مہاراشٹر کا ایک بر جستہ افسانچہ نگار – ڈاکٹر اشفاق احمد :- ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

مہاراشٹر کا ایک بر جستہ افسانچہ نگار
ڈاکٹر اشفاق احمد

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ
Email:

داغ دہلویؔ نے برجستہ فرمایا تھا۔
؎ اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ؔ
ہندوستان میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اسی طرح علامہّ شبلی نعمانی کے شاگردِ رشید علامہّ سیّد سلیمان ندوی نے ۲۹ مارچ ۱۹۲۷ء کی رات کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسٹریچی ہال میں منعقدہ آل انڈیاں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے برجستہ فرمایا تھا:
(الف) ” دنیاکی ساری یا اکثر زبانوں کے نام‘ قاعدہ یہ ہے کہ زبان اس قوم کی نسبت سے مشہور ہوتی ہے جو اس کو بولتی ہے یا اس ملک کی نسبت سے موسوم ہوتی ہے جس میں وہ بولی جاتی ہے۔ اسی اصول کی بِنا پر عرب کی زبان عربی ، فارس کی زبان فارسی، ترکستان کی زبان ترکی، انگلستان کی زبان انگلش ، فرانس کی زبان فرنچ، جرمن قوم کی جرمن، ترکی قوم کی ترکی وغیرہ کہی جاتی ہے۔“ ۱؎
(ب) ” اس ملک میں عربی ، ایرانی، فارسی، اور ترک ترکی بولتے ہوئے آئے،مگر کچھ ہی دنوں کے بعد یہاں کے اصلی باشندوں سے گھُل مل کر تتلا تتلا کر یہی کی سی کوئی زبان بولنے لگے جس کا نام انہوں نے ہندی یا ہندوی رکھا، ورنہ ہندی نام کی کوئی زبان اس ملک میں ان کے آنے سے پہلے نہیں بولی جاتی تھی۔ اس زبان نے ترقی شروع کی تو گجرات میں اس کو گوجری، دکھن میں دکھنی،اور اودھ میں اودھی کہنے لگے۔“ ۲؎
(ج) ” شاہ جہاں کے زمانے میں جب دہلی شاہجہاں آباد بنی تو شاہی قلعہ یا بازار کے لیے ترکی لفظ ’اردو‘اردو ئے معلی کی توصیفی ترکیب سے رواج پایااور صوبہ دار نئی دیسی بولیوں کے لیے اس اردو ئے معلی کی شاہی بولی کے ڈھنگ اس زبان کی صحت اور صفائی کا معیار بنا اور اس طرح اس نئی معیاری بولی کواضافت کے ساتھ ’زبانِ اردوئے معلیٰ‘کہنے لگے اور آج سے کوئی ڈیڑھ سو برس پہلے زبانِ اردو ئے معلی کی لمبی ترکیب کے بجائے ’زبانِ اردو‘ یعنی اردو کی زبان بنی اور پھر اس سے بھی مختصرہو کر ’اردو‘ ہوئی۔ “ ۳؎
دکن میں بہمنی، قطب شاہی، عادل شاہی، نظام شاہی، برید شاہی، وغیرہ ادوار کے دوران اردو زبان کو فروغ دینے میں سرکاری سرپرستی نے اہم رول ادا کیا تھا۔ قدیم زمانے میں گجرات اور مہاراشٹر کا شمار بھی دکن ہی میں ہوتا تھا۔ دکن کے علاقوں میں اردو نے بول چال سے بڑھ کر مادری زبان کی صورت اختیار کر لی تھی لہٰذا دکن کے خالص تلنگی، کننڑ اور مرہٹی بولنے والوں کو چھوڑ کر سبھی کی رابطے کی زبان اردو تھی۔ آج بھی ہمارے ملک میں بذریعۂ اردو تعلیم دینے والے اسکولوں اورکالجوں نیز اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کی سب سے بڑی تعداد ددکن ہی کی ریاستوں میں ہے۔آزادی کے بعد دکن میں پیدا ہونے والے اردو کے ادیبوں میں ایک نام’ڈاکٹر اشفاق احمد‘ ہے آپ مہاراشٹر کے ضلع بلڈھانہ کے رائے پور تعلقہ چکھلی میں یکم جولائی ۱۹۱۶ کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم ناگپور میں پائی۔انہوں نے سنت تکڑوجی مہاراج یونیورسٹی ناگپور سے ۱۹۸۶ء میں بی۔اے اور ۱۹۹۲ء میں ایم۔اے کیا۔ ۷۹۹۱ء میں ’مکتوب نگاری کی روایت‘ نامی عنوان پر اپنا مقالہ لکھ کر پی۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر اشفاق احمد نے ۱۹۱۸ء سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’غلط فہمی‘ کے نام سے ۵ دسمبر ۱۹۱۸ء میں قومی آواز میں شائع ہوا۔ بچوں کے لیے ان کی پہلی کہانی ’عقلمند شہزادہ‘ ماہنامہ پیام تعلیم کے اپریل ۲۸۹۱ء میں شائع ہوئی۔ نثر ادب میں ان کا رجحان منی افسانوں کی طرف مائل رہا۔ لہٰذا انہوں نے اب تک بے شمار منی افسانے لکھے۔ان کے منی افسانوں کا پہلا مجموعہ ’یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے‘ ۱۹۹۳ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کے منی افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’ایک زخم اور سہی‘ ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا اور اب ان کے منی افسانوں کا تیسرا مجموعہ ’بر جستہ‘ ۲۰۱۸ء میں منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں کُل ۱۱۰ ایک سو دس منی افسانے شامل ہیں۔میرے مقالے کا موضوع مہاراشٹر کا ایک بر جستہ افسانچہ نگار‘ اسی مجموعے کے حوالے سے ڈاکٹر اشفاق احمدکی مہاراشٹر کے افسانچہ نگارروں میں قدر و منزلت سے ادبی دنیا کو روشناس کرانا ہے۔
تعلیم انسانیت کا ایک زیور ہے۔ اس کی زیب و زینت انسان کو بلند وقارعطا کرتی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب انسان کو جہالت کے اندھیروں سے باہر نکلنے کے لیے علم ہی کی روشنی کو حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ڈاکٹر اشفاق احمد بھی اپنے سماج اور اپنے ماحول میں پائے جانے والے علمی فقدان اور جہالت کے اندھیروں سے واقف ہیں انہوں نے اپنے کئی افسانچوں میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔:
” روشنی کا اندھیرا“
” اسکول میں استاد اپنے ایک شاگرد کو ڈانٹ رہا تھا: ”بے وقوف! تمھیں بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے۔ چلے جاؤ یہاں سے۔ “
شاگرد کو ڈانٹ کر جب وہ گھر آیا تو اُس کا لڑکا نشیلی آنکھوں سے اسے کھور رہا تھا اور سیگریٹ کے کش پر کش لگا کر دھوئیں کے بگولے اُس کے چہرے پر چھوڑ رہا تھا اور وہ سر جھکائے خاموشی سے ’بچوں کی تربیت اور نگہداشت“ نامی کتاب بغور پڑھ رہا تھا۔۔۔۔!! “ ۴؎
اس افسانچہ میں انہوں نے بچوں کی تربیت اور نگہداشت کی جس حقیقت کی طرف سماج اور سماج کے لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ استاد کا کام بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا ہے اگر وہ اپنے ہی بچوں کی تعلیم و تربیت نہ کر پائے تو روشنی کا اندھیرا‘ اس کی ساری کاوشوں کو نگل جائے گا۔ چراغ تلے اندھیرے کی مانند پنپنے والے روشنی کے ان اندھیروں کو دور کرنا ہی ہوگا۔ آئیے ان کا ایک افسانچہ پڑھتے ہیں:
” پسِ پردہ“
” اسکول میں داخلے نہیں ہو رہے تھے اس لیے اساتذہ بچوں کا داخلہ کروانے آس پاس کے علاقوں میں نکل پڑے۔ وہ والدین و سر پرست سے اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم دلوانے کی درخواست کرنے لگے۔ اس ضمن میں انھوں نے طرح طرح کی دلیلیں پیش کیں۔ اس کے علاوہ اسکول کی تعیف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملادئیے ۔والدین اس کی باتیں غور سے سنتے رہے۔
ایک بچہ کے والد نے آگے بڑھ کر اُن سے پوچھا: ”ابھی آپ نے اپنی اسکول کو شہر کا بہترین اسکول قرار دیا ہے۔ اس لیے یقیناً آپ کے بچے بھی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں گے۔“
اس سوال پر تمام اساتذہ خاموش تھے۔ ان کے سر شرمندگی سے جھکے ہوئے تھے کیونکہ اُن کے بچے انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔!! “ ۵؎
علامہ ّ اقبال ؔ نے سچ فرمایا تھا:
؎ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی ، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اردو زبان میں تعلیم دینے والوں کی زندگی پسِ پردہ جہنم ہوتی ہے۔ جب خود ان کی اولادیں اردو میڈیم کے بجائے انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہوتی ہیں فطرتاً تو یہ اساتذہ نوری دکھائی دیتے ہیں لیکن اپنے اس عمل کے سبب ناری ہوتے ہیں یہی حال سماج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کی زندگی کے عمل سے وابستہ ہے ظاہری حالت کچھ اور ہے اور پسِ پردہ کچھ اور۔ڈاکٹر اشفاق احمد نے ایسے مکھوٹوں پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔
بر جستہ میں شامل ایک افسانچہ کا عنوان ’مہلت‘ ہے۔ اس میں انہوں نے مذہبی رسم ادا کرنے کی دلی خواہش رکھنے والے ہر انسان کے مافی الضمیر کو مہلت دیے بغیر جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔لوگوں کی ایسی سوچ کے تعلق سے علامہ اقبال ؔ کا یہ شعر بر حق ہے:
؎ خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
” مہلت “
” دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا کاروبار کافی بڑھ گیا ہے۔“
”جی ہاں! یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور آپ کی دعاؤں کا طفیل ہے۔“
”اب آپ کو حج بیت اللہ کے لیے جانا چاہیے۔“
”بات دراصل یہ ہے کہ کاروبار میں مجھے ہر وقت جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ حج سے واپسی کے بعد جھوٹ نہیں بول سکوں گا اس وجہ سے میرا کاروبار ٹھپ پڑ جائے گا۔ میں تھوڑی مہلت چاہتا ہوں۔ “ ۶؎
ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ مذہبی عمور میں ظاہر داری، ریا کاری، نام و نمود، تصنُّع یا تکلّف کسی طور رواں نہیں ہے۔عالمی سطح پر جتنے مذاہب موجود ہیں وہ تمام اپنے پیروکاروں سے صداقت اور اخلاص والی زندگی بسر کرنے کی تعلیم دیتے ہیں اس کے باوجود کئی انسان راہِ حق سے ہٹ جاتے ہیں۔ مذہب اسلام کے پانچ بنیادی اراکین میں حج بیت اللہ بھی شامل ہے۔ اس کی فرضیت کے بارے میں ارشاد ربّانی ہے:”وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً“ (ترجمہ: اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر (بیت اللہ) تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے) (پارہ نمبر ۴ سورۃ نمبر ۳: آل عمران، آیت نمبر ۷۹) مقدور یعنی توشے کا مالِ حلال سے ہونا لازمی ہے اس کے بغیر حجِ مبرور بے معنی ہے۔ ہر دور میں بہت ہی کم لوگ حج مبرور کے تمام لوازمات پورے کرنے والے ہوتے ہیں ڈاکٹر اشفاق احمد نے مہلت‘ نامی اپنے ایک افسانچے میں ایک کاروباری کا حج بیت اللہ کے لیے جانا بیان کیا ہے۔اللہ کے ایک نیک بندے نے اس کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو دیکھ کر جب اس سے کہا (اب آپ کو حج بیت اللہ کے لیے جانا چاہیے) تب کاروباری کے ضمیر نے اُسے یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ””بات دراصل یہ ہے کہ کاروبار میں مجھے ہر وقت جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ حج سے واپسی کے بعد جھوٹ نہیں بول سکوں گا اس وجہ سے میرا کاروبار ٹھپ پڑ جائے گا۔ میں تھوڑی مہلت چاہتا ہوں۔“
ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے۔ ووٹ بینک‘ کی یہاں بڑی اہمیت ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں جن کی نظیر بعض اوقات جمہوری نظریات کے منافی ہوتی ہے۔جمہوریت اور سیاست کے تعلق سے علامہ اقبالؔ نے دو اہم باتیں کہی ہیں:
(الف) ” ؎ خالی ہے صداقت سے سیات، تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت، تو اسی سے
(ب) ” جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنِا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ڈاکٹر اشفاق احمد بھی اپنے جمہوری ملک بھارت کے سیاسی نظام کوبخوبی جانتے ہیں لہٰذا انہوں نے سیاسی و’وٹ بینک‘ کو عنوان بنا کر یہ افسانچہ تحریر کیا ہے:
”ووٹ بینک“
چناؤ سے پہلے….
.”کیا تم ٖغریبوں کی مدد کے لیے سارا انتظام کر لیا ہے۔“ ”جی سر !
