افسانہ : الزام :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : الزام

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

زندگی کتنی عجیب ہے۔ میں نے کہا کہ زندگی عجیب نہیں ہے۔انسان عجیب ہے۔وہ اپنی زندگی کو اپنی فطرت کے عین مطابق نام دیتا رہتا ہے۔ وہ یہ بات سن کر کہنے لگے کہ میں تمہاری اس بات سے اکتفا نہیں رکھتا۔زندگی عجیب ہے تو ہے۔میں نے پوچھا اچھا تمہارے پاس اس کا جواب تو ہوگا کہ زندگی عجیب کیوں ہے؟

یہ مسئلہ جتنا سیدھا ہے اتنا ہی ٹیڑھ ہے۔ کلثوم تم نے کھانا کھا لیاکیا؟ میں نے کہا نہیں جاوید میں تو۔۔۔میں تو۔۔۔ اب بتاؤ بھی کھانا کھایا کہ نہیں۔میں نے اپنے حصہ کاکھانا آج ایک فقیر کو دے دیا۔جاوید مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ کلثوم یہاں ہمارے کھانے کے لالے پڑے ہیں اور یہ خیرات کرکے دنیا کی مہان خاتون جنت بننا چاہتی ہو۔ بات وہ ہے اس فقیر نے کہا بیٹا میرے معصوم بچوں نے تین دن سے اچھا کھانا نہیں کھایا اور تمہیں تو معلوم ہے ہمارے یہاں جمعہ کے روز ہی اچھا کھانا بنتا ہے اور باقی روز بہت ہی سادہ۔ میں نے اپنے حصے کا کھانا دے دیا، مگر تم اپنے حصے کا تو کھا سکتے ہو۔ میں نے کھانا لگایا اور انہیں کھانا دیا۔ وہ بھلے ہی مجھ پر غصہ کر لے لیکن وہ میرا خیا ل بہت رکھتے ہے۔ انہوں نے اپنے کھانے مجھے شامل کر لیا اس طرح اس روز ہم دونوں ایک ہی تھالی میں کھانا کھایا تھا۔
گھر میں تنگ منگ حالات میں بھی خوشی خوشی زندگی کٹ رہی تھی۔ ہم دونوں کے درمیان ایک میٹھا رشتہ بندھ گیا تھا۔ زمانے کی بدلتی ہواؤں نے ہمیں بھی بدل رکھ دیا۔ پہلے جہاں ہم ساتھ کھانا کھاتے تھے اب ایک دوسرے کے بغیر کھانا کھانے کی عادت ہوچکی تھی۔ سمارٹ فون آنے کے سبب ہم دونوں کی زندگی بولیٹ ٹرین کی مانند دوڑ رہی تھی جہاں ایک دوسرے کے لیے وقت ہی نہیں تھا جاوید مہنگائی کے سبب دن رات محنت کرنے میں جٹ گیا کیونکہ اسے مستقبل کے لیے کچھ سیونگ کرنا تھا آج کل پرائیویٹ سسٹم کے باعث کسی پر اعتبار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ میں نے باہر جانے کے لیے اپلائے کیا تھا اور وہ منظور بھی ہوگیا تھا۔ میں انگلینڈ چلا گیا۔ اس بات کا فرق کلثوم کو تب بھی نہیں ہوا۔ اسے تو بس پیسے دے دو اور وہ گھر گھر میں ہونے والی کٹّی پارٹیوں میں مست رہتی تھی۔ یہ لت میں نے ہی اسے لگائی تھی اور آج میں ہی پچھتا رہا ہوں۔ اسے میرے ہونے نہ ہونے کا احساس تک مٹ گیا آخر رشتوں میں اتنی دوریاں۔ مجھے انگلینڈ میں ایک رفیق کاردوست نثار احمد مل گیا۔وہ میری ہی طرح مستقبل کا سوچ کر انگلینڈ آیا تھا۔ ہم دونوں کی کہانی یکساں ہو کر بھی الگ الگ تھی۔ اس کی بیوی ساجدہ اس کا بہت خیال رکھتی۔ اتنی دور رہ کر بھی وہ دونوں کتنے پاس تھے اور ایک ہم ہیں پہلے پاس تھے اور اب اتنے دور ہوگئے کہ واپس پاس آنا نہ ہی اس کے لیے آسان ہے اور نہ ہی میرے لیے۔
