محمدنذیراحمد اورنسیم سلطانہ کی تصانیف کا رسم اجرا -: محسن خان

Share

’’الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان وادب کا فروغ‘‘اور محمدنذیر احمد کی کتاب’’اردوافسانو ں میں اساطیری عناصر کا تنقیدی جائزہ‘‘ کاپروفیسر مظفر شہ میری اورد دیگرمہمانوں کے ہاتھوں رسم اجراء عمل میں آیا۔
جناب محمدنذیر احمد اور ڈاکٹر نسیم سلطانہ کی تصانیف کا رسم اجرا

اردوافسانو ں میں اساطیری عناصر کا تنقیدی جائزہ
مصنف: محمد نذیر احمد

الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان وادب کا فروغ
مصنفہ: ڈاکٹر نسیم سلطانہ

رپورٹ:محسن خان
ریسرچ اسکالر مانو حیدرآباد

عصر حاضر میں اردو کے فرغ کے سلسلے میں شہر حیدر آباد کو عالمی سطح پر اولیت حاصل ہے یہاں اردو کی پہلی یونیورسٹی ’’جامعہ عثمانیہ‘‘ قائم ہے ساتھ ہی اردو کی مرکزی یونیورسٹی ’’مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ‘‘قائم ہے جہا ں اعلی تحقیقی کام ہور ہا اس کے علاوہ یونیورسٹی آف حیدرآباد جو سنٹرل یونیورسٹی ہے وہاں بھی اردو کا شعبہ قائم ہے اسی شعبہ سے فارغ ڈاکٹرنسیم سلطانہ اور عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ جناب نذیرصاحب کی تصانیف کا رسم اجراء 22اپریل بروز ہفتہ’’ میڈیا پلس ‘‘اڈیٹوریم‘ گن فاونڈری حیدرآباد میں انجام پایا ۔