” جاؤ انھیں ہمارے اسٹیج کے سامنے بٹھاؤ اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھو ۔ وہ ہماراووٹ بینک ہیں۔“
”جی سر ! “
چناؤ کے بعد……
” کیا پروگرام کی تیاریاں ہو گئی ہیں۔“ ”جی سر!“ ”یاد رہے میرے پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں مجمع ہو“
”ہم کوشش کر رہے ہیں سر!“ ”اور سنو! پروگرام انچارج سے کہہ دو۔ سبھی سوٹ بوٹ والوں کو ہمارے اسٹیج کے سامنے بٹھانا۔اور ہمارے ووٹ بینک کو تالیاں بجانے اور نعرے لگانے کے لیے پیچھے کھڑے کر دینا۔ “
”جی سر! ایسا ہی ہوگا !! “‘ ۷؎
چناؤ آنے پر سیاسی پارٹیوں کے صدر دفاتر میں ان لوگوں کا آنا جان بڑھ جاتا ہے جو پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے ہے ٹکٹ مانگنے والوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو رہتے کسی ایک حلقے میں اور ٹکٹ کسی دوسرے حلقے کا مانگتے ہیں ہر کوئی جانتا ہے کہ چناؤ جیتنے کے لیے اپنی پہچان بنانا ضروری ہے جو امید وار چناؤ میں اترتے تو ہیں مگر اپنی پہچان نہیں رکھتے وہ اکثر چناؤ ہار جاتے ہیں لہٰذا پارٹی ہائی کمان ایسے امید واروں کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیتے ہیں اس کی ایک جھلک ڈاکٹر اشفاق احمد کے مندرجہ ذیل افسانچہ میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے:
”پہچان “
” انتخابات کا علان ہو چکا تھا۔ وہ پندرہ دن سے ہائی کمان سے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا۔ہائی کمان تک رسائی ہوئی تو فائل کی ورق گردانی کی گئی۔”تم کہاں رہتے ہو؟“ ”سر‘ ڈول پور میں…! “
”لیکن تم نے لکھا ہے کہ الیکشن گول پور سے لڑنا چاہتا ہوں…“ ”جی سر…“ ”کیوں؟“ ”سر وہاں سے
منتخب ہونا میرے لیے آسان ہے مجھے پوری امید ہے کہ میں وہاں سے کثیر ووٹوں سے منتخب ہوجاؤں گا۔“
”لیکن آپ کے وطن ڈول پور سے کیوں نہیں؟“ ”سر!وہاں کے لوگ مجھے اچھی طرح جانتے ہیں“ ۸؎
آج کل اکثریت ان والدین کی ہے جو اپنی نافرمان اولاد سے پریشان ہیں۔ جب سے تعلیم نے کاروباری شکل اختیار کر لی ہے،ماں باپ بڑی رقومات خرچ کرنے کے باوجود اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تربیت نہیں کر پا رہے ہیں۔نئے نئے عصری رجحانات نے ان کی اولادوں کو ان کی محبت سے غافل کر دیا ہے ایسی ناخلف اولادوں کے سبب والدین کا چین و سکون چھین گیا ہے۔ڈاکٹر اشفاق احمد نے ’ ناخلف بیٹ‘ کے عنوان سے لکھے اپنے افسانچہ میں اسی کرب کی نشادہی کی ہے:
” ناخلف بیٹے “
”وہ سات چھوٹ چھوٹے بچوں کا بے حد غریب باپ تھا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہمیشہ تگ و دو کرتا رہتا تھا، لیکن اُسے ذہنی سکون تھا۔ وقت نے کروٹ لی۔ اس کی غربت کے دن ختم ہوئے۔ بچے اس کے قد کے برابر ہوگئے۔ لیکن اب وہذہنی طور پر پریشان ہے کیونکہ اس کی زندگی کا سکون ناخلف اور آوارہ بیٹوں نے چھین لیا ہے۔“ ۹؎
