مرزاہادی رسوا ؔ اور امراؤ جان اداؔ : – عمران عاکف خان

Share
عمران عاکف خان

مرزاہادی رسوا ؔ اور امراؤ جان اداؔ

عمران عاکف خان
تاپتی ہاسٹل ،جواہر لال نہرویونیو رسٹی،
نئی دہلی۔110067
09911657591

1857کے خون آشام ایام میں جب عظیم اور فرخندہ حال ہندستان سمیت لکھنوی تہذیب ٹمٹماتے چراغ کی مانند دم تو ڑرہی تھی اس وقت اس شہر ز رنگار کی حالتِ زار پر آنسو بہانے کے لیے فروری ۱۸۵۸ء میں خزانہ قدرت سے ایک ایسا شخص آیا جس نے لکھنؤ کی زوال پذیر ی پر زیادہ رونے نہیں دیا ورنہ جانے کیا ہوتا۔کتنے دل پھٹتے اور کتنے جگر کٹتے ۔مرزا ہادی رسواؔ اس کا نام تھا اور کام اردو ادب میں امراؤ جان ادا یا لکھنؤ کا رزمیہ جیسا ناول لکھنا۔

یوں تو مرزا رسواؔ نے دوسرے ناول بھی لکھے اور بہت خوب خامہ فرسائی کی مگر 899 1میں شائع ہونے والا ان کا شاہ کار ،نابغۂ روزگار، فن کارانہ لعل وجواہرسے سجا،فنی تکنیک اور مضبوط و زندہ جاوید کر داروں کا گلدستہ ناول ’امراؤ جان ادا‘آسمان ادب عالیہ کاآفتاب وماہتاب بن کر چمکا،نہ صرف یہ بلکہ ’امراؤ جان آدا‘رسوا کی پہچان بن گیا۔اس ناول کی اشاعت کو تادمِ تحریر حالانکہ تقریباً 115؍برس کا طویل عرصہ گزرگیا مگر اب تک اس کے اثرات ذہنوں اور خیالوں پر حکومت کررہے ہیں بلکہ گزران وقت کے ساتھ ساتھ تو اس ناول کی مقبولیت ، اہمیت اور معنویت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ڈاکٹر سنبل نگار لکھتی ہیں :

’’کوئی کتاب اگر اپنے وجود میں آنے کے بعد پچاس سال بعد بھی دل چسپی سے پڑھی جائے تو اسے ادب عالیہ میں شمار کیا جانا چاہیے،امراؤ جان ادا تقریباً ایک صدی پہلے لکھی گئی تھی ۔اس سوسالہ زندگی میں کوئی زمانہ ایسا نہیں آیاجب اس کی مقبولیت کو گہن لگا ہو۔فن کے پارکھوں نے ہر دو رمیں اسے خراج تحسین پیش کیااو ر اعتراف کیا کہ یہ اردو کو پہلا ناول ہے جو فن کی کڑی سے کڑی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔یہی اس کے بقائے دوام کا راز ہے۔‘‘

’امراؤ جان ادا ‘ہمارے اردو ادب کا وہ سرمایۂ عظیم ہے جس کی کہیں کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔جتنی مقبولیت اس ناول کو حاصل ہو ئی اور جس قدر کو اس کو پڑھا گیا یا اس کے اثرات قبول کیے گئے ،ایسا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔مرزا رسوا نے اس شاہ کار ناول میں طوائف کے آئینہ خانے میں 19ویں صدی میں بر صغیر کے سماجی ا ور قومی زوال کے نقوش اس طرح بیان کیے ہیں کہ ایک پورا عہد ہمارے نظروں کے سامنے چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ بقول قاضی عبید الرحمان ہاشمی:

’’امراؤ جان اداؔ کی مقبولیت کا راز اس کی تھیم ہے۔جو اس وقت کا ایک خاص اور دل چسپ موضوع تھا۔‘‘

