مولانا شبلی کی اردوشاعری کا حکایتی پہلو- – – – ڈاکٹرمحمد محامد ہلال اعظمی

Share

Hamid شبلی
مولانا شبلی کی اردوشاعری کا حکایتی پہلو

ڈاکٹرمحمد محامد ہلال اعظمی
یونیورسٹی آف حیدرآباد
Email:
Mob: 9392533661

تاریخ عالم اٹھالیں، سرسری نگاہ ڈالیں، تو پتہ چلے گا کہ روزِ اول ہی سے، واقعات، سانحات، قصص، انسان کو مختلف حیثیتوں سے راغب کیے ہیں اور کررہے ہیں،جمادات، نبادات، حیوانات کے واقعات حقیقی وفرضی دنیا کی ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ فرشتے، جن، بھوت، دیو، پری وغیرہ کی من گھڑت کہانیاں زمانہ قدیم سے انسان کو متاثر کرتی رہی ہیں،اللہ کی نازل کردہ ساری کتابوں میں بالخصوص قر آن مجید میں بھی نبیوں، قوموں بادشاہوں کے واقعات، شخصی، تمثیلی وغیرہ انداز میں موجود ہیں، جو کہ ابتدائے آفرینش سے لے کر ابد تک کے قصص پر مشتمل ہیں، جس کے ذریعہ سے اس زمانے کی تہذیب وثقافت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،چوں کہ قرآن مجید کا موضوع فلاح وصلاح ہے،اس وجہ سے کتاب مقدس کے واقعات، موعظت وعبرت پر مبنی ہیں،

احادیث رسول میں بھی قدیم قوموں کے واقعات موجود ہیں، جس کو رسولِ پاکﷺنے اپنی زبان مبارک سے اپنے اصحاب کو سنایا تھا، ان تمہیدی گفتگو کے بعد ہم اردو زبان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اس کا حصہ نظم ونثرحکایتوں سے لبریز دکھائی دیتا ہے، اس زبان وادب کا ایک مؤقر نام علامہ شبلی نعمانی کاہے،جن کو مہدی افادی نے اردو کے عناصر خمسہ میں ایک اہم ستون قرار دیا ہے، وہ ا دیب، نقاد، مؤرخ، محقق، متکلم، مفکر، مصلح، ماہر تعلیم اور شاعر بھی ہیں،ان کی تصانیف، شعرالعجم، الفاروق، موازنۂ انیس ودبیر، المامون، الکلام، سیرۃ النعمان، سیرت النبی، کلیات شبلی فارسی اور اردو وغیرہ سے اس متنوع شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مولانا شبلی کے نثری کمالات کے سامنے ان کی شاعری چھپ اور دب کر رہ گئی ہے، حالانکہ کئی لوگوں نے مضامین اور کتابیں ان کی شاعری پر لکھیں اور شائع کی ہیں، لیکن پھر بھی وہ شاعری کے صف میں کسی جگہ نہیں دکھائی دیتے ہیں، اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کی شاعری اس قابل نہیں رہی کہ اس پر کچھ لکھا جاسکے؟ یاان کے شاگردوں اور ادیبوں اور نقادوں نے تساہل سے کام لیا ہے؟یاان کی شاعری کا ذخیرہ اتنا مختصر تھا کہ ان پر خامۂ فرسائی مناسب نہیں تھی، ان سوالوں کا جواب اس مقالے کے اختتام تک حکایتی پہلو میں مل جائے گا، مولانا شبلی کے تعلق سے شیخ محمد اکرام رقمطراز ہیں:
’’مولانا شبلی بہ حیثیت مجموعی، وہ شاید سرسید کے بعد سب سے آگے آجاتے، آخر حالی اور آزاد، محسن اور وقار الملک کتنے آسمانوں کے تارے تھے؟ ایک یا دو تین کے، ان میں شبلی کی بوقلمونی کہاں سے آئے گی، جو رندوں میں رند تھے، زہاد میں زاہد، نثاروں میں نثار، شعراء میں شاعر، معلموں میں معلم، مورخوں میں مورخ، سیاست دانوں میں سیاسی، اردو میں عشقیہ خطوط کے بانی، تعلیم میں نئی روش کے آموز گار، علمی تصنیف وتالیف کے میدان میں ہماری زبان کے سب سے بانکے شہسوار ؟
قلیل مدت حیات او رکمزور صحت کے باوجود شبلی نے جو کچھ کر دکھایا کیا وہ ایک معجزہ سے کم ہے؟‘‘(بحوالہ موج کوثر،ص: ۲۳۴)
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
’’مولانا شبلی شاعر تھے کیوں کہ ان کا اردو اور فارسی کا دیوان موجود ہے۔‘‘ (کلیات شبلی اردو، ص: ۳)
اور سیداحتشام حسین کچھ یوں لکھتے ہیں:
’’اس وقت کے دو بڑے شاعر شبلی اور اکبر جو مذہبیت کو زندگی کا سب سے اہم جزو سمجھتے تھے۔ انگریزی راج کے خلاف اظہار جذبات میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ مولانا شبلی فارسی اور اردو کے ایک بڑے شاعر تھے مولانا شبلی نے بہت سی نظمیں نہیں لکھیں پھر بھی ان کا مجموعہ کلام قابل مطالعہ ہے‘‘ (اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، ص: ۲۳۱)
مذکورہ بالا حوالوں کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا شبلی بڑے اور ا چھے شاعر تھے، چوں کہ یہ مقالہ اور سیمینار اردو کے حکائی ادب پر ہے،اس وجہ سے ہم مولانا شبلی کی شاعری کے ذخیرے میں انھیں جگہوں کو ٹچ کریں گے جو ہمارے موضوع سے متعلق ہوگا، جب ہم شبلی کی کلیات شبلی اردو کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں سید سلیمان ندوی کے پر مغز مقدمے کے بعد ان کی مثنوی صبح امید پر نظر پڑتی ہے، اس مثنوی میں مسلمانوں کے عروج وزوال کی کہانی ہے، اور سرسید اور علی گڈھ تحریک کو امید کی صبح نو کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، اس مثنوی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کیا یاد نہیں ہمیں وہ ایام
جب قوم تھی مبتلائے آلام

