دیپک بُدکی کا افسانہ ’ ایک معصوم کی المناک موت ‘۔ تجزیہ :- ڈاکٹرشیخ صفیہ بانو

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو

دیپک بُدکی کا افسانہ
’ ایک معصوم کی المناک موت ‘۔ تجزیہ

ڈاکٹرشیخ صفیہ بانو

؂ اس دور میں تعلیم ہے امراض ملّت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر (علامہ اقبالؔ )

تعلیم زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ جس طرح جسم کو نشتر لگا کر اُسے خرابیوں اور بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہیں اُسی طرح تعلیم کے ذریعے سماجی برائیوں کو مٹایا جاسکتا ہے ۔ بقول اقبالؔ تعلیم برائیوں سے نجات پانے کا نشتر ہے ۔

ایک شاعر اپنے جذبات ا شعار کے ذریعے پیش کرتا ہے جب کہ ایک ادیب اپنے خیالات کا اظہار مضامین ،ناول یا افسانوں کے ذریعے کرتا ہے ۔ دیپک بدکی عصر حاضر کے ایک ایسے ہی تخلیق کار ہیں ، اپنے ارد گرد جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں اُسے اپنے ذہن کے نہاں خانے میں ذخیرہ کرتے ہیں اور پھر اپنے ضمیر کی آواز سن کر اُسے ناقابلِ فراموش کہانی میں تبدیل کردیتے ہیں۔ چونکہ وہ انٹرنیٹ سے بھی کافی دلچسپی رکھتے ہیں لہٰذا اپنے گردو پیش کے علاوہ ملکی اورعالمی سطح پر بدلتے ہوئے منظر نامے پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور یہی خوبی ان کے افسانوں کو عصری زندگی کا آئینہ بنا دیتی ہے۔
افسانہ ’ایک معصوم کی المناک موت ‘ موجودہ نظامِ تعلیم میں پائی جانے والی بد انتظامیوں اور کوتاہیوں پر طنز کرتا ہیں۔ یہ افسانہ ہمارے تعلیمی اداروں کے ذریعے طلبہ اور ان کے والدین کے استحصال کو بیان کرتا ہے اور تعلیم و تربیت پر افسانہ نگار کے فکری جہات کو پیش کرتا ہے۔ افسانہ تحریر کرتے وقت دیپک بُدکی تھیم ،پلاٹ ،ماحول ،کرداروں اورمقصد کو دھیان میں رکھتے ہوئے کہانی کے زیر و بم ، کلائمکس، اور انجام پر فوکس کرتے ہیں۔افسانوی مجموعہ ’اب میں وہاں نہیں رہتا‘ میں مشمول افسانہ ’ایک معصوم کی المناک موت‘ ،جو اس سے قبل ’ سوری میڈم‘ کے عنوان سے انتساب کے خصوصی شمارے (دیپک بُدکی نمبر ) میں شائع ہوا تھا، کے آغاز میں وہ اپنی ذہنی کیفیت اور احساسات اپنے قاری کے ساتھ اس انداز میں بانٹتے ہیں گویا کہ وہ بھی افسانے ہی کا جزو ہیں ۔ مذکورہ خصوصی نمبر میں ڈاکٹر سیفی سرونجی نے بُدکی صاحب سے پوچھا کہ آپ چھوٹی چھوٹی اور معمولی وارداتوں پر افسانہ کیسے تحریر کر لیتے ہیں،آپ افسانہ کب اور کس وقت لکھتے ہیں نیز آپ کہانی کو ایک بیٹھک میں مکمل کرتے ہیں ہیں یا کئی دن میں ؟ جواب میں دیپک بدکی نے فرمایاکہ ’’ یہ کہانی اور میرے موڈ پر منحصر ہوتا ہے ۔ کئی کہانیاں تو ایک ہی نشست میں ختم ہوتی ہیں حالانکہ اس کے بعد انھیں کئی بار پھر سے پڑھنا پڑتا ہے تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہے مگر اکثر کہانیاں لکھنے میں کئی دن لگتے ہیں ۔ اس میں مصلحت بھی کام کرتی ہے ۔ کہانی کو ایک بار لکھ کر اگر اس کو باربار پڑھا جائے تو کبھی کبھی کچھ تبدیلیاں کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ‘‘ ۱؂ اسی سلسلے میں وہ اپنے چوتھے افسانوی مجموعے ’ ریزہ ریزہ حیات ‘ کے حرفِ اوّل میں تحریر کرتے ہیں :
