پرندے – مختلف مذاہب میں : – ڈاکٹر عزیز احمد عرسی

Share
ڈاکٹرعزیز احمد عرسی

پرندے :
مختلف مذاہب میں

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی
ورنگل – تلنگانہ

پرندے عرصہ دراز سے انسانوں کو اپنے خوبصورت رنگ، اٹھکیلیاں کرتی حرکت اور حیرت میں ڈالنے والی پرواز سے متاثر کر رہے ہیں۔ شاید اسی لئے مختلف اقوام نے اپنی مذہبیات کی بنیاد پر ندوں پر رکھی ہے۔ بعض اقوام تخلیق کائنات کے لئے ذمہ دار پرندوں ہی کو گردانتے ہیں۔ اسی لئے ان اقوام کی تہذیب اور آرٹ میں ہمیں پرندے جابجا نظر آتے ہیں۔ بعض ممالک میں پرندوں کوآزادی، عقلمندی اور امید کا نشان تصور کیا جاتاہے۔

قدیم دور کے انسان یہ تصور کرتے تھے کہ انسان کسی نہ کسی جاندار سے پیدا ہوا ہے لیکن اکثر افرا د یا اس زمانے کے دانشور کسی ایک بات پر متفق نہیں ہونے پائے کہ وہ کون سا جاندار ہے۔ کچھ دانشوروں کا احساس ہے کہ دنیا میں ہر طرف پانی تھا، تاریکی تھی اور ہر شئے خاموش تھی دنیا روشنی اور آواز سے ناواقف تھی ایسے میں اچانک پانی کی سطح پر ایک بڑا پہاڑ نمودار ہوا جسکے کنارے ایک مینڈک بیٹھا ہواتھا ، اس مینڈک نے فوری انڈے دیئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان انڈوں سے ایک پرندہ (Goose) برآمد ہو اجس نے نہایت زو رسے نہ صرف شور مچایا بلکہ اپنے جسم سے خاص روشنی کو بھی خارج کیا۔ اس روشنی کے باعث ساری دنیا جگمگا نے لگی ورنہ اس سے قبل یہ دنیا روشنی اور آواز سے محروم تھی اس کے بعد اسی پرندے نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا جس میں انسان بھی شامل ہے۔ مصری قوم سورج دیوتا ’’را‘‘ (Ra) کو مانتی ہے جو ایک انڈے سے پرندے کی شکل میں باہر آیا اور ساری دنیا کو اپنی فرصت سے پیدا کیا۔ یہ پرندہ باز کی شکل کا تھا۔ آسٹریلیا ئی قوم کے مطابق دنیا دوپرندوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے جس میں ایک نے ساری مخلوق اور زمین کو پید اکیااور دوسرے پرندے نے پانی اور تمام نباتات وغیرہ کو تخلیق کیا۔ Melanesianقوم کا خیال ہے کہ یہ دنیا دو پرندوں نے پیدا کی لیکن ان میں ایک بے وقوف تھا۔ جس نے بنجر زمین کو پیدا کیا جبکہ عقل پرندے نے زرخیز زمین کو بنایا۔ Polynesians اس دنیا کو فرضی پرندے Taaroa سے پیدا شدہ سمجھتی ہے اور رشیا (Russia) کی عوام میں بھی تخلیق کائنات سے متعلق دوپرندوں کی کہانی ہی مقبول ہے جس میں ایک سفید اور دوسرا کالا تھا۔ ایک نے زمین پیدا کی اور دوسرے نے مخلوق بسائی۔ ہندوستانی تہذیب میں Garuda ایک مقدس پرندہ ہے جس کا آدھا جسم انسان کا آدھا جسم پرندے کا ہے۔ بعض اقوام کچھ پرندوں جیسے الو، کواوغیرہ کی منحوس خیال کرتی ہیں اور بعض پرندوں جیسے عقاب مور وغیرہ کی پرستش کرتی ہیں۔ قدیم امریکہ میں الو کی پوجا ہوتی تھی۔روم میں زہرہ کے عقاب اور اوڈین کے کوے کو اہمیت حاصل تھی۔ برطانیہ میں کوے کااحترام کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق کنگ آرتھر کو ے کی شکل میں آج بھی موجودہے ۔ توریت اور بائبل میں پرندوں کا تفصیل سے ذکر موجو دہے کہ خالق نے انہیں عمل تخلیق کے پانچویں یوم بنایا۔
قدیم زمانے سے یہ احساس چلا آرہا ہے کہ پرندے ہماری موسیقی کو نغمگی اور سرور، ہماری تقریر کو حکمت وجامعیت، ہماری شاعری کو موزونیت اور ہماری امیدوں کو پنکھ عطا کرتے ہیں اسی لئے ہم عقلمندی کو ہد ہد سے منسوب کرتے ہیں، الو سے بے تکلفی سیکھتے ہیں اور خود پسندی وجذبہ نمائش کے لئے مور کو یاد کرتے ہیں۔ جیسے کہ بیان کیا جاچکا ہے پرندے قدیم زمانے سے انسانوں کے لئے دلچسپی اورحیرت کا موضوع رہے ہیں اسی لئے وہ ان سے کئی کام لیتا رہا ہے۔قدیم یونان، مصر اور روم میں پرندوں بالخصوص کبوتر کی حیثیت پیامبر کی تھی جن سے وہ اکثر بیشتر کام لیا کرتے کیونکہ یہ پرندے راستہ نہیں بھولتے اور نہایت تیزی سے اڑتے ہیں، بطور تجربہ اگر پرندوں کو کسی خاص مقام پر پہنچایا جائے تو بھی پرندے یاداشت کے سہارے واپس اپنے گھر پہنچتے ہیں جوا ن کی عجیب وغریب خصوصیت ہے ۔ گھر واپس لوٹنے کی اس صلاحیت کو سائنسداں جبلت قرار دیتے ہیں جو نسل درنسل ان پرندوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

