یوم جمہوریہ – – – – – محمد رضی الدین معظم

Share


یوم جمہوریہ

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

جمہوریت کا نام سنتے ہی ذہن میں لاشعوری طور پر ابراہم لنکن کے یہ الفاظ ابھرتے ہیں : ’’جمہوریت عوام کی ‘ عوام کے لئے اور عوام کے ذریعہ کی جانے والی حکومت کا نام ہے۔‘‘ لیکن آج جن وسیع معنوں میں ہم جمہورت کا لفظ استعمال کرتے ہیں لنکن کے الفاظ اس کی مکمل ترجمانی نہیں کرتے۔ جمہوریت محض ایک طرز حکومت ہی نہیں ہے ‘ اقتصادی نظام کا سرچشمہ بھی ہے۔ جمہوریت ایک مخصوص انداز فکر‘ ایک زاویہ نظر‘ ایک طرز عمل اور ایک مخصوص ذہنی کیفیت کا نام ہے۔

جمہوریت کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ ہر فرد انسان ہونے کے ناطے برابر ہے۔ وہ آزاد پیدا ہوتا ہے‘ اس لئے زندہ رہنے اور اپنی فطری صلاحیتوں کے لحاظ سے اپنی شخصیت کی نشو و نما اور اپنی زندگی کی تعمیر و تشکیل کرنے کا اسے پورا موقع ملنا چاہئے۔ کوئی بھی فرد دوسرے کے مقاصد کی تکمیل کے لئے آلۂ کار نہیں ہے۔ مشہور انگریز مفکر جان اسٹیوریٹ مل کے الفاظ میں ’’ہر فرد اپنی ذات‘ اپنے ذہن اور اپنے جسم کا مالک ہے‘‘یعنی ہمارے وجود اور ہماری صلاحیتوں کو دوسروں کے مفاد کے لئے ہماری مرضی کے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ایک طرزِ حکومت کی حیثیت سے جمہوریت اس سیاسی نظام کو کہتے ہیں ‘ جس میں عوام اقتدار اعلیٰ کے امین ہوتے ہیں ‘ جس میں حکومت کو بنانے اور بدلنے کا مکمل اختیار عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور جس میں عوام حکومت کے لئے نہیں ‘ حکومت عوام کے لئے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومت عوام کے سامنے جوابدہ اور ذمہ دار ہوتی ہے۔ جمہوریت کی اساس طاقت پر نہ ہوکر رائے عامہ پر ہوتی ہے۔
جمہوریت آزادی اور مساوات کی خالق بھی ہے اور محافظ بھی۔ آزادی اور مساوات جمہوریت کے ستون ہیں۔ لیکن جمہوریت میں آزادی کا مطلب غیر محدود طریقے پر اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا استعمال کرنا نہیں ہے۔ آزادی سے مراد کچھ معقول پابندیوں میں رہتے ہوئے اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔ اگر ہر شخص کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرسکتا ہو کرے تو سماج میں افراتفری پیدا ہوجائے گی۔ اس طرح کی آزادی پوری سماجی زندگی کو درہم برہم کردے گی اور فرد کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ ایسی صورت میں آزادی سماج کے چند طاقتور افراد کا حق بن کر رہ جائے گی اور سماج کے بیشتر افراد جسمانی اعتبار سے کمزور ہونے کے سبب آزادی سے سانس لینے کے حق سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ جمہوریت جس آزادی کا پیغام دیتی ہے وہ پابندیوں سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ پابندیاں بظاہر ایک شخص کو اس بات کے لئے مجبور کرتی ہیں کہ وہ اپنی فطری قوتوں کو من مانے ڈھنگ سے استعمال نہ کرے‘ لیکن ان کا مقصد آزادی کو سلب کرنے کے بجائے سماج کے بیشتر افراد کو آزاد رہنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ پابندیاں حقوق و فرائض کو جنم دیتی ہیں۔ ایک مہذب معاشرے میں یہ پابندیاں قانون کے ذریعہ عائد کی جاتی ہیں۔ اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ قانون آزادی کا خالق اور محافظ ہے‘ لیکن یہ بات اسی وقت ممکن ہے جب قانون بنانے والی طاقت یعنی حکومت کی بنیاد طاقت پر نہ ہوکر رائے عامہ پر ہو‘ جمہوریت ہی وہ طرزِ حکومت ہے جو سیاسی امور میں ہرفرد کے برابر حق کو تسلیم کرتی ہے اور جس میں ہر شخص حاکم بھی ہے اور محکوم بھی۔ اسی لئے جمہوریت میں ہی ہر فرد صحیح معنوں میں آزاد رہ سکتا ہے۔
