صحافت کی تعریف :- انوار الحق مغل

Share
انوار الحق مغل

صحافت کی تعریف

انوار الحق مغل

صحافت یہ عربی زبان سے نکلاہوا لفظ ہے جس کی اصل صحیفہ اورصحف ہے جس کے لفظی معنی کتاب اور جریدہ(اخبار/رسالہ) کے آتے ہیں اردو میں بھی بعض مرتبہ صحافت کیلئے صحیفہ نگاری کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔صحافت کی تعریف ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں بیان کی ہے ۔جامعہ عثمانیہ حیدر آباد انڈیا کے سابق چیئرپرسن بورڈ آف اسٹڈیز ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم لکھتے ہیں’’صحافت کی جامع تعریف بیان کرنا مشکل کام ہے۔

کچھ صحافیوں اور اساتذہ نے صحافت کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ مختلف انسکائیکلوپیڈیا میں بھی صحافت کی تعریف یا مفہوم درج ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں صحافت کے معنی اس طرح دیئے گئے ہیں۔ ’’جدید عربی میں اخبار کے لئے ’’جریدہ‘‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ اس کا مترادف صحیفہ ہے جو بصورت واحد کم استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی جمع ’’صحف‘‘ کا استعمال جرائد کی بہ نسبت عام ہے۔‘‘اردو انسائیکلوپیڈیا (جلد سوم) میں صحافت کا مفہوم یوں درج ہے:۔’’اخبارات و رسائل اور خبر رساں اداروں کے لئے خبروں اور خبروں پر تبصروں وغیرہ کی تیاری کو صحافت کا نام دیا جاتا ہے ‘‘۔
معروف کالم نگار مفتی ابولبابہ شاہ منصور اپنی کتاب تحریر کیسے سیکھیں میں صحافت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ’’صحیفہ (صحافت) سے مراد ایسا شائع شدہ مواد ہے جو وقفے سے شائع ہوتا ہے ، اس لئے تمام اخبار اور رسالے اس تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ آج کے دور میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے ذرائع ابلاغ پر بھی چونکہ خبریں نشر ہوتی ہیں اس لیے صحافت کیلئے لفظ ’’ابلاغیات‘‘ بھی استعمال ہونے لگاہے‘‘۔
یوں تو صحافت کی تاریخ کئی صدیوں پرانی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس شعبے نے شہرت کی بلندیوں پر گویا ڈیرے ہی ڈال دیئے ہیں۔خصوصاً موجودہ دور کو زبان زد عام میں میڈیا(صحافت) کادور کہا جاتا ہے عوام ہوں یا خواص ہر ایک ہی میڈیا پر تکیہ لگائے نظر آتا ہے کسی اخبار یا ٹی وی چینل پر خبر یا رپورٹ کے شائع ہونے کودلیل کی حیثیت دی جاتی ہے ناصرف یہ بلکہ ریاست کا سائبان جن چار بڑے ستونوں پر قائم قرار دیا جاتا ہے ان میں ایک ستون شعبہ صحافت بھی گردانا گیا ہے جس سے اس شعبے کی قدرومنزلت اور اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
صحافت سے وابستہ فرد کو صحافی کا نام دیا جاتا ہے جس کا کام معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو ختم کرنے اور اصلاح معاشرہ کیلئے کردار ادا کرنے میں اپنی توانیاں صرف کرناہوتا ہے۔صحافی کو معاشرے کی آنکھ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ صحافی کا قلم،زبان اور کیمرہ وہی لکھتا ، بولتااور دکھاتا ہے جو معاشرے میں نظر آرہا ہوتا ہے۔صحافی کو عوام کی آواز سمجھا جاتا ہے کیونکہ بلند وبالا عمارتوں کے بیچ میں آسائشوں میں زندگی بسر کرنے والے اصحاب اقتدار اورحکام بالا عوام کی زبوں حالی اور مسائل سے نابلد ہوتے ہیں یہی صحافی کے قلم ، زبان اورکیمرہ ہوتے ہیں جو ان بند کمروں میں عوام کی آواز بن کر داخل ہوتے ہیں ۔