وہ قوم کہ جان تھی جہاں کی
جو تاج تھی فرق آسماں کی

تھے جس پر نثار فتح و اقبال
کسریٰ کو جو کرچکی تھی پامال

گل کر دیے تھے چراغ جس نے
قیصر کو دیے تھے داغ جس نے
مذکورہ بالا نمونہ کے چند اشعار میں مولانا شبلی نے تلمیحات کی شکل میں کئی کہانیوں اور واقعات کا نقشہ کھینچ دیا ہے اور بتادیا ہے کہ یہ تھا مسلمانوں کے عظمت رفتہ کا حال، اس مثنوی کے اختصاص پر روشنی ڈالتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
’’اس وقت تک مثنوی صرف قصے، کہانیوں کے لیے تھی، ابھی تک اس کو قومی مقصد کے لیے کام میں نہیں لایا گیاتھا، مولانا شبلی نے اس راہ میں پہل کی اور وہ چیز جواب تک میر حسن، مرزا شوق اور پنڈٹ دیا شنکر نسیم کی سحربیانیوں سے صرف حسن وعشق اور سحر وطلسم کی تماشاگاہ تھی، وہ قومی ترقی وتنزلی کا عبرت انگیز منظر بن گئی، لفظ، فصیح، معنی بلند، ترکیبیں دل پذیر، تشبیہ اور استعارے نازک، حشووزائد سے پاک اور بیان پر اثر اور یہی چیزیں مثنوی جان کی ہوتی ہیں‘‘(کلیات شبلی اردو، ص:۸)
مولانا شبلی کی شاعری میں قصائد بھی ہیں، فکری پہلو مثنوی صبح امید کی طرح ہے، ان قصائد میں انہوں نے تاریخی واقعات کو بتا کر قوم کو عظمت رفتہ کی یاد دلائی ہے، ایک قصیدہ تماشائے عبرت ہے، اس کا ایک مسدس بند ملاحظہ فرمائیں:
کون تھا جس نے کیا فارس ویونان تاراج
کس کی آمد میں فدا کردیا جے پال نے راج

