بچوں کا غیرافسانوی ادب اورخواتین قلمکار- – – – ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی

Share

خواتین
بچوں کا غیرافسانوی ادب اور خواتین قلمکار

ڈاکٹرسید اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی جی کالج سدّی پیٹ۔۰۳ ۱ ۵۰۲ تلنگانہ

بچوں کے ادب میں عموماًکہانی ،ناول،ڈراموں اور داستانوں کو افسانوی ادب اور باقی تمام نثری سرمائے کو غیر افسانوی ادب میں شمار کیا جاتا ہے ،بچوں کے ادب کے پہلے محقق ڈاکٹر خوشحال زیدی کے مطابق افسانوی اور غیر افسانوی ادب میں مصنف کے نقطہ ء نظر سے بھی بڑا فرق ہے ، افسانوی ادب کے لئے مصنف کے ذہن میں سب سے پہلے کہا نی آتی ہے،اور وہ کہانی پوری تصنیف پر چھائی رہتی ہے،جب کہ غیر افسانوی اور معلوماتی ادب تحریر کرتے وقت مصنف کو یہ احساس رہتا ہے کہ وہ بچوں کو کسی قسم کا مواد فراہم کر رہا ہے ، اور کسی خاص موضوع یا کسی خاص چیز کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کررہا ہے۔

غیر افسانوی ادب کا واحد مقصد محض بچوں کوتفریح بہم پہنچانا نہیں ہوتا ، بلکہ کہانی کے پیرائے میں مناسب معلومات فراہم کی جاتی ہیں،غیر افسانوی اور معلوماتی ادب کا دائرہ بہت وسیع ہے ، بچوں کی درسی و امدادی کتب کے علاوہ مختلف موضوعات پر مشتمل کتابیں شامل ہیں ، جیسے:سوانح عمریاں ،مکاتب ، مضامین ،سفر نامے ، سائنسی ،سماجی ، معلوماتی ، تحقیقی اورتنقیدی کتب وغیرہ ۔
بچوں کے ادب میں افسانوی اصناف ہر طرح حاوی رہے ہیں ، اور بچوں کے لئے غیر افسانوی اور معلوماتی کتب بہت کم لکھی گئی ہیں ،کیونکہ ہمارے ملک میں بچہ آنکھ کھولنے کے بعد پریوں اور جنوں کی کہانی سنتا ہے،ٹی وی سیریل میں بھی اسے حد درجہ روایتی قسم کی پریوں کی کہا نیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ، اسی خیالی دنیا میں بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوو نما ہوتی ہے ، جبکہ بیرونی ممالک میں افسانوی ادب سے زیادہ معلوماتی کتب کو اہمیت دی جاتی ہے ، ہمارے ملک کے بچوں کو معلوماتی اور غیر افسانوی ادب کی شدیدضرورت ہے ،بچوں میں تجسس کا مادہ فطری طور پر زیادہموجود ہوتا ہے ، جدید تعلیمی نفسیات اور سائنسی طرقیات نے بچوں کے ذہن پر اثر ڈالا ہے آج کی سائنس کی دنیا نے بچوں کے ذہن کو بہت ترقی یافتہ بنا دیا ہے ، چنانچہ وہ ہر اس چیز کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کے سامنے آتی ہے یا جن کے بارے میں وہ سنتا رہتا ہے ۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ بچوں کا غیر افسانوی ادب کمیت کے اعتبار سے کم ہے ، اور اس میں بھی خواتین کے ذریعہ تحریر پانے والا ادب نہایت قلیل ہے ،لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، ادارتی سطح پر اس سلسلے میں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی کے مصنفین کی خدمات نا قابل فراموش ہیں ، حالیہ عرصہ میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ، نیشنل بک ٹرسٹ دہلی اور رحمانی پبلکیشنز مالیگاؤں کی خدمات تاریخی اہمیت رکھتی ہیں ۔