طنز و مزاح : میرا کمپیوٹر : – سید عارف مصطفیٰ

Share


طنز و مزاح : میرا کمپیوٹر

سید عارف مصطفیٰ
کراچی

یہ جو آجکل میں تلملایا سا رہتا ہوں اسکی زیادہ ذمہ داری نہ تو میری اہلیہ پر ہے نہ بچوں پر اور نہ ہی امریکا روس یا نواز شریف، زرداری و الطاف حسین پر، بلکہ اسکی وجہءخاص میرا کپیوٹر ہے – حاسدوں کا گمان ہے کہ کمپیوٹر کی ایجاد کے وقت جو دو چار نمونے بنے تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے، کوئی 20 برس پہلےجب میں نے اسے لیا تھا تب اچھی طرح چیک نہیں کرسکا تھا، کیونکہ دکاندار اسے خریدتے وقت پیہم میری قسمت پہ رشک کیئے جا رہا تھا اور اسکی بار بار کی تحسین سے میں اک حالت سرور میں پہنچا ہوا تھا،اس وقت مناسب پڑتال نہ کرسکنے کے باعث میں ان حاسدوں کے دعوے کو اب یکسر مسترد بھی نہیں کرسکتا-

چند برس تک تو اس نےعاجزی دکھائی اور کوئی زیادہ کام نہیں نکالا— لیکن اس کے بعد سےتو کمپیوٹر کی مرمت کرنے والے بھائی مشتاق کے پاس آوت جاوت لگی ہی ہوئی ہے کبھی تو یہ وقفہ بہت کم رہ جاتا ہے جسے میرے گھر والے ٹیکنیکل جلاب کا نام دیتے ہیں —
اب تو گزشتہ کچھ عرصے سے یہ جب بھی مرمت کو گیا ہے ، یوں لگتا ہے کہ گویا مرمت میری ہوئی ہے۔۔۔ بدگمانی ہے کہ اس کے اعضائے رئیسہ میں سے ہربار چند کام کی چیزیں کھینچ لی جاتی ہیں اور باقی تاریخی اعضا کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا حالانکہ اسے چوری کی بھرپور پروفیشنل اور جامع نیت سے چیک کیا جائے تو اب بھی اس میں چند ایسے قابل لحاظ پرزے پناہ گزین ہیں جو چور کے ساتھ جانے کو بےتاب ہونگے— ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ جب بھی مرمت کو جاتا ہے ایک دو نئے پرزے لگوائے بنا واپس نہیں آتا ، کاریگر کہتا ہے پہلے والے پرزے تو محض اخلاقی سہارے کیلئیے ہیں ،، ورنہ تو بقول شاعر — یہ کشتی خداکے سہارے چلی جارہی ہے— یا پھر کسی حد تک اسکی کارکردگی کا انحصار ان نئے پرزوں پر ہے،،، لیکن میں بھی کوئی دیوانہ ہوں کہ ایسی گمراہ کن باتوں پہ یقین کرلوں —
پہلے تو میں اسے برائےمرمت مشتاق کی دکان پہ خود لے کر جاتا تھا مگر اب وہ مرمت اور مذمت دونوں ساتھ ساتھ کرتا ہے اور یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ زیادہ طاق کس میں ہے۔۔۔ وہ ہر بار یہ بتانا بھی نہیں بھولتا کہ ابتک کی مرمت کے پیسوں سے میں ایسے کتنے اور عجوبے خرید سکتا تھا۔۔۔ اسی طرح بیگم بھی پرانی چیزوں سے جان چھڑانے کا مفت مشورہ دینے کو بیتاب رہتی تھیں، لیکن ایک دن جب میں نے بڑے رسان سے انہیں یہ باور کرایا کہ اگر ایک بار مجھے پرانی چیزوں سے جان چھڑانے کا چسکہ لگ گیا تو پھر نجانے اسکی ذد میں کیا کیا نہ آجائے گا، بس تبھی سے اس رات دن کے مشورے سے افاقہ ہے۔۔ .! … مشتاق بھی یہ سب کہتا ضرور ہے لیکن اسے بھی واضح طور پر اس مشین سے دیرینہ وابستگی کی بنا پر کچھ انسیت سی ہو چلی ہے۔۔ اسی لیئے اگر مجھے کبھی اسکی دکان کا رخ کیئے زیادہ دن ہوجائیں تو کبھی ملنے کو بھی آجاتا ہے اور مجھ سے زیادہ کمپیوٹر کی خیریت دریافت کرتا ہے—
