تیسری قسط : حقیقتِ نماز اور مقصدِ نماز :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

تسری قسط
حقیقتِ نماز اور مقصدِ نماز

مفتی کلیم رحمانی
پوسد (مہاراشٹر) الہند
09850331536

حقیقتِ نماز اور مقصدِ نماز کی دوسری قسط کے لیے کلک کریں

جن نمازیوں کے لئے ناکامی کی وعید سنائی گئی ان کی پہلی صفت سَاھُوْ نَ بیان کی گئی ہے جس کے لفظی معنی بھولنے اور غفلت کے ہے مطلب یہ کہ جو کچھ انہوں نے نماز کی ادائیگی میں قرآن پڑھا اور سنا نماز کے باہر کی زندگی میں اس کے پیغام کو بھلا دیا اور اس سے غافل ہو گئے ، جبکہ نماز اس لئے ادا کروائی گئی تھی کہ وہ نماز کے باہر کی زندگی میں قرآن کی تعلیم کی یاد دہانی کا ذریعہ بن سکے

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے ایک اہم مقصد کو ان الفاظ میں بیان فرمایا وَ اَقِمِ الَّصلٰوۃٰ لِذِکْرِیْ (طہٰ ۱۴) اور نماز قائم کیجئے میرے ذکر کے لئے ، لفظ ذکر قرآن مجید میں قرآن کے صفاتی نام کے طور پر بیان ہوا ہے اسی طرح اللہ کی پہلی کتابوں کیلئے بھی صفاتی نام کے طور پر بیان ہوا ہے ، جیسا کہ خود قرآن میں قرآن کے لئے بیان ہوا ہے۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الْذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ (حجر آیت۹) یعنی بیشک ہم ہی نے ذکر یعنی قرآن نازل کیا اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مذکورہ آیت میں ذِکْر سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک قرآن ہی ہے اسی طرح جو توریت اور انجیل کا حقیقی علم رکھتے تھے ان کا تعارف قرآن میں اہل ذکر کے طور پر ہی پیش کیا گیا ، چنانچہ قرآن میں ایک مقام پر فرمایا گیا ، فَسْءَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(سورۂ انبیاء آیت ۷)
پس اہل ذکر یعنی توریت اور انجیل کے حقیقی علماء سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو مذکورہ آیت میں ان لوگوں کے سامنے ایک تجویز رکھی گئی جو آنحضورﷺ کی نبوت میں شک کرتے تھے یا نہیں مانتے تھے ،مذکورہ دونوں ہی آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ ذکر اللہ کے کلام کا صفاتی نام ہے ذکر کے معنی نصیحت و یاددہانی کے ہے چونکہ قرآن مجید یا د دہانی و نصیحت کا سرچشمہ ہے اس لئے اس کا نام ذکر ہے ۔
مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نماز کا ایک اہم مقصد قرآن کی تعلیم کی یاد دہانی ہے قرآن کی یاددہانی در اصل اللہ کی یاد دہانی ہے کیونکہ قرآن کے بغیر نہ اللہ کو یاد کیا جا سکتا ہے اور نہ اللہ کو یاد رکھا جا سکتا ہے ، اس لحاظ سے نماز کو قائم کرنا در اصل قرآن کو قائم کرنا ہے اور قرآن کو قائم کرنا در اصل دین کو قائم کرنا ہے ا سلئے کہ دین کا اصل سر چشمہ قرآن ہی ہے یہی وجہ ہے کہ نماز میں جو چیز بہ طور قرات رکھی گئی ہے وہ قرآن کی تلاوت ہی ہے یہاں تک کہ قرات کے علاوہ جو کلمات بطور تکبیرات و تسبیحات رکھے گئے ہیں وہ بھی قرآن ہی سے نکلے ہوئے ہیں، چاہے وہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ہو یا سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمَ یا سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ ہو۔اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ پنجوقتہ نمازیں ایک طرح سے ایمان والوں کو دن میں پانچ مرتبہ قرآنی تعلیم سے جوڑنے کی ایک زبر دست عالمی تحریک ہے لیکن تعلیم قرآن کی اس عالمی تحریک سے نمازیوں کو اسی وقت فائدہ پہونچے گا جب وہ نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی آیات اور سورتوں کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں گے مطلب یہ کہ وہ ادائیگی نماز کے ساتھ فہم نماز سے بھی جڑیں گے ، اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلم معاشرہ میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فہم نماز کی بھی تحریک چلے، اسلئے کہ نماز کو سمجھنا ایک طرح سے دین کو سمجھنا ہے اور نماز کو نہ سمجھنا ایک طرح سے دین کو نہ سمجھنا ہے ، لیکن افسوس ہے کہ برسوں سے پنجوقتہ نماز ادا کرنے والے افراد اپنی ایک رکعت کی قرات کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
