مقالے کی حیثیت سے شائع ہوا کرتے تھے۔ ابتدائی دو تین کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ اورنگ آباد کی سرزمین میں جمیل شیدائی سے ملاقات پر حیرت بھی ہوئی لیکن انہوں نے واضح کردیا کہ کچھ عرصے کے لئے اپنی ملازمت کی تکمیل کے سلسلے میں وہ اورنگ آباد آئے ہوئے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ ملاقاتوں میں تیزی آنے لگی۔ جمیل شیدائی فطری طور پر بھیڑ بھاڑ سے دور اور محفلوں سے گریز برتنے والے شخص واقع ہوئے تھے‘ اس لئے نجی محفلوں میں ہی خوب کھلتے اور دل کھول کر بحث میں حصہ لیا کرتے تھے۔ اُسی دوران آل انڈیا ریڈیو اورنگ آباد سے ان کے ڈرامے بھی نشر ہونے لگے اور چند ایک ترجمہ شدہ مضامین بھی رسائل و جرائد کی زینت بننے لگے۔ جمیل شیدائی کو شاعری سے دلچسپی تھی لیکن وہ نفسیات اور فلسفے کے اتنے گہرے طالب علم تھے کہ ان کے مضامین کے مطالعہ سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ ادبیات کے بجائے فلسفہ ‘منطق اور نفسیات کو بنیاد بنا کر تجزیاتی عمل کو پیش کرنا ان کی تحریر کی خوبی ہوا کرتی تھی۔ جمیل شیدائی نے ڈرامے لکھے اور ان کے ڈراموں میں تخلیقیت کا عنصر غالب اور زبان اور اظہار کی مضبوط گرفت محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان کے تمام ڈرامے طبع زاد ہیں ‘ انہوں نے ترجمہ شدہ ڈرامے بھی پیش کئے اور دنیا کی ادبی‘ مذہبی‘ سائنسی اور سماجیاتی تاریخ کو نمایاں کرنے کے لئے ترجمے کے فن کو بھی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔
جمیل شیدائی کو ایک تخلیق کار اور ترجمہ نگار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ ڈرامہ لکھنا ان کی دلچسپی کا مشغلہ تھا‘ ڈرامے کے کرداروں اور ان کے مکالموں میں جمیل شیدائی نے جہاں عصری حسیت کو پیش نظر رکھا‘ وہیں روایتی خصوصیات کو بھی جگہ دی۔ عملی زندگی میں انہوں نے ہمیشہ مذہب کی پاسداری کو ملحوظ رکھا لیکن عملی طور پر ایسا لگتا تھا کہ وہ ایشیائی زندگی کی روایات سے دور اور یوروپی زندگی کی خصوصیات سے قربت حاصل کرچکے تھے۔ رہن سہن کے تمام معاملات کو وہ یوروپی مزاج میں ڈھال چکے تھے۔ اس کی وجہ معلوم نہ ہو سکی کہ اس طرز کو جمیل شیدائی نے کس لئے اختیار کیا تھا البتہ یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان کی نصف بہتر نے انگریزی ادب کے استاد کی حیثیت سے ممکن ہے کہ ان کے خیالات پر کوئی اثر ڈالا ہو‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے ذہن پر مذہب کی پاسداری اور اس کے لحاظ کا گہرا اثر تھا‘ البتہ مذہب کی وہ ظاہری خصوصیات ‘جن کی وجہ سے مشرقیت کا انداز نمایاں ہوتا ہے۔ انہوں نے اس انداز سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انگریزی لباس کے وہ حامی نہیں تھے‘ اس لئے ہر لباس کو پسند کرتے تھے البتہ محفلوں میں انگریزی فیشن کے اعتبار سے لباس زیب تن کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ خودداری ان کی فطرت میں شامل تھی اور وہ ایسے جذبے کے مالک تھے کہ جس کی وجہ سے دوسروں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اس دور میں جبکہ لوگ قرض حسنہ کی روایت سے دور ہوچکے تھے اور یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اس اسلامی روایت کی دیواریں ٹوٹ رہی ہیں ۔ ایسے وقت اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جمیل شیدائی ہر ضرورت مند کی ضرورت کی تکمیل کے لئے کمربستہ نظر آتے تھے۔
