طنزومزاح : حیدرآبادی ٹریفک-اکرم سہیل

Share

akram ٹریفکطنزومزاح
حیدرآبادی ٹریفک

اکرم سہیل
حیدرآباد ۔ دکن

نوٹ: جہانِ اردو پر نئے قلمکاروں کو موقع دیا جاتا رہا ہے تاکہ وہ مستقبل کے بہترین قلمکار بن سکیں ۔ اکرم سہیل نے اپنا ایک مختصر سا مضمون ارسال کیا ہے ۔امید ہے کہ اس نوجوان کی ہمت افزائی کی جاے گی اور یہ اچھے اچھے مضامین تخلیق کرتے رہیں گے ۔

حیدرآبادی ٹریفک پر ہنسانا ایسے ہی مشکل ہے جیسے ٹولی چوکی کے مچھروں کو برداشت کرنا..گویا یہ دونوں تو ہمیں ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں بس فرق یہ هیکہ ایک رات کی نیند حرام کرتا ہے تو دوسرا دن کا چین…اس ٹریفک کا کیا کہنا کہ اس نے جہاں ہوا کو آلودہ بنارکها ہے وہیں دوسری طرف رشتوں کے خون میں آکسیجن کے بجائے کاربن ڈائی آکسائیڈ پہنچانے کا فرض کفایہ انجام دیا ہے.

