اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (1) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ (1)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا دوسرا کلمہ، اَشْھدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہے،ترجمہ:(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔) اصل کلمہْ لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ ہے لیکن اذان میں اسے گواہی کے انداز میں شامل کیا گیا ہے، اور وہ بھی مُتکّلم کے صیغہ کے ساتھ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس سے اس کا دعوتی اور اعلانی انداز او ر زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے،

ویسے ْ لآ اِلٰہَ اِلَّااللہ یہ قرآنی کلمہ ہے جو قرآن میں مختلف انداز سے مختلف مقامات پر آیا ہے جیسے سورۂ بقرہ میں اللہ ُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کے الفاظ میں آیا ہے، اسی طرح سورۂ یونس میں، لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ کے الفاظ میں آیا ہے۔اور سورۂ صٰفّٰت کی آیت(۵۳) اور سورۂ محمد کی آیت (۹۱) میں تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُمکمل ترتیب کے انداز میں آیا ہے۔
ایک لغوی تحقیق یہ ہے کہ اِلٰہُ پر اَلِفْ لاَمْ لگانے سے لفظ ’اللہ‘ بنا ہے اس صورت میں َاللہ ُ اِسْم بَامُسَمّٰی ہو جاتا ہے، یعنی’اللہ‘ وہ ذاتی نام ہے،جس میں معبود ہو نے کے معنی خود بخود شامل ہے، لیکن اللہ کے ساتھ اِلٰہَ جوڑنے سے اس کے معبود ہونے کی صفت میں اور تاکید پیدا ہو جاتی ہے، اور مزید تاکید پیدا کرنے کے لئے اِلٰہُ سے پہلے لَاءِ نفی لایا گیا ہے، جس کے معنی نہیں کے ہوتے ہیں، مطلب یہ کہ اللہ کے معبود ہونے کے اقرار سے پہلے اللہ کے علاوہ جتنے معبود ہیں ان کا انکار کرے، اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ اگر کوئی اللہ کے معبود ہونے کا اقرار کرتا ہے، اور غَیْرُ اللہ کے معبود ہونے کا انکار نہیں کرتا ہے تو گویا اس نے اللہ کے معبود ہونے کا اقرار نہیں کیا، اس لئے اس کے ماننے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، عربی میں اِلٰہَُ اور اٰلِھَۃُ ایسی ذات اور ہستی کو کہتے ہیں جو کائنات کی سب سے بڑی ہستی اور ذات ہو، اور صرف وجود اور خالق ہی کے لحاظ سے ہی بڑی نہیں، بلکہ حاکم کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی ہو، اور صرف حاکم ِتکوینی ہی کے لحاظ نہیں بلکہ حاکمِ تشریعی کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی ہستی ہو، مطلب یہ کہ اللہ کو جس طرح زمین و آسمان کے خالق و حاکم کی حیثیت سے ماننا ضروری ہے، اسی طرح اللہ کوانسانوں کے خالق و حاکم کی حیثیت سے ماننا بھی ضروری ہے اور صرف جسمانی لحاظ سے ہی حاکم مان لینا کافی نہیں ہے، بلکہ نظام زندگی کے متعلق بھی حاکم ماننا ضروری ہے، اور زندگی کے تمام شعبوں میں، دنیا کے تمام حاکموں سے سب سے بڑا حاکم ماننا ضروری ہے، اور دیکھا جائے تو اللہ کے علاوہ دراصل کسی کو حاکم بننے کا حق ہی حاصل نہیں ہے، اللہ کے علاوہ جو بھی ہے وہ مخلوق و محکوم ہے اس لحاظ سے انسان کے لیے اللہ کا محکوم رہنے ہی میں بھلائی اور بلندی ہے، اس لیے کہ یہ عین عدل اور اصول کی بات ہے کہ کسی بڑے کی نظر میں وہی بڑے اور معزز شمار ہوتے ہیں،جو اس کی اتباع اور پیروی کرتے ہیں، اس لحاظ سے اللہ کی نظر میں عام انسانوں کے مقابلہ میں انبیاء اور رسُولوں کامقام و مرتبہ اس لئے بڑا ہے کہ انھوں نے اللہ کی اتباع اور پیروی، عام انسانوں سے زیادہ کی ہیں، دنیا میں بھی عام طور سے یہی اصول چلتا ہے، مثلاً کسی بادشاہ اور حکمراں کے نزدیک عام رعایا کے مقابلہ میں حکومت کے وزیروں اور ملازمین کا مقام و مرتبہ زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ نہ صرف یہ کہ یہ بادشاہ اور حکمراں کی اتباع اور پیروی کرتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی بادشاہ اور حکمراں کی اتباع کی دعوت دیتے ہیں، اور حکومت کے احکام کو عوام پر نافذ کرتے ہیں، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان سیاست و حکومت کے معاملات میں غیر اسلامی حکمرانوں کی اتباع اور پیروی کرکے اللہ کی نظر میں معزز و مکرم بننا چاہتے ہیں تو ان نام و نہاد مسلمانوں کے سامنے بطور توجہ ایک مثال اور سوال رکھا جاتا ہے،براہ کرم وہ اس پر غور فرمائے، اور اپنے ایمان اور ضمیر سے پوچھ کر اس کا جواب دے، وہ یہ کہ ایک شخص کا نگریس پارٹی کا ممبر ہے جو سیاست و حکومت کے معاملات میں اس کی مخالف پارٹی کی حمایت کرتا ہے،کیا ؎ وہ کانگریس پارٹی کی نظر میں اونچا مقام حاصل کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے کسی کا بھی ایمان اور ضمیر یہی کہے گا کہ وہ کانگریس کی نظر میں عزت حاصل نہیں کر سکتا، بلکہ ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ کانگریس کی مخالف پارٹی کی نظر میں عزت کا مقام حاصل کرے گا، اور کانگریس کی نظر میں منافق اور باغی شمار ہوگا۔
اذان کا دوسرا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ایک طرح سے اسلام کی رکنیت میں داخل ہونے کا کلمہ ہے، جس کسی نے بھی سچے دل سے اس کلمہ کا اقرار کر لیا ہے، وہ اسلام کا رکن اور ممبر بن گیا، اگرچہ اس کلمہ کا ایک اورجز محمدرسول اللہ ہے،اور اسلام کی رکنیت کے لیے اس کا اقرار بھی ضروری ہے، لیکن چونکہ اذان کے کلمات میں کلمہ کے ان دو جزکو الگ الگ رکھا گیا ہے، اس لیے محمد رسول اللہ کی تفصیل اس کے بعد کے عنوان میں آئے گی۔اذان میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ سے پہلے اَشْھَدُ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ لفظ کا اضافہ کرکے ایک طرح سے یہ بتلا دیا گیا کہ ایمان کے صحیح ہونے کے لیے صرف کلمہ کا اقرار ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کی شہادت یعنی گواہی دینا بھی ضروری ہے،اپنے قول و عمل دونوں کے ساتھ، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے جو پانچ کلموں کا نصاب تیار کیا گیا ہے، اور وہ دینی مکاتب و مدارس میں پڑھا یا بھی جاتا ہے، اس کے دوسرے کلمہ کا نام ہی کلمہ شہادت ہے، اور اس میں بھی اللہ ہی کے معبود ہونے اور محمدﷺ کے بندہ اور رسول ہونے کی گواہی ہے، گواہی کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کی سچائی کے اظہار اور اعلان کے لیے گواہی لی جاتی ہے، اور اس لیے بھی لی جاتی ہے کہ گواہی دینے والا اس سچائی پر قائم رہے، اس لحاظ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کی گواہی کا تقاضہ ہے کہ اذان دینے والا اور اذان کا جواب دینے والے اس گواہی پر قائم رہیں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ اذان دینے والا اور اذان کا جواب دینے والے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے مطلب اور تقاضہ سے پورے طور پر واقف ہو ں، ابھی زیادہ تر مسلمان لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے مطلب اور تقاضہ سے ناواقف ہیں، اسلئے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی مختصر و ضاحت پیش کی جارہی ہے۔
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ یہ اسلام کا سب سے پہلا کلمہ ہے اس کو کلمۂ توحید بھی کہتے ہیں، کیونکہ اس میں ایک اللہ ہی کے معبود ہونے کا اقرار و اعلان ہے، اس کو کلمۂ طیبہ بھی کہتے ہیں، کیونکہ یہ بہتر بات ہے، بلکہ سب سے بہتر یہی بات ہے، اس کلمہ کو ایک طرح سے اسلام کا بیج بھی کہہ سکتے ہیں، جس طرح ہر درخت کا ایک بیج ہوتا ہے، اور ہر درخت ایک بیج ہی سے نکلتا ہے اسی طرح کلمہ طیبہ اسلامی درخت کا بیج ہے، جس انسان کے دل میں کلمہ طیبہ کا بیج ڈال دیا جاتا ہے، اس کے دل میں ایک طرح سے اسلامی درخت کا بیج ڈال دیا گیاہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کلمہ طیبہ کی مثال ایک درخت ہی سے سمجھائی ہے، چنانچہ فرمان باری تعالی ہے، اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیَّبۃً کَشَجَرۃِ طَیَّبۃِ اَصْلُھَاثَابِتُ وَّ فَرْعُھَا فیِ السَّمَآءِ۔ تُوْتیِْ اُکُلُھَا کُلَّ حِیْنِ م بِاذْنِ رَبّھَا وَ یَضْرِبُ اللہُ الْاَمَثَالَ لِلنّاسِ لَعلّھُمْ یَتَذَکَرُوْنَ۔(ابراہیم۴۲۔۵۲) ترجمہ: (کیا آپؐ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے جیسے کہ ایک بہترین درخت ہو، اس کی جڑ مضبوط ہو، اور اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہوں،ہر وقت وہ اللہ کی اجازت سے پھل لاتا ہو، اور اللہ مثالیں بیان کرتا ہے، لوگوں کے لئے تاکہ وہ سمجھیں۔)
مذکورہ آیات میں کلمہ طیبہ سے مراد اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہی ہے، جو اسلام کی بنیاد ہے جس کو قبول کیے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا، اس کلمہ کی حیثیت دین میں اسلام کے بیج کی ہے جس سے انسانی زندگی میں اسلامی درخت نکلتا ہے، مذکورہ دو آیات میں کلمہ طیبہ کو جس درخت کی مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے، اس کی تین صفات بیان کی گئی ہیں پہلی صفت یہ ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہوتی ہے،دوسری صفت یہ کہ اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہوتی ہیں،یعنی بہت بلند ہوتی ہیں، تیسری صفت یہ ہے کہ اسے ہر وقت پھل لگے ہوتے ہیں، اب اگر ان تین صفات کو کلمہ طیبہ اور کلمہ پڑھنے والے کے تعلق پر منطبق کرکے دیکھا جائے تو جو صورت بنتی ہے وہ یہ کہ کلمہ طیبہ کا عقیدہ کلمہ گو،کے دل میں مضبوط ہونا چاہیے دوسرے یہ کہ کلمہ گو،کی زندگی میں نیک اعمال ہونے چاہیے جو در اصل کلمہ کے درخت کی ٹہنیاں اور شاخیں ہیں، اور تیسرے یہ کہ کلمہ گو،کی زندگی میں مسلسل تعلیمی و دعوتی کوشش ہونی چاہیے، جو بطور پھل کے ہے، کیونکہ اسلام کی تعلیم و دعوت سے ہی اسلامی ثمرات پیدا ہوتے ہیں، جس
سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، اور اسلام کی تعلیم و دعوت ہی سے اسلامی نسل پروان چڑھتی ہے، کیونکہ پھل کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ پھل میں اس درخت کا بیج ہوتا ہے جس درخت کو یہ پھل لگا ہے، اور یہ بیج اس درخت کی ایک طرح سے نسل اور اولاد ہے، کیونکہ اسی بیج سے دوسرا درخت نکلتا ہے اور دوسرا درخت ایک طرح سے پہلے درخت کی اولاد ہے، یہی وجہ ہے کہ درخت کا پھل اس وقت تک نہیں پکتا جب تک کہ پھل کے اندر کے بیج میں پودا نکلنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی، درخت کے پھل لگنے اور پکنے تک درخت ہی سے لگے رہنے کے نظام سے پتہ چلتا ہے کہ در اصل یہ اللہ کی طرف سے درخت کی نسل کے پروان چڑھنے کا ایک منظم نظم ہے۔ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے درختوں کے پھلوں کو انسانوں، جانوروں اور پرندوں کے لیے غذا کا بھی ذریعہ بنا یا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر پھلوں کے بیج اور گھٹلیاں کھانے میں نہیں آتی، تاکہ درختوں کی نسل کے پروان چڑھنے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
مذکورہ دو آیات میں جب کلمہ طیبہ کو ایک بہترین درخت سے تشبیہ دی گئی ہے تو ضروری ہے کہ ایک اچھے اور بہترین درخت کی نشوونما کے عمل کو بھی سمجھا جائے، کسی بھی زمین میں، کسی بھی اچھے درخت کے بیج کو ڈالنے کے لیے سب سے پہلے زمین کی نرمی اور صفائی لازمی چیز ہے، اور یہ بات کا شتکار اچھی طرح سمجھتے ہیں، اگر زمین کو نرم اور صاف کیے بغیر سخت اور بنجر زمین میں اچھے سے اچھا بھی بیج ڈال دیا جائے تو اس میں پودا نہیں نکلے گا، اور اگر نکل بھی گیا تو وہ بڑھے گا نہیں، بلکہ زمین کی سختی اور زمین کے دیگر جنگلی پودے اسے بہت جلد ختم کردیں گے، لہذا اس میں