مکتبہ جامعہ و پیام تعلیم نئی دہلی کی خواتین اہل قلم میں صالحہ عابد حسین ،قدسیہ بیگمزیدی ،ڈاکٹر شفیقہ فرحت،پروفیسر انیس سلطانہ ، صغری مہدی ، ڈاکٹر رفیعا شبنم عابدی اور ذکیہ ظہیر نے بچوں کے غیر افسانوی ادب کی بہترین آبیاری کی ہے ، خصوصاً صالحہ عابد حسین کی خدمات بہت وقیع ہیں ، انھوں نے ابتدا میں بچوں اور بچیوں کے لئے ادبی اور معلوماتی مضامین بچوں کے رسالہ’’ پیام تعلیم ‘‘نئی دہلی کے لئے قلم بند کئے تھے ،جن میں مندرجہ ذیل مضامین قابل ذکر ہیں :دست کاری ، شملہ کی سیر ،شملہ کے کتے ، آپس کا برتاؤ ، آپس کا تناؤ ، کشمیری بچے ، راشٹر پتی ، مولا نا حالی بچو ں کے ساتھ ، بال ہٹ ، بڑا مزا اس ملاپ میں ہے اور قومی خدمت وغیرہ ۔
ان مضامین کے علاوہ ’’ سندر چنار‘‘اور ’’ایک دیس ایک خون ‘‘ایسی کتابیں ہیں جو بچوں میں حب الوطنی ، قومی یکجہتی اور قومی یگانگت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں، انھوں نے بچوں کے لئے ’’با پو‘‘،’’بڑا پانی‘‘،’’بچوں کے حالی‘‘،’’مورا‘‘اور ’’زعفران پریوں کے دیس میں‘‘جیسی کتابیں بھی لکھیں ،جن میں بڑا پانی (لیلا مجمدار)اور مورا (ملک راج آنند)دوسری زبانوں کے ترجمے ہیں۔
’’ہِم کماری ‘‘صالحہ عابد حسین کی ایک معلوماتی کتاب ہے لیکن اس کا اسلوب کہانی کا ہے ، یہ کہانی مصنفہ کی وطن دوستی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ، ہِم کماری اسی برف کی بیٹی ہے ، جس نے ہمالیہ کے دامن میں جنم لیا ، اور آنکھ کھولتے ہی ہندوستان کے حسین و پر جلال پہاڑوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتی ہوئی ، اپنی زندگی کا طویل سفر کرتی ہوئی اور ہندوستانی زندگی کی جھلکیاں دیکھتی ہوئی فلسفہء حیات کو حقیقت کا جامہ پہناتی نظر آتی ہے ۔
قدسیہ بیگم زیدی ایسی ادیبہ ہے جنھوں نے اپنے قلم کو صرف بچوں ہی کے لئے وقف کر رکھا تھا ، انھوں نے بچوں کے لئے دوسری اصناف کے ساتھ معلوماتی مضامین بھی لکھے اور مغربی زبانوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے، بچوں کے رسالہ پیام تعلیم میں ان کے بے شمار معلوماتی مضامیں بکھرے ہوئے ہیں ، جو کہ سوانحی ، تفریحی اور معلوماتی نوعیت کے ہیں ، ان میں :کچھ پرواہ نہیں ، راشٹڑ پتی ، نئے فن کاروں کی تصویریں اور شیر دادا وغیرہ اپنی افادیت کے اعتبار سے پڑھنے والوں کی توجہ بے ساختہ اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں ، اور آج بھی ان مضامین کی افادیت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا ۔’’انوکھی دکان ‘‘، ’’دنیا کے جانور‘‘اور ’’گاندھی بابا کی کہانی ‘‘ان کی اہم معلوماتی کتب ہیں۔