اللہ نے آدم کو اشرف المخلوقات بنایا۔ ہدایت کے لیے انبیاء و مرسلین کے علاوہ صحیفے اور کتابیں بھی نازل فرمائی۔ اللہ کے نزدیک دین ِ اسلام ہی مقبول رہا لہٰذا ایمان والوں کو قرآن مجید کے ذریعے جو جو ہدایتیں دی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے:”یآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ“ (ترجمہ: اے ایمان والوں! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو جو کیا نہیں کرتے، یعنی تمہارے وقول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے۔)(قرآن: پارہ نمبر ۲۸، سورۃ نمبر ۶۱: الصف، آیت نمبر ۲) ہمارے نبی محمد (ﷺ) تمام انسانوں کے لیے ہادی بن کر آئے لہٰذا ان کی تعلیمات تمام انسانوں کے لیے ہیں افسوس! اس بات کا ہے کہ مسلمانون کے علاوہ اہل ِ کتاب اور دیگر مختلف ادیان کے ماننے والے انسانی سماجوں میں بھی قول و فعل میں تضاد کی برائی پائی جاتی ہے۔ڈاکٹر اشفاق احمد نے اپنے تعلیمی شعبے کے تجربات میں سے ایک تجربے کو اپنے افسانچہ ’قول و فعل‘ میں ’جہیز ایک سماجی لعنت ہے۔‘ جیسے سلگتے نکتے کے طور پر برجستہ پیش کیا ہے۔
” قول و فعل “
(الف)” اس کا رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے کے والدین نے جہیز میں قیمتی چیزوں کی فرمائش شروع کر دی تھی۔ لڑکے کی فرمائش تھی کہ اُسے جہیز میں آرام و آسائش کی تمام قیمتی چیزوں کے ساتھ کار بھی ملے۔ ۱۰؎
(ب) ”شادی کے دوسرے دن اس نے اپنے شوہر کے کمرے کا جائزہ لیا۔ اُسے بہت انعامات الماریوں میں سجے ہوئے نظر آئے۔ ۱۱؎
(ج) ” اُس نے ایک شیلڈ کی جانب اشرہ کرتے ہوئے کہا : دیکھو یہ شیلڈ مجھے بین المدارس مضمون نویسی کے مقابلہ میں اوّل مقام حاصل کرنے پر ملی ہے۔“ اُس نے پوچھا: ”مضمون کا عنوان آپ کو یاد ہے ؟ شوہر نے کہا: جی ہاں……! آج کے دور کا سلگتا مسئلہ جہیز
ایک سماجی لعنت ہے۔ “ ۱۲؎
٭ مرزا غالبؔ نے فلسفۂ حیات کو اپنے منفرد انداز میں پیش کرکے عالمی سطح پر ناقابلِ فراموش مقبولیت حاصل کر لی ہے انسان کے حساس دل میں پنپنے والے ارمان کبھی پورے نہیں ہوتے کیونکہ اس کے دل میں ہر لمحہ ایک نہ ایک نئی خواہش پیدا ہوتی رہتی ہے اس تعلق سے ان کا ایک شعر ہے:
؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
غربت میں مبتلا آدمی زندگی کے بے شمار کُرُوب سے دوچار ہوتا ہے۔ اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح غیب سے اسے دولت خزانہ مل جائے یا اُسے علا دین کا چراغ مل جائے تو اس کے دن پھر جائیں۔ڈاکٹر اشفاق احمد نے اپنے افسانچہ ’اجالوں کا کرب‘ میں دل کے ارمانوں کے کبھی ختم نہ ہونے کی طرف بڑا ہی لطیف اشارہ کیا ہے:
” اجالوں کا کرب “
”وہ بہت غریب تھا لیکن ایک دن اس کی قسمت کا ستارہ چمکا۔ اُسے لاٹری مل گئی۔ دو لاکھ روپیہ ہاتھ آیا تو اپنے اور گھر کے افراد کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ ہزاروں خواہشوں نے سر اٹھایا۔ان ساری خواہشوں کے ہجوم میں اس نے محسوس کیا کہ وہ اب پہلے سے بھی زیادہ غریب ہوگیا ہے!! “
٭ ترقی پسند شاعر اور فلمی نغمہ نگار ساحر لدھیانوی نے ’وقت‘ کے تعلق سے کیا خوب کہا ہے: ۱۳؎
؎ وقت سے دن اور رات
وقت سے کل اور آج
وقت کی ہر شئے غلام
وقت کا ہر شئے پہ راج “
وقت ہمیشہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے کیونکہ یہ خالقِ کائنات کے امر کا حصہ ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کی سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۴۱۰ کا یہ ایک جزو ہے: وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نۃدَاوِ لُھَا بَیْنَ النَّاسِ( ترجمہ: اور ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔)’وقت کروٹ بدلتا ہے تو کبھی انسان کے اچھے دن آجاتے ہیں اسی کو ڈاکٹر اشفاق احمد نے اپنے افسانچہ ’وقت کی کروٹ‘ میں عیاں کیا ہے:
” وقت کی کروٹ‘
” معصوم بچہ جب روکھی سوکھی روٹی کھا کر اچھل کود کرات، تو ماں کہتی زیادہ اچھل کود مت کر‘ ورنہ تجھے بھول لگ جائے گی، تو میں پھر روٹی کہاں سے لاؤں گی؟ آج بچہ کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا وہ پیٹ بھر کھانا کھا کر خوب دھوم مچا رہا تھا ۔ ماں بھی ڈانٹنے کے بجائے اس کی شرارتوں پر ہنس رہی تھی۔ بچہ اپنی ماں کو خوش دیکھ کر کہنے لگا ”ماں تو سچ کہتی تھی کہ سب دن ایک جیسے نہیں رہتے۔ ”ماں جب سے زلزلہ آیا ہے، ہماری مصیبت کے دن گزر گئے۔اب تو ہر ٹینٹ میں کھانا ملتا ہے اور میں دن بھر کھاتا رہتا ہوں!!“ ۱۴؎
ڈاکٹر اشفاق احمد نے معاصر زندگی کے تلخ حقیقت والے سماجی پہلوؤں کو مختصر اور دلچسپ پیرائے میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کا بیانیہ اختصار کے ساتھ فطری لگاؤ رکھنے کے سبب قارئین کے ذہن پر یاد گار نقش چھوڑتا ہے جس ذہنی ارتقاز اور فتانت سے اپنے دلی جذبات کو انہوں نے افسانچہ کی شکل دی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ادبیات میں شعراء کے یہاں دو مصروں میں بڑے سے بڑے عمیق موضوعات بندھے ہوئے نہ صرف دیکھے جاتے ہیں بلکہ ان کے تاثرات بھی زمانوں تک اپنی انمٹ چھاپ چھوڑتے ہیں افسانچہ نگاروں میں اب تک یہ خوبی دیکھنے میں نہیں آئی۔ڈاکٹر اشفاق احمد نے اپنے مشاہدات کو اختصار سے پیش کرنے کے لیے افسانچہ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ مبارکباد کے مستحق ہے۔ ان کی قصہ تراشی دلکش، دل پذیر اور والہانہ ہے۔ان کے افسانوں میں ان کے قلم کی انفردیت اپنی پوری شان سے موجود ہے لہٰذا ادبی دنیا میں ان کے افسانچوں کے مجموعے ’برجستہ‘ کا خلوص ِ دل سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
——–
حواشی:
حوالہ ۱؎ : مصنف: علامہّ سیّد سلیمان ندوی، کتاب: نقوشِ سلیمانی،(پاکستانی دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۷ء، مطبع: اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، حیدرآباد، لاہور) صفحہ نمبر: ۱۰۲
حوالہ ۲؎: ایضاً صفحہ نمبر: ۹۹
حوالہ ۳؎: ایضاً صفحہ نمبر: ۱۰۰
حوالہ ۴؎:: افسانچہ : روشنی کا اندھیرا : مصنف: ڈاکٹر اشفاق احمد، کتاب: برجستہ (منی افسانوں کا مجموعہ)، (سالِ اشاعت: ۲۰۱۸ء،مطبع: سلمان فائن پرنٹرس، مومن پورا، ناگپور: ) صفحہ نمبر: ۹۷
حوالہ ۵؎: افسانچہ : پسِ پردہ‘ صفحہ نمبر: ۱۴۹ ایضاً
حوالہ ۶؎:افسانچہ : مہلت صفحہ نمبر: ۱۳۹ ایضاً
حوالہ ۷؎:افسانچہ : ووٹ بینک صفحہ نمبر: ۹۶ ایضاً
حوالہ ۸؎:افسانچہ : پہچان صفحہ نمبر: ۱۳۶ ایضاً
حوالہ ۹:افسانچہ : ناخلف بیٹے صفحہ نمبر: ۱۵۱ ایضاً
حوالہ ۰۱:افسانچہ : قول و فعل صفحہ نمبر: ۱۲۱ ایضاً
حوالہ ۱۱: ایضاً
حوالہ ۱۲: ایضاً
حوالہ ۱۳: افسانچہ: اجالوں کا کرب صفحہ نمبر : ۱۳۷ ایضاً
حوالہ ۱۴: افسانچہ: وقت کی کروٹ صفحہ نمبر : ۱۴۳ ایضاً
۔۔۔۔۔۔
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676

Share
Share
Share