صحافی ریاست اوروطن کا خیر خواہ ہوتا ہے جان ہتھیلی میں رکھ کر ریاست کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کی بروقت نشاندہی کرنا صحافی کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے انہی باتوں کی بنیاد پر مولانا عبدالکلام آزاد مرحوم صحافت کے میدان میں نکلے تھے ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم ان کی بات نقل کرتے ہیں کہ’’ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لئے نہیں بلکہ تلاش زیاں و نقصان میں آئے ہیں۔ صلہ و تحسین کے لئے نہیں بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں۔ عیش کے پھول نہیں بلکہ خلش و اضطراب کے کانٹے ڈھونڈھتے ہیں‘‘۔
میرے استاد محترم ظہیر کتانوی صحافی کے کردار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’جب صحافت صحیفہ سے مشتق ہے تو یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ صحیفہ کسے کہتے ہیں تو وہ فرماتے ہیں کہ صحیفہ یہ خدا کا پیغام ہے جو فرشتہ خدا تعالیٰ سے حاصل کرکے نبیوں تک پہنچا تا تھا اورصحافی کا کام بھی خبرایک طرف سے دوسری طرف پہنچانا ہوتا ہے تو جب صحافی اور فرشتے کے مابین مماثلت سی پیدا ہوگئی ہے تو اس بات سے ایک نکتہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صحافی کو چاہیے کہ فرشتے کی طرح پیغام کو ٹھیک طرح سے پہنچایا اس میں رد وبدل نہ کرے ۔دوسرا اپنا کردار فرشتے کی طرح صاف رکھے‘‘۔
مگر افسوس کا مقام ہے کہ عصرحاضر میں جب ہم مشاہدہ کرتے ہیں تو صحافت سے وابستہ طبقے میں ان باتوں کا شدیدفقدان نظر آتا ہے۔ نہ تو وہ سوچ سلامت ہے جس کے بل بوتے پر پہلے صحافت ہوتی تھی نہ صحافی کیلئے وضع کیے گئے اصولوں پر عملدرآمد ہوتا نظر آتا ہے۔ زمانے کی جدت نے سوچ وفکر بھی تبدیل کردیئے ہیں پہلے صحافت کو خدمت تصور کیا جاتا تھا اب صحافت فیشن اور کاروباربننے لگی ہے۔جس کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کی معروف دینی یونیورسٹی جامعۃ الرشید کراچی کے بانی حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ نے صحافت کو اس کے اصل مقصد پر واپس لانے کیلئے کوشش کی اور اسلام اخبارکی صورت میں ایک مذہبی پہچان کا حامل روزنامہ متعارف کروایا جوگزشتہ دو عشروں سے تسلسل کے ساتھ ملک بھر میں شائع ہورہا ہے ۔
مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کا لگایا ہوا گلشن جامعۃ الرشید ان کی وفات کے بعد مفتی عبد الرحیم کی زیر ادارت دن دگنی رات چگنی ترقیات حاصل کررہا ہے جامعۃ الرشیددرس وتدریس کی خدمات کے ساتھ صحافتی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی ایک شناسائی حاصل کرچکا ہے اہلیان کراچی کی خوش قسمتی ہے کہ جامعۃ الرشید میں صحافتی حوالے سے ہونے والے کورسز سے بہرمند ہوسکتے ہیں لیکن ملک کے دوسرے حصوں میں بسنے والے فقط آہیں ہی بھرتے رہ جاتے ہیں ۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال راولپنڈی میں پہلی مرتبہ اسلامک رائٹرز فورم کے زیر اہتمام مدارس کی سالانہ چھٹیوں میں مدارس کے طلباء کیلئے راولپنڈی پریس کلب کے قریب اسلامیہ مسجد میں پندرہ روز پر مشتمل مختصر صحافت کورس کا انعقاد کیا جارہا ہے اس امید کے ساتھ کہ
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

Share
Share
Share