’’ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں کہانیاں کیوں لکھتا ہوں ؟ کیا فرق پڑتا ہے ان کہانیوں سے ؟ پریم چند نے اپنی پوری زندگی سماج سدھار کے لیے وقف کی تھی ۔ بال ووِاہ ، بیواؤں کی از سر نو شادی ، مہاجنی تہذیب ، توہم پرستی ، طبقاتی اونچ نیچ اور مذہبی تعصب کے خلاف اس نے عمر بھر اپنا قلم اٹھایا مگر آج ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں یہ بدعتیں ترویج پارہی ہیں اور ہمارے رہنما مصلحتاً ان کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ مذہبی کٹّر پرستی تقلیبِ ماہیت کرکے دہشت گردی میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ آدمی کو صبح گھر سے نکلتے وقت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ شام کو واپس آئے گا بھی یا نہیں ۔ آئے دن ذرائع ابلاغ میں رشوت خوری ، اغوا ، زنا بالجبر ، تزویج محرمات ، سادھو سنتوں کے ہاتھوں ضعیف الاعتقادوں کا استحصال اور اشیائے خوردنی میں زہریلی ملاوٹوں کی خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں۔ دولت منداور اثر و رسوخ والے لوگ جرم کرکے بھی بچ نکلتے ہیں ۔کروڑوں غریب لوگ اپنے خون پسینے کی کمائی کرکٹ میچوں کی ٹکٹیں خریدنے یا پھر رئیلٹی شوز کو ایس ایم ایس بھیجنے پر صرف کرتے ہیں ۔ ان کی جیبیں خالی ہوجاتی ہیں جبکہ کرکٹ کھلاڑیوں اور رئیلٹی شوز کے منتظمین کی تجوریاں کروڑوں روپے سے بھر جاتی ہیں ۔ غریب کسان بھوک مری اور قرضے کی تاب نہ لاکرخود کشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جبکہ سرمایا داروں کے لیے ہر سال بجٹ میں رعایتوں پر رعایتیں دی جاتی ہیں ۔ جب میں ان باتوں پر سوچ بچار کرتا ہوں تو دل میں طوفان سا اٹھتا ہے اور قلم خود بخود حرکت کرنے لگتا ہے ۔ چونتیس سال گورنمنٹ نوکری کرنے کے باوجود میں نے ہمیشہ نڈر ہوکر نازک اور زودحس موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور بے باکانہ طور پر اپنے محسوسات اور خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ ‘‘ ۲؂
افسانہ’ایک معصوم کی المناک موت‘ کی ابتدا ہی میں ہمیں دیپک بُدکی کا بچوں کے تئیں محبت اور خلوص کا جذبہ نظر آتا ہے ۔وہ ان کی معصومیت کے دلدادہ ہیں، بالغ کرداروں کی ساتھ ساتھ وہ بچوں کے کرداربھی اپنے افسانوں میں بڑی خوبی سے پیش کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیپک بدکی حساس طبیعت کے مالک ہیں، زندگی کے نفسیاتی پہلوؤں پر خوب دسترس رکھتے ہیں یہاں تک کہ انھیں انسانی نفسیات پر ید طولیٰ حاصل ہے ۔چند اقتباسات :
*البتہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس حادثے کو کئی بار قلم بند کرنے کی شعوری کوشش کی مگر جب بھی قلم ہاتھ میں اٹھاتا ہوں سارا وجود لرز جاتا ہے ۔ کچھ مہیب سے سائے میرے دل و دماغ کا احاطہ کرتے ہیں اورایک ننھی منی پیاری سی بچی بانہیں پھیلا کر میرے سامنے ظاہر ہوجاتی ہے ۔ وہ مدد کے لیے چیختی ہے ، چلّاتی ہے اور پھر بے بس ہو کر خاموش ہوجاتی ہے۔ وہ زبان سے کچھ بولنے کی مسلسل کوشش کرتی ہے مگر خوف و وحشت کے باعث بول نہیں پاتی ۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آتا ہے اور انگلیاں کانپنے لگتی ہیں ۔‘‘ ۳؂
