اقبال کی نظم خضر راہ کا فنی و فکری جائزہ :- زبید خان

Share
زبید خان

اقبال کی نظم
خضر راہ کا فنی و فکری جائزہ

زبید خان (انشااردو گائڈ)
فون نمبر:+918875350095

یہ نظم اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے ۳۷ ویں سالانہ اجلاس میں جو ۱۲ اپریل ۱۹۲۲ کو اسلامیہ ہائی اسکول اندرون شیرانوالہ میں منعقد ہو ا تھا میں ترنم سے پڑھ کر سنائی تھی ۔بعض اشعار پر اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور تمام مجمع بھی اشکبار ہو گیا تھا ۔عالم اسلام کے لئے وہ وقت بہت نازک تھا۔قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔اتحادیوں کے ایماء پر یونانیوں نے انا طولیہ میں فوجیں اتاردی تھیں۔شریف حسین جیسے لوگ انگریزوں کے ساتھ مل کر اسلام کا بیڑا غرق کرنے میں پیش پیش تھے۔خود ہندوستان میں تحریک ہجرت جاری ہوئی۔

پھر خلافت اور ترک موالات کا دور شروع ہوا۔ادھر دنیا ئے اسلام کے روبرو نئے نئے مسائل گئے۔اقبال نے انہیں میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضر کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی اور نظم کا نام خضر راہ اسی وجہ سے رکھا۔ابتدا میں نظم میں صرف دو عنوان تھے۔پہلے دو بندوں کا عنوان تھاوا’شاعر’یعنی شاعر کا خضر سے خطاب ،باقی نو بندوں کا عنوان تھا ”جواب خضر”نظر ثانی میں اقبال نے مختلف مسائل پر الگ الگ عنوان قائم کر دئے۔