مرزا رسوا واحد وہ فن کا ر ہیں جنھوں نے سب سے پہلے ناول نگار ی میں البیلا انداز اختیار کیا اور خود مرکزی کر دار سے اس کے احوال پوچھ پوچھ کر لکھے۔جب کہ ان سے پہلے نذیر ،سرشار،شرر وغیرہ کے ناولوں میں یہ تکنیک نہیں ہے۔
’ امراؤ جان ادا‘کے کرداروں کی بات کی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ہم میں سے ہی یا ہمارے آس پاس ہی سے ہوں۔ہمیں ہرگز یہ نہیں لگتا کہ یہ کر د ار رسوا کی ذہنی اختراع ہیں یا ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ناول کا مرکزی کردارامراؤ جان ،ڈاکو فیضو،خانم ،بوا حسینی،خورشید جان ،بسم اللہ جان،گوہر مرزا،کس کس کا ذکر کیا جائے ،سب ہی زندہ جاوید اورجیتے جاگتے کر دار ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ جب یہ ناول شائع ہوا ،لوگ لکھنؤ میں ان کو ڈھونڈتے اور ان کا پتا پوچھتے پھرتے تھے۔جاسوسی ادب کے شہنشاہ ابن صفی کے بعد کردار نگار ی کا یہ ملکہ صرف مرزا رسوا کو ہی حاصل ہے۔اسی بات کو محمد اقبال ایم اے نے اس طرح کہا ہے:

’’ امراؤ جان اداؔ کے کردار بیشتر حقیقت پسندانہ ،دلکش اور زند ہ ہیں ،وہ چند لفظوں میں کردا رکا ظاہر بیان کر تے ہیں پھر تھوڑی دیر میں کر دا ر اپنا باطن خود بھی ظاہرکر دیتا ہے۔‘‘

اس ناول کا پلاٹ اتنا شاندار ہے جس نے اسے ایک مکمل اور یادگار ناول بنا دیا۔تمام کہانی خود امراؤ جان ادا کی زبانی بیان کی گئی ہے۔بات سے بات نکلتی جاتی ہے۔رابطے سے رابطہ ملتا ہے۔زندگی سبک رفتاری سے رواں دواں ہے۔کہیں ہنگامہ خیزی اور کہیں ناگفتہ بہہ حالات سے گزرتی جاتی ہے۔ تقریباً اس میں وہی تمام عوامل و محرکات در آتے ہیں جو ایک بھر پور ،توانااور شاندار زندگی میں ہوتے ہیں ،رنج بھی ہے،خوشی بھی،اپنوں سے بچھڑنے کا رنجور و کبیدہ خاطری بھی ہے اور نئے لوگوں سے مل کر غم بھول جانا بھی،دردربھٹکنا بھی ہے،عصمت و و عفت کے تار تار ہونے کا اندیشہ بھی ،بھوک بھی ہے سیری بھی،رنگین راتیں بھی ہیں اور سیاہ دن بھی۔ان تمام خصوصیات کی بدولت یہ ناول ایک عمارت معلوم ہوتا ہے جسے اینٹ سے اینٹ اور پتھر سے پتھر جوڑ کر بنا یا گیا ہو۔کہیں بھی اس میں رخنہ ،کجی،خلا اور انقطاع رابطہ کا سقم نہیں ہے۔
اسی ناول سے ایک اقتباس ملا حظ کیجیے:

’’سنئے مر زا رسواصاحب!آپ مجھ سے کیا چھیڑ چھیڑ کے پوچھتے ہیں۔مجھ کم نصیب کی سرگزشت میں ایسا کیا مزا ہے جس کے آپ مشتاق ہیں۔ایک ناشاد،نامراد،آوارہ وطن،خانما ں بر باد،ننگ خاندان،عاردوجہاں کے حالات سن کے مجھے ہر گز امید نہیں کہ آپ خوش ہوں ۔
اچھا سنیے او ر اچھی طرح سنیے!
باپ داد ا کا نام لے کر اپنی سرخ روئی جتانے سے فائدہ کیااور سچ تو یہ ہے کہ مجھے یاد بھی نہیں ۔ہاں اتنا جانتی ہوں کہ فیض آباد میں شہر کے کنارے کسی محلے میں میرا گھر تھا…. ‘‘

