زرافہ Girrafe –

Share

girrafe
زرافہ Girrafe –

ڈاکٹرعزیز احمد عرسی، ورنگل
موبائل : 09866971375

یزید فی الخلق ما یشاء ان اللہ علی کل شیء قدیر (فاطر ۔۱)
وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (فاطر۔ ۱)
زرافہ کو دنیا کا سب سے اونچا جانور قرار دیا جاتاہے۔ کیونکہ معدوم جانوروں کی فہرست سے پرے فی الوقت روئے زمین پر کوئی جانور ایسا نہیں ہے جس کو زرافہ کی طرح قد آور ہونے کا اعزاز حاصل ہو۔ یونانی اورمصری اس جاندار کو عرصہ قدیم سے جانتے ہیں اس جانور کو رومن عوام اپنے بیشتر کھیلوں میں استعمال کیاکرتی تھی ان کا خیال تھا کہ یہ جاندار لیو پارڈ اور اونٹ کے ملاپ کا نتیجہ ہے۔لیکن یہ تصور غلط تھا، باوجود اس کے زرافہ کے سائنسی نام میں اسی تصور کا اظہار ملتا ہے کیوں کہ آج بھی اس کا نام Giraffe camelopardalis ہے۔ ویسے لفظ زرافہ (یعنی Xiraffe ) عربی زبان سے مشتق ہے۔ جس کے معنی اچھلنے ، کودنے اور عجلت کے ساتھ چلنے کے لئے جاتے ہیں۔

زرافہ ایک پستانیہ ہے جو Artiodactylia جماعت سے تعلق رکھتاہے ۔ یہ مشرقی آفریقہ میں پایا جاتاہے، ویسے ان جانداروں کو کثیر تعداد میں سہارا اور زامبیر ی دریا کے درمیان دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے گوشت کو آفریقہ کے انسان بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں کو کئی اغراض میں استعمال کرتیہیں ۔ نہ صرف اس کے چمڑے سے دیدہ زیب اور پائیدار سامان بنایا جا تا ہے بلکہ Tail Tuft سے بھی کئی آرائشی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ یہ جاندار 20تا25 برس تک زندہ رہتے ہیں۔ نر (Male) زرافہ کا وزن 2000 کیلو سے زائد ہوتا ہے۔ لیکن اس کی مادہ کا وزن نر کے مقابلے میں نسبتا کم ہوتا ہے۔ جب کہ نرکے صرف سر اور گردن کا وزن 300 کیلو کے قریب ہوتاہے۔ اس جانور کا قد 16 تا 20 فٹ ہوتا ہے جوزندگی بھر بڑھتا رہتا ہے۔ اس کا جسم گھوڑے جتنا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے گردن اور پیروں کی لمبائی کی باعث اس کے قد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے اگلے جوارح کی لمبائی تقریبا 10 فٹ ہوتی ہے پچھلے جوارح بھی تقریبا اسی سائز کے ہوتے ہیں لیکن دیکھنے میں چھوٹے نظر آتے ہیں۔ ان کی گردن 6 فٹ سے زیادہ اونچی ہوتی ہے۔ یہ پستانیوں کی خصوصیت ہے کہ انکی گردن میں صرف سات فقرے پائے جاتے ہیں زرافہ اس قدر لمبی گردن رکھتا ہے اس کے باوجود اس کی گردن میں بھی صرف سات ہی فقرے (Vertebrae) پائے جاتے ہیں لیکن ان فقروں کا سائز بڑا ہوتا ہے۔ ان کی گردن پر mans یعنی لمبے بال پائے جاتے ہیں۔ ان کی گردن ہمیشہ Vertical یعنی کھڑی رہتی ہے کیونکہ اس میں ایک متبدلہAtlas axis joint پایا جاتا ہے۔ یہ کئی ہفتوں تک بغیر پانی کے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن عام طور پر یہ صبح کی شبنم کے ذریعے یا شکارکے اندر موجود پانی کے ذریعہ اپنے تحولی افعال کے لئے درکار آبی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ زرافہ کے لئے پانی پینے کا مرحلہ خطرات سے بھر پورہوتاہے۔ اس قدر قوی ہیکل، مضبوط الحبشہ اور عظیم جسامت رکھنے والا زرافہ پانی پینے کے اوقات بہت حد تک مجبور نظر آتا ہے کیونکہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ببر انکاشکار کرتے ہیں۔ وہ پانی پیتے وقت اپنے آ پ کو ببر کے حملے سے نہیں بچاسکتے ہیں۔ وجہ دراصل یہ ہے کہ ان جانداروں کو پانی پینے کے لئے اپنے اگلے پیروں کاپھیلانا پڑتا ہے تاکہ گردن کو جھکا کر منہ کو زمین تک لے جا یا جاسکے ۔ پھیلے ہوئے پیراور جھکی ہوئی گردن کے باعث وہ اپناصحیح دفاع نہیں کر پاتے ۔ زرافہ ایک منٹ میں دس لیٹر پانی پی جا تا ہے اور بیک وقت 12 گیلن سے زیادہ پانی پی سکتاہے۔ لیکن یہ جاندار نہانے سے ڈرتاہے اسی لئے اس کو پانی میں نہاتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا۔زرافہ کے جسم پر Oxpeckers نامی پرند ے بیٹھتے ہیں جو ان کے جسم پر موجود چھوٹے چھوٹے کیڑوں کو چن کر کھا جاتے ہیں۔ یہ بھی خدا کا مکمل نظام ہے جو ایک جانب ایک جاندار کے لئے غذا کو فراہم کرتا ہے اور دوسری جانب دوسرے جاندار کی تکلیف کو اسی عمل کے ذریعے راحت پہنچاتاہے۔
زرافہ سبزی خور جاندار ہے،زرافہ دن بھر میں 66 کیلو کے قریب غذا استعمال کرتاہے۔ یہ صرف صبح یاشام کے اوقات میں ہی درختوں سے غذا حاصل کرتا ہے۔ عموماً دو پہر کو یہ جاندار آرام کرتا ہے۔ نرزرافہ عام طور پر اونچے درختوں کے پتوں کوسراٹھا کر کھاتا ہے جب کہ مادہ زیادہ تر درختوں پر سرجھکا کر کھاتی ہے۔ یہ جاندار زیادہ تر Mimosa درخت کے پتے کھاتے ہیں۔ اس کے جسم پر زرد اور بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں جو سارے جسم پر Patches کی شکل میں پائے جاتے ہیں کبھی کبھار یہ بعض چڑیوں کے گھونسلوں کو انکے بچوں سمیت کھاجاتا ہے تاکہ جسم میں کیلسیم کی مقدار کو اعتدال پر رکھا جاسکے۔ اس میں دشمن سے بچنے کے لئے ایک قدرتی انتظام پایا جا ہے جس کو ممکری کہا جا تا ہے اسی لئے جب کبھی زرافہ اونچے درختوں سے پتے کھاتا رہتا ہے تو اس کے جسم پر موجود زرد اور بھورے دھبے روشنی اور سائے کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں جسکی وجہ سے زرافہ شکاری جانوروں کونظر نہیں آتا او ر اپنے آپ کو دشمن جانوروں سے بچا لیتاہے اس موقعے پر اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ کہ ہر زرافہ کے جسم کا کوٹ یعنی Pattern یکلخت علیحدہ ہوتا ہے خصوصا نوعtippelskirchi میں اس کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ جس طرح انسان میں انگشت ابہام علحدہ علحدہ ہوتے ہیں اسی طرح انکے جسم کے کوٹ کاڈیزائن بھی علحدہ علحدہ ہوتا ہے۔ انکے جسم پرسرخی مائل دھبے پائے جاتے ہیں جو جلد کو ایک خوشنما شکل دیتے ہیں۔ یہ دھبے کبھی کبھی ترتیب میں پائے جاتے ہیں اور کبھی منتشر حالت میں دیکھے جاتے ہیں۔ زرافہ کے جسم پر جلد نہایت خوبی سے لگی رہتی ہے کہ کہیں ڈھیلا پن نظر نہیں آتا۔ زرافہ کی زبان عضلاتی اور دوفٹ لمبی ہوتی ہے جو گول گھومنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زبان کا رنگ کالا ہلکا گلابی ہوتاہے۔ گائے کی طرح اس کے معدے میں بھی چار خانے ہوتے ہیں۔ یہ چلتے پھرتے جگالی کاکام انجام دیتاہے۔ زرافہ کی غذا زیادہ تر Acacia کے پتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے اوپری ہونٹ بہت بڑے ہوتے ہیں۔ نتھنوں کواونٹ کی طرح بالا رادہ بند کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کی آنکھیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں جس میں رنگین چمک اور خواب ناک مستی پائی جاتی ہے جس کا الفاظ میں بیان مشکل ہے۔ اسی لئے بسااوقات یہ جاندار اپنے جذبات کا اظہار اپنی آنکھوں سے کرتا ہے۔اس کی آنکھیں کئی میل دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس کو خدا نے ایک زبردست قوت سے سرفراز فرمایاہے کہ یہ بہت دور سے اپنے ساتھیوں سے اشاروں کی زبان میں بات کرسکتاہے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوں کی نالیاں نہیں پائی جاتی، لیکن ان میں درد سے کراہنے کی کیفیت دیکھی جاسکتی ہے، چشم پر نم سے عاری اس جاندارکے چلنے کااندازشاعرانہ ہوتا ہے جسکو Galloping کہاجا تاہے۔پیروں میں شگاف پایاجاتاہے۔گھٹنوں کے جوڑ اونٹ کے مانند ہوتے ہیں ، ان پر نمدے Calluses لگے رہتے ہیں تاکہ یہ بآسانی چٹانوں اور ریتیلی زمین پر آرام کرسکیں۔
زرافہ بہت ہی ہوشیار جاندار ہے آرام کے اوقات بھی اپنی ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ گردوپیش کی آوازوں کو سننے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ بچاؤ کے تدابیر اختیا ر کرسکے۔ انکی نیند عجیب ہوتی ہے شاید روئے زمین کے ان تمام جانداروں میں جو نیند کی دولت سے مستفید ہیں اس جاندارکی نیند کی مدت سب سے کم ہے۔ زرافہ دن بھر میں بڑی مشکل سے صرف2تا 12 منٹ سوتاہے یہ جاندار زمین پرلیٹ کر نہیں بلکہ درختوں کے سہارے لگ کر سوجا تاہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق دنیا میں پرندے اور پستانیے ایسے جاندار ہیں جن پر نیند کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کایہ بھی خیال ہے کہ دوسرے جاندار جیسے ہوام(Reptiles) مچھلیاں، کیڑے مکوڑے وغیرہ نہیں سوتے یعنی ان میں نیند کا تصور نہیں ہوتا۔ پستانیوں میں چھوٹے پستانیے زیادہ سوتے ہیں اور بڑے سائز کے پستانیے کم سوتے ہیں، مثلاً Sloth بیس گھنٹے چوہا 16 گھنٹے چمپانزی 9 گھنٹے انسان، گینڈا اور خرگوش 8 گھنٹے ڈولفن 6 گھنٹے، گائے،بکری4 گھنٹے اور ہاتھی ، گھوڑا ۔ہر جاندار کے سونے کا طریقہ بھی الگ الگ ہوتاہے۔ انسان لیٹ کر سوتا اور آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ لیکن کئی جاندار ایسے ہیں جو کھڑے کھڑے سونے کے عادی ہوتے ہیں۔ جسیے ہاتھی ، گھوڑے وغیرہ ۔ ان جانداروں کی نیند کی مدت بہت ہی کم ہوتی ہے۔ ڈولفین اور وھیل وغیرہ دور ان حرکت یعنی تیرتے ہوئے سوجاتے ہیں اور زرافہ اپنے پیروں کے درمیان سرکو لاتاہے گھٹنوں پر ٹکاتا ہے گردن کو آرام دہ حالت میں لاتا ہے اور سوجاتا ہے بسا اوقات اس کی نیند صرف دومنٹ کی ہی ہوتی ہے۔