فکری جائزہ:
اقبال کی یہ نظم اپنے دور میں بہت زیادہ مقبول ہوئی اس کے بارے میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں” اس نظم کی ہر دل عزیز ی کابڑا سبب اس کے موضوع یا موضوعات کا ہنگامی اہمیت کا حامل ہونا تھا”اس نظم کو فکری لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک حصہ”شاعر” کے عنوان سے پس منظر ،خضر کی أمداور شاعر کے سوالات پر مبنی ہے جب کہ دوسرا حصہ خضر کے جوابات پر مشتمل ہے۔نظم کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ شاعر انتہائی پریشانی اور ذہنی کشمکش کی حالت میں سکون کی تلاس میں ساحل دریا کی جانب رخ کرتا ہے۔شاعر کو ایک نئی صبح کی تلاش ہے۔جہاں زندگی با معنی ہو جہاں اس کا وطن عزیز فرنگی جال سے آزاد ہو ۔جہاں عالم اسلام یوروپی رخنہ گردوں کے فتنہ و فساد سے محفوظ ہو۔
یہاں پہنچ کر اقبال دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے ایک شاعر اقبال اور دوسرا مفکر اقبال ،شاعر اقبال سوال کرتا ہے اور مفکر اقبال جواب دیتا ہے۔پہلے بند میں منظر کش کا بہترین نمونہ ملتا ہے۔جو ایک خاص کردار خضر کے ظہور کے لئے ہے۔یہاں ایک سکوت کی فضا ملتی ہے وہ دراصل اس انسانی ماحول کے جمود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جس کو توڑنے کے لئے ہی شاعر کا دل ایک جہاں اضطراب بنا ہوا ہے۔
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شے رخوار
موج مضطر تھی کہیں گہوارائیوں میں مست خواب
منظر فطرت کا یہ طلسم پانچویں ہی شعر میں ٹوٹ جاتا ہے اور نہایت ڈرامائی طور پر خواجہ خضر کی شخصیت منظر پر ابھرتی اور جزو منطر بن جاتی ہے۔خضر شاعر کو بتاتا ہے کہ اگر چشم ودل واہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے ،دل کی آنکھ کھل جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل واہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
دوسرے بند کے پہلے دو اشعار میں اقبال ”خضر” کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات کے تمام سر بستہ راز آپ پر منکشف ہیں اور آپ کو مستقبل کے وہ حالات بھی معلوم ہیں جو مستقبل میں ظہور پزیر ہوں گے۔اقبال خضر کو موسی کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں کہ موسی کا علم بھی آپ کے سامنے ہیچ ہے اس لئے وہ ان کے سامنے چند سوالات رکھتے ہیں اور سوال اسی سے پوچھے جاتے ہیں جو صاحب علم و صاحب اسرار ہو۔سوالات کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
پہلا سوال :خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟
دوسرا سوال:زندگی کا راز کیا ہے؟
تیسرا سوال:سلطنت کیا چیز ہے؟
چوتھا سوال:سرمایہ اور محنت میں جھگڑے کی وجہ کیا ہے؟
پانچواں سوال:دنیا ئے اسلام کی زبوں حالی کی وجہ کیا ہے؟
اقبال کا انداز نظر بالکل انسانی اور آفاقی تھا۔وہ سماجی انصاف کی علم برداری کرنا اپنا فرض تصور کرتے تھے۔اس طرح کمزوروں ،مظلوموں اور محروموں کی حمایت اپنا فرض جانتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ملت دوستی کو ” ایشیا کا خرقہ دیرینہ” سے وابستہ کر دیا ہے یعنی وہ اپنے ملی موقف میں ایک آفاقی نقطہ سے پورے مشرق کو اس لئے شامل کرتے ہیں کہ اس کے خرقہ دیرینہ کو بہت ہی جابرانہ اور ظالمانہ انداز میں چاک کرکے اس کی قیمت پر مغربی اقوام نو دولت ” نو جوان” پیرا پوش ہو رہے ہیں۔
یہاں اقبال کی نظر انتہائی وسیع ہو جاتی ہے۔وہ دنیا ئے اسلام کو عالم مشرق کا مترادف قرار دیتے ہیں کہ ملت اسلامیہ مشرق کی نمائندگی کرتی ہوئی ایک خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے۔بادشاہت و ملوکیت سے اقبال کو نفرت ہے۔اقبال کے خیال میں اگرچہ سکندر مر گیا ہے۔اس کو دوام نہیں ملا مگر فطرت اسکندری ابھی قائم ہے۔حکمران طبقہ ابھی تک داد عیش دے رہا ہے۔
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم ناؤ نوش
دوسری طرف مسلمان ،مسلمان کا دشمن ہو گیا ہے اور ” اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو”کے سنہرے اصول کو چھوڑ کر ذاتی غرض کے خاطر ایک دوسرے کا خون بہا رہا ہے۔یہاں اقبال نے شریف مکہ کے حوالے سے عربوں کی ترکی سے غداری کو حضور کے دین کو بیچنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
اور ایک طرف طاغوتی قوتیں ان کو صفحہ ہستی سے متانے پر تلی ہوئی ہیں ۔ یہ قوتیں مسلمانوں کی قوت برداشت کا امتحان لے رہی ہیں۔
آگ ہے،اولاد ابراہیم ہے،نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے
تیسرے بند میں خضر پہلے سوال کا جواب دیتے ہیں۔اقبال فطرتا صحرائیت پسند اور بدویت پسند ہیں۔اقبال کے نزدیک جو افراد اور قومیں مسلسل جدوجہد کرتی ہیں وہ دوام پاتی ہیں جہاں وہ تھک کر بیٹھ جاتی ہیں موت ان کو دبوچ لیتی ہے اور صحرا نوردی مسلسل حرکت کا استعارہ ہے۔جو اس حقیقت کو روشن کرتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے۔دنیا میں ہر لمحہ حرکت و تغیر کا تماشا جاری ہے اور اس تماشے کے کسی منظر کو قیام نہیں ہے۔خضر اپنی مسلسل دوڑ دھوپ اور حرکت و عمل کو اصل زندگی بتاتا ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ صحرا سے اقبال کو اتنی انسیت کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا روحانی مرکز اور اصل مولد و منشا صحرائے عرب ہے۔اسی بدولت ان میں فاتحانہ اخلاق پیدا ہوئے صحرائیت میں تکلف و تصنع کا کوئی گزر نہیں۔صحرا نشین آدمی میں بلا کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ایک متمدن انسان جوش اور ولولے سے عاری ہوتا ہے۔صحرا نشین کی ضروریات زندگی بھر حد درجہ محدود ہوتی ہے۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی
اگلے دو بندوں میں زندگی کے متعلق بحث کی گئی ہے۔بقول اسلوب احمد انصاری ” زندگی اقبال کے نزدیک مترادف ہے ایک ایسے مظہر کے جس کی وسعتوں اور گہرائیوں کو ادراک کی گرفت میں آسانی سے نہیں لایا جا سکتا "۔
اقبال انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی سودو زیاں،نفع نقصان کی سوچ سے بلند تر چیز ہے۔اس میں کبھی تو اعلی مقصد کے لئے جان قربان کردی جاتی ہے جس طرح حضرت امام حسین نے کربلا میں اور حضرت اسماعیل نے خدا کے حکم پر اپنی جان عزیز کو قربانی کے لیے پیش کیا اور کبھی اعلی مقاصد کی خاطر ہجرت کرکے جان بچائی جاتی ہے۔
برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
انسان کو چایئے کہ وہ آج اور کل ،ہفتوں،مہینوں اور سالوں کے حساب سے زندگی کو نہ ناپے کیوں کہ جاوداں ،پیہم دواں ،ہر دم جواں ہے زندگی،انسان ایک ارتقا پذیر اکائی ہے۔اس میں تجدید خودی کی قوت پوشیدہ ہے۔اس لیے اس کا نقش مٹ مٹ کر ابھرتا رہتا ہے۔زندگی ہر لحظہ نئی قبا زیب تن کر لیتی ہے اور اسی تحریک میں سر أدم پنہا ں ہے۔سر آدم قوت تسخیر اور تعمیر کائنات ہے۔انسان کو چایئے کہ اپنی خدادا صلاحیتوں سے بھر پور کام لے۔کیوں کہ اسی لیے تو انسان کو تمام مخلوقات پر فضلیت حاصل ہے۔گو انسان کی تخلیق ایک مشت خاک کی سی ہے۔لیکن قوت کے بدولت انسان اشرف المخلوقات ہے۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