*’’ میری آنکھوں کے سامنے بلیو بیلز سیکنڈری سکول کی چوتھی جماعت کا بڑا سا کمرہ نمودار ہوا۔ ڈیسکوں کے پیچھے چھوٹی چھوٹی کرسیوں پر سفید اور نیلی اسکرٹ میں ملبوس پریوں ایسی نرم ونازک لڑکیاں براجمان تھیں ۔ چوٹیاں بندھی ہوئیں ، کسی کی دو اور کسی کی ایک ، ہنستی کھیلتی معصوم بچّیاں ، بالکل گلاب کی کلیوں جیسی ، خوبصورت اور بے ریا۔ سبھی لڑکیاں چڑیوں کی مانند چہچہا رہی تھیں ۔ شورغل اتنا ہو رہا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ ۴؂
زیر نظرافسانے میں نیہا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے، اس کے والدین جیسے تیسے اس کا داخلہ نامور بلیو بیل اسکول میں کراتے ہیں ۔ایک دن اچانک اس کی دادی نہاتے ہوئے گرجاتی ہے اور اس کی دا ہنی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے جس کے سبب اس کے والدین کواپنا سارا وقت اسپتال میں گزارنا پڑتا ہے ۔ یہ سارا واقعہ نیہاکے کلاس ٹیسٹ سے ایک روز پہلے پیش آتا ہے اور اسی کشمکش میں وہ ٹیسٹ کی تیاری نہیں کر پاتی ہے اور کئی سوالوں کے جواب نہیں لکھ پاتی ہے۔ اتفاق سے وہ آخری پیریڈ ہوتا ہے جب مالتی تومر چوتھی جماعت کا ٹیسٹ لیتی ہے ۔ مالتی تومر نیہا کے جواب نہ دینے اور نوٹ بک میں کچھ نہ لکھنے پر بہت ناراض ہوکر اُسے بینچ پر کھڑے رہنے کی سزا دیتی ہے اور بے چاری نیہا ڈر کے مارے دیوار کی طرف منہ کرکے بنا چوں و چرا کھڑی ہو جاتی ہے تاکہ میڈم اورزیادہ ناراض نہ ہو۔اُدھر مالتی تومر مسوری جانے کے پروگرام کی دُھن میں مگن ہوتی ہے اور اسکول سے گھر لے جانے کے لیے اپنے پتی کے انکار سے پہلے ہی خار کھائی ہوتی ہے۔ اسکول کی چھٹّی ہونے پر سارے بچے باہر نکل جاتے ہے مگر نیہا وہیں بینچ پر کھڑی رہتی ہے۔اسکول چار دن بند رہتا ہے اور کسی کو اس بات کا خیال نہیں آتا کہ نیہا کلاس میں ہی قید ہوچکی ہے ۔ آخر کار ڈری ،سہمی اور موت کے ساتھ جوجھتی نیہابلیک بورڈ پر کئی مرتبہ ہندی میں معافی نامہ لکھتی ہے’ ممی .. ممی مجھے ڈر لگ رہا ہے ! پاپا ..پاپا.. مجھے ڈر لگ رہا ہے ! سوری میڈم اب میں پاٹھ یاد کرکے آیا کروں گی ‘ اور پھر غش کھا کرفرش پر گر جاتی ہے اور ابدی نیند سو جاتی ہے ۔اس کی لاش کئی دنوں بعد اسکول کھلنے پر مل جاتی ہے ۔
اس افسانے میں تین کردار پیش کیے گئے ہیں ۔ ایک تعلیم یافتہ استانی مالتی تومر ہے جو موڈرن زمانے کی ٹیچر ہے اور نودولتیا گھرانے میں شادی ہونے کے باعث وقت گزاری اور بالائی آمدنی کے لیے اسکول میں پڑھاتی ہے۔دوسرا کردار ایک معصوم بچی نیہا کاہے جواس افسانے کا مرکزی کردار ہے ۔ تیسرا کردار بذات خود مصنف کا ہے جو راوی کا رول ادا کر تاہے ،موڈرن تعلیمی نظام میں پائی جانے والی بد عنوانیوں سے اچھی طرح واقف ہے اور بے باکانہ طور پر ان کی نشاندہی کرتا ہے ۔ افسانے میں نیہا کے متوسط طبقے کے والدین اپنی بچی کو اچھی تعلیم دلوانے کی غرض سے اچھے اسکول کا انتخاب ، انٹرویو ، فیس اور تعمیری فنڈ کا خرچہ جھیلتے ہیں ۔اس سلسلے میں افسانہ نگار یوں رقمطرازہیں :
