امجد حیدرآبادی کی شاعری – – – – ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل

Share

قرآن و حدیث کی روشنی میں
امجد حیدرآبادی کی شاعری

ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج محبوب نگر

شہنشاہ رباعیات حضرت امجد حیدرآبادی کا مکمل نام سید احمد حسین تھااور تخلص امجد حیدرآبادی وہ 1886 ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام سید رحیم علی اور والدہ محترمہ کا نام صوفیہ تھا۔انہوں اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والدہ سے حاصل کی ۔اس کے بعد جامعہ نظامیہ میں چھ سال تک دینی تعلیم حاصل کی ۔انہوں نے عبدالوہاب باری اور سید علی شوستری سے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی ۔ان کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں شیخ میراں صاحب کی دختر محبوب النساء سے انجام پائی جن کے بطن سے ایک بیٹی اعظم النساء پیداہوئی۔

انہوں نے ابتدائی ایام میں بنگلور سٹی ہائی اسکول میں تدریسی خدمات انجام دی۔پھر دفتر محاسبی حیدرآباد میں ملازمت اختیار کی ۔1908ء کی آفات سماوی یعنی موسیٰ ندی میں آئی طغیانی نے امجد کو تنہا کردیا۔اس طغیانی کے قہر نے ان کو اپنے مکان اور اہل و ایال سے محروم کردیا۔اس المناک واقعہ نے ان کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کیا جس کی وجہہ انہوں نے نظم ’’قیامت صغریٰ‘‘ لکھا۔امجد 1932ء میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔
شاعری کی ابتدا ء میں امجد حیدرآبادی نے دیوان ناسخ کا خوب مطالعہ کیا ،اساتذہ کرام سے کلام کی اصلاح لی۔1907ء میں مولوی ظفر یاب خاں کی تحریک پر اپنا پہلا شعر ی مجموعہ ’’رباعیات امجد ‘‘ شائع کیا۔امجد کو اردو ،عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا جس کے اثرات ان کی ابتدائی شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں۔امجد نے اپنی پہچان اردو دنیا میں بحیثیت رباعی گو کے بنائی ہے ،اپنے کلام کی انفرادیت کی بناء امجد کو سر مد ثانی،شنہشاہِ رباعیات کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔امجد کے شعری سرمایہ میں رباعیات امجدحصہ اول،دوم،سوم،ریاض امجد،حصہ اول ،دوم،خرقہ امجد،نذر امجد،اور ایک مختصر رباعیات کا مجموعہ’’حسن بلالؓ‘‘ کے عنوان سے شامل ہیں ۔جہاں امجد نے شاعری کے میدان میں کمال درجہ کی مہارت کے ساتھ اپنا نام بنایا ہے وہیں انہوں نے اچھی نثر لکھ کر بھی اردو ادب کے سرمایہ کو مالا مال کیا ہے۔ان کے نثر ی سرمائے میں جمال امجد،(خودنوشت سوانح عمری)،گلستان امجد،حکایات امجد،حجِ امجد،پیام امجد و دیگر کہانیاں وغیرہ شامل ہیں ۔امجد حیدرآبادی کا انتقال 29مارچ 1961ء کو حیدرآباد میں ہوا اور تدفین احاطہ حضرت سید شاہ خاموش ؒ میں کی گئی۔امجد کے انتقال کے بعد ان کے فن اور شخصیت پر تحقیقی کام ہو ا ہے جس کے نتیجے میں ان سے متعلق بہت سی تصانیف منظر عام پر آئیں۔
خدائے رب العزت کے تصور کو حضرت امجد حیدرآباد ی نے اپنے رباعی میں بہت ہی خوب انداز بیان سے برتا ہے ملاحظہ ہو:
صنعت تری ہر خار دکھا دیتا ہے
ہر غنچۂ گل تری صدا دیتا ہے
ہر اصل اصول معرفت ہے یارب
پتہ پتہ ترا پتا دیتا ہے
حضرت امجد حیدرآباد ی نے مناجات میں اللہ رب العزت کی صفات اور اس کی فیاضی کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے دیکھیں:
او میرے مالک ! او عرش والے
جلوے ہیں تیرے ،سب سے نرالے
ہم غم زدوں کا ، غم خوار ہے تو
ستار ہے تو، غفار ہے تو
تعریف تیری میری زباں پر
اللہ اکبر ، اللہ اکبر
حضرت امجد حیدرآبادی نے اللہ کے رسول حضرت محمد ؐ کی سیرت اور ان سے اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہا ر بھی شاعری کے ذریعے کیا ہے ۔ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
رخ مہر ہے، قد خطِ شعاعی کی طرح
وہ گلّۂامّت میں ہے راعی کی طرح
اس خاتمِ انبیاء کا آخر میں ظہور
ہے مصرعہ آخرِ رباعی کی طرح
قرآن مجید کی عظمت اور ہدایت پر بھی انہوں نے بہت سی رباعیاں لکھی ہیں ۔ان کی یہ رباعی جس میں انہوں نے قرآن مجید کے مطالعہ سے متعلق کیا خوب پند و نصحیت کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔
ہر وقت فضائے دلکشا دیکھتے ہو
صحرا و چمن ارض و سما دیکھتے ہو
مخلوق میں نیرنگیِ خالق دیکھو
قرآن پڑھو جلد کو کیا دیکھتے ہو۔
امجد حیدر آباد ی نے اپنی شاعری میں صالح اقدار کو بیان کیا ہے وہ ایک ی تعمیر ادب اور صالح ادب کے نقیب ہیں ،انہوں نے شاعری وقت گزاری یا تفریح کیلئے نہیں کی بلکہ انسانیت کو اس کابھولا ہوا سبق یا دلایا ہے،ان کے کلام میں جگہ جگہ قرآن و حدیث کا بیان اور فکر آخرت کا تصور جا بجا نظر آتا ہے ان کی یہ رباعیاں دیکھیں جس میں عمدہ سلیقہ سے قرآن کا تذکرہ کیاگیا ہے۔
آجا تنِ بے جاں میں مرے جاں کی طرح
رہ خانۂ دل میں مرے ایماں کی طرح
تیری ہی طرف لگی ہوئی ہیں آنکھیں
اک بار اتر آ کبھی قرآن کی طرح