زرافہ ایک ذہین جانور ہے جو بہت خوبی سے اپنا دفاع کرتا ہے۔ اس کا دماغ اسی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے جانداروں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہوتاہے۔ویسے عام طور پر یہ امن پسند جانور ہے لڑنے سے زیادہ بھاگ جانے میں عافیت محسوس کر تا ہے۔ لیکن جب کبھی مادہ زرافہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے بچے خطرے میں ہیں تو وہ طاقت ور شیر اور ببر سے بھی لڑجاتی ہے اور بسا اوقات انہیں ختم بھی کردیتی ہے۔ اس کے پیروں میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ جاندار زمین پر بیٹھنے کے بعد بآسانی اٹھ نہیں سکتے اسی لئے زرافہ اپنے بچوں کو زمین پر بیٹھنے نہیں دیتی بلکہ بیٹھنے کی خواہشمند اولاد کو زمین سے بھنبھوڑ کر اٹھا دیتی ہے۔
زرافہ کی دم چھوٹی یعنی ایک گزلمبی ہوتی ہے جس پر گچھے جیسی ساخت (Tuft) پائی جاتی ہے۔ کانوں کے بیچ دوسینگ نما ابھار پائے جاتے ہیں جو جلد میں ملفوف ہوتے ہیں ان دونوں ابھاروں کے درمیان سخت استخوانی ابھار پایا جاتا ہے۔ جس کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے زرافہ کو تین سینگ ہیں ۔ جب زرافہ خوشگوار موڈ میں ہوتے ہیں توایک دوسرے سے کھیلتے ہیں اپنے دونوں سینگوں کو ایک دوسرے پر مارتے ہیں۔ زرافہ کئی ایک وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ان کی لڑائی عجیب ہوتی ہے۔ یہ اپنی لمبی گردن کولہراتے ہوئے ایک دوسرے پروار کرتے ہیں ۔ یہ منظر دیکھنے والے کو لطف دیتاہے۔یہ لڑائی اکثر اوقات صرف 15 منٹ ہی جاری رہتی ہے لیکن اس لڑائی کا اثر انکی دوستی پر نہیں پڑتا بلکہ وہ پہلے کی طرح ہی دوست باقی رہتے ہیں۔ زرافہ میں آوا ز کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اس کی آواز اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ دوسروں کوبڑی مشکل سے سنائی دیتی ہے۔ ویسے اپنے بچوں کو بلانے کے لئے یہ سیٹی جیسی آواز نکالتے ہیں۔ ان میں قوت سماعت وبصارت تیز ہوتی ہے میلوں دور سے دیکھنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ زرافہ اپنی پلکوں ، نتھوں اور ہونٹوں میں موجود غدود کی مددسے سونگھتا ہے۔ان میں کھانسنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ان کی رفتار تقریباً 50 کیلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ جاندار ا س رفتار کو دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا کیونکہ اپنے اونچے قد کے باعث و ہ سارے جسم کو درکار خون کی مقدار نہیں پہنچاسکتے کہ اس کا دل ایک حد تک ہی خون کو پمپ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اسی لئے یہ تیز دوڑ نے سے احتراز کرتے ہیں لیکن جب کوئی شکار ی پیچھے آجائے تو مجبوراً یہ اپنی زندگی بچانے کی کوشش میں بھاگتے رہتے ہیں۔ اور بالآخر یہی دوڑ ان کی زندگی کی آخری دوڑ ثابت ہوتی ہے کیونکہ زرافہ اس قو ت سے سارے جسم کو خون بہم نہیں پہنچا سکتے جس کی ان کو ضرورت ہوتی ہے اسی لئے ان کے دل پر حملہ ہوتا ہے جس کے
باعث یہ ختم ہوجاتے ہیں، حالانکہ ان کادل دوفٹ لمبا ہوتا ہے ۔