’’ ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی نیہا ۔ بڑے نازوں میں پلی ہوئی ۔ والدین نے کتنے خواب سنجوئے تھے اپنی بیٹی کے لیے ۔حالانکہ متوسط طبقے کی اڑانیں محدود ہوتی ہیں ۔ بیٹی اچھی تعلیم پائے ، اچھی نوکری کرے اور پھر اچھے گھر میں بیاہ کرکے چلی جائے ۔ اس سے آگے تو کبھی سوچتے بھی نہیں۔…. نیہا کو سکول بھیجنے میں جو خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا تھا اس کے لیے والدین کو اپنا پیٹ کاٹنا پڑا ۔ سب ضروری اور غیر ضروری اخراجات میں کٹوتی ہونے لگی ۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور نیہا چوتھی جماعت تک پہنچ گئی ۔ ‘‘ ۵؂
معصوم نیہا سخت گیر تعلیمی نظام کی شکار ہوجاتی ہے اور دم توڑنے سے پہلے ذہنی اور نفسیاتی انتشار میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔بے چاری نیہا کے ذہن پر مالتی تومر (استانی) کا خوف اس قدر حاوی ہوجاتا ہے کہ آخر کار اس معصوم بچی کو موت کے آغوش میں پناہ لینی پڑتی ہے۔آزادی کے بعد تعلیمی نظام کو سدھارنے کے لیے کئی قانون بنائے گئے مگر سب برائے نام ہی رہے ۔قانون بنانے سے سماج نہیں سدھرتا بلکہ قانون کو عمل میں لا کر ہی مدعا پایا یا جاسکتا ہے۔ ایک استاد کے غلط طور طریق سے نظامِ تعلیم گڑبڑاجاتا ہے جیسا کہ اس افسانے میں مالتی تومر کے رویے سے ہوتا ہے۔مالتی کا کردار مندرجہ ذیل اقتباسات سے عیاں ہوتا ہے:
*’’ سامنے دروازے سے ایک فربہ اندام ،رعب دار چہرے مہرے والی ،ساڑی میں ملبوس ، بال جوڑے میں گندھے ہوئے ، آنکھوں پر ایک بڑی سی عینک چڑھائے ، ہونٹوں پر ہلکی گلابی لپ اسٹک لگائے ،ایک ہاتھ میں پرس اوردوسرے ہاتھ میں چند کاپیاں لیے، تیس پینتیس سال کی عورت اندر آئی۔ ‘‘ ۶؂
*’’ کچھ برس گزر نے کے بعد مالتی کے بدن میں ٹیسیں اٹھنے لگیں ۔ وہ بوریت سی محسوس کرنے لگی ۔ شام کو کٹی پارٹیوں میں جایا کرتی تھی مگر وہاں سبھی سہیلیوں سے یہی سننے کو ملتا تھا کہ عورت کو گھر میں قید نہیں ہونا چاہیے ، دن میں کوئی کامکرنا چاہیے ۔ موجودہ زمانے میں عورت کسی کی غلام نہیں ہے ، اسے اپنے ڈھنگ سے جینے کا پورا پورا حق ہے ۔ پانی کی بوند بوند گرنے سے تو پتھر پر بھی نشان پڑ جاتا ہے ۔ مالتی نے بھی فیصلہ کرلیا کہ تفریح کے لیے ہی سہی ، وہ کسی اسکول میں ضرورنوکری کر لے گی ۔ اثر و رسوخ تو تھا ہی ، اِدھر دماغ میں خیال آیا ، اُدھر بلیو بیل اسکول کے انتظامیہ نے جوائن کرنے کی دعوت دی ۔ سکول میں بھی وہ اپنی ہی دنیا میں مست رہتی تھی ۔بچے تو بس اس کے لیے کھلونے تھے ، ان کے ساتھ کچھ گھنٹے کھیل لیتی اور پھر واپس اپنے گھر۔ ‘‘ ۷؂