ادبی پس منظر میں بلاشبہ جمیل شیدائی کو کوئی اہم مقام حاصل نہیں ہوا‘ وہ نامور ڈرامہ نگار تھے لیکن ان کی ڈرامہ نگاری پر دکن کے نقادوں نے کوئی توجہ نہیں دی‘ اسی طرح ان کے پیش کردہ ترجموں کو بھی کوئی اہم مقام و مرتبہ حاصل نہ ہوسکا۔ احباب کی محفلوں میں جس قسم کی گفتگو کی وجہ سے وہ شہرت رکھتے تھے‘ اس کا کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں ۔ ان حقائق کے پس منظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جمیل شیدائی نے کسی وقت بھی یہ مناسب نہیں سمجھاکہ اپنی شخصیت کو منوایا جائے اور اپنے ادبی کارناموں کو حددرجہ نمایاں کرکے اعزازات اور انعامات حاصل کرنے کی سبیل نکالی جائے۔ ان کی فطرت میں ہی بے نیازی شامل تھی۔ وہ اپنی تحریروں کو سنبھال کر یا جتن سے نہیں رکھتے تھے۔ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن اور اورنگ آباد ریڈیو اسٹیشن کے علاوہ یووا وانی کے پروگراموں سے ان کے بے شمار ڈرامے نشر ہوتے رہے اور لوگوں نے انہیں پسند بھی کیا‘ لیکن جمیل شیدائی نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ ان کی بدولت شہرت کا چولا پہن لیا جائے۔ حیدرآباد کی ادبی محفلوں میں وہ کم کم ہی دکھائی دیتے تھے۔ انہیں فخر حاصل تھا کہ حضرت رحمن جامی جیسے شاعر سے تلمذ حاصل رہااور رحمان جامی کے کہنے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی ابتدائی شاعری پر اصلاح دیتے ہوئے رحمن جامی نے ان کی نثر سے متاثر ہوکر شعر گوئی ترک کرنے اور نثر نگاری کی طرف توجہ دینے کی ترغیب دلائی تھی۔ ایک سچے شاگرد کی حیثیت سے جمیل شیدائی نے استاد کے حکم کی تابعداری کی اور ساری زندگی ڈرامہ نویسی اور ترجمہ نگاری کے لئے وقف کردی۔ جس وقت امبیڈکر یونیورسٹی کی جانب سے مختلف علوم و فنون کی کتابیں اردو میں ترجمہ ہونے لگیں اور ترجمے کی ذمہ داری جمیل شیدائی کے سپرد کی گئی تو انہوں نے اس کام کی تکمیل کو صرف ذمہ داری کا درجہ نہیں دیا بلکہ فرض کا درجہ دے کر علوم و فنون کی کتابوں کا باز تخلیق کے انداز سے ترجمہ کیا اور ڈاکٹر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کے نصابات کی ترجمہ شدہ کتابیں کہیں پر بھی ترجمہ نہیں بلکہ تخلیق کا حصہ دکھائی دیتی ہیں۔ ترجمہ اس انداز سے کیا جائے کہ وہ بذات خود تخلیق کے انداز کی نمائندگی کرے و اس ترجمہ کو ’’باز تخلیق‘‘ کہا جاتا ہے۔ شیدائی نے ترجمے کے فن پر اس قدر مہارت حاصل کرلی تھی کہ ترجمے کی صنف میں ’’باز تخلیق ‘‘کی روایات جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ جمیل شیدائی نے ترجمے کے فن پر اس قدر توجہ دی کہ اس فن کو تخلیق کے قریب تک پہنچا دیا‘ جس کی وجہ سے ترجمہ بذات خود تخلیق کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ جمیل شیدائی کے ڈرامے جس قدر سماجی مسائل اور معاملات کے عکاس ہوتے ہیں‘ اسی قدر ان کے ترجمے فطرت کے مطابق اور عین تخلیقی حسیت کے علمبردار ہوجاتے ہیں ۔ بلاشبہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ترجمہ کو ترجمہ ہی رہنا چاہئے اور ترجمے میں تخلیقیت کا داخلہ ترجمے کی صنف کو مجہول کردیتا ہے لیکن جمیل شیدائی کی یہ کیفیت تھی کہ مجہول ترجمے کو پسند نہیں کرتے بلکہ مقبول ترجمے میں روانی‘ سلاست اور زبان و بیان کی چاشنی کو شامل کرکے ترجمے کو بذات خودتخلیق کے قریب پہنچا دیتے تھے۔ اردو کی نثری تاریخ میں ترجمے نگاروں کی طویل فہرست نظر آتی ہے اس فہرست میں ترجمہ نگار کی حیثیت سے علمیت ‘ ادبیت اور ترجمانی کو جس خلاقیت کے ساتھ علمائے مترجمین میں عنایت اللہ دہلوی نے پیش کیا ہے ان کی نمائندگی کسی اور ترجمہ نگار کے ذریعہ ممکن نہیں۔ علامہ عنایت اللہ دہلوی نے تاریخی اور غیر افسانوی نثر کے ترجمے پر توجہ دی‘ جبکہ جمیل شیدائی ایک ایسے مترجم ہیں جو افسانوی نثر سے زیادہ غیر افسانوی نثر کے ترجمے اور ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں۔ تاریخ کو تنقید و ادب ہی نہیں بلکہ مختلف سماجی علوم اور ادبی علوم کے موضوعات کی ترجمانی جمیل شیدائی کی تحریروں میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔ مولوی عنایت اللہ دہلوی سے لے کر خلیل الرحمن‘ مرزا محمد عسکری‘ قاضی تلمذ حسین اور عبدالمجید سالک سے ہوتا ہوا غیر افسانوی نثر کے مترجموں کا قافلہ جمیل شیدائی تک پہنچتا ہے‘ جنہوں نے ادبی علوم سے زیادہ علوم عمرانیات اور سماجی علوم سے متعلق کتابوں کے ترجمے کے ذریعہ سرسید احمد خان کے مشہور ترجمے کے ادارے ’’سائنٹفک سوسائٹی ‘‘کی روایت کو فروغ دیا۔ حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد اس یونیورسٹی کے دارالترجمہ کے مترجمین کے ذریعہ جس طرح علوم و فنون کی کتابوں کی اردو میں ترجمے کی روایت کا آغاز ہوا تھا۔ اُسی قسم کی روایت کی ترجمانی جمیل شیدائی کے ترجمے کی خصوصیت کا حصہ بنتی ہے۔ ان کی ہمدردی مثالی رہی۔ احباب سے وابستگی اور ان سے ربط و تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے حدمت کے جذبے کا اختیار کیا۔ جس وقت مجھے 2000ء میں ہاٹ اٹیک ہوا اور میں نے یونانی ہارٹ کلینک کی دوا سے استفادہ کا آغاز کیا تو اس وقت جمیل شیدائی تارناکہ کے علاقے میں قیام پذیر تھے۔ ہر روز یونانی ہارٹ کلینک سے دوا لانے کے لئے وہ میرے گھر لکڑی کا پل پہنچتے اور اپنی اسکوٹر پر مجھے بٹھا کر ٹولی چوکی لے جاتے اور دوا پلا کر واپس گھر چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ یہ اخلاص اور محبت آج کے دور میں حقیقی برادر زادوں میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جمیل شیدائی کو ان کے مانباپ سے جو تربیت حاصل ہوئی تھی‘ اسی تربیت کو وہ اپنی زندگی کا وسیلہ بنا چکے تھے۔ جن مانباپ کے زیر سایہ اولاد کی صحیح تربیت ہوجانے پر اولاد ہی نہیں بلکہ ان کے والدین بھی اپنی صحیح تربیت کی وجہ سے جنت کے حقدار بن جاتے ہیں۔ غرض جمیل شیدائی نے خدا کے بندوں کی بندگی کا حق ادا کرکے جنت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرلے ‘لازمی ہے کہ ادب دوستوں کے درمیان سے ان کا گذر جانا بہت بڑا سانحہ ہے لیکن اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ آج کے اس پرُ آشوب دور میں انسانیت کی خدمت کرنے والے ایک انسان کو خدا نے اپنی بارگاہ میں بلا کر ہزارہا ضرورت مندوں کو محروم کرنے کے بجائے انہیں ہزارہا اعزازات سے نوازا ہوگا‘ غرض جمیل شیدائی نے دنیا کے کسی اعزاز کے حصول کے لئے کوشش نہیں کی۔ تمام زندگی میں جمیل شیدائی کی دنیا سے دوری اور بندوں سے قربت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جمیل شیدائی کی رحلت ایک ادیب ‘ ڈرامہ نگار‘ مترجم اور ادب دوست کی رحلت ہی نہیں بلکہ انسانیت پر اپنی ذات کو نچھاور کرنے والے کی موت سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس طرح ایک انسانیت دوست کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ہی عظیم سانحہ کے مترادف ہے۔
– – – –
Prof.Majeed Bedar
bedarM

Share
Share
Share