دربھری کہانی :- چودھری امتیاز احمد

Share
چودھری امتیاز احمد

دربھری کہانی

چودھری امتیاز احمد

ماہِ ستمبر اپنے اختتام کو اتنی تیز رفتاری سے بڑھ رہا تھا جیسے قیامت برپا ہونے والی ہو۔ عاقل اپنے معمول کے مطابق یونیورسٹی جاتا تھا۔25ستمبر کو بھی وہ یونیورسٹی سے واپس آکر نمازِ عصر ادا کر کے اس وہم و گمان میں تھا کہ ابھی اس ہفتے رہ کر کام کر لوں یونیورسٹی کا پھر گھر روانہ ہو جاؤں گا اور والدین سے ملاقات کروں گا۔

عاقل انہیں خیالات میں تم تھا کہ اچانک پونے چھ بجے پاپا کے نمبر سے کال آتی ہے۔ کال رسیو کرتے ہی ایک عجیب قسم کی چیخ و پکار سننے کو ملی۔ لیکن کسی نے کوئی بات نہیں کی۔ دوبارہ کال لگانے پر بھی وہی چیخ و پکار اب کیا تھا کہ یہ سب سنتے ہی گویا عاقل پر قیامت ٹوٹ پڑی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کسے پوچھے کیا کرے۔ یقین ہو چکا تھا کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی نہ رہا۔ خیر پھر بھی اس نے اپنی تسلی کے لیے دوبارہ کال کری تو پڑوس کے ہی بچپن کے دوست نے کال رسیو کیا اور روتے ہوئے چلاتے ہوئے بڑی مشکل سے اس نے اتنا کہا آپ کہاں ہیں۔ آپ جلدی گھر پہنچئے آپ کے پاپا کو لگ گئی ہے اتنا کہتے ہی کال کٹ کر دی۔ اب عاقل یہاں کس حال میں ہیں تنہا اتنی دور کا سفر بھی کرنا ہے اتنا بڑا حادثہ بھی ہے والد صاحب سے دن میں جو کال پر بات ہوئی تھی وہ یاد آکر اور بھی دل چھلنی ہو رہا تھا کہ کاش بات کرتے رہتے فون کٹ ہی نہ کیا ہوتا تو یہ سب نہ ہوتا۔ لیکن اللہ کی رضا کے آگے انسان بے بس ہے ایک سانس بھی انسان اللہ کی رضا کے بغیر نہیں لے سکتا۔ اب یہ بھی تو نہیں ناں کہ جس باپ نے ساری زندگی اپنے بیٹے کے لیے لگا دی ہو۔ اپنی بڑی بڑی خواہشات جس سے وابستہ تھیں۔ اس کو کتنا پیار ملا تھا دن و رات صبح و شام والد صاحب کے دعائیہ کلمات سننے کو ملتے تھے اب عاقل ایسی دلدوز خبر اچانک سن کر کس قدر پریشان ہوئے اللہ نے ہی ساتھ دیا ایسے وقت میں کوئی دوست کوئی یار و مددگار نہ تھا بس اللہ کے کرم سے خبر سنتے ہی اپنی ضروری اسناد بیگ میں رکھ کر روم بند کر کے گھر کی راہ لی۔ آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے کسی نے اتنا بھی نہ پوچھا کہ آپ کیوں روئے جا رہے ہیں گویا سب عاقل کے سامنے پتھر دل بنے بیٹھے رہ گئے۔ ایسی پریشانی کی حالت میں جب کوئی انسان ساتھ نہیں دے سکا تو آخرت میں یا قبر میں بھلا کون دوسرے کے کام آسکتا ہے۔ خیر عاقل نے جس اذیت کے ساتھ وہ سفر کاٹا وہ عاقل کے لیے زندگی کا سب سے خراب سفر تھا۔ جتنا جلدی پہنچنے کا وقت تھا اتنا ہی ٹرین لیٹ کرتی گئی۔ والد صاحب کو 26ستمبر کو 1بجے دفن کر دیا گیا تھا جب عاقل دہلی پہنچ پائے تھے۔ لیکن ابھی کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ یہ بات عاقل تک پہنچائیں کہ تدفین ہو گئی ہے اب اگلا سفر شروع کر کے عاقل دوسرے دن پونچھ پہنچنے والے تھے کہ چچیرے بھائی نے کال کر کے کہا عاقل میں آپ کو لینے راستے میں آیا ہوں تب عاقل نے کوئی جواب نہیں دیا جیسے ہی گاڑی اپنے گاؤں پہنچی عاقل نے ڈرائیور سے کہا بھائی جان روک لیجئے۔ ڈرائیور نے گاڑی روک لی۔ عاقل نے کھڑکی کھول کر باہر نکلنے کے لیے بیگ اٹھایا ہی تھا کہ ماموں نے بیگ پکڑ لیا۔ گاڑی سے اترا یہ معلوم ہے لیکن اس کے بعد کیا کہا کیا کیا، عاقل کو کچھ نہیں معلوم بس اپنے چچیرے بھائی سے لپٹنا یاد ہے۔ گھر سڑک سے تقریباً ایک کلو میٹر کی دوری پر ہے جہاں چل کر پہنچنا اس وقت عاقل کے لیے بہت مشکل لگ رہا تھا۔ چچیرے بھائی نے عاقل کو پکڑ کر چلنے کو کہا عاقل نے خو دہی ہمت کر کے چلنا شروع کر دیا لیکن اس ایک کلو میٹر کے سفر میں تقریباً پانچ مرتبہ رکنا پڑا۔ چکر ایسے آرہا تھا جیسے جان جانے والی ہو۔ گھر کے قریب پہنچ کر جب اپنے چھوٹے بھائی اور تایا جان پر نظر پڑی عاقل گر گیا کچھ ہوش نہ ہو جیسے پھرتا یا جی نے عاقل کو گلے لگایا عاقل کو دیکھ کر ان پر بھی جیسے قیامت برپا ہو گئی ہو ان کے بھی آنسو ٹپک رہے تھے۔ بس ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا، عاقل تم مت رو صبر سے کام لو، تمہارے ابا نے تمہیں کتنے شوق سے پڑھایا کتنی خواہشیں تم سے وابستہ تھیں اب رونا نہیں ہے صبر و تحمل سے کام لیجئے۔ اب عاقل کچھ قدم آگے چلتا ہے تو بھائی سے لپٹ جاتا ہے اپنے نہ تھمنے والے آنسو، اپنی چیخ و پکار میں قدم دروازے سے اندر رکھتا ہے۔ ماں جیسی عظیم ہستی اس وقت کس حالت میں تھی یہ بتانا ناممکن ہے ماں اپنے بیٹے کو کس صدمے کی حالت میں مل رہی ہے یہ واقعہ بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ بہرحال عاقل کی زندگی میں اچانک سے اتنا بڑا حادثہ ہونا غیر یقینی بات ہے ابھی والد صاحب 53سال کی عمر میں تھے اور دوران ملازمت ہی داعی اجل کو لبیک کہہ کر عاقل کو ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئے۔ مولائے کائنات ان کی مغفرت فرمائے۔
ان کا اٹھنا نہیں ہے حشر سے کم
گھر کی دیوار باپ کا سایہ
——
چودھری امتیاز احمد
ریسرچ اسکالر
شعبہئ اردو الہ آباد یونیورسٹی
الہ آباد – 211002
Mob: 7051269238

Share
Share
Share