مالتی تومر ایک نودولتیاگھرانے سے تعلق رکھتی ہے ، بی اے ،بی ایڈ کی تعلیم حاصل کر چکی ہے اور والدین ایک اچھا سالڑکا ڈھونڈ کر اس کی شادی کردیتے ہیں۔ سسرال میں سبھی اس کو آنکھوں پر بٹھادیتے ہیں جبکہ اس کے بچوں کی ذمہ داری نوکروں کے حوالے ہوتی ہے ۔ اسلئے وہ اپنا وقت اسکول اور اپنی سہیلیوں میں گزارتی ہے ۔ایک جانب مصنف بدلتے معاشرے کی تصویر مالتی تومر کے کردار کے ذریعے پیش کرتے ہیں تو دوسری جانب موجودہ زمانے میں خواتین کی بے راہ روی اور انسانی رشتوں کی شکست و ریخت کی طرف ظریفانہ انداز میں اشارہ کرتے ہیں ۔ نئے زمانے میں خواتین کو کئی سہولتیں مہیا ہوتی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود وہ اپنی زندگی کو بے مقصد جینے پر مجبور ہیں جیسا کہ مالتی تومر۔مصنف نے مالتی تومر نامی کردار کے ذریعے نئے زمانے کی متوسط عمرخواتین کے نفسیاتی پہلوؤں پر خوب روشنی ڈالی ہے۔افسانے کے چند اقتباس:
اس پر طرّہ یہ کہ مالتی کو بچوں کے بڑھنے کا احساس ہوا نہ تجربہ ۔ چند مہینے دودھ پلایا پھر اشرافی ماؤں کی طرح وہی لیکٹو جن اور سیری لیک ڈِبّے ۔ اللہ اللہ خیر سلا۔‘‘ ۸؂
’’ عورت کو گھر میں قید نہیں ہونا چاہیے ، دن میں کوئی کام کرنا چاہیے ۔ موجودہ زمانے میں عورت کسی کی غلام نہیں ہے ، اسے اپنے ڈھنگ سے جینے کا پورا پورا حق ہے ۔‘‘ ۹؂
’’ سکول میں بھی وہ اپنی دنیا میں مست رہتی تھی ۔ بچے تو بس اس کے لیے کھلونے تھے ، ان کے ساتھ کچھ گھنٹے کھیل لیتی اور پھر واپس اپنے گھر ۔ ‘‘ ۱۰؂
’’ مالتی تومر کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا ۔ ویسے ہی وہ جھلائی ہوئی تھی ۔ صبح گھر سے نکلتے وقت اس نے اپنے پتی کو سکول سے گھر لے جانے کے لیے کہاتھا مگر اس نے منع کیا۔ شام کو ریل گاڑی سے ڈیرہ دون جانا تھا ۔ ٹکٹیں بُک ہوچکی تھیں ۔ وہاں سے مسوری جانے کا پروگرام بن چکا تھا ۔ ‘‘ ۱۱؂
نئے زمانے کے حالات نے اس قدر اخلاقی گراوٹ کر دی ہے کہ ہر رشتہ عبوری اور ناپائیدار بن کر رہ گیا ہے ۔ عصر حاضر کی مائیں اپنے جسمانی سڈول پن کی فکر مند ہوکر اپنے بچے کوپِستانوں کا دودھ پلانے سے محروم رکھتی ہیں جس کی طرف دیپک بدکی نے لیکٹوجن اور سیری لیک ڈبّے کے توسل سے اشارہ کیا ہے ۔اسی طرح مالتی تومرُ ان اساتذہ کی نمائندہ ہے جو اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے برائے نام نوکری کرتی ہیں اور اپنی سسرال اور شوہر کا غصہ اسکول کے بچوں پر نکالتی ہیں اور پھر نیہا جیسی معصوم بچی کو سزا دینے پر ایک بار بھی نہیں سوچتی ہیں۔ افسانہ کے اس اقتباس پر غور فرمائیں :
’’ اچھا ٹیچر کے سپیلنگ بتاؤ ۔‘‘ معلّمہ نے اپنی آواز کو زیادہ بھاری اور کرخت بنا کر پوچھ لیا ۔ نیہا پھر بھی خاموش اپنی ٹیچر کو دیکھتی رہی اور اس کے منہ سے کوئی لفظ بھی نکل نہیں پاریا تھا ۔ ……. نیہا کی مسلسل چُپّی نے اس کے ذہن کو مختل کردیا۔ مالتی تومر نے اس معصوم بچی کو پھٹکارتے ہوئے کہا۔ ’ لاسٹ رو میں چلی جاؤ اور دیوار کی طرف منہ کرکے وہاں بنچ پر کھڑی ہوجاؤ ۔ جب تک میں نہ کہوں گی ، نیچے نہیں اترنا۔ ‘‘ ۱۲؂
اس افسانے کا مرکزی کردار نیہا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے،اس کا داخلہ نامور بلیو بیل اسکول میں کرایا جاتا ہے حالانکہ نیہا ایک سہمی ہوئی معصوم بچی ہے جو اس وقت ڈر جاتی ہے جب اس کی ماں دادی کے ساتھ رات بھر اسپتال میں رہتی ہے اور اس وقت بھی جب مالتی تومر اس سے سوال پہ سوال کرتی ہے۔ یہاں نیہا کی چُپّی اس کے ڈر کے سائے کو اور نفسیاتی و ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ جیسا کہ افسانے میں درج ہے :
