حضرت فصاحت جنگ جلیلؔ مانک پوری : – حلیم بابرؔ

Share


نامور استاد وشاعر :
حضرت فصاحت جنگ جلیلؔ مانک پوری

حلیم بابرؔ
محبوب نگر ۔ تلنگانہ

ایک جلیل القدر ‘ممتاز ونامور استاد شاعر کی حیثیت سے حضرت جلیل مانک پوری کانام بڑی قدر ومنزلت سے لیاجاتا ہے۔ ضلع پرتاب گڑھ یوپی کے قصبہ مانک پور کے متوطن تھے۔ حضرت جلیل مانک پوری 1862ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت جلیل نے کم سنی میں ہی قرآن حفظ کیا۔ آپ نے اُردو اور فارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔حضرت جلیل کوبچپن سے ہی شعر گوئی سے بڑی رغبت رہی۔ چناں چہ وہ کم عمری میں ہی مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے۔

جب جلیل تعلیم کے سلسلہ میں لکھنو روانہ ہوئے تب وہاں پرحضرات امیر مینائی کا ایک بلند مقام تھا۔ امیر کی نازک خیالی ‘معنی آفرینی اور قدرت کلام کی وجہ وہ ایک بلند عظیم المرتبت شاعر کی حیثیت سے جانے لگے۔ شروع شروع میں حضرت جلیل نے اپنا کلام بغیر اصلاح مشاعروں میں سنایا کرتے تھے۔ ویسے یہ کلام بھی اس معیار کا ہوتاتھا کہ اس کواصلاح کی کوئی خاص ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔مگرپھربھی آپ نے حضرت امیر مینائی کے آگے زانوے ادب طے کیا۔حضرت جلیل ؔ کے کلام کوامیرمینائی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھاکرتے۔حضرت امیر مینائی نے لکھنو میں دفترامیر الغات قائم کیا۔ جب امیر مینائی کی نظر جوہر شناس اپنے شاگر دحضرت جلیل پرپڑی توانہو ں نے جلیل ؔ سے خواہش کی کہ وہ دفترامیر الغات سنبھال لیں۔ مگرحضرت جلیل ؔ کی یہ مجبوری تھی کہ ان کے والد ضعیف تھے اورانہیں چھوڑکرجانا مشکل تھا۔ مگراستاد محترم کے احترام میں حضرت جلیل نے والد بزرگوار سے اجازت حاصل کی اور رامپور روانہ ہوئے۔
والیان رام پور کو شعر وسخن کی محفلیں بہت عزیز تھیں۔ انہو ں نے عالموں سے محفلیں سجائے رکھی تھیں ۔ مرزا داغ ؔ دہلوی اس وقت تک رامپور چھوڑ چکے تھے۔ اس طرح کی ادبی وشعری صحبتوں میں جلیل ؔ کے ذوق شاعری نے بڑی مقبولیت وشہرت حاصل کی۔ حضرت امیر مینائی نے جلیل کے کلام کو بے حد سراہا۔ حضرت جلیل کے والد کا انتقال1897 ؁ء میں ہوا۔ حضرت امیرمینائی کے شاگردوں میں جلیل حسن کوبڑی اہمیت حاصل تھی۔ آپ کے مرصع کلام کے پیش نظر حضرت نے آپ کو فارغ الاصلاح قراردیاتھا۔
حضرت جلیل ؔ نے بڑی محنت ولگن کے ساتھ امیر اللغات کی اشاعت عمل میں لائی۔ مگر اس کام کی تکمیل میں ہزاروں روپیوں کا قرض ہوگیا۔ اس طرح حضرت امیر مینائی اور جلیل ؔ کے پیش نظر کئی مسائل اٹھ کھڑے ہوئے جس کو نمٹنا بہت مشکل ثابت ہورہاتھا۔ بہرحال حالات کچھ اس طرح سے سنبھلے کہ نواب حامد علی خاں وارثی رامپورر نے اس کام کی تکمیل میں رقمی تعاون کیا۔ امیر اللغا ت کاکام کٹھن مرحلوں سے گزر رہاتھا ۔ان حالات میں حضرت امیر کی فکر ونظر میں دومقامات بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ ایک بھوپال ‘دوسرا ریاست حیدرآباد جہاں کچھ امیدوارو ں کا سلسلہ قائم کیاجاسکتاتھا۔بھوپال میں نواب شاہجاں بیگم والیہ ریاست تھیں۔ جن کاتخلص تاجور ؔ تھا۔ وہاں کی محفلوں میں حضرت جلیل ؔ شرکت کیا کرتے تھے۔ والی دکن میر محبوب علی خان آصف جاہ شاعر تھے تخلص آصف کیا کرتے تھے وہ حضرت امیر کی شاعری کے مداح تھے جب 1899میں شاہ آصف کلکتہ تشریف لے گئے توحضرت امیر کو اطلاع دی گئی کہ اعلیٰ حضرت کلکتہ سے واپسی پربنارس میں قیام کریں گے۔
