افسانہ : خُونی بھیڑ :- ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : خُونی بھیڑ

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

اُس روز میں اپنے دوست رمیش کے گھر پر گیا تھا، وہاں جانے پرپتہ چلا کہ وہ تو وکالت کی پڑھائی کے سلسلے میں امریکہ گیا ہے۔میں اپنے دوسرے بچپن کے دوست کنہیالال، جس کو ہم پیار سے کانہ کہتے ہے گھر پر گیا۔ کانہ نے مجھے دیکھتے ہی گلے لگا لیا اور کہنے لگا کیسے آنا ہوا؟

تمہیں تو معلوم ہی ہوگا کہ مہنگائی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے اور اوپر سے یہ چناؤ آنے پر ہر روز کوئی نہ کوئی باجا بجاتا ہوا اپنی پارٹی کو ووٹ دینے کی بات کہہ کر چلا جاتا ہے میں نے اپنے دوست کانہ سے پوچھا اس بار کس پارٹی کو ووٹ دو گے؟ تب اُس نے کہا کہ اپنے رام پور گاؤں کے سرپنچ کا بیٹا دھرم پال چناؤ میں کھڑا ہے میں تو اُسے ہی اپنا ووٹ دونگا، حالانکہ سننے میں آیا ہے کہ وہ کافی پڑھا لکھا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہمارے رام پور گاؤں کا نام چرچا میں آجائے۔یہی نہیں دھرم پال نے اپنے چناؤ کی تقریر میں کئی وعدے کیے جیسا کہ وہ اس گاؤں میں بڑا ہسپتال بنوائے گا؛ جہاں پر مفت میں علاج کیا جائے گا۔دوسرا یہ وہ اسکولی عمارت کو ٹھیک کروائے گا تاکہ بچوں کا مستقبل سنور جائے۔یہ باتیں بڑی فضول سی لگتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ جو باتیں بیان کررہا ہے عمل کرپائے گا یا نہیں۔میں ابھی اسی تجویز میں تھا کہ ہمارے بیچ ہمارا ایک اور دوست صلاح الدین ہم سے ملنے آگیا۔ہمارے گاؤں کے بھائی چارے کی مثال سنہرے حرفوں میں لکھی جانی چاہیے۔ میں نے پوچھا کیا صلاح الدین آج کوئی صلاح مشوراہ نہیں دوگے؟تب اس نے کہا کہ اس مرتبہ ہماراایک عزیز دوست انصاری جاوید، جو چناؤ لڑھنے والا ہے کی خبر دی،یہ تو اور بھی اچھی بات ہے کہ بھائی چارے کے بیچ حقیقی چناؤ ہوں گے دیکھتے ہے اس بار کس کی جیت ہوتی ہے؟ اور کس کی ہار؟ تھوڑی دیر کے بعد میں خود وہاں سے رخصت ہوا۔
آج کا دن بہت خاص ہے میں نے بھی یہ سوچ کر اپنا ووٹ دیا کہ اگر میں اپنے حق کا استعمال نہیں کروں گا تو شاید میں کبھی اپنا نیتا نہیں چن پاؤں گا۔ بہر حال چناؤ ہوئے اور ااُس کا نتیجہ یہ آیا کہ دھرم پال زیادہ ووٹ سے چناؤ جیت چکا ہے اور اب وہ اس گاؤں کا نیتابن گیا ہے گاؤں والوں کی امیدیں بڑھ چکی تھیں۔ دھرم پال نے سپت لیتے وقت بڑی ایمانداری اور دیانت داری سے کام لیا۔شروع شروع میں وہ جنتا اور سرکار کواپنے کام سے بھروسا دلانے لگا،لیکن اُس نے جو گاؤں والوں سے وعدے کیے تھے وہ سب جھوٹ ثابت ہوئے۔ہر سیاست داں کی کوئی نہ کوئی سیاسی چال بازی ہوتی ضرور ہے یہ اُس کی سیاست تھی جس کا اندازہ ہمیں چہار سالوں میں ہوا۔دھرم پال جس مقام پر ہسپتال بنوانا چاہتا تھا،آج اُسی جگہ پر اُس نے اپنے لیے محل جیسا گھر بنا رکھا ہے یہی نہیں وہ اب غریبوں کی سننے کے بجائے امیروں کے ساتھ بیٹھ کر ترقی کی باتیں کرتا ہے۔ مجھے خبر ملی کہ میرا دوست رمیش وکیل بن کر آگیا ہے۔وہ اب پورے چار سالوں بعد آیا تھا۔ میں توفوراً اُس سے ملنے چلا گیا، جب میں اُ س سے ملنے گیا تو وہ انگریزی زبان میں مجھ سے پٹر پٹر کہنے لگا، میں کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا اُس نے مجھ سے پوچھا ہائے جے،ہاؤ آر یوں؟ میں نے اُسے اپنی ہندوستانی زبان میں پوچھا رمیش کیسے ہو؟،تو رمیش نے پلٹ کر کہا میں تم سے انگریزی میں یہی پوچھ رہا تھا جے کیسے ہو؟۔رمیش نے مجھ سے پوچھا جے کیسے آنا ہوا؟ میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تمہارے آنے کی خبر اور تمہاری وکالت پوری ہونے کی خبر نے مجھے بے قرار کردیا تھا اور ہاں میں تمہارے پاس ایک کیس لے کر آیا ہوں۔تم تو جانتے ہی ہوں گاؤں کی کیا حالت ہونی تھی اور کیا ہو کر رہ گئی ہے۔ دنیا بھر میں ترقی کی آلاپ گائے جارہے ہے اور یہاں دیکھو آج بھی گاؤں کے لوگ ایک دوسرے کو نیچا گرانے اور دشمنی نکالنے سے بعض نہیں آتے۔پہلے یہی گاؤں بھائی چارے کی مثال دیتا تھا لیکن اب سبھی لوگ اپنی اپنی دنیا میں مگن ہے کوئی کسی کی تکلیف کم کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ رمیش نے کہا میں سب کچھ جانتا ہوں لیکن میں تو بس کچھ مہینے ہی ہوں کیوں کہ میں دہلی جارہاں ہوں اور شاید میں واپس کبھی نہ آؤ۔یہ تم کیا کہہ رہے ہوں؟ تم سے جو امید تھی وہ بھی اس خبر نے چھین لی۔تمہیں یہاں اس رام پور گاؤں میں کیا پریشانی ہے؟ وہ پھر سے انگریزی میں کہنے لگا کہ ایٹ از مائے پروبلم۔ میں نے کہامیں کچھ سمجھا نہیں،تو اُس نے کہا کہ میں تم کو میں سمجھا بھی نہیں سکتا،رمیش مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ میں اس گاؤں کو جیسا چھوڑ کر گیا تھا ویسا کے ویسا ہی ہے نہ ہی کوئی سہولت مہیا ہے اور نہ ہی میری قابلیت دکھانے کی جگہ۔ ہمارا گاؤں نہ صرف ترقی میں پیچھے بلکہ زندگی جینے کے معاملے میں بھی بہت پیچھے۔ اس گاؤں میں ہر دوسرا شخص کوئی نہ کوئی لا علاج بیماری میں مبتلا ہے۔ افسوس کرنے کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے میں اس ماحول میں رہ کر روز مرنا نہیں چاہتا۔ اچھا یہ بتا کہ اس سال بھی چناؤ ہونے والے ہے اور تم جانتے ہوں، وہیں ہوگا،جو چہار سال قبل ہوا تھا۔دھرم پال جنتا کا پالن ہار کہتے ہوئے چند لوگ وہاں سے گزرے،میں نے رمیش سے کہا کہ ابھی تو نے یاد کیا اور اُس کی سینا حاضر۔ رمیش یہ تو بتا کہ تجھے جو انعام ملنے والا تھا اُس کا کیا ہوا؟ اچھا یاد دلایاکل شام کو چھ بجے آدرش بھون آجانا۔ وہاں پر ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور گاؤں کے نیتا دھرم پال اور شہر سے بڑے بڑے افسران بھی شامل ہونے والے ہیں۔ تم ایسا کرناکہ صلاح الدین اور کانہ سے بھی کہہ دینا اور آنا ضرور۔
میں رمیش سے مل کر راستہ سے گزر رہا تھا کہ صلاح الدین مل گیا۔ میں نے پوچھا کہا جارہے ہوں؟ لیکن اُس نے جواب نہیں دیا اور دیکھنے پر وہ بڑا پریشان حال نظر آرہا تھا۔ لیکن میں نے کہہ دیا رمیش کو کل انعام ملنے والا ہے شام کو آجانا اور اُس نے ہاتھ کے اشارے سے حامی بھری۔ چناؤ بھی نزدیک تھے اور دھرم پال کے لیے اب کوئی نئی بات کہنے کے لیے مواد نہیں مل پارہا تھا۔وہ آج کا دن ہے جب ہمارے گاؤں میں ٹی وی چینل والے اور اخبار والے آئے،اور گاؤں والوں سے وہ پوچھ رہے تھے کہ اب کے سال آپ کے نیتا سے کیا کیا امیدیں ہیں؟