نیہا نے تو کمال ہی کردیا تھا ۔ نوٹ بک پر کچھ لکھا ہی نہ تھا ۔ مالتی اسے بہت ناراض ہوگئی ۔ پہلے کھڑے ہونے کو کہا ۔ نیہا کھڑی ہوگئی پھر اسے سوال پوچھا ۔’’ نالج کی سپیلنگ بتاؤ؟‘‘ نیہا چپ چاپ کھڑی رہی اور کچھ نہ بولی ۔ اس نے آج بھی سبق یاد نہیں کیا تھا ۔ کرتی بھی کیسے ؟ ٹیسٹ سے ایک روز پہلے دادی گھر پر باتھ روم میں نہاتے نہاتے گر پڑی تھی اور اس کی داہنی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ۔وہ کراہ رہی تھی ۔ والدین اسے فوراً اسپتال لے گئے جب کہ پریشان نیہا اکیلی ہمسائے کے گھر میں پڑی رہی ۔ کچھ پڑھ ہی نہ پائی ۔ پھر سکول کا کام کرنے میں ماں اس کی رہنمائی کرتی تھی مگر وہ تو رات بھر اسپتال میں رہی ۔ دادی اب بھی پلستر باندے ہسپتال میں پڑی ہوئی ہے ۔ ۱۳؂
*نیہا کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈآیا ۔ مارے خوف کے وہ کچھ بھی نہ کہہ پائی ۔ چپ چاپ اپنی قطار سے باہر نکل کر آخری بینچ پر چڑھ کر کھڑی ہوگئی اور دیوار کی طرف اپنا منہ کرلیا ۔‘‘ ۱۴؂
بچے بڑے معصوم ہوتے ہے، ذہنی و نفسیاتی طور پر بڑے حسّاس ہوتے ہے۔ بچوں کی مسکراہٹ جہاں بڑوں کے دکھ درد کو ذائل کردیتی ہے وہیں تکلیف ،چوٹ ، خوف ،ہراس ،وحشت اور ہولناکیاں ، غلیظ باتوں اور مناظر کااثر ان کی دماغی و نفسیاتی حالت پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے۔ لہٰذابچوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت ،مہربانی ،رحم اورمحبت سے پیش آنا چاہیے ۔ایسا کرنے سے ہی ہم ان کے ہمدرد اور غم خوار بن سکتے ہیں۔ اس کے برعکس معصوم نیہا کے لیے الٹی تدبیر یں ہو گئیں ۔غرض یہ کہ نیہا پر اس کی استانی مالتی تومر کے برے برتاؤ نے ایسا اثر ڈالا کہ وہ بلیک بورڈ پر لکھ لکھ کر اپنا ڈر وخوف کم کرنے کی کوشش کرتی رہی اور آخر کار داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔ اقتباس :
’’ آہستہ آہستہ کلاس روم میں اندھیرا بڑھتا گیا اور نیہا گھبرانے لگی ۔ تھوڑی بہت چاندنی کی روشنی چھن چھن کر کمرے میں اب بھی آرہی تھی ۔ اسے ڈر لگنے لگا ۔بہت کوشش کے باجود وہ زیادہ ریر تک بینچ پر کھڑی نہ رہ سکی ۔ وہ رونے لگی ۔زار و قطار رونے لگی۔‘‘ ۱۵؂
اور پھر اس دردناک کیفیت کی منظر نگاری دیکھیے:
’’ معصوم نیہا نے ہاتھ میں چاک اٹھایا اور کرسی پر چڑھ کر بلیک بورڈ پر ہندی میں لکھنے لگی ۔
’’ ممی …ممی…مجھے ڈر لگ رہا ہے ! ‘‘
’’ پاپا ..پاپا…مجھے ڈر لگ رہا ہے !‘‘
سوری میڈم …سوری میڈم …اب میں پاٹھ یاد کرکے آیا کروں گی …میڈم مجھے معاف کردو .. ..سوری میڈم …..سوری میڈم …میں کل سے کبھی بنا پاٹھ یاد کیے نہیں آؤں گی..سوری میڈم …سوری میڈم …سوری میڈم …مجھے گھر جانے دو…میڈم مجھے گھر جاناہے …میڈم مجھے ڈر لگ رہا ہے …سوری میڈم ….سوری میڈم …! ‘‘
’’ممی مجھے بچاؤ …..پاپا مجھے یہاں سے لے جاؤ ۔ ‘‘
’’ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پاپا ۔ آپ کہاں ہو؟‘‘
’’ پاپا جلدی آجاؤ…!‘‘ ۱۶؂