پرندے – جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے
’’کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑتے ہوئے پرندوں کو پر پھیلاتے اورسکیڑتے نہیں دیکھتے، رحمن کے سوائے کوئی نہیں جوا نہیں تھامے ہوئے ہے‘‘ (سورہ الملک) اس کے علاوہ اللہ تعالی قرآن میں مزید فرماتاہے کہ ’’کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کونہیں دیکھا کہ فضا ئے آسمان میں کس طرح مسخر ہیں، اللہ کے سوا کس نے ان کوتھام رکھا ہے۔‘‘ (النحل) یہ آیات خدا کی نشانیوں کو ظاہر کرتی ہیں، پرندوں کاآسمان میں اڑنا خدا کی نشانی ہے اور آسمان میں ان پرندوں کو پرواز کے قابل بنانا او ران میں مناسب ساخت کا پید اکرنا خدا کا منصوبہ بند پروگرام ہے جو اس کی خلاقیت کا مظہر ہے۔ اسی لئے اس جیسی نشانیاں نہ صرف پرندوں میں بلکہ روئے زمین کی دوسری مخلوقات میں بھی دکھائی دیتی ہیں، جس کو ہم خدا کے وجودکوثابت کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں اس کے علاوہ خد اپنے ہر تخلیقی عمل کے اندر اپنی قدرت کوجاری وساری کردیتا ہے اسی لئے ہمیں ہرتخلیق میں خدا کی قدرت بطور عادت نظرآتی ہے اور یہی عادات ہیں جو ہر مخلوق کے رگ و پئے میں سمائی ہوئی ہیں اور ان ہی عادات فطرت کے مطالعہ کو سائنس کہا جاتا ہے اسی لئے سائنس کا مطالعہ نہ صرف قاری کے دل پراثر کرتا ہے، انسان کو راہ راست بتاتا ہے بلکہ اس کے اندرخدا کی ہستی کے احساس کو اور بھی گہرا کردیتاہے۔

Share
Share
Share