حکومت کے قوانین قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ ہمیں کچھ کرنے یا نہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بظاہر ان قوانین سے ہمیں فطری آزادی محدود ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ان پابندیوں سے بھی مساوات کا جنم ہوتا ہے۔ جب ہم مساوات کی بات کرتے ہیں تو اس کے معنی یکسانیت یا یک رنگی سے نہیں ہیں۔ ہر شخص ایک سی صلاحتیں لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے ہر شخص کو ہر معاملے میں ایک سا بنادینا ناممکن ہے۔ جمہوریت میں مساوات کے معنی یہ ہیں کہ حکومت کی طرفسے ملنے والی سہولتیں اور مواقع ہر شخص کو مساوی طور پر حاصل ہوں۔ حقیقی معنوں میں سیاسی زندگی میں مساوات اسی وقت ممکن ہے جب قانون کو افضلیت حاصل ہو۔ جسے ہم ’’رول آف لا‘‘ یا قانون راج کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ حکومت اور اس کے فیصلوں کا انحصار کسی فرد کی خوشی یا ناخوشی پر نہ ہوکر قانون پر ہو۔ جمہوریت میں ہر شخص کو غور و فکر اور اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے تاکہ ہم اپنی آواز کو حکومت تک بلا خوف و خطرپہنچا سکیں اور حکومت رائے عامہ کے مطابق فیصلے کرسکیں۔ کسی کو بھی اپنی رائے کو دوسرے پر مسلط کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ جان اسٹوریٹ مل کے الفاظ میں اگر کسی مسئلے پر محض ایک شخص کی رائے سماج کے سارے افراد سے بالکل مختلف ہو تو بھی ان سارے افراد کو ایک شخص کو خاموش کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔‘‘
اگر چہ جمہوری نظام اکثریت کے اصول پر قائم ہے‘ لیکن اقلیت جمہوریت کی آبرو ہوتی ہے۔ یہ دیکھنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی فرد یا طبقے کے حقوق ایک دوسرے کے ہاتھوں پامال نہ ہونے پائیں۔ اقلیتوں میں اپنی جان و مال کے تحفظ کا احساس اور حکومت میں اعتماد کا جذبہ ہو ۔ اکثریت اپنی تعداد کی بنیاد پر اقلیتوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کرسکے تاکہ انہیں بھی ایک باوقار زندگی گذارنے کا موقع مل سکے۔
جمہوریت اپنے میں خود کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہ بہترین زندگی گذارنے کا ایک وسیلہ ہے۔ لیکن اگر اس کے مواقع سماج کے سبھی افراد کو برابر نہیں ملتے ہیں تو جمہوریت اکثریت کی تاناشاہی میں تبدیل ہوجائے گی۔
جمہوری نظام حکومت معاشرہ میں ہی کامیاب ہوسکتا ہے۔ آزادی اور مساوات کے حقوق اس وقت تک عملی شکل اختیار نہیں کرسکتے جب تک سماج انہیں بخوشی تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو۔ اگر ہم ان اصولوں کو محض سزا کے خوف یا قانونی بندشوں کی وجہ سے قبول کرتے ہیں ‘ تو سماجی مساوات صحیح معنوں میں قائم نہیں ہوسکتی۔ سماجی نظام اور سیاسی نظام کے درمیان اس وقت تضاد پیدا ہونا لازمی ہے‘ جب سماج ان اقدار کو بخوشی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا جو قانون کے ذریعہ نافذ کی جارہی ہیں۔ ہماریسماج میں آج بھی غریب اور امیر کے درمیان تفریق اور مذہب اور ذات کی بنیاد پر امتیاز کسی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ دستور میں سبھی شہریوں کو مساوی طور پر حقوق دیئے گئے ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ہم میں جمہوری اقدار کے مطابق شعور نہیں پیدا ہو سکا ہے۔ قانون کے خوف سے ہم ظاہر تو یہی کرتے ہیں کہ ہم مساوات کے اصول پر اعتقاد رکھتے ہیں‘ لیکن ذہنی طور پر ہم اس حق کو دوسروں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دراصل ایک جمہوری سماج کی تشکیل کے لئے جمہوری ذہن کی ضرورت ہے۔ جمہوری طرز حیات کی بنیاد انسانیت کے احترام پر ہے ۔ ہمارے خیالات اور ہمارے عمل سے اس عقیدے کی غمازی ہونا چاہئے۔ ہر شخص برابر ہے ہمیں دوسروں کے حقوق ان کے جذبات اور ان کی مشکلات کا احساس کرنا چاہئے۔ ہم دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کریں‘ جس کی ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں۔ مذہب‘ زبان‘ رنگ اور نسل کا فرق ہمارے سماجی رشتوں میں حائل نہ ہونا چاہئے۔ اس طرح کی فضاء اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب ہماری ذہنی نشو و نما جمہوری قدروں کے مطابق ہو۔ جمہوری طرز زندگی کے معنی ہیں آپسی میل جول۔
