عہدِ آصفیہ قومی یکجہتی، حب الوطنی اور خوبصورت تعمیرات کا یادگار دور

Share

zamin

ڈاکٹرضامن علی حسرت
ایم ۔اے ۔ایم۔ فل ۔،پی ۔ایچ۔ڈی۔عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد
مکان نمبر 9-16-60،احمد پورہ کالونی نظام آباد
سیل نمبر:9440882330

 عہدِ آصفیہ قومی یکجہتی، حب الوطنی اور خوبصورت تعمیرات کا یادگار دور

تیرھویں صدی عیسویں میں دکن جو کبھی کاکتیہ خاندان کے زیرِ اثر تھا مسلمان فاتحین کے قبضہ وتصرف میں آگیا اور پھر نظام اسٹیٹ ایک خود مختار سلطنت میں تبدیل ہوگئی۔ اُس دور میں یہاں کا پیشہ زراعت تھا ا ورہمیشہ یہاں پر قحط سالی کا دبدبہ رہ کرتا تھا۔ مایوس اورمرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے کیلئے نظام ہشتم میر عثمان علی خان نے معاشی اصلاحات کا آغاز کرتے ہوئے نظام ساگر کی تعمیر کا آغاز کیا اور نظام ساگر کی تعمیر پر اُس دور میں قریب 5کروڑ روپیوں کا خرچ آیا تھا ۔ نظام ساگر کے ساتھ ساتھ حضور نظام نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے نظام شوگر فیکٹری کا قیام عمل میں لایا تاکہ مفلوک الحال اور غریب عوام کیلئے روزگار کے مواقع فراہم ہوسکے۔ حضور نظام کی فیاضی سے مستفید ہونے کے لئے ملک کی مختلف ریاستوں سے لوگ دکن اسٹیٹ کا رُخ کرنے لگے جن میں ہندو مسلم ، سکھ، عیسائی، گجراتی، پنجابی، مہاراشٹرین اور کریلین سب ہی ریاستوں کے لوگ شامل