زندگی اور آزادی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔انسان میں بے شک قوت کے خزانے موجود ہیں۔مگر اس کے اظہار کے لئے آزادی اولین شرط ہے کیوں کہ غلامی انسان کی قوت عمل کو شل کر دیتی ہے اور نمو کے سارے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔غلامی کے دور میں زندگی گھٹتے گھٹتے ایک ایسی ندی بن جاتی ہے ،جس میں پانی کم ہوتا ہے اور معمولی بند باندھنے سے رک جاتی ہے۔لیکن أزادی کے زمانے میں زندگی ایک ایسے سمندر کا روپ دھر لیتی ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم أب
اور أزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
أگے چل کر اقبال انسان کے ذوق عمل اور جدو جہد کو ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے خیال میں انسان کو سچائی اور صداقت کا دلدادہ ہونا چایئے۔لیکن اس کے لئے پہلے اپنے جسم میں جان پیدا کرنا ضروری ہے۔یعنی اپنے دل میں ولولہ اور عزم و جوش پیدا کرنا چائیے۔
جو مرتبے اور عہدے،مال و دولت انسان کو وراثت میں ملے ہیں،ان پر انحصار کرنا چھوڑ دے۔اپنی ہمت ،اپنی محنت اور اپنے خون پسینے کی کمائی سے دولت کمائے اور جاہ و مرتبہ حاصل کرے۔اسی سے ان کے دلوں میں وہ حوصلہ اور جرات پیدا ہوگی جو خالد بن ولید ،طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم جیسے جری اور دلیر لوگوں میں تھی۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
چھٹا بند سلطنت سے متعلق ہے اقبال فرماتے ہیں کہ سلطنت و حکومت کو طاقت کی جادوگری کہنا ایک نہایت بلیغ بات ہے۔جادوگری کا لفظایک طرف طاقتور حکمرانوں کی ننگی جارحیت اور طاقت کے استعمال پر محیط تو دوسری طرف مدبرانہ مصلحتوں اور رعایا پروری کے ظاہر ی سلوک کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔جب کوئی محکوم نیند سے بیدار ہوتا ہے اور ملوکیت و شہنشاہیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو حکمران اسے انوکھے ہتھکنڈوں سے پھر سلا دیتا ہے۔اسے ایسے سہانے سپنے دکھاتا ہے کہ وہ پھر سے غلامی کا طوق گلے میں پہن لیتا ہے۔
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اسے حکمرانوں کی ساحری
پھر اقبال مسلمانوں کو آزادی کی نعمت حاصل کرنے کے لئے زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے مسلمان تو آزاد پیدا ہوا ہے ۔تیری مثال تو شاہین جیسی ہے تو اپنی آزاد فطرت کو غلامی کی دلدل میں پھنسا کر بدنام نہ کر اگر ایسا کریگا تو برہمن سے بھی بڑا کافر ہوگا۔پھر اقبال کہتا ہے کہ جمہوریت ظالم و جود کا جن ہے جو خوبصورت لباس پہن کر ناچ رہا ہے لوگ اس کے زرق برق لباس کو دیکھ کر اس کو آزادی کی نیلم پری سمجھ لیتے ہیں ۔جبکہ حقیقت میں یہ وہی مطلق العنان ملوکیت ہے۔اقبال مسلمانوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ اے ناداں انسان تو اس رنگ و بو کے دھوکے کو باغ سمجھ رہا ہے اور اپنی نادانی سے اس پنجرے کو گھونسلہ سمجھ رہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ تجھ کو تادیر غلام رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں۔اس رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
ساتواں اور آتھواں بند سرمایہ داری سے متعلق ہے۔اقبال خضر راہ کی زبانی مزدور کو پیغام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کائنات کے دل سے اٹھنے والی آواز ہے ۔یہ میرا ذاتی پیغام نہیں بلکہ قدرت اور فطرت کا ازلی پیغام ہے۔میری آواز میں زمانے کی آواز شامل ہے۔
بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا،ہے یہ پیغام کائنات
ان سرمایہ داروں نے تجھ کو غلام رکھنے کے لئے مختلف حربے ایجاد کئے ہیں۔تجھے کبھی ذات پات کے چکروں میں الجھایا گیا ،کبھی قومیت کا سوال کھڑا کیا ہے۔کبھی کلیسا کا چکر چلایا ہے۔کبھی تہذیب کا جال بچھا کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔کبھی کالے گورے کی تمیز رکھی گئی اوراے مزدور! تو ان حیلہ بازوں سے بے خبر رہا اور یہ تجھے طرح طرح کے خواب دکھا کر فریبوں میں الجھا کر تیرا خون چوستے رہے اور افسوس تو انھیں کے لیے لڑتا رہا اور ان کے لیے محنت کرتا رہا۔یہاں اقبال مزدور کو بیدار کرتا ہے۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
آخری تین بند دنیا ئے اسلام سے متعلق ہیں،یہاں اقبال نے اپنے جذبات کی تسکین کے لئے راہ نکالی ہے جو ان کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں نہ جانے کتنی مدت سے پوشیدہ تھے۔مسلمانوں کے تمام اشعار اور میراث کو مسیح دنیا نے اپنا یا۔اندھی تقلید کی جگہ اجتہاد سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سر فراز اور کامران ہو گئے اور مسلمان پستی کی عمیق گہرائیوں میں ڈوب گئے ۔عربوں نے غداری کرکے اپنے پاو ں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔جب تک ایک تھے مضبوط تھے جدا ہوئے تو دشمن نے ان کو ایک ایک کر کے ہڑپ کر لیا اور وہ ترک جو کبھی جاہ و حشمت کے مالک تھے،جو بادشاہ تھے آج وہ پوری دنیا میں رسوا ہو گئے ہیں۔خلافت کا تاج ان کے سر سے اتر چکا ہے جس میں کچھ مغرب کی عیاری اور سیاسی چالبازی کا کمال ہے تو بہت زیادہ مسلمانوں کا ترک مذہب اور اسلامی شعار سے دوری کا نتیجہ ہے۔ایران بھی یورپ کی طرف دیکھ رہا ہے اور مغربی تہذیب باکل کھوکھلی ہے۔جو آئندہ نسلوں کے لئے تباہی کا پیغام لائے گی۔اس لئے اقبال ایرانیوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ان اثرات سے پرہیز کریں اس کے بعد اقبال خودی کا درس دیتے ہیں کہ اپنی حاجتوں کو دوسروں کے سامنے نہ لیجا۔اپنی خودی کو قربان نہ کر ا ور دوسروں کے آگے ہاتھ مت پھیلا۔اگر تو دوسروں کی محتاجی کرے گا تو اس سے تیری خودی کو ٹھیس لگے گی۔خودی جو آئینے کی مانند نازک ہے ایسی ٹھیس سے چکنا چور ہو جاتی ہے۔
اقبال مشرق کے مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے مصائب و آلام کا حل ملت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق میں مضمر ہے۔اگر مسلمان چاہتا ہے کہ ذلت کے گھور اندھیروں سے نکل آئے تو انھیں آپس میں باہمی ربط و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔مگر افسوس ایشیا والے اس نکتے سے اب تک بے خبر ہیں۔لہذا جب بھی ان پر ہ راز منکشف ہوگا تو وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔
ایک ہون مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
اس کے بعد اقبال اپنے کلام میں کہتا ہے کہ میری باتوں کو غور سے سن تجھے اس میں آنے والے وقت کی دھندلی سی تصویر نظر آئے گی۔یعنی میری باتوں میں تجھے مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والی بہت سی باتوں کا پتہ چل سکتا ہے۔اقبال کہتا ہے کہ آسمان کے پاس ایک سے ایک آزمایا ہوا فتنہ موجود ہے۔اس لئے ان سے ہوشیار رہ۔