باہمی اتحاد‘ عوامی خدمت کا احساس اور جذبہ ایثار اس بنیاد ‘ اس عقیدے پر ہوتی ہے۔ ہمارا وجود دوسروں کو اذیت پہنچانے کے لئے نہیں‘ دوسروں کے دکھوں اور غموں کو بانٹنے کے لئے ہے۔ ایک جمہوری معاشرہ وہ ہوتا ہے‘ جہاں ایک فرد کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھ کر سارے سماج کی آنکھیں پر نم ہوجاتی ہیں اور جہاں سماج کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھ کر ہمارے چہرے بھی کھل اٹھتے ہیں۔ اگر جمہوریت کے معنی ہر شخص کو اپنی صلاحیتوں کو پیدا کرنا ہوگا ‘ جس میں کوئی فرد یا طبقہ دوسرے کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ حقیقی معنوں میں سیاسی جمہوریت بغیر اقتصادی مساوات یا جمہوری معیشت کے ممکن نہیں ہے۔ جمہوری معاشی نظام سے مراد ایسے اقتصادی رشتوں سے ہے‘ جن میں ہر شخص کو اس کی محنت کی جائز قیمت مل سکے‘ جس میں ہر شخص کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ ایک باوقار زندگی بسر کرسکے۔ اقتصادی مساوات کا مطلب ہر شخص کو بہتر بنانے کے لئے مساوی مواقع فراہم کرنا اور مادری سہولتیں دینا ہے۔ اقتصادی بدحالی اخلاقی گراوٹ کا سبب بنتی ہے اور آدمی کو اپنیحقوق اور فرائض کی طرف سے بے خبر کردیتی ہے۔
جمہوریت سماجی انصاف کا دوسرا نام ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنانے پر تیار ہوں۔ جموریت آزادی اور مساوات جیسے مقدس حقوق ہمیں دیتی ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہیں۔ جمہوریت ایک چیلنج ہے‘ ان افراد کے لئے جو آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں اور مساوات کے طلبگار ہیں۔ ایک جمہوری نظام حکومت کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہماری پہلی ذمہ داری اپنے اوپر کچھ پابندیوں کو قبول کرنا ہے اور ان حدود کا احترام کرنا ہے جو مفاد عامہ کے نقطہ نظر سے قانون یا معاشرہ ہمارے لئے متعین کرتا ہے۔ حقوق کے حاصل کرنے سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ان کا استعمال کس انداز سے کیا جاتا ہے۔ اپنے حقوق و فرائض سے باخبر اور ہوش مند شہریوں کے بغیر جمہوریت زندہ نہیں رہ سکتی۔
ہوسکتا ہے کہ جمہوریت میں آپ کو کچھ خرابیاں محسوس ہوں لیکن یقین جانئے یہ خرابیاں‘ جمہوریت کی نہیں ہیں بلکہ ان افراد کے انداز فکر و طرز سے پیدا ہوتی ہیں‘ جو جمہوریت کے رکن ہیں ۔ کسی بھی سماج یا کسی بھی حکومت کا معیار ان افراد کے کردار اور عمل سے متعین ہوتا ہے‘ جن سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔ جمہوریت کی بقا کے لئے ایک جمہوری ذہن اور ایک جمہوری کردار کی ضرورت ہے۔ جمہوریت زبان و مکان کی پانبد نہیں ہے۔ یہ دنیا کے ہر فرد کو ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوکر شانہ بہ شانہ چلنے کی دعوت دیتی ہے اور ہر شخص کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ’’زندہ رہو اور زندہ رہنے کا موقع دو‘‘ اگر ہم جمہوریت کی اس دعوت کو صدق دل سے قبول کرلیں تو ہم آزادی ‘ مساوات اور اخوت کے اصولوں پر مبنی ایک عالمی برادری کی تشکیل بہ آسانی کرسکتے ہیں۔
آیئے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی قومی اور بین الاقوامی زندگی میں ہر فرد اور ہر ملک کے حقوق کا احترام کریں گے اور مذہبی ‘ انسانی اور علاقائی تعصب سے اوپر اٹھ کر تمام عالم انسانیت کے دکھ درد کو بانٹنے کے لئے تیار رہیں گے۔
——

Share
Share
Share