ٹہنیوں اور پھلوں کے لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح کلمہ طیبہ کو دل میں ڈالنے سے پہلے دل کی نرمی اور صفائی ضروری ہے، اور دل میں نرمی خدا کے ڈر سے پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح اللہ کے علاوہ جتنے معبود ہیں ان کے انکار سے دل صاف ہوتا ہے، مطلب یہ کہ جس نے اپنے دل میں خدا کا خوف پید ا نہیں کیا، اور نہ ہی معبودانِ باطل کا انکار کیا تو اس کے دل کے اندر کلمہ کا عقیدہ مضبوط نہیں ہوسکتا، مضبوط ہونا تو درکنار اس کے دل کے اندر کلمۂ طیبہ داخل ہی نہیں ہو سکتا، یہی وجہ ہے کہ کلمہ طیبہ کی ترتیب میں پہلے اللہ کے علاوہ تمام معبودوں کا انکار ہے، اس کے بعد اللہ ہی کے ایک معبود ہونے کا اقرار ہے،جیسے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ یعنی نہیں کوئی معبودمگر اللہ، کلمہ کی اس ترتیب میں ایک طرح سے پہلے دل کی صفائی ہے، اس کے بعد دل میں کلمہ طیبہ کا بیج ڈالنے کی بات ہے۔ چنانچہ کلمہ طیبہ کی اسی ترتیب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک دوسرے انداز میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یُوْمِنْ بِاللہِ فَقَداسْتَمْسَکَ بِا لْعُرْوَۃِ الْوُ ثْقٰی لَا انفِصَامَ لَھَا وَاللہُ سَمِْیعَ عَلِیمُ۔(سورۂ بقرہ ۶۵۲)ترجمہ (تحقیق کہ ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے، پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو تحقیق کہ اس نے مضبوط رسی پکڑی ہے، جو ٹوٹنے والی نہیں ہے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔)
مذکورہ آیت سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اللہ پر ایمان لانے سے پہلے طاغوت کا انکار ضروری ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے طاغوت کا انکا ر نہیں کیا تو اس کا اللہ پر ایمان لانے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، قرآن مجید کی تفسیر کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ قرآن مجید کو سب سے پہلے قرآن ہی سے سمجھاجائے، اس لیے کہ قرآن مجید کی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو قرآن میں کسی مقام پر مختصر طور پر بیان ہوئی ہیں، اور قرآن ہی میں دوسرے مقام پر ذرا تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں، اس اصول کو( الْقُرآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہُ بَعْضاً)کہتے ہیں یعنی قرآن مجید کا بعض حصہ، بعض حصہ کی تفسیر کرتا ہے، اس اصول کی روشنی میں اگر طاغوت کی تعریف سمجھی جائے تو خلاصہ کے طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ طاغوت کا لفظ قرآن میں غیر اسلامی اقتدار اور عدالت کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسے ایک مقام پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے کردار کو بیان کرتے ہوئے فرمایا۔(اَلَمْ تَرَاِلیَ الّذِینَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اِنْ یّتَحَاکَمُوْآ اِلٰی الطّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُْوْا اَنْ یَّکْفُروا بِہِ وَ یُرِیْدُ الشّیْطَانُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلاً بَعِیْداً)(نسآء آیت ۰۶) ترجمہ (کیا آپؐ نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ آپؐ پر اور آپؐ سے پہلے نازل کردہ کتابوں پر ایمان لائے، جب کہ وہ اپنے معاملات طاغوت سے فیصل کرواتے ہیں، حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کرے، اور شیطان تو چاہتا ہی ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے)