میرا یہ تاریخی کمپیوٹر بننے کو لیجایا جاتا ہے تو بار بار کی مرمت کے سبب اب خجالت آمیز پردہ داری سے کسی اور کے سنگ دعاؤں کے جلو میں رخصت کرتا ہوں میری اہلیہ کی بد گمانی ہر بار یہی ہوتی ہے کہ ابکے واپس نہ آئیگا اور آخری ہچکی کے بعد وہیں دفنایا جائیگا۔۔۔ مگر ہر بار اسکی مناسب رفو گری اسکی مجھ سے رفاقت کی مدت بڑھائے جاتی ہے۔۔۔ اس کمپیوٹر کے ساتھ میری دیرینہ وابستگی نہ ہوتی تو اسے کب کا پھیری والے کے حوالے کرچکا ہوتا جو اس مقصد کے لیئے پہلے بہت چکر لگاتا تھا ،، اور ہر بارمیرے انکار پہ اسکی شان میں جاتے جاتے ایسی ایسی گستاخیاں کربیٹھتا تھا اور ملاحیاں سناتھا کہ میرا خون کھول کھول اٹھتا تھا ۔۔۔ اور پھر میں اسکے جاتے ساتھ اک بارگی یہ بھول جاتا تھا کہ مجھے ایک شریف آدمی سمجھا جاتا ہے— لیکن اب تو پھیری والے نے بھی آنکھیں پھیر لی ہیں اور وہ میرے گھر کے سامنے سے یوں ساکت و بے آواز گزرتا ہے جیسے کسی مردہ خانے یا قبرستان کے پاس سے گزر رہا ہو،،،
جہانتک بات کمیوٹر کی کارکردگی کی ہے وہ بتائے نہ بنے اور چھپائے بھی نہ بنے، کیونکہ عین اس وقت سب کچھ اسکرین سے لاپتا ہوجاتا ہے کہ جب بیحد مطلوب ہو ، رک رک کے چلتا ہے اور چل چل کے رکتا ہے، یوں بجلی اور خون ایک ساتھ پیتا ہے، جب رواں ہوتا ہے تو اسقدر دھیمی چال سے کہ اس دوران آپ کئی دیگر بکھیڑے بھی ساتھ ساتھ نمٹا سکتے ہیں ، بہت سے سپر ایکسپریس کمپیوٹروں کے زمانے میں یہ گویا اک کمپیوٹرانہ مال گاڑی ہے، ویسے تو یہ جلد بازی کی تاب نہیں رکھتا لیکن اکثر گوہر مراد جب ہاتھ آنے کے قریب ہو تو یکایک اک عجب سی ہڑبڑاہٹ کے ساتھ بند ہوجاتا ہے۔۔۔ گویا "ان بلٹ” احتسابی صلاحیتوں کا بھی حامل ہے
مرے کومارے شاہ مدار، یہ کہ ہم نے جو نیٹ کیبل لگوایا ہے وہ انہی اوصاف سے معمور ہے، دونوں کی حرمزدگی میں بلا کا اتفاق ہے۔۔۔ زیادہ ترباری باری مائل بہ سرکشی رہتے ہیں ،،، ایک حاضر ملتا ہے تو دوسرا مفقود، دونوں کی رفتار ایسی ہے کہ ابتدائی ریلوے کےمعلوم ہوتے ہیں۔۔ اک ذرا کہیں ابر چھاجائے اور بجلی کوند جائے تو نیٹ سروس ڈرکرکیبل سے دفعتاً کود جاتی ہے۔۔۔ اور اگرنوبت بارش کی ہو تو پھر تو معاملہ ” تیرے دوٹکیا کی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے” تک جا پہنچتا ہے، ساون میں ہم اور کچھ نہیں کرتے محض کیبل والے اور بھائی مشتاق کو یاد کرتے رہتے ہیں ، گو اس سرمئی رومانویت میں انکی یاد آنا انتہائی ناموزوں ہے ، یہ یورپی معاشرہ نہیں،،، ساون میں مردوں کو یاد کرنا مشرق میں خاصا معیوب ہےاورمعروف شریفوں کا شیوہ نہیں — ویسے ہمارا کمپیوٹر اپنی بیماریوں کیلیئے اک ساون ہی پہ انحصار نہیں کرتا بلکہ بارہ مہینے دستیاب رہتا ہے،،، کبھی کبھی جب یہ بھائی مشتاق کی دکان پہ زیادہ طویل استراحت کرتا ہے تو اک ہم ہی نہیں کئی اور بھی ہمیں مانگ اجڑی سہاگن جیسا محسوس کرنے لگتے ہیں ،، یا مریل مردانہ محاورے سے کہیں تو اک عجیب رنڈاپا سا ہر طرف چھایا ہوا محسوس کرتے ہیں۔۔۔
بات یہ نہیں کہ ہم کوئی دوسرا کمپیوٹر خریدنے کے متحمل نہیں، لیکن اس کے ساتھ ِبتائی ہوئی ہماری جوانی کے آخری دن تو ہماری سنہری یادوں کا سرمایہ ہیں ، ہمیں اس پہ کیسے کیسے پیغام ہمیں ملے ہیں کہ بس نہ پوچھیئے،،، اک آگ سی لگ جائے پانی میں،،،، یہ سب یادگار ہے گویا اور اسی سبب یہ دل فگار ہے گویا،،، پھر یہ کہ یہ بہت سی کہی ان کہی کا رازدار بھی تو ہے ، اور اسی سبب اس سے اتنا پیار بھی تو ہے،،،جو شب بیداریاں عابد و زاہد لوگ کیسے کیسے وعظ سنا کر نہ کراسکے، وہ سب اسکے سبب ہوئیں ، کتنی خوبصورت گھڑیاں ، جو کسی اور کو نصیب ہونی تھیں ، بسر اسی کے سنگ ہوئیں۔۔۔ پھر اک وصف اس میں اور ہے کہ آپ مان جائینگے،، شاید اسی کے سبب ہم سیدھے سبھاؤ جنت میں جائینگے۔۔۔ کیونکہ اس کے ہاتھوں ہم نے اکثر صبر و استقامت کا بہت کڑا درس پایا ہے۔۔۔ بس یوں سمجھیئے کہ صابرین کے سنگ، داخِلِ جنت ہونے کا زبردست نسخہ ہاتھ آیا ہے-
——-
S. Arif Mustafa

Share
Share
Share