گاندھی بابا کی کہانی کا پیش لفظ یکم ستمبر 1952 ؁ ؁ء کو پنڈت جواہر لال نہرونے لکھا تھا جن کے بقول : ’’اس کتاب میں رزمیہ داستاں کی سی کیفیت ہے ۔‘‘مہاتما گاندھی کی پوری سوانح ہری اور اس کی ماں کی زبانی مکالماتی اور کہانی نما انداز میں بیان کی گئی ہے،گاندھی جی کے بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک کے حالات ،تعلیم و تربیت ، خاندانی نیکی وشرافت ، سما جی کشمکش، آزادی کی جد وجہد، قومی یکجہتی ، سماج کی اصلاح و تربیت اور شہادت کے واقعات خاص ترتیب اور دل پذیر انداز میں بیان کئے گئے ہیں ، کتاب کا ایک ایک لفظ گاندھی جی سے محبت و عقیدت کی روشنائی میں ڈبوکر لکھا گیا ہے، جو نوخیز نسلوں میں گاندھی جی کی محبت و عظمت ، سماجی ظلم و استحصال ، اونچ نیچ اور چھوت چھات کا خاتمہ کرنے ، ان کے پیغام کو عام کرنے اور ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا احساس دلاتے ہیں۔
بچوں کی ایک مقبول اور ہر دل عزیز ادیبہ ڈاکٹر شفیقہ فرحت نے بچوں کے لئے کہانیوں اور ڈراموں کے علاوہ مضامین اور سوانحی کتاب بھی لکھی ہے، وہ بچوں کی درسی کتب کی تدوین میں مہارت رکھتی تھیں، انھوں نے مدھیہ پردیش بھوپال بورڈ کے لئے بچوں کی پہلی اور تیسری جماعت کی اردو کتابیں مرتب کی ہیں ،نیز ان کے مضامیں وغیرہ بچوں کے نصابی کتب میں شامل ہیں ، انھوں نے متنوع موضوعات پر مضامین لکھے ہیں ، بچوں کے سوانحی ادب میں ان کی کتاب :’’بچوں کے نظیر اکبر آبادی ‘‘ سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے، جس میں انھوں نے اردو کے مشہور شاعر نظیر اکبر آبادی کے فن اور شخصیت سے بچوں کو روشناس کرایا ہے،انھوں نے بڑے دل کش اور دل نشیں انداز میں اور بچوں کی اپنی زبان میں بچوں کو نظیرسے متعارف کرایا ہے، ذیل کے اقتباس سے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
’’نظیر بہت ہنس مکھ ، خوش مزاج اور ملنسار انسان تھے ، بچوں سے تو بے حد محبت کرتے تھے ، جہاں سے گزرتے بچوں کو پیار کرتے ، ان سے باتیں کرتے گزرتے ، ان کے ساتھ ان کی پسند کے کھیل کھیلتے ، آپ ہی بتائے جب وہ میلوں ٹھیلوں میں جاتے ہوں گے، جمنا ندی میں تیر تے ہوں گے ، ریچھ کا تماشا دیکھتے ہوں گے ، بلبلیں لڑاتے ہوں گے تو ان کے ساتھ بچے نہ ہوتے ہوں گے ، ارے بھئی بچوں سے ان کی پکی دوستی تھی ۔‘‘(صفحہ 17)
بچوں کے لئے ایسی تحریر وہی لکھ سکتا ہے جو بچوں سے بے تکلف ہو ، اور بچوں کے مزاج سے بہ خوبی واقف ہو ، شفیقہ فرحت کو بچوں سے طبعی مناسبت تھی ، وہ بچوں کی سماجی اور تعلیمی سرگرمی سے وابستہ رہی ہیں ، بچوں کی جیل اور رفارمیٹری کی سربراہ رہی ہیں ، بچوں کی جیل کو یہ بہت وقت دیتی تھیں ، ملزم بچوں سے ان کی زندگی کی باتیں کرتی تھیں ، اور ان کو قصے سناتی تھیں ۔(پروفیسر انیس سلطانہ ۔بچوں کی شفیقہ فرحت:23۔24)