کس متن کی تفسیر ہوں، معلوم نہیں
کس ہاتھ کی تحریر ہوں معلوم نہیں
میں ہوں کہ مرے پردے میں ہے اور کوئی
صورت ہوں کہ تصویر ہوں، معلوم نہیں
امجد کی رباعیات میں قران و حدیث کی ترجمانی کو بیان کرتے ہوئے مولانا مفتی محبوب شریف نظامی نے قرآن مجید کی آیات اور امجد کی رباعیات کو پیش کیا ہے ملاحظہ ہو۔
’’بالخصوص امجد کی رباعیات قرآن و حدیث کی ترجمانی کرتی ہیں۔امجد ’انا عرضنا الامانتہ علی السموات الارض فایبین ان یحملنھا‘کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اس سینے میں کائنات رکھ لی میں نے
کیا ذکر صفات ذات رکھ لی میں نے
ظالم سہی جاہل سہی،نادان سہی
سب کچھ سہی تیری بات رکھ لی میں نے
’ایاک نستعین‘اور ’فلیسجیبو الی‘کی ترجمانی اس طرح کرتے ہیں۔
ہر چیز مسببِ سبب سے مانگو
منت سے لجاجت سے ادب سے مانگو
کیوں غیر کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو
گر بندے ہو رب کے تو رب سے مانگو
(حدیث)درج ذیل رباعی میں’ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘کی وضاحت کی گئی ہے۔
جب اپنی خطاؤں پر میں شرماتا ہوں
ایک خاص سرور قلب میں پاتا ہوں
توبہ کرتا ہوں جب گناہ سے امجد
پہلے سے زیادہ پاک ہو جاتا ہوں
’لا تقنطو امن رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمعیاََ انہ ھوالغفورََ الرحیم‘ کا اظہار آپ کی آخری غیر مطبوعہ رباعی سے ہوتا ہے۔
ہم باقی سب ہے فانی اللہ اللہ
ہے کون ہمارا ثانی اللہ اللہ
رحمت سے ہماری نا امید ی توبہ
اللہ سے یہ بد گمانی اللہ اللہ
(شہنشاہِ رباعیات امجد حیدر آبادی،بیسویں صدی میں دکن کی علمی ،دینی ، اصلاحی و ادبی شخصیتیں،ص۱۵۶)
امجد حیدرآبادی کے کلام میں صوفیانہ انداز بھی ہے ،حقیقت بیانی بھی ہے اورانسانیت کی فکر بھی نظر آتی ہے امجد نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت کی اصلاح کا خوب کام انجام دیا ہے ، وہ شاعری میں ایک ناصح کی حیثیت سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں امجد نے خدائی احکام اور اللہ کے رسول ؐ کے سیرت وکردار کو اپنی رباعیات میں پیش کیا ہے ان کی فکر اسلامی فکر تھی ، ان کا آخرت پر پختہ یقین تھاتب ہی تو انکی شاعری میں ایک درد، ایک تڑپ اور ایک پیغام نظر آتا ہے امجد کی شاعری مقصدیت پر مبنی شاعری ہے ۔ امجد نے اپنی رباعیات کے ذریعے ایک عظیم کام انجام دیا ہے ۔
امجد حیدر آبادی کے کلام میں جہاں قرآن کی آیات کی ترجمانی نظر آتی ہیں وہیں ،احادیث اور بالخصوص سیرت النبیؐ کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی بھی ہوتی ہے ۔ امجد حیدر آبادی کی تعلیم و تربیت اسلامی طریقے پر ہوئی تھی اور انہوں نے جامعہ نظامیہ جیسی قدیم دینی درسگاہ سے بھی کسب فیض حاصل کیا ہے جس کے اثرات ان کی شاعری میں نظر آتے ہیں۔امجد کی شاعری با مقصد شاعری ہے ۔
امجد حیدرآباد ی نے اپنے کلام میں نبی اکرام ﷺ سے سچی وابستگی کا ثبوت دیا ہے ان کا مجموعہ کلام نذرِ امجد بارگاہ رسالت مآب میں عقیدت کا اظہار ہے ۔نذر امجد میں اللہ کے رسول حضرت محمد ؐ کی ولادت سے لیکر ہجرت کے حالات کو منظوم انداز میں بیان کیا گیا ہے۔نذر امجد سے مسدس کے دو بند ملاحظہ فرمائیں:
قیامت تک اب ایسی صورت نہ ہوگی
یہ صورت نہ ہوگی یہ سیرت نہ ہوگی
اب آگے نبوت میں شرکت نہ ہوگی
ہمیں اب کسی کی ضرورت نہ ہوگی
ہمارا نبی خاتم المرسلیں ہے
یہ دنیا کی خاتم کا آخر نگیں ہے