چنانچہ حضرت امیر ؔ نے حضرت جلیل ؔ کوبھی سفر میں ساتھ رکھا۔ استاد شاہ مرزا داغ ؔ دہلوی بھی آصف جاہ کے ساتھ تھے اس طرح سے حضرت جلیل اور داغ کی پہلی ملاقات بنارس میں ہوئی۔ شاہ آصف نے خواہش کی کہ وہ ان کے ساتھ حیدرآباد چلیں چنانچہ حضرت امیر مینائی نے حیدرآباد کا ارادہ کیا اس طرح اس سفر میں ان کے ہمراہ فرزند لطیف احمد‘اختر منیاس‘مسعود احمدمنیاس‘ ضمیر منیاس‘ دبرارزادہ لیاقت حسین مینائی اورجلیل بھی تھے۔ حیدرآباد کے قیام کے دوران حضرت امیر علیل ہوگئے اس طرح اس علالت میں وہ ایک ماہ کے اندر انتقال کرگئے۔ درگاہ یوسفینؒ حیدرآباد تدفین عمل میں آئی۔ اس سانحہ کے بعدجلیل ؔ پرقیامت جیسی آگئی۔ جلیل کے ہمت واستقلال نے حیدرآباد کے میں رہنے کوترجیح دی جب کہ امیر منیاس کے لڑکے اور برار زادہ نے واپسی کا ارادہ کیا اور چلے گئے۔ حضرت جلیل نے محلہ افصل گنج میں کرایہ کے مکان میں سکونت اختیار کی۔ حضرت امیر منیاس کے انتقال کے بعد ان کے جانشین بننے کے لئے کئی شاگر دمتمنی تھے۔ مگر ان تمام شاگردوں میں حضرت جلیل ؔ کا نام سرفہرست تھا۔ بہرحال آپ کی صلاحیتیں اور شعری بلندیوں کے پیش نظر انہیں جانشینی کی سعادت نصیب ہوئی اس زمانہ میں حیدرآباد کی ادبی دنیا وشعری فضا کے خوب چرچے تھے۔
شاہان بیجاپور گولکنڈہ شعر وسخن کے مرکز سمجھے جاتے تھے۔نظام علی خاں وارث سلطنت ہونے کے بعد یہاں کی علمی وادبی سرگرمیوں کے بھی وارث کا درجہ رکھے تھے۔ اس روز کے نمایاں نامور شخصیتیں مولوی چراغ علی‘ سید حسین بلگرامی‘ میر مہدی ‘مولوی نذیراحمد‘ سید علی بلگرامی‘ عزیز مرزا اور مشتاق حسین وغیرہ حیدرآباد آچکے تھے اور ان کے فیض سے مولانا شبلی نعمانی‘ مولانا عبدالحلیم شرر‘مولوی عبدالحق‘ مولانا حالی مستفید ہورہے تھے۔ مرزا داغؔ دہلوی فصیح الملک کا لقب پاکر استادِ شاہ بن چکے تھے ان کے علاوہ پنڈت رتن ناتھ سرشار‘نظم طباطبای اصغر دہلوی ‘بے نظیر وارثی ‘راز دہلوی ‘ سائل دہلوی اشک لکھنوی‘ عبداللہ خاں ‘ضعیم لکھنوی‘ نادر علی برتر‘ نادان دہولی‘ درگا پرشاد ذکا‘ فروع لکھنوی ایوان دکن میں ستاروں کی مانند جگمگارہے تھے اور اس طرح شعر وشاعری بڑی روح پرتھی ۔ ان حالات میں جلیل ؔ حیدرآباد چھوڑ کر وطن جانا نہیں چاہتے تھے چنانچہ مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ نے حضرت جلیل ؔ کی سرپرستی کی اس طرح جلیلؔ یہیں کے ہورہے ۔