کس کو کسریٰ نے دیا تخت وزر افسر وتاج
کس کے دربار میں تاتار سے آتاتھا خراج

تجھ پہ اے قوم اثر کرتا ہے افسوں جن کا
یہ وہی تھے کہ رگوں میں ہے ترے خوں جن کا
اس بند کا ہر مصرعہ ایک کہانی بیان کررہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کہنے والے کی کسک وتڑپ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مولانا شبلی کی کلیاتِ اردو میں جدید نظمیں کے عنوان سے اٹھارہ(۱۸) نظمیں ہیں، اور وہ سب کی سب منظوم قصص ہیں، ان نظموں میں بعض واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں، مثلا ہجرت نبوی، عدل جہانگیری، اہل بیت رسول اللہﷺ کی زندگی وغیرہ ہیں۔
ہجرت نبوی ﷺ سے ابتدائی چار اشعار ملاحظہ فرمائیں:
جب کہ آمادہ خوں ہوگئے کفار قریش
لاجرم سرور عالمؐ نے کیا عزم سفر

کوئی نو کر تھا نہ خادم نہ برادر نہ عزیز
گھر سے نکلے بھی تو اس شان سے نکلے سرورؐ

ایک فقط حضرت ابوبکر تھے ہم راہ رکاب
ان کی اخلاص شعاری تھی جو منظور نظر

رات بھر چلتے تھے دن کو کہیں چھپ رہتے تھے
کہ کہیں دیکھ نہ پائے کوئی آمادہ شر
ان اشعار میں ہجرت کی وجہ، معیت اور اندازِ ہجرت کو بیان کیا ہے، بعدہ دشمنوں کے تعاقب ، سراقہ کو معافی اور غار ثور کی بڑی خوفناک تصویر پیش کی ہے، سفر کی صعوبتوں، مدینہ والوں کے استقبال کا منظر تسلسل اور سادگی سے بیان کیا۔
اہل بیت رسول اللہﷺ کی زندگی کے عنوان سے یہ مولانا شبلی کی آخری نظم ہے،اس نظم میں سرور کونین کی نور نظر حضرت فاطمہؓ کی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے، انھیں ایک کنیز کی ضرورت تھی، کنیز وغلام دربار رسالت سے تقسیم ہورہے تھے، آپ بھی درِ اقدس پر پہنچی ہیں، مگر حیا غالب آجاتی ہے،دوسرے روز حضرت علیؓ ان کی بات حضورﷺ تک پہنچاتے ہیں تو حضورﷺ یہ فرماتے ہیں کہ تم سے زیادہ مقدم غریبان بے وطن ہیں، ان کا ابھی بندوبست نہیں ہوا ہے، یہ سن کر سیدہ پاک خاموش ہوجاتی ہیں، انھیں باتوں کو مولانا شبلی نے شاعری کی لڑی میں پرودیا ہے، اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
افلاس سے تھا سیدہ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا

گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا

سینہ پر مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار
گو نور سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا

اٹ جاتا تھا لباس مبارک غبار سے
جھاڑو کا مشغلہ بھی جو ہر صبح و شام تھا

آخری شعر میں دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوے اس طرح ختم کرتے ہیں:

یوں کی ہے اہلِ بیت مطہر نے زندگی
یہ ماجرائے دختر خیرالانام تھا
عدل جہاں گیری، مولانا شبلی کی واقعاتی نظموں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے، ہوا یوں کہ نورجہاں، جہاں گیر کی بیوی چھت پر ہوا خوری میں مشغول تھی، ایک راہی کی نگاہ نور جہاں کی نگاہ سے ٹکرائی گئی، نورجہاں کی غیرت نے جوش مارا اس نے طمنچہ کے ذریعہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، یہ قضیہ قاضی کے پاس پہنچا، قاضی نے قصاص کا فیصلہ کردیا، جہاں گیر نے جلّاد کو حکم دیا کہ انصاف کے معاملے میں اپنے اور پرایوں میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا، جب کہ نورجہاں اس کی چہیتی بیوی تھی، کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ سفاش کریں، لیکن خدا نے ورثہ کے دل میں رحم ڈالا، ان لوگوں نے خون بھی معاف کردیا، اس تاریخی واقعہ کو شبلی نے اس نظم میں پیش کیا ہے، اس نظم کے صرف دو شعر ملاحظہ فرمائیں، جس میں جہاں گیر کی محبت اور نورجہاں کے مقام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس شعر کی بلاغت بھی قابل مثال ہے۔
یہی وہی نورجہاں ہے کہ حقیقت میں یہی
تھی جہاں گیر کے پردہ میں شہنشاہ زمن