دن بھر وہ لوگ اِسی گاؤں میں پھر پھر کام کرتے رہے اور شام ہونے سے قبل ہی یہ سارے لوگ آدرش بھون پہنچ گئے جہاں پر پڑھے لکھے لوگوں کو نہ صرف انعام دیا جانا تھا بلکہ چناؤ کے حوالے سے دھرم پال کا تقریری پروگرام بھی تھا، جس کے تحت نہ صرف گاؤں والے بلکہ آس پاس گاؤں سے اور شہر سے بھی لوگ جمع ہوئے تھے۔ اُدھر دھرم پال نے اپنی تقریر شروع کردی۔ اُس نے اپنی تقریر میں کہا کہ جیسا میرا نام دھرم پال یعنی اپنا اور جنتا کا پہلا دھرم ہے مذہب۔ہمیں اپنے مذہب کو یاد رکھنا چاہیے۔اور ویسے تو ہماری کئی ماتائیں جیسے دھرتی ماں جو ہمیں انّ دیتی ہے دوسری گائے ماتا جو ہمارے کھیتی کے کام کو آسان بناتی ہے،اسلئے ہمیں ان کی حفاظت کرنی ہوں گی۔میں دھرم پال جنتا کا پالن ہار جو سب جھوٹ بول سکتا ہے لیکن دھرم (مذہب)کے معاملے کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔آج سے گاؤں والے میرے ساتھ ایک وچن ضرور لیں کہ بھلے ہی پَران جائے لیکن ہم اپنی ماتوؤں کی حفاظت ضرورکریں گے۔ ہم اپنے اس وچن کو ہمیشہ ایمانداری سے نبھائے گے۔ گاؤ ں والے بہت ہی بھولے بھالے ایک بار پھر دھرم پال کی باتوں میں آگئے۔
میں ااور کانہ ردونوں آدرش بھون میں دھرم پال کی تقریر سن رہے تھے لیکن کچھ لوگ وہاں سے نکل گئے۔اُدھر صلاح الدین اپنی گائے کو ہوئے پھوڑے کو چھُپانے کی خاطر اُس کو چاروں طرف سے چادر لپیٹ کر ہسپتال لے جارہا تھا۔ گائے ٹھیک سے چل نہیں پاری تھی اسلئے وہ اُسے کھینچ کر لے جانے پر مجبور تھا۔ وہیں چند لوگ اکھٹّاہو کر جو ابھی ابھی دھرم پال کی تقریر سُن کر آرہے تھے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بھیڑ میں تبدیل ہوگئے۔ انھوں نے دیکھا کہ گاؤں کا ایک شخص (صلاح الدین)گائے کو کھینچ کر لے جارہا ہے۔اُس بھیڑ نے یہ جانے بغیر کہ گائے کو کوئی تکلیف ہوسکتی ہے لیکن ان کی سمجھ اتنی محدود تھی،کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ گائے کو چوری چھُپے قتل خانے لے جارہا ہے اُس اکھٹّا بھیڑ نے اُس شخص(صلاح الدین)کو اس قدر مارا کہ وہ خون میں لت پت ہوگیا اوراُس کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔ یہ کوئی عام بھیڑ نہیں تھی بلکہ وہ ایک خُونی بھیڑ تھی۔ اُس خُونی بھیڑ کو کسی نے نہیں دیکھا۔آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس کام کو انجام دیا۔ یہ خبر آدرش بھون تک پھیل چکی تھی۔آدرش بھون کے سارے لوگ اُس مقام پر پہنچے جہاں اُس شخص(صلاح الدین) کو خُونی بھیڑ نے مار ڈالا۔ ٹی وی اور اخبار والوں کو سب سے بڑی خبر کو دکھانے کا موقع مل گیا۔ جب سب لوگ وہاں پہنچے۔میں،رمیش اور کانہ بھی پہنچے تو دیکھا کہ یہ توکوئی جانا پہچانا لگ رہا ہے ارے…! یہ تواپنا دوست صلاح الدین ہے مجھ سے جب میڈیا والوں نے پوچھاکہ کیا تم اس شخص کو جانتے ہوں؟ میں خاموش کھڑارہا۔ویسے بھی اگر غریب کسی غریب کا ساتھ دے بھی دے تو اُس کی بات ان سنی کر دی جاتی ہے۔ میڈیا وہاں باری باری سب سے سوال کر رہی تھی وہیں پولیس نے پہچان کر لی وہ گاؤں کا ہی ایک مسلم غریب شخص ہے جس کا نام صلاح الدین ہے۔ لاش کو وہی پرانے ہسپتال جانچ کے لیے لے جایا جارہا تھا،لیکن ایسی جانچ کا کیا فائدہ جو کسی کے حق میں جواب نہ دے۔ ایک رپوٹر تانیہ نے ہر ایک سے باری باری سوال کیا سب سے پہلے ان افسران سے پوچھا کہ آپ اس معاملے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ دیو اگروال جو پولیس آفیسر تھے انھوں نے جواب دیا کہ یہ ایک معمولی سی گھٹنا ہے اس معاملے کی پوری جانچ ہونے پر ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔اُدھر میڈیا کی اس خبر نے پورے ملک بھرمیں ہنگامہ مچادیا تھا بار بار یہی سوال دہرایا جارہا تھا،کیااس ملک میں کوئی بھی حفاظتی انتظامات نہیں ہیں؟ جو اس طرح کی خوُنی بھیڑ کو روک سکے۔ دھرم پال کو رپورٹروں نے گھیر لیا۔اور سوال پر سوال کرنے لگے۔ ابھی تو آپ ماتاؤں کی حفاظت کی بات کررہے تھے لیکن آپ کے گاؤں میں کسی انسان کو بچایا نہیں جاسکا؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ اپنی سیاست کے لیے کوئی بھی بیان دے دیتے ہے یہ جانتے ہوئے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ دھرم پال خاموش کھڑا رہا۔اب خبروں میں اس گائے کو دکھایا جارہا ہے جس کا مالک خُونی بھیڑ کا شکار ہوا۔ گائے سے چادر ہٹائی گئی تو پتہ چلا کہ اُس گائے کو پھوڑا ہوا تھا جس کا علاج کرانے وہ شخص (صلاح الدین) جارہا تھا۔اُس شخص کی موت اِس بے وجہ سے ہوئی کہ وہ اپنی گائے کا علاج کروانے جارہا تھا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد پھر سے چناؤ ہوئے اور دھرم پال بُری طرح سے ہار گیا اور اب انصاری جاوید نے اُس کی جگہ لے لی۔
صلاح الدین کی بہن شبانہ نے عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا۔ عدالت میں بھی یہی سوال اُٹھا کہ صلاح الدین پر جو خوُنی بھیڑ کا حملہ ہوا ہے اُس کو کسی نے دیکھا ہے؟ لیکن گواہی بھی کون دیتا؟جب کسی نے دیکھا ہی نہیں؟ عدالت نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سماج میں اس طرح کے تخریبی عناصر سے بہت خطرہ ہے اسلئے ہمیں سماج کے لوگوں کو صحیح مساوات بتانے ہوں گے،اور ویسے بھی ہمارے ملک میں تعلیم، بے روزگاری،اور بھی نہ جانے کتنے مسئلے حل ہونے باقی ہیں اگر ہم اس خُونی بھیڑ کو اکسانے کے بجائے اس طرف گامزن کرے تو شاید یہ معاملات نہیں بنے گے،ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب کا روثہ ہے اور ہمیں اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بھلے ہی ہم کسی بھی مذہب سے ہوں،لیکن ہم انسان ہے۔ انسان کو تمام مخلوقات پر افضلیت دی ہے۔عدالت میں اس گناہ پر کسی کو پکڑنا ایک الجھن بھرا سوال تھا اسلئے عدالت نے اس معاملے کوکچھ مہینوں کے لیے ملتوی کردیا۔
شبانہ نے رپورٹروں سے کہا کہ کسی بھی ملک میں کسی انسان کی موت اتنی سستی ہے کہ خُونی بھیڑ اُسے نگل جائے اور قانون بھی کچھ نہ کرپائے؟شک کی بِنا پر ہوئے اس قتل کو ہم شہید کہیں گے یا پھر کچھ اور۔ میرے بھائی کی موت ضائع نہیں جائے گی بلکہ میرے بھائی کی موت ایک نیا قانون بنائے گی،جو اس خُونی بھیڑ کی روک تھام کے اقدامات اُٹھائے گیں اور خاص انتظامات بھی کرے گیں،جو آئیندہ کسی کے بھائی کی موت خُونی بھیڑ کے نام سے کبھی جوجھے نہیں۔
—-
Dr. SufiyaBanu.A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
Email:

Share
Share
Share