ان دنوں حیدرآباد میں مشاعروں کا بہت زور تھا جس میں قابل ذکر درگاہ شمس الدین فیضؔ کے سالانہ مشاعرے ابراہیم خاں تجلی کے مشاعرے عبداللہ خاں ضمیم کے مشاعرے ‘منیر الدین جمعدار کے مشاعرے اورمہاراجہ کشن پرشاد کے مشاعرے ہیں۔ دکن کے پہلے مشاعرے میں حضرت جلیل ؔ نے شرکت کی جو طرحی تھا۔ یہ مشاعرہ حضرت فیض سے معنون تھا ۔14؍رجب المرجب 1318ھ مطابق 1900ء کے اس منعقد مشاعرے میں قابل ذکر شعراء نواب آصف الملک کشن پرشاد‘ رتن ناتھ سرشار، سید کاظم حسین کے علاوہ کئی اورنامور شعراء نے شرکت کی۔ حضرت جلیلؔ کانام جب رتن ناتھ نے مشاعرہ میں پکارا اورجب جلیل ؔ نے غزل شروع کی توسب ہمہ تن گوش ہوگئے۔ دکن کی سرزمین پرجلیل ؔ کی پہلی غزل تھی جس کا مطلع یوں تھا ؂
اب کون پھر کے جائے تری جلوہ گاہ سے
اے شوخ چشم پھونک دے برق نگاہ سے
اس کے علاوہ غزل کے کئی اشعار اور تحسین کے مستحق قرار دیئے گئے۔ میر محبوب علی خاں بادشاہ خود مصرعہ تجویز کرتے تھے۔ اس مشاعرے میں پہلی مرتبہ مرزا داغؔ اورجلیلؔ دونوں شریک تھے جلیل ؔ کی غزل نے کافی داد حاصل کی جس کامطلع حضرت جلیل ؔ کی پہچان بنارہا۔ اس طرح حضرت جلیلؔ کی شاعری کو چار چاند لگ گئے تھے ۔مہاراجہ کشن پرشاد حضرت جلیلؔ سے اصلاح لینے لگے۔
1913 ؁ء میں جب ملک معظم ایڈورڈ ہفتم کی تاج پوشی ہوئی تواس میں شرکت کے لئے مہاراجہ کشن پرشاد نے حضرت جلیلؔ کوبھی اپنے ساتھ رکھا۔ دوران سفر حضرت جلیلؔ نے شکر گزاری کے طورپرچند قطعات مہاراجہ کی نذر کئے جوبڑے متاثرکن تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد نے محبوب علی خان والی دکن کی جشن جوبلی کے موقع پرایک شاندار مشاعرہ منعقدکیا۔ یہ وہ مشاعرہ تھا جس میں شاہ دکن نے پہلی مرتبہ جلیلؔ کودیکھا اورکلام سن کر بے حد خوش ہوئے‘اوراعزازات سے نوازا۔ ان ہی صلاحیتوں کی بنا جلیلؔ کو’’ جلیل ؔ القدر‘‘ کے لقب سے نوازگیا ۔اس کے بعدحالات نے گردش اختیار کی۔28؍ستمبر1908 ؁ء میں موسیٰ ندی میں طغیانی آئی۔ حضرت جلیلؔ اور اختر منیاس نے اپنا گھر چھوڑ ا اور سدی عنبر بازار تک پہنچے ہی تھی کہ نواب عزیز بہارجنگ اس ہنگامہ میں مل گئے اور اس طرح سیلاب سے بچتے بچاتے جب گھرپہنچے تو سب کچھ سیلاب کی نذر ہوچکا تھا۔ ان حالات میں حضرت جلیلؔ دیوڑھی منتقل ہوگئے ۔مرزا داغ ؔ دہلوی کے انتقال کے بعد نواب میرحبوب علی خاں نے کسی سے بھی مشورے سخن نہیں کیا۔ لیکن بہر حال جلیلؔ کے استادانہ کلام نے شاہ کوبے حدمتاثرکیا اور بالآخر شاہ نے حضرت جلیل ؔ کومنصب استادی بخشا اور ایک فرمان بھی جاری کیا کہ1910 ؁ء استاد جلیل ؔ کا پہلا دیوان’’ تاریخ سخن ‘‘شائع ہوا۔ ۔اسی دیوان میں وہ تمام غزلیں شامل ہیں جو رامپور سے لے کرحیدرآباد میں اس کی اشاعت تک لکھی گئی ہیں۔
محبوب علی پاشاہ کے انتقال کے بعد میر عثمان خاں عثمان آصف سابع کی حیثیت سے جلوہ گرہوئے اور شاندار پیمانے پر جشن تخت نشینی کی رسم انجام دی گئی۔ حضرت جلیلؔ کی اعلیٰ شاعرانہ صلاحیتوں سے میر عثمان علی خاں بھی بے حد متاثرتھے۔اس تقریب کے بعدجلیلؔ کو اپنے وطن کی یاد آئی ۔چنانچہ آپ نے اجازت حاصل کی اوروطن مانکپور روانہ ہوئے۔