اس موقع پر سب کی نگاہیں ایک ایسے شخص پرمرکوزتھیں جو ریاست آندھراپردیش میں قائم ڈاکٹر عبدالحق اردویونیورسٹی کرنول کے باوقارعہد ے (وائس چانسلر)کاجائزہ لینے کے بعدپہلی بار اپنے شاگرد کی محبت میں لمبا سفر کرتے ہوئے صرف کتاب کی رسم اجراء میں شرکت کیلئے پہنچے تھے۔ اس شخصیت کا نا م پروفیسر مظفر علی شہ میری ہے جن کی سادگی ‘اپنے پیشہ سے ایمانداری‘مخلص ‘ہمدرد اور اپنے شاگر دوں سے شفقت اپنی مثال آپ ہے۔حیدرآباد میں اردوپروگراموں کے تعلق سے لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ مقررہ وقت سے وہ ایک دو گھنٹے دیر سے شروع ہوتے ہیں لیکن یہ پروگرام تیس منٹ کے دیری سے ہی شروع ہوا حالانکہ منتظمین نے پروگرام کو وقت پر شروع کرنے کی پوری کوشش کی ۔دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا پلس آڈیٹوریم مکمل بھرگیا تھا اور کرسیاں پر ہوجانے کی وجہ سے لوگ برآمدے میں کھڑے رہے۔ اس رسم اجراء تقریب کا آغاز حافظ جناب عبدالطیف معلم جامعہ نظامیہ کی قرأت سے ہوا۔ جس کے بعد تمام لائٹس آف کردی گئیں اور پروفیسر شہ میری کی نظم ’’ائے میری زندگی ‘‘کواسکرین پرپیش کیاگیا ۔ پروگرام کی نظامت مصنفہ ڈاکٹرسیدہ نسیم سلطانہ(اسسٹنٹ پروفیسر ویمنس کالج کوٹھی) نے انجام دی۔ابتدائی کلمات میں نسیم سلطانہ نے کہاکہ طویل نثرمیں جوبات نہیں کہہ سکتے ہیں وہ صرف ایک شعر میں کہہ سکتے ہیں اس لئے وہ اشعار کے ذریعہ مہمانوں کا تعارف کرواتی رہیں۔ انہوں نے آزاد کشمیر میں فیس بک پرلائیو دیکھ رہے نجیب مہر کی جانب سے شہہ میری صاحب کیلئے بھیجے گئے ان اشعار کوپڑھ کرسنایا ۔
چاند جگنو مہک سخن شبنم ۔۔ آپ آئے توسبھی آئے ہیں
یہ کون آیا بزم میں دیکھو ابھی ابھی ۔۔ خوشبو چلی ہے نورسا ہرسوبکھرگیا
ڈاکٹرسیدہ نسیم سلطانہ نے سب سے پہلے وائس چانسلر پروفیسر شہ میری کواسٹیج پرآنے کیلئے اس شعر کے ذریعہ دعوت دی کہ
رہبروں کی مت پوچھئے سبھی خلوص والے ہیں ۔۔ مگرآستینوں میں سانپ کالے کالے ہیں
کہیں ترشول توکہیں برچھی بھالے ہیں ۔۔ غم نہ کرو ہم حسینؓ والے ہیں
کتاب ’’اردوافسانو ں میں اساطیری عناصر کا تنقیدی جائزہ‘‘ کے مصنف محمدنذیراحمد صدرشعبہ اردو ویمنس کالج کوٹھی کو اسٹیج پرآنے کی دعوت دی گئی ۔ اس کے بعد محفل کے صدر میر ایوب علی خان (میڈیا کنسلٹنٹ مانو) اورمہمانان خصوصی‘ پروفیسر ایس اے شکور(ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی)‘ ڈاکٹرعبدالمعید جاویدصدرشعبہ اردو آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی)کونسیم سلطانہ نے اپنے منفرد لب ولہجہ اور اشعار کے ذریعہ اسٹیج پرجلوہ افروز ہونے کی دعوت دی۔ استقبالیہ کلمات میں مصنف محمدنذیراحمد نے مرحوم فصیح الدین کویاد کیا جنہوں نے اردو تحریک کے ذریعے کئی ایک نمایاں خدمات انجام دی تھیں انہوں نے کہاکہ آج وہ جس مقام پر کھڑے ہیں اس کے پیچھے مرحوم فیصح الدین کا ہاتھ ہے۔ فصیح الدین کویاد کرتے ہوئے وہ کافی جذباتی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد مہمان خصوصی جناب پروفیسر شہ میری صاحب نے دونوں کتابوں کے مصنفین کومبارک باد پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ دونوں کتابیں گھرمیں رکھنے کے قابل ہیں۔ اور ہر ایک کواسے پڑھنا چاہئے۔ انہوں نے اس موقع پرکہاکہ اساتدہ کوہمیشہ اپنے شاگردوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ انہیں کسی طرح کی تکلیف نہیں دینا چاہئے۔ یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ بعض گائیڈ اپنے اسکالرس کو ستاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے مقالے وقت پرجمع نہیں ہوپاتے اور پڑھائی رک جاتی ہے یہ بالکل غلط بات ہے۔ انہوں نے کہاکہ تجربہ‘علم اورمحبت میں سے کسی ایک کواستاد کیلئے اپنے شاگر د کیلئے منتخب کرنا ہوتو وہ محبت کواختیارکریں گے ۔ہم محبت سے ہی اپنے اسکالرس کوآگے بڑھاسکتے ہیں اور ان کی زندگی سنوارسکتے ہیں۔ انہوں نے سیدنسیم سلطانہ کی ہمت اورحوصلہ کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور حق کے لئے لڑائی لڑی جس سے سبھی واقف ہے۔ ظلم کے خلاف ہم سب کوآواز اٹھانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنے اندر حسینیؓ صفت پیدا کرنا چاہئے اورظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوکر مقابلہ کرنا چاہئے ورنہ حالات بدسے بدترہوتے جائیں گے اورظالم کا ظلم اوربڑھ جائے گا۔پرفیسر مظفرشہ میری صاحب کی تقریر کے بعد سیدہ نسیم سلطانہ کی کتاب ’’الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان وادب کا فروغ‘‘اور محمدنذیر احمد کی کتاب’’اردوافسانو ں میں اساطیری عناصر کا تنقیدی جائزہ‘‘ کاپروفیسر مظفر شہ میری اورد دیگرمہمانوں کے ہاتھوں رسم اجراء عمل میں آیا۔ رسم اجراء کے بعد نسیم سلطانہ نے پروگرام میں پہنچی معزز شخصیتوں کو اظہار خیال کیلئے اسٹیج پردعوت دی۔ سبء سے پہلے پبلیشر محمدارشد دحسین صاحب کودعوت دی گئی انہوں نے اپنے مختصرخطاب میں نسیم سلطانہ اور محمدنذیراحمد کوکتاب کی اشاعت پرمبارک باد پیش کی۔ اس کے بعد پروفیسر فضل اللہ مکرم ‘ایسو سی ایٹ پروفیسر اردواورینٹل کالج نے اپنے دلچسپ خطاب میں کہاکہ پروفیسر مظفر سہ میری کا حیدرآباد سنٹر یونیورسٹی میں تقرر ہونے کے چھ مہینے بعد مانو کے ایک پروگرام میں ان صاحب سے ملاقات ہوئی تھی اس موقع پر شہ میری صاحب نے مزاحیہ انداز میں مجھ سے کہاتھا کہ’’ اف ! باب رے باب ! حیدرآباد کی خواتین بہت تیز ہوتی ہیں ‘‘۔ میں نے اس وقت شہ میری صاحب کوجواب دیاتھا کہ اسی لئے حیدرآباد کے دامادوں پرجنت واجب ہے ۔اس بات پر محفل زعفران زارہوگئی۔ انہوں نے دونوں مصنفین کو مبارکباد دی اور کہا کہ وہ جناب محمدنذیر احمد صاحب کے پی ایچ ڈی مقالے کی اشاعت کے متمنی ہیں۔ ا س موقع پرخطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیزسہیل لیکچرار ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری وپی جی کالج محبوب نگرنے کہاکہ جنب محمد نذیراحمد اور ڈاکٹر نسیم سلطانہ قابل مبارکباد ہیں جن کی ایک اہم موضوع پر کتابیں شائع ہوئی ہے میں انہیں مباکباد پیش کرتا ہوں اور امید بھی کرتاہوں ہے کہ ان افراد کی مزید کتابیں جلد منظر وعام پر آئیں گی ۔ڈاکٹرمختاراحمدفردین نے نسیم سلطانہ کو مبارک باد دیتے ہوئے اس شعر کے ذریعہ ان کی حوصلہ افزائی کی کہ
میں کہاں رکتا ہوں عرش وفرش کی آواز سے
مجھ کوجانا ہے بہت اونچا حد پرواز سے
پروفیسر ایس اے شکور ڈائرکٹراردو اکیڈیمی نے اپنے خطاب میں کہاکہ عام طورپر کتابوں کی رسم اجراء میں انہیں بلایا جاتا ہے مگرکتاب کونسی ہے ‘کیا لکھا ہوا ہے وہ پہلے سے انہیں پڑھنے کونہیں ملتا‘صرف وہ نام دیکھ کراندازہ لگالیتے ہیں کہ اس میں کس طرح کامتن ہوگا لیکن آج دواہم کتابوں کا رسم اجراء عمل میں آرہا ہے یہ بہت ہی اہم معلوماتی کتابیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کتابیں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک کتاب ہوتی ہے چھاپنے کی اور دوسری ہوتی ہے چھپانے کی ۔ انہوں نے کہاکہ یہ دونوں کتابوں کواردو اکیڈیمی نے شائع کیا ہے۔پہلے اردو اکیڈیمی مقالوں پرجزوی امداد نہیں دیتی تھی لیکن انہوں نے اردواکیڈیمی کے سکریٹری کے عہدہ کاجائزہ لینے کے بعد اسکالرس کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کوبھی جزوی مالی امداد دینے کومنظوری دی جس کی وجہ سے اس طرح کے تحقیقاتی اورمعلوماتی کتابیں شائع ہوکر اردو کے فروغ کا سبب بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو آرٹس کالج نے فصیح الدین مرحوم کویاد کیا۔ انہوں نے کہاکہ اس شخص نے ہمیشہ سب کی مدد کی ہے اورآج بھی سب ان کویاد کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ریاست الگ ہوجانے سے کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ اردو اوالے ایک خاندان کے لوگ ہیں اورہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ہمارے درمیان میں سے ہی ایک شخص وائس چانسلر کے عہدہ پرفائز ہوا ہے۔ بعدمیں میر ایوب علی خان میڈیا کنسلنٹنٹ مانو نے نسیم سلطانہ کی کتاب’’ ’الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان وادب کا فروغ‘‘پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ صحافت کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے ۔انہوں جرنلزم کورس کی تدریس کا حوالہ دیتے ہوے کہا کہ میں اور ڈاکٹر فضل اللہ مکرم مانو کے صحافت کے کورس کے کلاسیز لیا کرتے تھے تب ہمیں اندازہ ہوا تھا کہ اردو میں صحافت کی کتابیں کس قدر کم ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابستہ ہرشخص کواس کامطالعہ کرنا چاہئے۔اردو کا فلمی دنیا میں کس طرح استعمال ہوا اور اس سے فلموں کوکتنا فائدہ ہوا ہے یہ تمام باتیں اس کتاب کے مطالعہ سے سامنے آئیں گی ۔پرگرام کے اختتام پر منصفین‘ مہمان خصوصی ‘صدر تقریب اور پروفیسر شہ میری صاحب کوتہنیت پیش کی گئی۔ پروگرام میں شہر کی معزز شخصیتوں ‘عثمانیہ یونیورسٹی‘مانو اور حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے اساتدہ ‘سائنسداں‘وکلا‘سوشل ورکرس کے علاوہ ریسرچ اسکالرس کی کثیر تعداد موجود تھی۔ آمنہ بیگم کے اظہار تشکر کے بعد اس شاندار محفل کا اختتام عمل میں آیا۔ اس کے بعد تمام شرکاء کے لئے پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیاگیاتھا۔
——
Mohsin Khan
 رسم اجرا

Share
Share
Share