بچوں کے سوانح ادب میں ڈاکٹر رفیعہ شبنم عابدی ، ڈاکٹر صغری مہدی ، محترمہ ذکیہ ظہیر اور سیدہ سیدین حمید نے گراں قدر اضافہ کیا ہے ، ڈاکٹر فیعہ شبنم عابدی نے ’’بچوں کے سردار جعفری ‘‘اور’’بچوں کے یوسف ناظم ‘‘نامی کتابیں تحریر کی ہیں ، ان دونوں کتابوں میں مصنفہ نے سوانح نگاری کا حق ادا کردیا ہے ، علی سردار جعفری اور یوسف ناظم کے خاندانی ،سماجی اور جغرافیائی حالات سے لیکر تعلیم و تربیت ، ملازمت اور علمی و ادبی کارنامے افسانوی انداز میں بیان کئے ہیں ، جنھیں بچے شروع کرنے کے بعد ختم کئے بغیر دم نہیں لے سکتے ۔
ڈاکٹر صغری مہدی نے ’’چنوں میاں ‘‘(ڈاکٹر سید عابدحسین ) اور ’’بچوں کی آپا‘‘ (گرڈ فلپس بورن)نا می کتب لکھی ہیں ، ڈاکٹر عابد حسین بچوں اور بڑوں کے قلم کار ، ڈرامہ نگار، صحافی ، مترجم اور ادیب تھے اور بچوں کا رسالہ پیام تعلیم کے بانی تھے ، آج بھی یہ رسالہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے نکل رہا ہے ، ’’چنوں میاں‘‘میں ڈاکٹر سید عابد حسین کا بچپن ، اسکول اور کالج کی تعلیم ، وظیفہ کاحصول ، وظیفہ پر اعلی تعلیم ، آکسفورڈ اور جرمنی کا سفر ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بے لوث خدمت اور آزاد ی کی جد وجہد کی سچی اور پر خلوص داستان ہے۔
’’بچوں کی آپا ‘‘گرڈ فلپس بورن کی کہانی ہے جو جرمنی سے جامعہ ملیہ کی خدمت کے لئے جامعہ تشریف لائیں ، اور جامعہ ہی کی ہو کر رہ گئیں ، جرمنی میں ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی زبانی انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی حسن کارکردگی اور اس کے قومی جذبہ کی باتیں سنی تھیں ، خود آپا جان میں ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ، وہ باربار ذاکر صاحب سے جامعہ میں خدمت کے جذبہ کا اظہار کرتی تھیں ، جسے ذاکر صاحب ٹال دیا کرتے تھے ، ذاکر صاحب کے ہندوستان آنے کے بعد بھی خطوط میں وہ اس جذبہ کا اظہار کرتی رہیں ، لیکن جامعہ کی مالی پریشانی کی وجہ سے ذاکر صاحب ہمیشہ ٹالتے رہے ، ایک دن با لآخر وہ خود اپنا وطن اور خاندان چھوڑ کر جامعہ آگئیں ،اور نرسری ، کنڈر گارٹن کلاسوں کی انچارج اور بچوں کے ہاسٹل کی اتالیق (وارڈن)مقرر ہوئیں،آپا جان نے جامعہ کے اسٹاف، بچوں اور بستی کی خواتین میں بہت جلد ہر دل عزیزی حاصل کرلی ، وہ گاندھی جی سے بہت عقیدت رکھتی تھیں ، کھدر پہنتی تھیں ، عید اور بقرعید کے موقع پر جامعہ کے بچوں اور خواتین کو سودیشی چیزٍیں اور کھیلونے دیتی تھیں ، انھوں نے زبان نہ جاننے کے با وجود اپنے چھوٹوں اور بڑوں کو اپنی گرویدہ بنا لیا تھا ،ہر ایک کے دکھ درد میں شریک رہتی تھیں ، انھیں بچوں کی پر ورش اور تربیت کے سلسلہ میں معمولی کام کرنے میں بھی کوئی عار نہیں ہوتاتھا، بچوں کا منہ دھلانا، سر میں تیل ڈالنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا ، انھیں بچوں کی خدمت سے مطلب تھا ، چاہے وہ جرمنی کے ہوںیا ہندوستان کے ۔آپا جان کے ایسے بے غرض اور پر خلوص کاموں سے یہ کتاب پر ہے ، جو بچوں کو سچی محبت ، خلوص اور خدمت پر آمادہ کرتی ہے ۔