فنی جائزہ :
"خضر راہ” فنی لحاظ سے ایک مکمل نظم ہے۔اس بارے میں’ آل احمد سرور ‘ لکھتے ہیں کہ "خضر راہ میں اقبال کا فن پہلی دفعہ اپنی بلندی پر نظر آتا ہے یہ وہ بلندی ہے جس میں مستی اندیشہ ہائے افلاکی کے ساتھ زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کا حیرت انگیز رزم موجود ہے۔”
"خضر راہ” کل گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔یہ نظم ترکیب و ہیئت میں ہے۔اس میں ۸۵ اشعار ہیں ،اس نظم میں کم و بیش ۱۴۰۰ الفاظ ہیں۔یہ بحر رمل مثمن مقصور میں ہے۔اس کے ارکان یہ ہیں۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
نظم کے کردار:
اس نظم میں دو کردار سامنے آتے ہیں ایک خود شاعر اور دوسرا خضر ،شاعر ایک بے قرار شخص ہیں اس نے اپنے آپ کو ” جویا ئے اسرار ازل”کہا ہے۔جو ایک ایسے انسان کو ظاہر کرتا ہے جس کے دل میں سب کچھ جاننے کی خواہش موجزن ہے۔دوسرا کردار خضر کا ہے۔خضر کی شخصیت کو اقبال نے اس شعر میں مکمل کر دیا ہے۔
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سھر رنگ شباب
پہلے مصرعے میں ان کو ” پیک جہاں پیما” کہا گیا ہے اس لیے کہ وہ جہاں گرد مشہور ہیں دوسرے مصرعے میں ” پیری میں مانند سحر رنگ شباب ” کا بیان ملتا ہے۔اس لئے ان کی طویل عمر کی روایت خاصی مشہور ہے اور جس طرح صبح،صدیوں سے ایک ہی طرح ہر روز طلوع ہونے کے باوجود تازگی و شادابی کا مظہر ہے،جیسے شباب کے سا تھ وابستہ کیا جاتا ہے۔اس طرح خضر راہ بھی صدیوں پر محیط طویل عمر کے باوجود جوانوں کی طرح مستعدی سے جہاں گردی کرتے رہتے ہیں ،بقول فتح محمد ملک”اقبال نے خضر کا کردار مشرقی روایات اور داستاں کی بجائے براہ راست قرآن سے اخذ کیا۔”