یہ ننھا سا پودا پھلا اور پھولا
دو عالم میں پھیلا دیا اپنا سایا
نبی بن کے پیغامِ حق لے کر آیا
مکمل ہوئی رحمتِ حق تعالیٰ
ہوئی جس کو توفیق ، ایمان لایا
مگر کافروں کی سمجھ میں نہ آیا
امجد حیدرآبادی کی اکثر رباعیات میں اسلامی فکر شامل ہوتی ہے ۔انہوں نے قرآن و حدیث کو بڑے ہی دلفریب انداز سے شعر اور رباعیات میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں ،امجد کے کلام کے مطالعہ سے اسلامی فکر کو جلا ملتی ہے ۔امجد کی یہ رباعیات جس میں حدیث کے مفہوم کی ترجمانی نظر آتی ہیں:
لے لے کے خدا کا نام چلاتے ہیں
پھر بھی اثر دعا نہیں پاتے ہیں
کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز
کرتے نہیں پرہیز دواکھاتے ہیں

خالق نے جنھیں دیا ہے زر دیتے ہیں
زر کیا ہے خدا کی راہ میں گھر دیتے ہیں
اپنا سرمایہ ہے رکوع و سجدہ
سامان نہیں رکھتے ہیں سر دیتے ہیں
امجد حیدر آبادی نے اپنے کلام کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا بہت ہی خوب کام انجام دیا ہے۔امجد کو رباعی پر دسترس حاصل تھی وہ رباعی کے مقبول عام شاعر تھے ان کی رباعیات قرآن و حدیث کی ترجمانی کرتی ہے ان کا قرآن وحدیث سے گہرا تعلق تھا جس کا نتیجہ ہے کہ ان کی شاعری اسلامی
تعلیمات اور اسلامی فکر سے مملو ہے۔امجد کی زبان عام فہم ہے ،ان فکرپختہ ہے ان کے کلام میں اخلاقی میلانات پائے جاتے ہیں۔ضروت اس بات کی ہے کہ عصر حاضر میں نسل نو کے سامنے اسلامی فکر کے نمائندہ شعراء کے کلام کو پیش کیا جائے جس کے زیر اثر اسلامی ادب پروان چڑھے اور تعمیر ادب فروغ پائے
نہ اب دور شباب باقی ہے
نہ اب دور شراب باقی ہے
ہو چکیں ختم لذتیں امجد
اب لذتوں کا عذاب باقی ہے
——
Dr.Aziz Suhail

Share
Share
Share