محترمہ ذکیہ ظہیر نے خواجہ الطاف حسین حالی کے پر نواسے خواجہ غلام السیدین کی سوانح بچوں کے لئے لکھی ہے ، جس میں ان کی خاندانی شرافت ،سخاوت، دینداری ، روشن خیالی ، علم دوستی اور علم پروری کی روشن داستاں ہے ، غلام السیدین صاحب نے ہند و بیرون ہند اعلی تعلیم حاصل کی ، علیگڑھ تدریسی کالج کے طلباء کی بہترین تربیت کر کے ہزاروں کی تعداد میں اچھے استاد تیار کئے ، وہ گاندھی جی کی’’ بنیادی تعلیمی کمیٹی‘‘ کے اہم رکن بنے، جس کی وجہ سے انھیں گاندھی جی سے باربار ملنے اوران کے خیالات کو سمجھنے اور اپنانے کا موقع ملا ، گاندھی جی نے ان کی شخصیت پر بہت گہرا اثر ڈالاتھا ۔
اس کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد مختلف ریاستوں میں بنیادی تعلیم شروع کی گئی ، چنانچہ کشمیر کے وزیر اعظم نے سیدین صاحب کو دعوت دی کہ وہ ریاست کی تعلیمی باگ ڈور سنبھالیں ، انھوں نے ریاست کشمیر میں سات سال رہ کربڑی جد وجہد ، خلوص اور محنت سے کشمیر کے تعلیمی نظام کی جدیدتشکیل کی، اس کتاب کے مطالعہ سے بچوں میں تعلیمی جد وجہد ، خلوص ،خدمت اور رواداری کا جذبہ پیداہوگااور اپنے اسلاف کے روشن کارناموں سے واقفیت حاصل ہوگی ۔
سابق چانسلر مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی حیدرآباد سیدہ سیدین حمید نے ’’بچوں کے الطاف حسین حالی ‘‘نامی کتاب میں بچوں کو افسانوی طرز میں حالی سے متعارف کرایا ہے ، خاص طور پر حالی کے علمی وتعلیمی سفر کی روداد بڑے دل نشیں انداز میں بیان کی ہے ۔
بچوں کے غیر افسانوی ادب میں ایک با وقار نام طیبہ بیگم کا ہے ، جن کا تعلق حیدرآباد کے مشہور علم دوست بلگرامی خاندان سے ہے ، انھوں نے بچوں کے لئے سائنسی اور سوانحی ادب پر کئی کتابیں لکھی ہیں ، انھوں نے بچوں کے لئے نظام الملک آصف جاہ سابع میر عثمان علی خان کی سوانح لکھی ہے جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زباں نئی دہلی نے ان سے لکھوا کر اہتمام سے شائع کی ہے ، جس میں آخری نواب کا شاہی نسب نامہ ، پرچم آصفی ، ان کی شخصیت و اخلاق ، شاعری ،نظم ونسق ، تعلیمی اور علمی خدمات مختصر اور دلچسپ اندازمیں جمع کئے گئے ہیں ۔
محترمہ طیبہ بیگم نے بچوں کے لئے آسان اردو زبان میں سائنسی مضامین کا مجموعہ ’’ہماری کائنات ‘‘کے نام سے ترتیب دیا ہے ، ’’جوہی کی ڈالی ‘‘کے علاوہ ان کی کہانیوں کا ایک مجموعہ ’’باشی کی دنیا‘‘بھی ہے ۔(مذکورہ تینوں کتابیں انجمن ترقی اردو، اردو ہال حمایت نگر حیدرآباد سے شائع ہوئی ہیں )جس میں دو کہانیاں :آسمان پر کتنے تارے ہیں ؟اور چنداماموں دورکے سائنسی کہانیاں ہیں،اور کہانی کے پیرائے میں بچوں کو سائنسی معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔
’’ہماری کائنات ‘‘میں محترمہ طیبہ بیگم نے آسان اور عام فہم زبان میں کائنات کی حقیقت ، علم کائنات ، نظام شمسی ، سیاروں کی حرکت ، قدرتی اور مصنوعی سیارے ، دمدار ستارے ، کہکشائیں ، شہاب ثاقب اورخلائی اسٹیشن وغیرہ کے بارے میں مفید معلومات سے روشناس کرایا ہے ، وجود کائنات کیبارے میں وہ لکھتی ہیں :
’’وجود کائنات کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا کا حکم ہوا ’’کن‘‘یعنی ہو جا ،اور سب چیزیں’’فیکون‘‘ یعنی وجود میں آگئیں ،چنانچہ ابھی تک فضاء میں نئے نئے ستارے اور سیارے اور دوسرے اجرام فلکی تشکیل پاتے ہی جارہے ہیں اسی لئے مشہور شاعر علامہ اقبال نے کہا ہے :
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
یعنی ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کائنات ابھی مکمل نہیں ہے کہ ہرلحظہ خدا ’’کن ‘‘کہتا ہے اور نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں ۔‘‘(صفحہ : 1)
اقتباس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مصنفہ نے سائنسی مضامین میں ادبی چاشنی کے ساتھ خدا کے وجود کو تسلیم کیا ہے ، اور سائنس کے حیرت انگیز انکشافات کو خدا کی عظیم قدرت کا کرشمہ قرار دیا ہے ۔
اسی طرح محترمہ رفیعہ منظور الامین اپنے معلوماتی مضامین کے لئے بچوں کے ادب میں لائق ذکر ہیں ، ان کے معلوماتی مضامین اپنی افادیت کے سبب مختلف درسی کتب میں شامل کئے گئے ہیں، اس موضوع پر ان کی کتاب ’’خبر رسانی کے طریقے ‘‘اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے ۔(ڈاکٹڑ خوشحال زیدی۔اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ :18)
اگر درسی کتب کو غیر افسانوی ادب میں شامل کیا جائے تو حیدرآباد کی دوا ہم قلم کا رخواتین کا ذکر کرنا ضروری ہوگا ، جنہوں نے بچوں کی درسی کتب کی ترتیب و تدوین میں بھی حصہ کیا ہے ، اور بچوں کے لئے معلوماتی مضامین بھی قلم بند کئے ہیں ، ان سے میری مراد ڈاکٹراودیش رانی اور ڈاکٹر عالیہ خان ہیں، ڈاکٹر عالیہ خان بیس سال کے طویل عرصہ سے ہفتہ وار گلدستہ ضمیمہ روزنامہ منصف حیدرآباد کی ادارت انجام دے رہی ہیں، وہ ہر ہفتہ ’’بچوں سے باتیں ‘‘کے زیر عنوان بچوں کو مفید معلومات اور نصیحت سے نوازتی ہیں ۔
اسی طرح بچوں کے لئے معلوماتی اور افادی مضامین لکھنے والوں میں واجدہ تبسم ، عطیہ پروین ، جیلانی بانوں اور شبانہ جیسی مشہور افسانہ نگارخواتین شامل ہیں ۔(حوالہء سابق)