فہم نماز کی تحریک ایک طرح سے فہم قرآن کی تحریک بھی ہے اس لئے کہ سال میں ایک مرتبہ پنجوقتہ نمازوں اور نماز تراویح کے ذریعہ مکمل قرآن تمام نمازیوں کے سامنے پیش ہو ہی جا تا ہے اب اگر تمام نمازیوں کو اپنی ایک سالہ نماز کا علم ہو گیا تو گویا ان کو پورے قرآن کا علم ہو گیا، ویسے پنجوقتہ نمازوں میں زیادہ تر آیات اور سورتیں تکرار کے ساتھ ہی پڑھی اور سنی جاتی ہیں اور یہ آیات اور سورتیں بھی نمازیوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے کافی ہیں اگر وہ ان آیات اور سورتوں کو سمجھ لیں، جس طرح قرآن مجید میں اقامت نماز کا وسیع تصور ہے جو دین کی تمام تعلیمات کو شامل ہے اسی طرح حدیث میں بھی اقامت نماز کا وسیع تصور ہے بہ طور مثال چند احادیث پیش کی جارہی ہیں، ایک حدیث میں نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے لئے عُمُوْدُ اور عِمَادُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں مطلب یہ کہ نماز پورے دین کی عمارت کی بنیاد ہے ظاہر بات ہے یہ بات بھی نماز کے حق میں اسی وقت صادق آسکتی ہے جب کہ نماز کو اس کے وسیع تصور کے ساتھ لیا جائے جس میں پورے دین کی اقامت کا مفہوم شامل ہے یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اس حدیث کی تشریح میں یہ الفاظ بھی شامل کے ہیں۔فَمَنْ اَقَامَھَا فَقَدْ اَقَامَ الدِّیْنَ وَمَنْ ھَدَمَھَا فَقَدْ ھَدَمَ الدِّیْنَ ۔ یعنی جس نے نماز کو قائم کیا تحقیق کہ اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو ڈھا دیا تحقیق کہ اس نے دین کو ڈھا دیا۔
مذکورہ حدیث اور اس کی تشریح سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ صرف نماز ادا کرنے سے نماز کو قائم کرنے کا حکم ادا نہیں ہوتا بلکہ نماز کے تقاضوں کو زندگی میں قائم کرنے سے نماز کو قائم کرنے کا حکم پورا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی مذکورہ حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اقامت دین ، اقامت نماز کا لازمی تقاضہ ہے اور جو نماز کے عمل میں اقامت دین کو شامل نہ سمجھے گو یا اس نے ابھی نماز کی حقیقت نہیں سمجھی، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے نمازی حضرات اقامت دین اور غلبہ دین کو اپنی نماز کا حصہ ہی نہیں سمجھتے اور مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ ان تحریکات کی مخالفت کرتے ہیں جو معاشرہ میں اقامت دین اور غلبہ دین کا کام کر رہی ہیں جب کہ ان نمازیوں کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ نماز کے وہ تقاضے جو وہ پورا نہیں کر پا رہے ہیں تو یہ تحریکات پورا کر رہی ہیں ، واضح رہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں دین اسلام کی تمام تعلیمات کو نافذ و غالب کرنے کا نام اقامت دین ہے ، یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن اگر اہل ایمان اپنی نمازوں کے پیغام کو سمجھ لیں تو یہ کام آسان ہو جاتا ہے اور ویسے بھی اہل ایمان صرف اقامت دین کی جدوجہد کے مکلف ہیں مطلب یہ کہ اہل ایمان مکمل دین کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتے رہیں لیکن دین غالب نہیں ہو سکا تو اس سلسلہ میں اہل ایمان سے نہیں پوچھاجائیگا کہ تم نے دین کو غالب کیوں نہیں کیا جس طرح حضرت نوحؑ ساڑھے نو سو سال دین کی تبلیغ کرتے رہے لیکن چند ہی لوگوں نے دین قبول کیا اسی طرح ان کی قوم میں بھی دین غالب نہیں ہو سکا لیکن اس سلسہ میں اللہ کی طرف سے حضرت نوحؑ کی کوئی باز پُرس نہیں ہوئی بلکہ ان کی مخالف قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہو گیا ، البتہ اگر کوئی لوگوں کی مخالفت سے ڈر کر دین اسلام کو صرف عقیدہ و عبادت کے طور پر قبول کرے اور اسلام کو صرف عقیدہ و