مذکورہ آیت میں منافقین کے جس کردار کو بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید پر ایمان کے دعوے کے باوجود وہ اپنے معاملات اور مقدمات قرآن اور رسول اللہﷺ سے فیصل کروانے کی بجائے اپنے لیڈران سے کرواتے تھے، جب کہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان کی حاکمیت کا انکار کریں، ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ تمام غیر اسلامی لیڈران اور حکمران قرآن کی رو سے طاغوت کی تعریف میں آتے ہیں، اور ان کی حاکمیت اور سربراہی کا انکار کئے بغیر کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا، اگرچہ وہ اللہ کی کتاب پر ایمان کا دعویٰ کرے۔یوں تو بہت سے مفسرین نے طاغوت کی تشریح کی ہے لیکن بیسویں صدی عیسوی کے ایک مفسر قرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جو جامع اور کافی و شافی تشریح کی ہے وہ تمام تفسیروں کا
احاطہ کرلیتی ہے، چنانچہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقم طراز ہے۔ (یہاں صریح طور پر، طاغوت سے مراد وہ حاکم ہے جو قانون الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظام عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو، اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو، لہذایہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت طاغوت کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے، اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضاء یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے، قرآن کی رو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔ (تفہیم القرآن جلد ۱صفحہ ۷۶۳، سورۂ نسآ حاشیہ ۱۹)
اس طرح سورۂ بقرہ کی آیت ۶۵۲ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ ویُومِنْ بِاللہِکی جو تشریح مولانا مودودیؒ نے کی ہے اس سے بھی طاغوت کی حقیقت پورے طور سے واضح ہو جاتی ہے، چنانچہ موصوف رقم طراز ہے۔ (طاغوت = لغت کے اعتبار سے ہر اس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔) قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی و خدا وندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے، خدا کے مقابلہ میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں، پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے، مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کا نام فسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اصولاً منحرف ہو کر یاتو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے، یہ کفر ہے۔تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبہ پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔) (تفہیم القرآن جلد ۱صفحہ ۶۹۱، سورۂ بقرہ آیت ۶۵۲حاشیہ۶۸۲)
سورۂ بقرہ ہی کی آیت ۷۵۲ میں اللہ تعالیٰ نے طاغوت کی کارستانی اور طاغوت کے بہکاوے میں آنے والوں کے کردار اور انجام کو بیان کیا ہے، ساتھ ہی اللہ کی دوستی میں آنے والوں کے کردار کو بھی بیان کیا ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ (اَللہ ُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ یُخْرِجُھُمْ مّنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّورِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیٰٓھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوٓنَھُمْ مِنَ النُّورِ اِلٰی الظُلُمٰتِ اُوْلٰیکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھاَ خٰلِدُوْنَ۔) (سورۂ بقرہ آیت ۷۵۲)ترجمہ (اللہ دوست ہے ایمان والوں کا وہ انہیں اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے، اور جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست طاغوت ہیں، وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیرے کی طرف لے جاتے ہیں، یہی دوزخی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔)