زرافہ کادوران خون کانظام بڑا ہی عجیب وغریب ہوتاہے۔ ا سکے دوفٹ لمبے دل کا وزن تقریباً 12کیلو ہوتا ہے۔ دل کی عضلاتی دیوا ریں کئی انچ موٹی ہوتی ہیں۔ اس جاندار کا بلڈ پر یشر 280/180 ہوتا ہے جبکہ ایک عام آدمی کے خون کا نارمل دباؤ 120/80 ہوتاہے۔ زرافہ کادل ایک منٹ میں 170 مرتبہ دھڑکتاہے اور ایک منٹ میں 16 گیلن خون کو پمپ کرنیکی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے خون میں انسان کے مقابلے دوگنی تعداد میں خون کے جسیمے پائے جاتے ہیں ۔ اس کی خون کی نالیاں موٹی balooning اور لچک دار ہوتی ہیں جب کہ اس کے بچوں میں خون کی نالیاں بالکل پتلی ہوتی ہیں لیکن جیسے ہی بچہ زمین کی قوت ثقل میں داخل ہوتا ہے تو اس کے خون کی نالیوں کی دیورار یں موٹی ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔جیسے کی بتایا جا چکا ہے کہ زرافہ کا دوران خون کا نظام عجیب وغریب ہوتاہے کیوں کہ جب زرافہگردن نیچے جھکا تا ہے تو دوران خون کا نظام تیز ہونے نہیں پاتا بلکہ اعتدال پر رہتا ہے حالاں کہ گردن جھکا کر پانی پینے کے عمل کے دوران خون کے دباؤ کو بڑھ جانا چاہیے۔ کیونکہ پانی پینے کے فوری بعد اس کی گردن زمین سے بیس فٹ کی اونچائی پر پہنچ جاتی ہے اور اس قدر اونچائی تک خون کو پہنچانے کے لئے دل کو اپنی مکمل رفتار اور قوت سے دھڑکنا پڑتاہے۔ اونچائی کے تفاوت کے باوجود دل کااعتدال میں خون پہنچانا اس جانورکی ایک نمایاں ترین خصوصیت ہے جو دوسرے جانداروں میں دکھائی نہیں دیتی۔ زرافہ جب گردن نیچی کرتا ہے تو کثیر مقدار میں پہنچنے والے خون کو اس کے سر میں موجود شریا نیں جذب کرلیتی ہیں اسی لئے خون کے دباؤ کا مسلہ پیدا ہونے نہیں پاتا۔اس جاندار کے گردن کی خون کی نالیوں میں کئی کھل بندن(Valves) پائے جاتے ہیں اور یہی Valves اس جاندار میں اس وقت خون کو اعتدال میں رکھتے ہیں جب وہ پانی پینے کی حالت میں ہوتا ہے اس کے سر کو پہنچنے والی خون کی نالیاں پتلی دیواریں رکھتی ہیں کہ پیروں کو پہنچنے والی نالیاں موٹی دیواروں سے بنی رہتی ہیں اور غیر لچک دار ہوتی ہیں۔
زرافہ کی اب تک دریافت شدہ انواع آٹھ ہیں۔ ماضی قریب میں زرافہ سے قریبی رشتہ رکھنے والاجاندارOkapi johnstoniکو دریافت کیاگیا تھا۔ لیکن Okapi کاسائز زرافہ کے مقابلے میں کافی چھوٹا ہے اس کا قد صرف پانچ فٹ ہوتاہے۔ اس کے جسم پر کالے اور سفید پٹے پائے جاتے ہیں۔ گردن چھوٹی اور سر ہرن جیسا ہوتاہے۔ یہ زمین سے جڑیں نکال کر کھاتا ہے۔ زرافہ کی طرح ان کی زبان بھی لمبی ہوتی ہے۔
زرافہ عام طور پر چھوٹے غول کی شکل میں رہتے ہیں۔ غول میں ان کی تعداد 40 تک ہوسکتی ہے ۔ ویسے عام طورپر ان کا غول 5 کی تعداد پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس غول میں ایک نرا ور بقیہ مادائیں ہوتی ہیں ان کے غول دوسرے جانداروں کے غول کے مقا بلے جد اگانہ نوعیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ یہ جانورکبھی معقول وجہہ کی بنیاد پر اور کبھی بغیر کسی وجہہ کے اپنا غول تبدیل کردیتے ہیں ۔ اسی لئے ان کے غول کو منتشر غول کہا جا سکتا ہے ۔ جس میں ہمیشہ تعداد بدلتی رہتی ہے ۔ ان کے غول کا کوئی لیڈر نہیں ہوتا ہے۔ فطرتاً ہر جانور اپنا ایک گھر بناتا ہے اور اپنے گھر کی حدود بھی متعین کرتا ہے ۔ جس کو ہم دوسرے الفاظ میں ان کی سلطنت بھی کہہ سکتے ہیں۔زرافہ کی بھی ایک سلطنت ہوتی ہے جس میں ایک ساتھ کئی جاندار رہتے ہیں۔ اس کی سلطنت کے حدود کافی وسعت رکھتے ہیں جو تقریباً80 تا100 کیلو میٹر احاطہ پر مشتمل ہوسکتے ہیں۔ زمانہ تولید میں زرافہ اکیلے گھومتے ہیں تاکہ کسی مادہ کو تلاش کرسکیں۔ مادہ کا سائز نرکے مقابلے میں چھوٹا ہوتاہے۔ بچوں کی پرورش مادہ انجام دیتی ہے۔ اگر غول میں ایک سے زائد نو عمر موجود ہوں تب بھی ایک ہی مادہ سب کی نگرانی کے فرائض انجام دیتی ہے۔ 4 تا5 سال کی عمر سے عمل تولید شروع ہوتا ہے۔ مدت حمل 14 تا16 مہینے ہوتی ہے۔ بچوں کی پیدائش سے قبل مادہ زرافہ ایک مخصوص علاقہ منتخب کرلیتی ہے جسکو Calving Area کہا جا تا ہے۔ اس علاقے میں نرم گھاس بچھی رہتی ہے کیونکہ جب ان کے بچہ پیدا ہوتاہے تو نو مولود سر کے بل پیدا ہو تاہے۔ یعنی پیدائش کے فوری بعد اس کا سر زمین سے لگتا ہے اونچائی کے باعث نومولود کے سر پر مار لگنے کی چونکہ توقع زیادہ ہوتی ہے اسی لئے مادہ زرافہ بچے کی پیدائش سے قبل ایسا علاقہ منتخب کرتے ہیں جہاں سر پر مار لگنے کے امکانات کم ہوتے ہیں،یہ علاقہ شکاری وجنگلی جانداروں کی نظروں سے بھی چھپا رہتا ہے۔اس موڑ پر ہم غور کریں کہ آخر وہ کونسی قوت ہے جو ایک بے زبان کو یہ تمام حفاظتی اقدامات سکھاتی چلی جارہی ہے تو ہم اس قوت کو خالق کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اسی کی فطرت اس کائنات کی ہر شئے میں جاری و ساری ہے جودنیا کے تمام جانداروں کوحفاظتی اقدامات سکھاتی چلی جاتی ہے ۔ لیکن تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی زرافہ اپنے بچوں کو ببر وغیرہ کاشکار ہونے سے نہیں بچا سکتے، کیونکہ یہ بھی خدائی نظام ہے کہ ایک جاندار دسرے جاندار کی غذا بنتا ہے۔اسی لئے ببر کے علاوہ جنگلی کتے، لیوپارڈ اوHyenaبھی ان کا شکار کرتے ہیں۔، ایک انداز کے مطابق ابتدائی ایک سال میں زرافہ کے 60 تا70
فیصد بچے ختم ہوجاتے ہیں۔
زرافہ کے سر پر سینگ پائے جاتے ہیں جو ان جاندارون کی انفرادی خصوصیت ہے۔ پیدائش کے وقت ان کا وزن60 کیلو کے قریب ہوتاہے اور سائز چھ فٹ سے زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ پیدائش کے صرف پانچ منٹ بعد ہی اٹھ کر زمین پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اور 20 منٹ کے اندر اپنی غذا آپ تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ ان کے پستان میں چار Teats پائے جاتے ہیں۔ یہ ابتدائی ایک مہینہ ماں کا دودھ حاصل کرتے ہیں اس کے بعد صرف گھاس پھوس اور پودوں وغیرہ پر گذارا کرتے ہیں۔ لیکن طویل عرصہ تک بچے اپنی ماں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔یہ عجیب وغریب فطری نظام ہے کہ نہ صرف پستانیوں بلکہ تقریباً سارے ہی حیوانات میں ماں بچوں کی ایک عرصہ تک نگہداشت کرتی ہے حالانکہ کہ قدرت نے انہیں غذا حاصل کرنے کے طریقے پیدائش کے دن ہی سے ودیعت کر رکھے ہیں،لیکن حیوان ناطق اور اشرفالمخلوق انسان نہ صر ف عرصہ دراز تک اپنی غذا آپ تلاش نہیں کرپا تا بلکہ ایام طفلی میں دودھ طلب کرنے کی مکمل سمجھ سے بھی محروم رہتا ہے۔ بہر حال یہ خدا کی مصلحت ہے جو ہم انسانوں کو سمجھ نہیں آتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ جاندار وں کی یہ تمام عجیب وغریب خصوصیات خدا کے وجود کے بین نشان ہیں۔ جوبار بار انسان کو خدا کی خلاقیت کوماننے اوراس کے وجود کو تسلیم کرنے پر مائل کرتے رہتے ہیں۔

———
Dr.Aziz Ahmed Ursi
Photo Dr Azeez Ahmed Ursi, Warangal

Share
Share
Share