بچوں کے ادب پر تنقیدی و تحقیقی کام کرنے والوں میں خواتین کا بھی اہم حصہ ہے ، اس سلسلہ میں مشیر فاطمہ کا نام لائق احترام ہے، جنہوں نے سب سے پہلے ادب اطفال کے مختلف نظریاتی پہلوؤں سے اردو داں طبقہ کو روشناس کرایا اور بچوں کے ادب کے لئے تنقیدی معیار قائم کیا ، ورنہ ان سے پہلے اردو کے تما ناقدین اور مبصرین نے بچوں کے ادب کو ہمیشہ نظر انداز کیا تھا ، مشیر فاطمہ نے اپنی کتاب :’’بچوں کے ادب کی خصو صیات ‘‘(ناشیر:انجمن ترقی اردو علیگڑھ 1962ء)میں بچوں کے ادب کی معیاری تعریف ، بچوں کے ادب کی ضروریات و مسائل ، ادب اطفال کی بنیا دی خصوصیات اور بچوں کے ادب پر تنقید کے اصول سے واقف کرایا۔
مشیر فاطمہ کی طرح زیب النساء بیگم کا نام بھی بچوں کے ادب میں ناقد کی حیثیت سے شامل ہے ، ان کی کتاب :’’اقبال اور بچوں کا ادب ‘‘اردو ادب اطفال کے تنقیدی ادب میں قابل توجہ ہے ، انھوں نے اقبال کی نظموں پر عملی تنقید کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب کے نظریاتی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے،اور بچوں کے ادب کی ضروریات ، خصو صیات اور مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
بچوں کے ادب پر تحقیق کرنے والوں میں دو خواتین ہماری نظر میں ہیں:(1)ڈاکٹر سیدہ مشہدی جن کی کتاب :’’اردو میں بچوں کا ادب ‘‘1990میں ایمن پبلیکشنز رانچی سے شائع ہوئی ہے، ڈاکٹڑ خوشحال زیدی کے بعد ادب اطفال کی یہ دوسری محققہ ہیں ، جنھوں نے بچوں کے ادب کے تما گوشوں پر تحقیقی و تنقیدی انداز میں سیر حاصل بحث کی ہے ، دوسری خاتوں ڈاکٹر فوزیہ چودھری مرحومہ ہیں،جو بچوں کے دو ماہی رسالہ ’’غبارہ ‘‘بنگلور کی بانی مدیر تھیں ،انھوں نے بھی بچوں کے ادب پر تحقیقی مقا لہ لکھا تھا جو اب تک شائع نہیں ہو سکا ہے۔
بچوں کے غیر افسانوی ادب میں خواتین کے حصہ پر مشتمل یہ ایک مختصر جائزہ ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے افسانوی ادب:کہانی ، ناول اور ڈرامہ کے مقابلہ میں غیر افسانوی ادب پر بہت کم خواتین نے توجہ دی ہے ، جس طرح بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت ماں کی اہم ذمہ داری ہے اور اس سے فرارممکن نہیں ، اسی طرح علمی و تربیتی نقطہ ء نظر سے بچوں کے غیر افسانوی ادب کی کمی کو دور کرنا اور ادب اطفال کو غیر افسانوی ادب سے مالا مال کرناقلم کا رخواتین کا ادبی و اخلاقی فریضہ ہے ۔
ٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مراجع کتب :
1: اردومیں بچوں کا ادب (ڈاکٹر خوشحال زیدی)
2: اردو ادب اطفال میں خواتین کا حصہ (ایضاً)
3: بچوں کا ادب اکیسویں صدی کی دہلیزپر (ایضاً)
4: اردو میں بچوں کا ادب (ڈاکٹر سیدہ مشہدی )
5: بچوں کا ادب اور اخلاق ۔ایک تجزیہ(ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی)
6: بچوں کے ادب کی تاریخ (ایضاً)

——–
ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو
گورنمنٹ ڈگری اینڈ پی جی کالج سدّی پیٹ۔۰۳ ۱ ۵۰۲ تلنگانہ
09346651710

Share
Share
Share