اقبالؔ کا مرد مومن :- ڈاکٹر عظمت اللہ

Share

ڈاکٹرعظمت اللہ

اقبالؔ کا مرد مومن

ڈاکٹر عظمت اللہ
اسسٹنٹ پروفیسر آف اُردو
07396258521

اقبالؔ کے فکر وفن میں ا تنی گہرائی اس قدر وسعت اور اس درجہ ہمہ گیری ہے کہ ان کے پیغام کی تفہیم عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ ان کی شاعری انسانیت کے شعور کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ انسانیت اور انسان دوستی کی بنیاد پرانہوں نے اپنے فکر وفن کی بنیاد استوار کی ہے۔ وہ مشرق ومغرب کے کئی فلسفیوں کے خیالات سے بھی متاثر رہے لیکن کسی ایک فلسفہ کے ساتھ بہہ نہیں گئے۔ ان کا فلسفہ صرف فلسفہ ہی نہیں حیاتِ انسانی کا ایک نظامِ فکر ہے۔
اقبالؔ کے خیالات اور افکار اسلامی نظریات اور اسلامی نظامِ حیات پر مبنی ہیں۔ لیکن ان اسلامی نظریات نے انہیں محدود نہیں کیابلکہ ہمہ گیری‘ وسعت‘ بلندی اور مقصدِ حیات سے آگا ہ کروایا۔ اسلام صرف عبادت وریاضت کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو روحانی اور مادی دونوں اعتبار سے انسانیت کو منتہائے عروج پر پہنچانے کا خواہش مند ہے۔ معاشی‘ معاشرتی‘تہذیبی اور تمدنی اقدار کی ہم آہنگی ہمیشہ ان کے پیش نظررہی۔ خدا شناسی اور عشقِ نبیؐ کے آداب واہمیت سے انسان کو آگاہ کیا۔ اقبالؔ کا مرد مومن ایک سچا مسلمان ہے جو دراصل قرآنی نظریہ کا انسانِ کامل ہی ہے۔ اس کے پاس ایک واضح پیام ہے جس کے تحت وہ زندگی گذارتا ہے۔ زندگی کی قدریں خواہ بدل جائیں یا انسانی زندگی میں بڑا انقلاب کیوں نہ آجائے اس کے اندر نہ کوئی تبدیلی ہوتی ہے اور نہ خود وہ اپنے آپ کو بدلتا ہے۔ اس کے مثال اقبالؔ کی زبانی ملا حظہ کیجئے۔
نقطۂ پرکار حق مردِ خدا کا یقین
اور یہ عالم تمام وہم طلسم و مجاز
اقبالؔ کا بندہ مومن اللہ پر ایمان رکھتا ہے ۔وہ انبیاء کا پیغام ایمانی اصول اور اعتقادات اور واضح مقصد زندگی کا حامل ہے۔ بے مقصد زندگی کا وہ قائل نہیں وہ دنیا کے خوادت اور انقلابات سے نہیں ڈرتا بلکہ وہ عزمِ محکم رکھتا ہے اور اپنے منزل مقصود کی جانب چل پڑتا ہے۔ دنیا کہ نقشہ پر کئی تہذبیں رونما ہوئیں‘ بدلیں اور یہ سلسلہ باقی رہے گا لیکن اقبالؔ کے مرد مومن کا وجود ہمیشہ باقی رہے گا۔ مولوی شمس تبریز خاں نے یوں لکھا ہے:
’’ اقبالؔ کا مرد مومن زندہ جاوید ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنے پاس ایک زندہ جاوید پیا م رکھتا ہے اس کے ہونے میں ایک زندہ جاوید امانت ہے اور اس کی زندگی کی ایک زندہ جاوید مقصد کے لئے گذرتی ہے۔‘‘جہان اردوڈاٹ کوم
ان کے یہاں خودی کا جو تصور ملتا ہے۔ تسخیر فطرت کے جو خیالات نظر آتے ہیں انسان کا مل کی جوتصویریں ابھرتی ہیں ان سب کی تہہ میں انسان سے ان کی دلچسپی پوشیدہ ہے وہ زندگی کے تقاضوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ وہ انسان کی عظمت کے قائل ہیں۔انھیں اس کے صحیح منصب کااحساس ہے یہی وجہ ہے کہ وہ حیات وکائنات میں اس کی اہمیت کااحساس دلاکر اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوانا سکھاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک نظم’’فرشتوں کی زبانی‘‘ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
عطا ہوئی ہے تجھے روز وشب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا سیمابی
سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن
تری سرشت میں ہے کو کبی ومہتابی
تری نواسے ہے بے پردہ زندگی کاضمیر
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی

اس کائنات کی عظیم ہستی حضرت محمدؐ کی شخصیت اور اسوہۂ زندگی ہی مردمومن کی زندگی ہے۔ یہی اخلاق اور ضابطۂ حیات وہ مسلمانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ دنیا کی سربلندی حاصل کریں اور ساری انسانیت کی فلاح وبہبودی کا ذریعہ بنیں۔ صحابہؓ نے آپؐ کے اسوۂ کواپنایا تو اللہ نے انہیں مختلف براعظموں کی شہنشاہی عطا کی۔ اس کے برخلاف عصر حاضر کا آپ بغور جائزہ لیں تو اندازہوتا ہے کہ ہمارے زوال کے کیا اسباب ہیں؟ درج ذیل اشعار میں اقبالؔ نے بندۂ مومن کے اخلاق کا تصور پیش کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
——
ڈاکٹر عظمت اللہ
اسسٹنٹ پروفیسر آف اُردو
ناگارجناگور نمنٹ ڈگری کالج
نلگنڈہ۔ ریاست تلنگانہ

Share
Share
Share