میں نے ایک روز انگلینڈ سے کلثوم کو فون کیا تھا۔ کلثوم نے پہلے فون ریسیو نہیں کیا اور جب کیا تو تم اچھے ہوں اور پیسہ کب بھیج رہے ہوں اتنا کہہ کر فون رکھ دیا۔ میں سوچ میں پڑھ گیا کہ کیا میری اس کی نگاہ میں اہمیت بس اتنی ہے کہ میں ایک پیسے بھیجنے والا مشین ہوں۔ میری حیثیت پیسہ بنانے والی مشین بن کر رہ گئی ہے؟ وہ مجھے پیسوں کی مشین کے علاوہ کچھ بھی تونہیں سمجھتی اور میرے دوست نثار احمد کی بیوی ساجدہ جو وہاں کا بھی سوچتی ہے اور یہاں کا بھی۔ کبھی کبھی افسوس کرنے کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں نے بہت سوچا جب میرا حال ہی خراب ہے تو مستقبل کا سوچ کر میں اپنی جان کو کیوں خسارے میں ڈالو۔ میں نے سوچا کہ میں کلثوم سے علیحدہ ہو جاؤ یا پھر حالات کو سدھارکر زندگی کو دوبارہ خوشگوار بنا دو۔
میں انگلینڈ سے واپس لوٹ آیا۔ میں نے کلثوم سے کہا بھی دیکھو اب تمہیں اپنی ضرورتوں کاخیا ل خود کرنا ہوگا۔ میں تمہیں پیسے ضائع کرنے نہیں دونگا۔ کلثوم نے کہا ہاں ٹھیک ہے تم نہیں دو گے تو میں خود کمانے جاؤں گی۔ آج پھر جمعہ کا روز تھا آج اس نے کھانا ہی نہیں بنایا تھا۔ میرے پوچھنے پر وہ بگڑ سی گئی۔ اس نے کہا میں نے کھانا بنانا چھوڑ دیا ہے اور اب میں آن لائن کھانا آڈر کرتی ہوں اور اب تم بھی عادت ڈال لو۔ نہ برتن دھونے کی جھنجٹ اور نہ ہی سودا سلف جمع کرنے کا ٹینشن۔ یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ کیا ہندوستانی تمام عورتیں آن لائن کھانا آڈر کر رہی ہیں؟ تم کب سمجھو گی؟ زمانہ سمارٹ فون سے بھی آگے نکل چکا ہے مجھے احساس ہو رہا تھا کہ کاش میں نے کلثوم سے شادی ہی نہ کی ہوتی آج وہ ساری ضرورتیں روبوٹ کے ذریعے پوری ہو ہی جاتی ہے نہ،سوائے انسانی احساس کے۔ اس کا بھی کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل ہی آئے گا۔ میرے اور کلثوم کے درمیان رشتہ برائے نام ہی رہ گیا تھا۔
میں نے کلثوم کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر کہتے ہے نہ، تالی بھی بجانی ہو تو ایک ہاتھ سے نہیں بجتی دونوں ہاتھوں سے بجائی جائے تو اس کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ میں نے ایک وکیل صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہارا آپسی معاملہ ہے مگر اس طرح کے واقعات ہر روز دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں آپ جیسے سمجھدار لوگ رشتہ بچانے اور نبھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں وہی ایسے بھی لوگ ہیں، جو اپنے رشتوں سے چھٹکارا پانے کی فراق میں ہے۔وکیل صاحب نے کہا کہ تم ایک بناوٹی ترکیب لگاؤ کہ تمہار بیوی کلثوم کو یہ احساس ہوجائے کہ تمہارا رشتہ کیا ہے اور تم اس کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتے ہو؟ میں نے گھر جاتے ہی کلثوم کو یہ بتایا کہ میں تم سے علیحدہ ہونا چاہتا ہوں۔پہلے پہل تو وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی بس تھک ہار کے بیٹھ گئے۔بس اتنا ہی تمہارا پیار تھا۔مجھے لگا گلاس میں شربت کا ختم ہونا کسی کا کسی کی زندگی سے پیار ختم ہونے کے برابر ہوگیا ہے کیا؟ نہیں کلثوم جہاں ایک چھت کے نیچے رہ کر بھی ہم سکون نہ پا سکے اس سے تو بہتر ہے کہ الگ ہوجائے۔ کلثوم نے کہا یہ تمہارا ذاتی فیصلہ ہے میں تم سے الگ ہونا نہیں چاہتی ہوں۔ جاوید نے پھر کہا تم میری بات کیوں نہیں مانتی ہو؟ کلثوم نے کہا دیکھو جاوید زمانہ کے ساتھ چلنا ہی سمجھداری ہے۔جاوید نے کہنے لگا کہ ہماری تہذیب،رسمیں اور روایتیں، سب کچھ ختم ہوجائیں گی۔کلثوم نے کہا یہ دنیا بنی جب تو کوئی رسمیں، روایتیں تو نہ تھیں اور آج اچانک کیوں؟ ان سب کی دہائی دے رہے ہو؟ میں کہتی ہوں تم کس زمانے میں جینا چاہتے ہو؟ آخر انسان کو زمانے کے ساتھ تبدیل ہونے میں کیا ہرج ہے؟اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں۔ جاوید کلثوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا میں نے کب کہا کہ زمانے کے ساتھ نہیں چلنا ہے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ایک کماتا اور سارا کنبہ پلتا رہے لیکن اب تو دس کمائے تب بھی ایک کنبہ مشکل سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر پاتا ہے۔ کلثوم نے کہا تم کہنا کیا چاہتے ہو؟ کیا میں پیسہ ضائع کرتی ہوں؟ دیکھو جاوید تم نے مجھ سے شادی اس وعدے کے ساتھ کی تھی کہ میں تمہاری ہر ضرورتوں کا خیال رکھوں گا۔تم نے تو زندگی کا ابھی ایک رخ ہی دیکھا ہے اور تم ابھی سے مجھ پر بندیشیں لگانا چاہتے ہو۔ دنیا کے سارے مرد ایسے ہی ہوتے ہے انہیں صرف اپنی ضرورت کا احساس ہی رہتا ہے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ایک عورت کی بھی اپنی زندگی ہو سکتی ہے کیا وہ انسان نہیں ہے؟ جاوید نے کہا دنیا میں آدمی ہر جنگ میں کامیاب ہو سکتا ہے مگر وہ کسی عورت سے نہ ہی جنگ لڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ قدرت کی سب سے پیچیدہ بناوٹ میں اولین نمبر عورت کا ہی نمبر آتا ہے جس کو جتنا سمجھا جاتا ہے اتنا ہی انسان الجھتا جاتا ہے۔آج مجھے اس بات کا جواب مل گیا زندگی کتنی عجیب ہے۔ جاوید اپنی جگہ مقرر رہا اور کلثوم بھی۔ جاوید نے سوچا کہ کیوں نہ اس پر کوئی ایسا الزام لگایا جائے جس سے شرمندہ ہوجائے اور اسے احساس ہوجائے۔ میں نے اپنے دوست رشید کو شامل کیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم کو کلثوم کے ساتھ باتیں کرنی ہوں گی اور میری غیر موجودگی میں بھی تمہیں آنا جانا ہوگا اور کسی دن رنگِ ہاتھ پکڑ کر اس پر گھنوناالزام لگادوں گا تاکہ زندگی بھر اسے یہ احساس ہوتا رہے گا۔ شوہر کی نافرمانی کا نتیجہ کیا رنگ لاتی ہے۔ رشید نے پہلے پہل منع کیا۔ وہ جانتا تھا کہ مسئلوں کو اس طرح سے حل کرنا جہالت ہے۔ کوئی اور ترکیب بنا یار اس طرح تو خود تو بیوی کی نظرسے گر جائے گا اور مجھے بھی توبھابھی نظروں سے گرا دے گا۔ رشید تم چاہتے ہوں میری زندگی واپس پٹری پر آجائے۔ میری مدد کرنا میرے دوست۔ اچھا ٹھیک ہے لیکن یہ کرنا کب ہوگا؟ جاوید نے کہا آج اور ابھی سے۔جاوید رشید کو اپنے ساتھ گھر لے گیا اور کلثوم سے اس کا تعارف کروایا۔ کلثوم اس بات سے انجان تھی کہ یہ جاوید کی ایک سازش تھی۔ اس سازش کا اثر دکھنا شروع ہو گیا تھا۔ کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ کلثوم اور رشید کے درمیان ہنسی مزاق کی باتیں ہونے لگی۔ کلثوم کے دل میں رشید کے لیے جو جذبہ تھا وہ ایک چھوٹے بھائی کا تھا۔ اس لیے اس کو اس بات سے کبھی اعتراض نہیں ہو تاتھا کہ وہ جاوید کی غیر موجودی میں آتا ہے۔ ایک روز پھر جاوید کی غیر موجودگی میں رشید آیا مگر اس کی طبیعت کچھ خراب تھی۔کلثوم اسے دوائی دے رہی تھی کہ جاوید کی آمد ہوگئی۔جاوید نے بنا کچھ سوچے سمجھے رشید کو غصے کے انداز میں جانے کو کہتا ہے۔ رشید اس بات سے واقف تھا کہ ایک روز یہ بھی ہونے والا ہے اس لئے وہ وہاں سے چل دیا۔ جاوید نے کلثوم پر بد چلن کا الزام دھر دیا اور کہنے لگا تم میری غیر موجودگی میں میرے ہی دوست کے ساتھ، چھی چھی تم کو سچ مچ نئے زمانے کی ہوا لگ چکی ہے۔کلثوم نے جاوید سے کہا کہ تمہارا یہ الزام سراسر غلط ہے جاوید کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ یہ میری غیر موجودگی میں یہاں کیا کر رہا تھا؟کلثوم نے کہا میں کیا جانو لیکن ہاں میں تم سے بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ تم نے مجھ پر چوری کا، ڈاکے کایا پھر جھگڑالو کا کوئی بھی الزام لگاتے تو میں برداشت کر لیتی مگر تم نے میرے کرادار پر داغ لگا ہے۔ ایک عورت کی عزت اس کا وجود ہوتا ہے اور تم نے آج میری عزت پر ایسا گھنونا الزام لگایا کہ میں تم سے خود علیحدہ ہونا چاہتی ہوں۔ زمانے کی ہواؤں نے مجھ کو تو نہیں مگر تم کو نفسیاتی اور احساس کمتری ولا بنا دیا ہے یہ الزام تم نے اپنی وفاشعار بیوی پر لگایا ہے تم کو معلوم ہے رشید کو میں اپنے چھوٹے بھائی کی مانند سمجھتی تھی۔ ایک عورت اپنے شوہر سے سب کچھ بانٹ سکتی ہے مگر وہ اپنے شوہر کو کسی اور کے ساتھ نہیں بانٹ سکتی۔ تم نے تو الٹا مجھ پر وہ الزام لگایا جس کو دنیا کی کوئی بھی عورت برداشت نہیں کرسکتی۔ایک عورت تب تک زندہ ہے جب تک اس کے شوہر کی نگاہ میں وفادار ہے ورنہ وہ جیتی جاگتی زندہ لاش کا مجسم بن کر رہ جاتی ہے۔
——–
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email:

Share
Share
Share