نواب میر عثمان علی خان نے 1325ء میں اپنی سالگرہ کی تقریب میں جلیل ؔ کو ’’فصاحت جنگ جلیل‘ؔ ‘ کے خطاب سے نوازا۔ 1938ء میں جلیل حیدرآباد میں بیمار ہوگئے اور دوماہ کی رخصت لے کر مانکپور روانہ ہوئے۔ علالت سے قبل تک استاد روزانہ دربار جایا کرتے تھے۔ اس دوران جلیل کی آنکھ میں موتیا بند ہوگیاتھا۔ چنانچہ آپ کی آنکھ کا آپریشن ڈاکٹر ناناجی بنگلور کے ہاسپٹل میں کیاگیااوربعدصحت وہ حیدرآباد واپس ہوئے۔ شہزادہ نواب معظم جاہ شجیع کوشاعری ورثے میں ملی تھی۔ اس خصوص میں1351ھ میں ایک مشاعرہ شہزادہ شجیع کی صدارت میں منعقدہوااوراس مشاعرہ کا آغاز شاہ عثمان کی غزل سے ہوا جس کا مقطع یوں ہے۔
مصیبت ٹل نہیں سکتی جو ہوتا ہے وہی ہوگا
دکن کا میر ؔ اے عثمان خداخود ہی نگہباں ہو
اس طرح کے مشاعروں میں شرکت سے جلیلؔ کی توقیر میں اضافہ ہوتا رہا۔ اور ہر مشاعرہ میں جلیل ؔ کے کلام کی بے پناہ ستائش ہوتی رہی۔ جلیلؔ کے آخری ایام علالت میں گزرے۔ ضعف دماغ اور رعشہ کی شکایت ہوگئی۔ اس دوران آصف سابع نے علاج ومعالجہ میں بڑی دلچسپی لی۔ اورقابل ڈاکٹروں سے علاج کروایا۔ کبھی غشی طاری ہوتی ‘کبھی ہوش آتا۔ جب ہوش میں ہوتے تو قرآن آیت کی تلاوت کرتے تھے۔انتقال سے پہلے ہوش وحواس اچھے ہوگئے تھے۔ آخر کا ر اس کیفیت کے ساتھ جلیل یکم صفر 1365 ؁ھ مطابق 6؍جنوری1946ء رات 9بجے شب دوشنبہ انتقال کرگئے۔ تدفین ونماز جنازہ میں شاہ عثمان نے خود شرکت کی اور ارشاد فرمایا کہ ’’ایک شخص اٹھ گیا ‘نہ صرف شعر وسخن کی دنیا میں وہ فرد کامل تھا بلکہ زاہد وتقویٰ میں بھی بے مثال تھے۔ میں نے جلیل صاحب سے ربع صدی سے زیادہ استفادہ حاصل کیا ہے۔ امام الفن دنیا سے رخصت ہوگیا ۔‘‘
حضرت جلیلؔ نے زندگی میں دوشادیاں کیں۔ پہلی زوجہ سے پانچ اولادیں ہوئیں۔ جن میں صدیق احمد اثر ،نہال احمد‘ انیس احمد‘ کلیم ‘سلیم احمد‘ یونس احمد تھے۔ دوسری زوجہ سے چار لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی لڑکوں میں عزیز احمد جلیلی‘ علی احمدجلیلی‘ نثاراحمد مشتاق جلیلی نے دنیائے علم وادب میں بہت نام کمایا۔ جلیل کے تین شاعری کے مجموعے ’’تاج سخن‘‘، ’’جان سخن‘‘ اور ’’روح سخن‘‘ ہیں جن کے تمام اشعار دلوں کو چھولیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جلیل ؔ نے سوانح امیر مینائی کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو ماہرین عروض کی نظرمیں ایک شاہکار سے کم نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جلیل ؔ کی نعتیہ شاعری بڑی تقدس واحترام کی حامل ہے۔ اشعار کے مطالعہ سے ایمان حرارت کوجلا ملتی ہے۔ چند اشعارملاحظہ ہوں۔
نعت گوئی پہ مری سب کوگماں ہے کہ جلیل
فیض ہے اس میں امیرؔ الشعراء سے مجھ ک
لب پہ جس دم مرے نام شہ بطحا آیا
عمر رفتہ پلٹ آئی کہ مسیحا
صرف حب نبوی حشر میں کام آئی جلیلؔ
طاقتیں آئی نہ زہد آیا نہ تقویٰ
صبا کیا کھلائے گی دل کی کلی
تمہاری گلی کی ہوا چاہئے
غزل کے بھی چند اشعار ملاحظہ ہوں:
جلیل آساں نہیں آباد کرنا گھرمحبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں
جب میں چلوں تو سایہ بھی میرا ساتھ نہ دے
جب تم چلو توزمین چلے آسماں جلے
ہم تم ملے نہ تھے توجدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
اچھے تم آئے دیکھنے مریض کو
آنکھیں دکھاکے اوربھی بیمار کردیا
——-
Haleem Babar

حلیم بابر
Share
Share
Share