ایک زمانہ تھا جب ہم ہمارے امی کے سمجھدار بیٹے کہلاتے تهے ہر روز رعیتو بازار سے ترکاری لانا ہمارا معمول تھا لیکن آج کل حیدرآبادی ٹریفک نے اتنا پریشان کر رکھا ہے کہ اب ترکاری ہر پندرہ روز میں ایک بار ہی گهر آتی ہے اس پر ہماری امی کہتی ہے کہ یہ تو بڑاکام چور ہوگیا ہے اب بهلا ہماری امی کو کون سمجھائے کہ ٹولی چوکی سے مہدی پٹنم (رعیتو بازار )جانے کیلئے آج کل ہمیں کس صراطِ غیرمستقیم سے گزرنا پڑتا ہے.
گرما کا موسم تها ایک روز ہم اپنی روٹهی ہوئی بیگم کو منانے کیلئے فون پر کہہ دیا کہ ہم آپ کےلئے ایک مزیدارآئس کریم لانے والے ہے. ہماری اس لالچ پر وہ بیچاری بےچینی سے ایسے انتظار کررہی تهی جیسے اس سے پہلے اس نےآئس کریم کھایا ہی نہیں لیکن ہوا یوں کہ ہم جیسے ہی آئس کریم لیکر بیکری سے نکل کر راستے کی بهیڑ نمٹتے ہوئے گهر پہنچے سارا آئس کریم پانی پانی ہوگیا یہ تو اچها ہی ہوا کہ ہماری عقلمندی اس وقت کام آگئی اور ہم نے کہہ دیا کہ آئس کریم کی قلت کی وجہ سے ہم نے آپ  کا جوس لالیا ہے اس موقع پر ہمیں وہ شعر یاد آگیا کہ
حیدرآبادیوں کی دوڑ میں اسی کا زور چل گیا
بنا کے اپنا راستہ جو ٹریفک سے نکل گیا
ہمارے ایک قریبی دوست بیگ صاحب جو عرش محل کے رہنے والے ہے ایک آٹو میں لڑکی کے بیگ میں میں بڑا سا میک اپ باکس دیکھ کر حیرت کرنے لگے تو ہم نے کہہ دیا کہ بهائی حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے یہاں کی لڑکیاں دو دفعہ میک اپ کیا کرتی ہیں ایک تو گهرپر باہر نکلنے سے پہلے اور دوسرے کالج یا آفس پہنچنے کے بعد…پوچهیے کہ وہ کیوں؟ تو ہم نے اشارتاً کچھ سمجھانےکی کوشش کی تو وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ اچها تو اس ٹریفک نے انهیں اتنا بیگانہ کردیا ہے کہ پانچ کیلو کا میک اپ باکس اپنے ساتھ لئے پهرتی رہے.
ایک انگریز سیاح ‘مسٹر ڈونالڈ ڈک’ حیدرآباد کی سیرکی روداد سنا تے ہوئے کبهی ہنستا اور کبهی روتا تها لوگوں نے جب اس سے پوچھا کہ بهائی ماجرا کیا ہے تو وہ جواب دیتا کہ جب مجهے وہاں کے ذائقہ دارلذیذ پکوان، خوبصورت سیاحتی مقامات اور خوش مزاج لوگوں کی یاد آتی ہےتو میں خوشی سے جھوم جاتا ہوں لیکن جب وہاں کی سڑکوں اور ٹریفک کو یاد کرتا ہوتو جسم لرز جاتا ہے‘ دل سہم جاتاہے‘ دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں‘ بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے نتیجتاً آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگتے ہے
لیکن ہمارے یہاں اس ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹریفک پولیس کا باقاعدہ اہتمام ہے پر انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ ٹریفک پولیس نہیں بلکہ چالان پولیس ہے کیونکہ بظاہر تو یہ سڑک پر کھڑے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں لیکن انکی دونوں آنکھیں ان راہ گیروں کو تلاش کرتی ہیں جو یاتو ہیلمٹ نہیں پہنے ہوتے یا جنکی آنکھوں میں ٹریفک پولیس کا خوف نظر آتاہے اسی لئے جب بهی ہم نئے شہر سے پرانے شہر کا سفر کرتے ہیں تو ہماری امی آج کل ہمارے ہاتھ پر امامِ ضامن باندھ دیتی ہے اور گهر پہنچے تک سجدہ ریز رہتی ہے تاکہ ہم گنجان ٹریفک والی پل صراط پر سے ٹریفک پولیس کی دونوں چالانی آنکھوں سے بچتے ہوئے بجلی کی طرح گزر جائیں.
اس ٹریفک کی وجہ سے شہر کی فضائی آلودگی میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہمارے سیاستدانوں کیلئےباعث فخر ہے ایک رپورٹ کے مطابق شہرمیں روزآنہ 600 گاڑیوں کا اضافہ ہوتا ہے اور تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ جن گاڑیوں کی رفتار اوسطاً 50 تا 70 کلومیٹر ہوتی ہے اس سے آلودگی کم پھیلتی ہے لیکن حیدرآباد میں گاڑیوں کی رفتار کچهوے کی رفتارکی طرح ہے جس سے 4 تا 8 گنا زیادہ آلودگی ہورہی ہےاور شہر میں الرجی ،دمہ اور کینسر جیسے امراض پهیل رہے ہیں آلودگی کے اعتبار سے حیدرآباد کا شمارآج کل ایشیاء کے 24 ویں آلودہ شہر میں ہونے لگا ہےشاید اسی لئے حیدرآباد کے ان مسائل پرہماری ریاستی حکومت کافی سنجیدہ ہے لیکن اس ‘ سنجیدہ’ لفظ پر مسخرہ پن اور Time pass کا لحاف ڈهکا ہوا ہے اسلئے کہ حکومت کے اقدامات شیر کو لکڑی سے ہانکنے کے مماثل ہےاب اس پر ہنسنے یا روئیں ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آتا دوسری طرف جی ایچ ایم سیGHMC اور ایچ ایم ڈی اے HMDA شہر کو ہرا بھرا Green city اور گلوبل سٹی بنانے کے خواب رکهتی ہے اسی لیے اب تو جب بهی 2/جون قریب آنے لگا ہے تو شہر کو ہرے بهرےکمکموں سے سجایا جارہا ہے.
بہرحال جب بهی لوگ ہم سے اس مسئلہ کا حل دریافت کریں گے تو ہمارا یہی جواب رہے گا کہ علاقائی عدم توازنRegional Imbalanceاس مسئلہ کی جڑ ہے جب تک اسکو کم نہ کیا جائے تب تک بنگارو تلنگانہ کا خواب آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہوگا ریاست کے دیگر شہروں میں بڑے بڑے تعلیمی ادارے، یونیورسٹیاں، کارخانے، صنعتیں وغیرہ قائم کی جائیں تب ہی یہ امید کی جاسکتی ہے ک ہ شہر سے آلودگی بهی ختم ہوگی اور ٹریفک بهی…

Share
Share
Share