عبادت کے طور پر پیش کرے تو ضرور اس سلسلہ میں اللہ کی طرف سے باز پُر س ہوگی کیونکہ دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی کا نام ہے اور اس کو اسی حیثیت سے قبول کرنا اور پیش کرنا ضروری ہے لیکن افسوس ہے کہ ابھی بہت سے پنجوقتہ نمازیوں نے دین اسلام کو صرف عقیدہ و عبادت کے دین کے طور پر قبول کیا ہوا ہے اور صرف عقیدہ عبادت کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب کہ نماز کی تَکْبِیرِ تَحْرِیْمَہْ ہی میں دین اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے قبول کرنے کی دعوت ہے، اس لئے کہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کے معنی صرف اللہ سب سے بڑا کے نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کا حکم سب سے بڑاہے کے ہے ، کیونکہ قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ مکہ کے کافر بھی اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کے خالق و مالک کی حیثیت سے مانتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے نزدیک کافر قرار پائے تو اس کا بنیادی سبب یہی تھاکہ وہ اللہ کو حکم کے لحاظ سے سب سے بڑا نہیں مانتے تھے اور اللہ کو سب سے بڑا ماننے کا لازمی تقاضہ ہے کہ اللہ کے حکم کو بھی زندگی کے تمام شعبوں میں سب سے بڑا سمجھا جائے، اور یہی اسلام کی بنیادی دعوت ہے اور یہی نماز کی بھی دعوت ہے بلکہ اذان کی بھی یہی دعوت ہے اور اذان و نماز میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ کی تکرار سب سے زیادہ اسی لئے رکھی گئی ہے کہ ہر مسلمان کے ذہن میں اللہ کے حکم کی بڑائی ہر وقت تازہ رہے ،کیونکہ اس دنیا میں حق وباطل کے جھگڑے کی بنیاد یہی چیز ہے کہ باطل پرست زندگی کے معاملات میں اپنے حکم کو سب سے بڑا سمجھتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اہل ایمان کے لئے اذان و نماز رہنمائی ،اللہ کے حکم کی بڑائی کو ماننے کے لئے معین و مدد گار بنتی ہے۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ بہت سے نمازی برسہا برس گزرنے کے با وجود اذان و نماز کا مطلب جاننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور جو تھوڑے بہت جانتے ہیں وہ اس کے مطابق عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کچھ نمازی اذان و نماز کا مطلب جان کر اس پر عمل کرنے میں بھی لگے ہوئے ہیں اگر چہ ایسے نمازی ابھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ نماز کو قائم کرنے کا یہی وسیع تصور آنحضورﷺ نے ایک نہر کی مثال کے ذریعہ سمجھایا، چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کی حدیث ہے۔ عَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَرَاَیْتُمْ لَوْ اَنَّ نَھْرَاً بِبَابِ اَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمِِ خَمْسَاً ھَلْ یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہِ شَیءُ قَالُوْا لَا یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہِ شَیءُ قَالَ فَذَالِکَ مَثَلُ الصَّلَوٰاتِ الْخَمْسِ یَمْحُواللّٰہُ بِھِنَّ الْخَطَایَا۔ (بخاری و مسلم) باب کتاب الصلوٰۃ) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسو اللہ ﷺ نے فرمایا ‘بتاؤ تم میں سے کسی کے دروازہ کے سامنے ایک نہر ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس پر کچھ میل باقی رہ سکتا ہے تو صحابہؓ نے کہا کہ اس پرکچھ بھی میل باقی نہیں رہ سکتا، تو آپؐ نے فرمایا پس اسی طرح پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہوں کومٹا دیتا ہے) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نماز پڑھنے والا ہر نماز میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کا عہد کرتا ہے اسی طرح سیدھے راستہ پر چلنے کی دعا کرتا ہے اور گمراہی کے راستہ سے بچنے کی دعا کرتا ہے تو ظاہر ہے وہ نماز کے بعد کے عمل میں لازماً سیدھے راستہ کو اختیار کرے گا اور گمراہی کے راستہ سے بچے گا، اس لئے ایک نمازی سے قطعاً یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ نماز میں جو پڑھے اور سنے نماز کے بعد اس کے خلاف عمل کرے، لیکن نماز کی یہ تاثیرنمازی کے اندر اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ نمازی ، نماز میں پڑھنے اور سنی جانے والی آیات اور سورتوں کو سمجھے ، مگر یہ المیہ ہے کہ آج بیشتر نمازی اپنی نماز کی آیات اور سورتوں کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے پچاس سال کی نمازیں بھی زندگی سے برائیوں کو دور نہیں کر رہی ہیں

Share
Share
Share