ڈرامائی کیفیت:
اس نظم میں ڈرامائی کیفیت پائی جاتی ہے۔یہ ڈرامائیت خضر کے کردار کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے۔اس نظم کے پہلے منظر کو اگر دیکھیں تو لگتا ہے کہ ڈرامے کا پہلا سین شروع ہوگیا ہے۔ یہ سین ساحل دریا کا ہے۔شاعر مضطرب دل کے ساتھ محو نظارہ ہے۔اس کے دل میں ایک طوفان مچا ہوا ہے۔مگر بیرونی ماحول انتہائی پر سکون ہے۔رات کا سکون پر پھیلائے ہوئے ہے۔قاری تجسس کا شکار ہو کر پورے انہماک سے مطالعہ شروع کرتا ہے۔اس پر سکون ماحول کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہوا ہے۔اس لیے قاری بھی کسی طوفان کا منتظر ہے۔اسی اثناء میں اچانک خضراسٹیج پر آکر مکالمہ شروع کرتا ہے۔
کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
پھر مکالمہ شروع ہوتا ہے۔اسی طرح کائنات اور بین الاقوامی سیاسیات سے متعلق شاعر کو مکمل اور کافی و شافی جواب مل جاتا ہے۔

نظم کا لہجہ:
پہلے بند میں لہجہ انتہائی دھیما اور محتاط ہے۔اسی طرح پوری نظم میں مجموعی طور پر دھیما پن اور نرمی غالب ہے۔کہیں کہیں لہجہ پر جوش ہو جاتا ہے۔مگر اقبال اسے دوبارہ نرم کر دیتا ہے۔مثلا دوسرے بند میں شاعر انتہائی جوش سے کہتا ہے۔
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
یہاں جوش اور گرمی کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔” صحرا نوردی میں "لہجہ دھیما ہے ۔” زندگی”میں پھر بلند اور قدرے پر جوش ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی شاعر کے نزدیک ” گردش پیہم” اور پیہم دواں پر دم جواں ہے۔جس میں انسان کو مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔مگر اگلے ہی بند میں ،
سوئے گردوں نالہ شب گیر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کریں
یہ کہہ کر پر جوش "tone” کو مدہم کر دیا ہے۔یہ اتار چڑھاو اور مدو جزر پوری نظم کا کلاصہ ہے مگر مجموعی تاثر دھیما ہے۔اختتام ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہوتی ہے۔