اس کی پیشانی نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ
جاکے بن جاتی تھی اوراق حکومت پہ شکن
ان نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے سید سلمان ندوی لکھتے ہیں:
’’ان نظموں نے ایک طرف اسلامی تاریخ کے انمول موتیوں کو ایک دھاگے میں پروکر قومی اخلاق کے حسن کو دوبالہ کیا، دوسری طرف ہماری زبان کی شاعری میں صحیح واقعات کو نظم کرنے کے بہترین نمونے پیش کئے ، اکثر کہا گیا ہے کہ بہترین شاعری وہی ہے جس میں جھوٹ، یعنی مبالغہ اور خیال آرائی کا حصہ زیادہ ہو، مگر مولانا کی ان نظموں نے یہ دکھیا کہ واقعیت کی سطح پر بھی شاعری کا کمال دکھایا جاسکتا ہے‘‘(کلیاتِ شبلی اردو، ص:۱۷)
مذکورہ بالا حوالے کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ نظمیں مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں،اور حکائی ادب میں مثل پُل ہیں۔
مولانا شبلی کی ا ردو شاعری میں ایک اہم حصہ ہنگامہ مسجد کانپور کا ہے، کان پور کے محلہ مچھلی بازار میں ایک مسجد برسرِ راہ تھی، وہاں سے ایک نئی سڑک نکالی گئی، جس میں مسجدکا ایک حصہ جو وضو خانہ تھا بیچ میں آگیا، اس کو مسلمانوں کی مرضی کے خلاف منہدم کردیا، اس واقعہ نے تمام مسلمانوں میں آگ لگادی، جلسہ ہوا، اس کے بعد مسلمان دیواریں بنانے لگے، حکام نے پولیس اور فوج کو گولی برسانے کا حکم دیا، جس کی وجہ سے بچے، بوڑھے، نوجوان کافی تعداد میں شہید ہوگئے، اس واقعہ نے سارے ملک کے شعراء اور ادباء مقررین، محررین کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، مولانا شبلی پر اس واقعہ کے بے حد اثر ہوا، اپنے سوز دروں کو انہوں ن نظموں کی شکل میں اظہار کیا ہے، تقریباً اس واقعہ پر انہوں نے بارہ نظمیں کہیں ہیں، ایک نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کل مجھ کو چند لاشۂ بے جاں نظر پڑے
دیکھا قریب جا کے تو زخموں سے چور ہیں

کچھ طفل خورد سال ہیں جو چپ ہیں خود مگر
چپن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم بے قصور ہیں

آئے تھے اس لئے کہ بنائیں خدا کا گھر
نیند آگئی ہے منتظر نفخ صور ہیں

آخری میں کہتے ہیں:

کچھ پیر کہنہ سال میں دلدادہ فنا
جو خاک و خون میں بھی ہمہ تن غرق نور ہیں

پوچھا جو میں نے کون ہو تم؟ آئی یہ صدا
ہم کشتگان معرکہ کان پور ہیں
مولانا شبلی نے سیاسی نظمیں، شہر آشوب اسلام،خیر مقدم ڈاکٹر انصاری، مسلم لیگ، احرار قوم اور طفل سیاست وغیرہ کے عنوان سے لکھی ہیں جس میں زمانی ومکانی واقعات کا پہلو غالب نظر آتا ہے اور اسی طرح انہوں نے اپنے بھائی اسحاق کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ہے، اس میں خاندانی پس منظر بھائی اسحاق کی صفات کا ذکر درد وغم کی داستان ہے، قطعات، متفرقات، غزلیات میں بھی غالب عنصر واقعات ہی ہیں، اس مقالے کو طوالت سے بچاتے ہوئے اس شعر پر ختم کرتا ہوں، جو مولانا شبلی کی نثر ونظم کی فکری غمازی کرتا ہے اور یہی شعر شبلی کی قبر پر بشکل کتبہ کے کندہ ہے جو ان کے پس مرگ زندہ ہونے کی یاد دلاتا ہے۔
عجم کی مدح کی عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے چند مقیم آستان غیر ہونا تھا

مگر اب لکھ رہا ہوں سیرۃ پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

Share
Share
Share