اُدھر نیہا کے ماں باپ جنھوں نے اس کو تعلیم دِلانے کی غرض سے ہر تکلیف جھیلی ہے ، اس کے گھر نہ لوٹنے اور گم ہونے پر انتہائی درد وکرب سے گزر جاتے ہیں جب کہ اس کی ٹیچر بڑے مزے سے عیش کرتی رہتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ پرنسپل بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا اور سرسری طور پر اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ اُس کیفیت کی عکاسی دیپک بدکی نے دلگداز انداز میں یوں کی ہے :
*’’اُدھر گھر میں ماں باپ دونوں پریشان ہوئے کہ نیہا سکول سے واپس کیوں نہیں آئی؟ جس رکشا پر وہ گھر لوٹتی تھی اس سے رابطہ کیا مگر رکشا والے نے بتایا کہ بٹیا تو میرے ساتھ واپس گھر نہیں آئی۔ ‘‘ ۱۷؂
*’’ جس معلّمہ نے سزا سنائی تھی وہ خود مسوری کے لیے روانہ ہوچکی تھی ۔ والدین کو سزا کے بارے میں کسی نے بتایا بھی نہیں ۔ ان کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی ۔ مایوس ہوکر والدین نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ۔ ‘‘ ۱۸؂
*’’ ماں باپ نے ایک ایک لمحہ ، ایک ایک گھڑی اور ایک ایک دن کیسے گزارے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ۔ البتہ انھیں موہوم سی امید تھی کہ کوئی نہ کوئی نیہا کی خبر ضرور لے کر آئے گا ۔ وہ اپنی ساری جائیداد اغوا کرنے والے کو سونپنے کے لیے تیار تھے اگروہ ان کی نیہا لوٹا دیتا ۔ مگر کہیں سے کوئی فون نہیں آیا ۔ نیہا کے پتاجی ہر گھنٹے پولیس سٹیشن فون کرکے پوچھ لیتے اور دن میں ایک دوبار خود بھی پولیس سٹیشن چلے جاتے ۔وہ پولیس کے اعلیٰ افسروں سے بھی ملے لیکن ناکام رہے۔ ‘‘ ۱۹؂
*’’ پرنسپل سے رابطہ کیا تو اس نے بھی کورا سا جواب دیا کہ سارے بچے چھٹی ہونے کے ساتھ چلے جاتے ہیں ۔ کوئی سکول میں کیسے رہ سکتا ہے اور پھر رہے گا بھی کیوں ؟کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ معصوم بچی سکول میں سزا کاٹ رہی ہے ۔ ‘‘ ۲۰؂
قاری افسانہ پڑھ کر نیہا اور اس کے والدین سے ہمدردی جتاتا ہے لیکن جہاں اُسے اس احساس سے گزرنا پڑتا ہے کہ تعلیم و تربیت حاصل کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے وہیں اس کو تعلیمی نظام سے کدورت ہوتی ہے ۔بڑھتا ہوا اسکولی خرچ اس کی راتوں کی نیند حرام کردیتا ہے کیوں کہ اچھی تعلیم کی خواہش میں لوگ اپنا سب کچھ بیچ ڈالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف نظامِ تعلیم کی بد انتظامیوں کے نتیجہ میں بچے اپنی جان گنوادیتے ہیں۔ اس کے ذہن میں کئی سوال اٹھتے ہیں جو اس کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھتے ہیں جیسے نیہا جیسی لڑکیوں کی موت کب تک ہوتی رہے گی یا پھر ان کی موت کا ذمہ د ار کون ہے؟ کیا واقعی نیہا کی عمر کی لڑکیاں سزا کی حقدار ہیں ؟ ان کے ماں باپ جو اچھی تعلیم دِلانے کی ریس میں غلطاں ہیں یا پھر وہ استاد جو بچوں کی دیکھ بھال نہیں کر پاتے اور ان کو بات بات پر سخت سزا ئیں دیتے ہیں۔
افسانہ نگار نے زیر نظر افسانے میں موجودہ دور کے نظامِ تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈا لی ہے اور ساتھ ہی اپنے بے باکانہ نقطۂ نظر سے ان والدین اور اساتذہ کو حدف کا نشانہ بنایا ہے جو اپنے فرائض کو بالائے طاق رکھ کر اپنی سہولتوں اور آسائشوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں دیپک بدکی کے خیالات ،رجحانات اور محسوسات کو افسانہ ’ سوری میڈم ‘ میں جابجا دیکھا جاسکتا ہے جیسے :