تھے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو دکن کے دامن میں سارا ہندوستان سمٹ آیاتھا اور دکن اسٹیٹ ایک ایسا گلدستہ لگ رہا تھا جس میں ہر قسم کا پھول اپنی تمام تر خوشبوؤں کے ساتھ موجود تھا۔ مختلف زبانوں کے میل ملاپ سے لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے احساسات وجذبات کی زبان اردو کا جنم ہوااور لوگ آہستہ آہستہ اردو بولنے اور سمجھنے لگے۔ تلگو اور سنسکرت یہاں کی پیدائشی زبان تھی اور مسلمان اپنے ساتھ یہاں عربی اور فارسی زبانوں کو اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ ان زبانوں کے ساتھ ساتھ دکن اسٹیٹ میں دیگر ریاستوں میں بولی جانے والی مختلف زبانیں بھی بولی اور سمجھی جانے لگی جو ایک مشترکہ تہذیب وثقافت کی علامت ہے ان زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو سارے دکن میں اپنی مٹھاس اور شیرینی کی بدولت دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے دکن کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ اردو کو( ہندوستانی) اُس دور میں ہندوستانی بھی کہا جاتا تھا۔ حضور نظام عثمان علی خان آصف سابع کے دور میں اردو زبان نے حیرت انگیز ترقی کی یہاں تک کہ اُس دور میں اردو ٹائپ رائٹر بھی خرید لئے گئے۔ 1936 میں نواب میرلائق علی خان وزیر اعظم حیدرآباد دکن نے بودھن ضلع نظام آباد میں ایشیاء کے عظیم شکر سازی کے کارخانہ کی تجویز نظام دکن میر عثمان علی خان کے سامنے رکھی تو نظام دکن اس تجویز سے بے حد خوش ہوئے۔ انہوں نے اس کارخانہ سے متصل ایک خوبصورت کالونی بنانے کا بھی منصوبہ تیار کرلیا اور اس  سلسلہ میں انہوں نے اپنے اعلیٰ عہدیداروں اور اہل کاروں ومزدوروں کی رہائش کے لئے مکانات کی تعمیر کا حکم بھی دیا اور اس طرح سے نظام شوگر فیکٹری کی تعمیر عمل میں
آئی۔ 17دسمبر 1938 کو نظام شوگرفیکٹری کا افتتاح عمل میں آیا۔ حضور نظام کی اس رعایا پروری اور دو راندیشی ومنصوبہ بندی نے رعایا کا دل جیت لیا اور ہر طرف ان کی فیاضی اور دریا دلی کے چرچے ہونے لگے ۔ نظام شوگر فیکٹری کو اپنی بہترین کارکردگی کے بدولت سارے ایشیاء میں خوب شہرت حاصل ہوئی اور آج بھی شکر سازی کے اس کارخانے سے دنیا بھر کے بے شمار لوگ مستفید ہورہے ہیں۔نظام شوگر فیکٹری سے پہلے نظام ساگر کی تعمیر وتوسیع عہدِ عثمانی کادوسرا بڑا کارنامہ تھا۔ حضور نظام کے چیف انجینئر نواز جنگ بہادر نے نہ صرف نظام ساگر کی تعمیر کیلئے مناسب جگہ تلاش کی بلکہ اس پراجکٹ کی تعمیر میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا ثبوت دیا۔ 1921 میں نظام ساگر کا نقشہ مرتب کیاگیااور مسٹر سی پال انجینئر کی زیر نگرانی 1924میں اس کا سنگ بنیاد مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ وزیر اعلی ریاست حیدرآباد نے رکھا۔ قریب 12 سال تک جنگی خطوط پر نظام ساگر کی تعمیر کا کام چلتا رہا جس میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا اور اس طرح نظام ساگر جو حضور نظام کا خواب تھا پائے تکمیل کو پہنچا۔ 1936 میں حضور نظام کے ہاتھوں اس کا افتتاح عمل میں آیا۔ سلطنت آصفیہ کا سنہرا دور 1724 سے1911 ف تک رہا۔ اس سلطنت کے آخری فرما رواں اعلی حضرت نظام الملک میر عثمان علی خان بہادر نے اپنی فہم وفراست اور حب الوطنی کی بدولت سارے ملک میں صنعت وحرفت اور زراعت وآبپاشی اصلاحات کی طرف بھرپور توجہ دی۔ نظام ساگر ونظام شوگرفیکٹری کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1340ف میں ایک الکول فیکٹری کاقیام کاماریڈی ضلع نظام آباد میں عمل میں لایا تاکہ لوگوں میں خوشحالی آئے اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم ہوسکے۔ حضور نظام کے دور کو تعمیری کاموں کا ایک یادگار دور بھی کہا جاتا ہے۔ حضور نظام اور چیف انجینئر علی نواز جنگ بہادر کی صلاحیتوں اور دوراندیشیوں کے باعث ضلع نظام آباد نے بھی (جو کہ حضور نظام کا پسندیدہ ضلع تھا) بے پناہ ترقی کی۔اسی دور میں نظام آباد میں آبپاشی کی سہولتوں کے لئے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے تالابوں اور نہروں کا جال بچھایاگیا جس سے ضلع کے کسان آج بھی مستفید ہورہے ہیں۔ حضور نظام نے حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی ، عثمانیہ دواخانہ، آصفیہ لائبریری افضل گنج، ناگر جنا ساگرڈیم کی تکمیل، جوبلی ہال، یونانی دواخانہ، نئی دہلی میں حیدرآباد ہاؤز، کڑم پراجکٹ، موسیٰ ندی پراجکٹ، ڈنڈی پراجکٹ، کوئیل ساگر پراجکٹ، پوچارام پراجکٹ، گھن پور پراجکٹ، کے علاوہ موجودہ اسمبلی کی عمارت کے علاوہ بے شمار دوسری عمارتوں کو تعمیر کرواتے ہوئے اپنی حب الوطنی کے انمٹ نقش چھوڑے ہیں جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔ ضلع نظام آباد کی عوام کے لئے یہ بڑے فخر واعزاز کی بات ہے کہ حضور نظام کے چیف انجینئر نواب علی نواز جنگ جنہیں نظام ساگر پراجکٹ کا معمار کہا جاتا انہیں اُ ن کی ناقابل فراموش خدمات کے لئے ریاستی حکومت کی جانب سے وزیر تعلیم نے 15جنوری 2014 کو اُن کے مجسمہ کا نظام ساگر میں افتتاح کرتے ہوئے انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا اس موقع پر نواب علی نواز جنگ بہادر کے نبیرہ نواب میر احمد علی نے اپنے افراد خاندان کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اسے یادگار بنادیا۔