رنگ تغزل:
تغزل اقبال کے کلا م کا خاصا ہے۔” خضر راہ” اگر چہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق اور ٹھوس مسائل کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔مگر چونکہ اقبال کے مزاج میں شریعت اور تغزل رچا بسا ہے اس لئے غزلوں کے علاوہ ان کی بیشتر نظموں میں تگزل کا رنگ نمایاں
ہے۔خضر راہ کے بعض حصوں اور شعروں میں ہمیں اقبال کا یہی رنگ تغزل نظر آتاہے۔
برتر اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری

تراکیب اور تشبیہات:
اقبال نے خضر راہ میں بھی نادر تراکیب کا استعمال کیا ہے مثلا قلزم، ہستی،شہید جستجو،ضمیر کن فکاں،شمشیر بے زنہار، ساز دلبری،ساخ آہو وغیرہ۔تشبیہ کسی چیز کو کسی خاص و صف کی بنا پر کسی دوسری چیز کی مانند ظاہر کیا جائے اقبال کے ہاں نادر تشبیہات ملتی ہیں۔
مثلا : گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب

صنائع بدائع کا استعمال:
اقبال کے کلام میں صنائع بدائع کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے،جو اقبال کی غیر شعوری فنی مہارت کا شاہکار ہے۔
صنعت تلمیح:
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
صنعت تجنیس:
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو
صنعت ملمع:
ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں
حق تیرا چشمے عطا کر دست غافل در نگر
صنعت مراۃالنظیر:
آگ ہے ،اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
صنعت تضاد:
دیکھتا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب
محاکات:
اس نظم میں محاکات یعنی تصویر کشی کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔مثلا پہلا بند جس میں اقبال لفظی تصویر کشی کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں-
شب سکوت فزاء ہوا آسودہ ،دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
جیسے گہوارے میں سوجاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب

مجموعی جائزہ:
نظم کی عظمت کے بارے میں عبادت بریلوی کی رائے ہی کافی ہے،” خضر راہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں موضوع کی بصیرت،فنی سلیقہ شعاری سے گلے ملتی ہوئی نظر آتی ہے،اور اسی صورت حال نے اس کو اس سحر سے آشنا کر دیا ہے جو شاعری کی جان اور شعر کا ایمان ہے۔”

Share
Share
Share