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایمان والوں کا دوست اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایمان والے زندگی کے تمام معاملات میں اللہ ہی کو اپنا دوست سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ گمراہی سے بچے رہتے ہیں اس لیے کہ یہ اللہ کا اصول ہے کہ جو اللہ کو اپنا دوست سمجھتا ہے، اللہ اسی کو اپنا دوست سمجھتا ہے، اور جو اللہ کو اپنا دوست نہیں سمجھتا اللہ بھی اسے اپنا دوست نہیں سمجھتا، ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کافروں کے دوست طاغوت ہیں، اور طاغوت کی تعریف میں یہ بات آچکی کہ تمام غیر اسلامی لیڈران اور حکمران اور پارٹیاں طاغوت کی تعریف میں آتی ہیں۔ چنانچہ یہ طاغوتی حکمران اور لیڈران اور پارٹیاں اپنے دوستوں کو ہدایت سے نکال کر گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میدان سیاست میں طاغوتی حکمران کا غلبہ ہے تو انہوں نے پوری دنیا کو گمراہی سے بھر دیا ہیں، اور خصوصاً میدان سیاست کو انہوں نے گمراہی کے ساتھ ظلم و ستم سے بھی بھر دیا ہیں، لیکن اس سلسلہ میں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں نے بھی میدان سیاست میں غیر اسلامی لیڈران اور پارٹیوں کو اپنا دوست بنا رکھا ہیں، جب کہ مذکورہ آیت میں کافروں کی یہ پہچان بیان کی گئی ہے کہ وہ طاغوت کے دوست ہیں اور ایمان والوں کی یہ پہچان بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے دوست ہیں، اور اللہ کے دوست ہونے کا مطلب زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ ہی کو اپنا سر پرست اور کارساز سمجھنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بندگی رب کی دعوت کے ساتھ ہی اجتناب طاغوت کی دعوت کو جو ڑ دیا تاکہ کسی بھی مومن کی زندگی میں ایمان کے ساتھ طاغوت کی حمایت باقی نہ رہے، چنانچہ تمام رسولوں کی بعثت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک اہم ضابطہ کو بیان فرمایا۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃِِ رَسُولاً اَنْ اعْبُدُوْا اللہَ وَاجْنننبِوا الطَّاغُوتَ۔(سورۂ نحل آیت ۶۳) (یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ وہ اللہ کی بندگی کی دعوت دے اور طاغوت سے اجتناب کرے۔) یہی وجہ ہے کہ تمام نبیوں اور رسولوں کی دعوت کی زد سب سے پہلے وقت کے حکمرانوں پر پڑی، اور سب سے پہلے وہی نبیوں اور رسولوں کی مخالفت اور دشمنی میں پیش پیش رہیں، اور اقتدار کی طاقت و قوت کے بل بوتے پر انہوں نے نبیوں اور رسولوں کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی)۔
مذکورہ آیت کی تفسیر میں بر صغیر کے ایک مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی فاضل دیوبند نے حضرت شاہ صاحبؒ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ”طاغوت سے مراد وہ ہے جو ناحق سرداری کا دعویٰ کرے، کچھ سند نہ رکھے ایسے کو طاغوت کہتے ہیں، بت شیطان اور زبردست ظالم سب اس میں داخل ہے۔“ (مترجم شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ) کچھ مترجمین اور مفسرین نے طاغوت کا ترجمہ شیطان کے لفظ سے کیا ہیں، تو یہ مجازی اور صفاتی طور پر کیا ہیں کیونکہ قرآن کی رو سے ہر وہ انسان شیطان کی تعریف میں آتا ہے جو اللہ کا نافرمان اور باغی ہو، جیسے سورۂ بقرہ کے دوسرے رکوع میں منافقین کے کردار کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شیٰطِینْھِمْ قَالُوآ اِنَّا مَعَکُمْ (یعنی جب وہ اپنے شیاطین کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں) ظاہر ہے یہ منافقین انسانوں ہی میں سے اپنے سرداروں کے پاس جاتے تھے، نہ کہ ابلیس اور جنوں میں سے اس کے ساتھیوں کے پاس ویسے بھی ابلیس اور جنوں میں سے اس کے ساتھی عام حالتوں میں کسی کو نظر بھی نہیں آتے، ہاں انسانوں میں سے اس کے ساتھی زمین کے چپے چپے پر پھیلے ہوئے ہیں، جو ابلیس کے نظام کو دنیا میں پھیلاتے ہیں اور انسانوں سے بات چیت بھی کرتے ہیں، البتہ انہیں اہل حق سے شدید دشمنی ہے۔

Share
Share
Share