پورے ناول کایہی اسلوب ہے اور اسی طرح الفاظ کی ڈور بندھتی چلی جاتی ہے۔
دیگر خصوصیات میں مکالمہ نگاری،ادبیت،اشعار کے بر محل اور بر جستہ استعمال میں مصنف نے فن کار ی کازبردست مظاہر ہ کیا ہے نیز ہر کردار سے ایسے مکالمے اداکر ائے ہیں جو بالکل فطری اور حقیقت سے بہت قریب ہیں چنانچہ ہمیں قدم قدم پریہ اعتراف کر نا ہوتا ہے کہ واقعی یہاں یہی کہنا چاہیے تھا۔یا یہی الفاظ اس بات کو ادا کر سکتے تھے۔
مکالمہ نگاری اور کا انداز ملا حظہ کیجیے:

’’رسوا:کچھ تو فائدہ ہے جو اصرار کر کے پوچھتا ہوں ۔اگر آپ خواندہ نہ ہوتیں تو آپ کے یہ سب عذر قابل سماعت ہوتے۔پڑھے لکھوں کو ایسی شرم نہیں چاہیے۔
امراؤ: اوئی!تو کیا پڑھنے سے آنکھوں کا پانی ڈھل جاتا ہے؟یہ آپ نے خوب کہی۔
رسوا:اچھا اچھا تو آپ کہیے،فضول باتوں میں میر اوقت ضائع نہ کیجیے۔
امراؤ:کہیں کسی اخبار میں نہ چھپواد یجیے گا۔
رسوا:اور آپ کیا سمجھیں؟
امراؤ:ہا ئے فضیحت! تو بہ کیجیے،مجھے بھی آپ اپنی طرح رسوا کر یں گے۔
رسوا :خیر اگر میرے ساتھ آپ رسوا ہوں گی توکو ئی قباحت نہیں
رسوا سے کیوں ملے ہو محبت جتا کے تم
چھوڑوں گا اب نہ میں تمھیں رسوا کیے بغیر

ناول کی اسی خصوصیت کا تذکرہ کرتے ہو ئے قاضی عبید الرحمان ہاشمی لکھتے ہیں:

’’رسوا نے فلسفیانہ فکر ،نفسیاتی تجزیہ،ادبی اور شاعرانہ ذوق اور فنی حسن ترتیب سے اس ناول میں اس طرح کام لیا ہے کہ خود ناول کا فن گہرائی،لطافت ،نزاکت و ہمہ گیریوں کی بلندیوں تک پہنچ گیا….‘‘

’امراؤ جان ادا‘ کا آغاز وانجام ناول کی اصل جان ہے،مرزا سوا نے جس انداز سے اسے پیش کیا ہے کہ اس کی ان سے ہی امید ہو سکتی تھی۔امراؤ جان جب ’امیرن‘تھی،اس کا گھرفیض آباد کے باہری حصوں میں سے کسی جگہ تھا،آس پاس کچے پکے اور کھپریلی مکانات تھے،محلے کے لوگوں میں آپسی چپقلش اور دشمنی اور دلاورخاں کی امیرن کے باپ سے عداوت تھی،جس کی گاز امیرن پر پڑتی ہے اور اسے بالآخر ’ لکھنؤ کے بازار ‘میں بیچ دیا جاتا ہے۔ جہاں سے اس کی زندگی کابظاہر خوشگوار مگر دردناک انجام کا آغاز ہوتا ہے،دردناک اس لیے چونکہ امراؤ جان نے ایک طوائف بن جانے کے باوجود بھی اپنے احساس و ضمیر کو زندہ رکھا تھا ۔مرزا رسوا نے ان تمام پہلوؤں پربھر پور روشنی ڈالی گئی ہے۔
طنزو مزاح اور ظرافت کی چاشنی بھی اس ناول کی اہم خصوصیت ہے۔مرزا رسوا سے امراؤ جان کی نونک جھونک اور مرزا کی امراؤ پر پھبتی کسنا بعض جگہ پر لطف ہوجاتاہے۔بعض کر داروں کا حلیہ مرزا نے اس طرح بیان کیا ہے کہ بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔اس وصف نے بھی اس ناول کو اور پر لطف بنا دیا۔نیزاس ناول کا انداز بیان نہایت سلیس اور عام فہم ہے،آسان طرز نگارش نے اس کا حسن دوبالا کر دیا ہے۔ پرو فیسرخورشید الاسلام ایک جگہ ناول کے اسی پہلو پر گفتگو کر تے ہو ئے اپنے مضمون ’امراؤ جان ادا‘کہتے ہیں:

’’مرزا رسوا نے ’امراؤ جان ادا‘کو اس پیرائے میں بیان کیا ہے کہ اس کا کوئی راز باقی نہیں رہا ،اسے پڑھتے ہوئے نہ ہی تجسس کی کوئی اونچی لہر اٹھتی ہے اور نہ ہمیں اس بات کی توقع ہوتی ہے کہ آئندہ چل کر اس کی زندگی میں ایسے انکشافات آئیں گے جو ہماری تسکین کا باعث اور تحیر کا سامان ہوں گے۔‘‘

ناول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں شہر لکھنؤ،لکھنوی تہذیب،لکھنؤکی سیاست اورلکھنؤ و اطراف لکھنؤکی معاشرت پوری طرح سانس لیتی نظر آتی ہے۔اسی طرح اس میں زندگی کے بارے میں ایک جچا تلا فلسفہ ملتا ہے جو اس کو جہان ناول میں ایک انفرادی شان بخشتا ہے۔چو نکہ اس میں مرزا رسوا نے خود اپنا فلسفہ اور نظریہ پیش کیا ہے۔
ان تمام خصوصیات سے بھی بڑی خاصیت اس ناول کی یہ ہے اس میں اصلاحی مواقع اور پہلوؤں کو بالکل نظر انداز نہیں کیا گیا بلکہ خود امراؤ جان ادا کی زبانی اخروی و دینی امور کے متعلق ایسے ایسے ایمان افروز فقرے ادا کرائے گئے ہیں کہ شیخ بھی کیاادا کرے گا۔ طویل طویل اقتباسات رسوانے اس کی خاطر رقم کیے ہیں ،ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ناول کے بجائے یہ کو ئی اصلاحی کتا ب ہے۔
خلاصۃ الکلام یہ کہ امراؤ جان کا قصہ ہی بذات خودغم انگیز اور افسوس ناکہ ہے مگر اس پر دوبالا مضبوط فکر ،عالی ادب،زندہ و جاوید کرداروں کی تخلیق،شاندار پلاٹ ،طنزو مزاح اور ظرافت ،اشعار و ابیات کے بر وقت و بر محل استعمال نیز اصلاحی پہلوؤں کے بیان نے اس ناول کو مرزا رسوا کا شاہ کار کارنامہ بنادیا جسے رہتی دنیا تک سلام کیا جائے گااور اس کی مدح و ثنا میں صفحات کے صفحات میں موتی پروئے جائیں گے۔
——-
مآخذ ومراجع
سنبل نگار :اردو نثر کا تنقیدی مطالعہ۔ایجوکیشنل بک ہاؤس Oعلی گڑھ ۔ص:۱۰۹۔۱۱۰
قاضی عبد الرحمان ہاشمی :میراث ہنر۔فخرالدین علی احمد میموریل،لکھنؤ۔ص:۵۳
محمد اقبال ایم اے:مرزا رسوا۔حیات اور فن۔اعجاز پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی۔ص:۹۔۱۰
مرزا ہادی رسوا:امراؤ جان ادا۔ایجوکیشنل بک ہاؤس Oعلی گڑھ ۔ص:۵۷

Share
Share
Share