حضورِ نظام نے ضلع نظام آباد کی بڑھتی ہوئی آبپاشی کی سہولتوں کے پیش نظر شہر سے قریب 15کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک خوبصورت واٹر فال علی نواز جنگ بہادر کی نگرانی میں تیار کروایا جو علی ساگر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تالاب نہ صرف آبی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے بلکہ اس سے کئی ایکڑ اراضی سیراب ہوتی ہے۔ علی ساگر کو اس وقت نظام آباد میں ایک بہترین سیاحتی مرکز کا درجہ حاصل ہے۔ نظام ساگر کی طرح علی ساگر بھی سیاحوں کیلئے ایک پرکشش سیاحتی مرکز ہے جسے دیکھنے کے لئے دور دور سے سیاح علی ساگر کو آتے ہیں اور اس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوکر واپس لوٹتے ہیں۔ حضور نظام نے علی ساگر کا نام اپنے عزیز انجینئر نواب علی نواز جنگ بہادر کے نام پر رکھا تاکہ علی نواز جنگ کو بھرپور خراج پیش کیا جاسکے۔ علی ساگر کے تعلق سے نظام آباد کے نامور بزرگ صحافی وشاعر محترم عابد انصاری عابدؔ مرحوم نے بعنوان ’’علی ساگر ‘‘ ایک نہایت ہی مرصّع نظم لکھی تھی اس یاد گار نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔
اے لو وہ آگیا دیکھو علی ساگر اپنا مئے عرفاں سے لبالب ہے یہ ساغر اپنا
کتنا دلکش ہے یہ ننھا سا سمندر اپنا بن گیا رشکِ ارم آج علی ساگر اپنا
دیکھئے کیا لطف ہے کیا منظر ہے
جشن نوروز ہے گلگشت علی ساگر
منظر دلکش ساگر سے زبان ہے قاصر اس کی توصیف مرے حد بیاں سے باہر
نہر، تالاب، چمن پھول پہاڑی منظر حوض فوارے یہ بنگلہ وہ جزیرہ طاہر
واہ واہ کیا لطف ہے کیا منظر ہے
جشن نوروز ہے گلگشت علی ساگر
کیاریاں پھول پرندے یہ سہانا گلشن چار جانب وہ پہاڑوں کا نشیبی دامن
وہ جزیرہ وہ پرندوں کا وہ پیارا مامن مادرفطرت معصوم کا ٹھنڈا دامن
واہ واہ کیا لطف ہے کیا منظر ہے
جشن نوروز ہے گلگشت علی ساگر
رقص کرتی ہوئی موجیں جو بہی جاتی ہیں گنگناتی ہوئی کہسار سے ٹکراتی ہیں
صبح کو ننھی سی چڑیاں ہی نہیں گاتی ہیں حوریں گاتی ہوئی اشنان کو یاں آتی ہیں
واہ واہ کیا لطف ہے کیا منظر ہے
جشن نوروز ہے گلگشت علی ساگرحضور نظام حب الوطنی وقومی یکجہتی کی جیتی جاگتی مثال تھے۔ انہوں نے بھگوت گیتا کاترجمہ دیگر زبانوں میں کروایا۔ کئی مندروں کو تعمیر کروایا اور ہمیشہ دیگر مذاہب کا احترام کیا کرتے تھے۔ اکثر مندروں کی تعمیر میں دل کھول کر چندہ دیاکرتے تھے۔ یہ آصف جاہ صابع نظام ہی تھے جنہوں نے 1962 کی ہند ،چین جنگ کے دوران اس وقت کی حکومت کو 120 کلو سونا دیا تھا جس کی قیمت کروڑوں میں تھی۔ حضور نظام اپنے ملک سے اپنی قوم سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے ۔ ان کا دل حب الوطنی وایثار کے جذبہ سے کوٹ کوٹ کر بھراہوا تھا۔ حضور نظام یا سلطنت آصفیہ جیسا سنہرا دور اب دوبارہ آنے والا نہیں ہے۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ہم حضور نظام کی تمام چھوڑی ہوئی چیزوں واشیاء سے استفادہ تو کرتے ہیں لیکن اُن کی یادگاروں کی مرمت یا درستگی کی بات آتی ہے تو حکومتیں اپنا دامن بچانے میں لگ جاتی ہیں۔ اُلٹا حضور نظام پر بے بنیاد اور غلط الزامات لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ آج سعودی عرب میں حضور نظام نے دکن کے حاجیوں کے لئے رُباط کا قیام عمل میں لایا تاکہ ہندوستان کے حاجیوں کو سہولت مہیا کی جاسکے۔ محب وطن کہی جانے والی سروجنی نائیڈو نے نظام دکن کی دی گئی اسکالر شپ کے ذریعہ لندن میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ حضور نظام نے دکن کو کیا کچھ نہیں دیا ، ریلوے اسٹیشن ، ایرپورٹ، پوسٹل ڈپارٹمنٹ کی سہولتیں ،صنعتیں اور خوبصورت وشاندار عمارتیں جن میں موجودہ اسمبلی وکونسل کی عمارتیں بھی شامل ہیں جو خوبصورتی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ نظام سابع کی جانب سے قائم کردہ تعلیمی اداروں سے آئے دن سینکڑوں طلباء ڈاکٹر، انجینئر واعلی ٰ عہدیداربن کر نکلتے ہیں اور ملک کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ نظام دکن کی جانب سے دی جانے والی اسکالر شپس سے بلا لحاظ مذہب وملت سینکڑوں غریب وذہین طلباء استفادہ حاصل کرتے ہوئے اعلی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ حضور نظام کی ناقابل فراموش خدمات کو اُن کے جذبے کو اُن کی فیاضی وعظمت کو لفظوں میں بیان کرنابڑا مشکل کام ہے ،علامہ اقبال کے اس شعر کے ساتھ راقم اپنی بات ختم کرناچاہتاہے۔
ہزاروں سال روتی ہے نرگس اپنی بے نوری پر
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Share
Share
Share