*’’ متوسط طبقے کی اڑانیں محدود ہوتی ہیں ۔ بیٹی اچھی تعلیم پائے ، اچھی نوکری کرے اور پھر اچھے گھر میں بیاہ کر کے چلی جائے ۔ اس سے آگے تو کبھی سوچتے بھی نہیں ۔‘‘۲۱؂
*’’ روپیہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا لیکن تسلی اس بات کی تھی کہ سال کے اخیر میں سند مل جاتی تھی جس میں لکھا ہوتا تھا کہ امتحان میں امتیاز کے ساتھ کامیاب ہوئی ہے ۔‘‘۲۲؂
*’’ اس دن کا وہ آخری پیریڈ تھا ۔ دوسرے روز سے چار دن کے لے سکول بند ہونے والا تھا ۔ سنیچر ، اتوار اور دو چھٹّیا ں! چھٹّیوں کا کیا ، ہندوستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی تیوہار منایا جاتا ہے ۔ ‘‘ ۲۳؂
*’’قریب تیس منٹ کے بعد سکول کی آخری گھنٹی بج گئی اور ساری لڑکیاں کمرے سے یوں دوڑتی ہوئی باہر نکل گئیں جیسے کسی جیل خانے میں قیدی چھوٹ گئے ہوں۔‘‘ ۲۴؂
*’’نیہا کلاس کے آخر ی بینچ پر دیوار کی طرف منہ کرکے خاموش ایسے کھڑی رہی جیسے ڈروتھی براؤن ہیمانز کی نظم میں کسابلا نکا جلتے ہوئے عرشۂ جہاز پر کھڑا رہا تھا ۔ ‘‘ ۲۵؂
*’’ اُدھر نیہا بے ہوش ہو کر فرش پر کیا پڑی پھر کبھی نہیں اٹھی ۔چار روز پڑے پڑے اس کا بدن اینٹھ گیا تھا۔ جسم کا رنگ کچھ عجیب سا زرد ہوگیا تھا ۔ اس کی بند مٹھی میں وہی چاک تھا جسے اس نے سیاہ تختے پر لکھ لکھ کر اپنی جان گنوائی تھی ۔ ‘‘ ۲۶؂
دیپک بدکی کی اس کہانی سے ہمارے معاشرے کی کھوکھلی اقدار، بناوٹی اطاعت شعاری اورجبری طرزِ تعلم کا پردہ فاش ہوجاتا ہے ۔جہاں تک افسانے کی زبان کا تعلق ہے اس میں روزمرہ کے الفاظ برتے گئے ہیں اور اردو کے علاوہ انگریزی وہندی کے الفاظ کو بھی بڑی خوبی سے استعمال کیا گیا ہے۔اس افسانے کو معاصر افسانوں کا ایک نمائندہ افسانہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔
***
حواشی :
(۱) ’دیپک بدکی سے سیفی سرونجی کی بات چیت‘، از ڈاکٹر سیفی سرونجی ، مشمولہ : سہ ماہی رسالہ انتساب ( دیپک بدکی نمبر):
جولائی تا ستمبر ۲۰۱۶ ص۔۲۰
(۲) ’حرف اول‘ ریزہ ریزہ حیات‘ ( افسانوی مجموعہ) از دیپک بدکی ص ۱۱ ۔ ۱۲
(۳) ’ایک معصوم کی المناک موت‘ دیپک بدکی ؛ مشمولہ مجموعہ ’اب میں وہاں نہیں رہتا‘؛ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی ص ۔ ۶۰
(۴) ایضاً ص ۔ ۶۱
(۵) ایضاً ص ۔۶۳
(۶) ایضاً ص ۔۶۲
(۷) ایضاً ص ۔ ۶۲
(۸) ایضاً ص۔ ۶۲
ّ(۹) ایضاً ص ۔ ۶۲
(۱۰) ایضاً ص ۔ ۶۲
(۱۱) ایضاً ص ۔۶۴
(۱۲) ایضاً ص ۔۶۴
(۱۳) ایضاً ص ۔۶۳
(۱۴) ایضاً ص ۔۶۴
(۱۵) ایضاً ص ۔۶۵
(۱۶) ایضاً ص ۔۶۶۔۶۵
(۱۷) ایضاً ص ۔۶۶
(۱۸) ایضاً ص ۔۶۷
(۱۹) ایضاً ص ۔۶۷
(۲۰) ایضاً ص ۔۶۶
(۲۱) ایضاً ص ۔۶۳
(۲۲) ایضاً ص ۔۶۴
(۲۳) ایضاً ص۔۶۲
(۲۴) ایضاً ص ۔۶۴
(۲۵) ایضاً ص ۔۶۵
(۲۶) ایضاً ص۔۶۷
——
Dr.Shaikh Sufiyabanu,
A.C- Ground Floor ,Tajpalace, Kumbharwada,
380001. Jamalpur, Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email :

Share
Share
Share