تحقیقی مضامین اور تبصرے -: ڈاکٹرعطا ء اللہ خان – مبصر :- ڈاکٹرعزیز سہیل

Share

تحقیقی مضامین اور تبصرے

مصنف : ڈاکٹرعطا ء اللہ خان، امریکہ
مبصر: ڈاکٹرعزیز سہیل،حیدرآباد

حیدرآباد دکن سے شعبہ درس وتدریس اور شعروادب میں یکساں طورپر اپنی پہچان بنانے والی شخصیت کواردودنیا ڈاکٹرعطا اللہ خان کے نام سے جانتی ہے ان کا شمار حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ممتاز فرزندوں میں ہوتا ہے،جنہوں نے ایک عرصہ تک اردو اورینٹل کالج حمایت نگر حیدرآباد میں چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اورینٹل عثمانیہ یونیورسٹی کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں،

اب وہ امریکہ میں مقیم ہیں۔ امریکہ میں رہتے ہوئے بھی ان کا اردوادب سے اٹوٹ رشتہ رہا ہے۔ آئے دن مضامین اور تبصرے لکھنا‘کتابیں شائع کرنا، نئے قلمکاروں کی ہمت افزائی ان کا معمول رہا ہے۔وہ ایک بہترین ریسرچ سپروایز بھی رہے ہیں۔
ڈاکٹرعطا اللہ خان کی اب تک 11 کتابیں شائع ہوکر اردو قارئین کی داد حاصل کرچکی ہیں ان کی تصنیف دکنی محاورات‘ کہاوتیں‘ضرب الامثال کو اردو حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی ہے،ان کی گیارہ تصانیف اس طرح ہیں ”انتخاب کلام رحمت‘ پروفیسر محمدعلی اثر ایک مطالعہ‘ کلیات فدوی تنقیدی جائزہ‘ گلستان رحمت تنقیدی‘ دیوان عبداللہ قطب شاہ‘ سخن ورانِ عہد محبوبیہ‘ نگارشات اثر‘ مقالات محمود قادری‘ دیوان شاہ ضیاء الدین‘ معاصرین داغ دہلوی‘ دکنی محاورات‘ کہاوتیں‘ضرب الامثال شامل ہیں۔”تحقیقی مضامین اور تبصرے“ان کی بارہویں تصنیف ہے جس میں مضامین اورچند تبصرے شامل ہیں۔ اس کتاب میں ”شخصیات“ کے تحت جومضامین شامل ہیں ”محمدقلی قطب شاہ کی شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر‘ حضرت شاہ ولی اللہ آزادی ہند کے پہلو ہیرو‘ فدوی خان فدوی سراج ؔاورنگ آبادی کا ہم عصر‘ اکیسویں صدی بھی میر تقی میرؔ کی‘ نظیرؔ اکبرآبادی‘ قیام جامعہ نظامیہ اورمولانا انوار اللہ فاروقی‘ امجدؔحیدرآباد ی بحیثیت صوفی شاعر‘ پروفیسر محی الدین قادری زورؔ‘مجاہد اردوپروفیسر حبیب الرحمن‘ پروفیسر سیدمحمد‘ مولوی اکبرالدین صدیقی‘ پروفیسر مغنی تبسم اور ادارہ ادبیات اردو‘ مخدومؔ محی الدین کی شاعری میں مارکسی عناصر‘ فیض احمد فیضؔ کی کلاسیکی شاعری‘ نذیرؔدہقانی دکنی زبان کا منفرد شاعر‘ رحمتؔ حیدرآبادی منفرد تاریخ گو شاعر‘ عہد آصف جاہ سادس کے چند نامور شعراء‘ فرقہ مہدویہ کے نامور شعراء‘ علامہ اقبال کی غزل کا مصرعہ‘ ایاغ چشتی۔
زیر نظرکتاب میں ”مضامین“کے تحت ساحرؔ لدھیانوی کے ناکام محبتیں‘ جوش ؔملیح آبادی حیدرآباد میں‘ اردوادب میں مثنوی‘ علم وتحقیق کا سرمایہ دکن سے نکلا‘ اقدار کا بگڑتا رحجان‘ دارالترجمہ کی سائنسی خدمات‘ مجلہ عثمانیہ کی ابتداء‘ قیام جامعہ عثمانیہ جیسے مضامین شامل ہیں۔ کتابو ں پرتبصرے کے تحت عرش فگن‘ آج کے محقق (پروفیسر سلیمان اطہرجاوید)‘ دکن کی چندہستیاں‘ شکاگومیں اردو‘ کرشن چندر کی تحقیقی کتاب‘ تجزیاتی مطالعے اور مصاحبے‘ رسالہ نور ولایت کا طالب خوند میری نمبر‘ اردوشاعری اور تصو ف تاریخی وتنقیدی جائزہ‘ معنی کا گمان‘پروین شیر عہد ناتمام کی شاعرہ‘ چند سیپیاں سمندروں سے شامل ہیں۔
ا س کتاب کا پیش لفظ خود ڈاکٹرعطا اللہ خان نے ”ابتدائیہ“کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس کتاب کے ابتدائی سطور میں تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے وہ لکھتے ہیں ”تحقیق ادب کا وہ موضوع ہے جو کبھی نہ ختم ہوتا ہے۔ہردورمیں تحقیق کا عمل جاری رہتا ہے۔ پیش نظرتصنیف میں کچھ ایسے تحقیقی اور تنقیدی مضامین ہیں جن کی تحریر کے دوران کافی جدوجہد کرنی پڑی۔ان میں سے بعض مضامین جامعات کے سمیناروں میں پیش کیاتھااور کچھ ریڈیو سے نشرہوئے اورچند ادبی رسائل کی زینت بنے۔ چند ادبی تصانیف پرتبصرے اور تنقیدی جائزہ بھی لیاتھا۔“
زیرنظر کتاب میں پہلا مضمون”محمدقلی قطب شاہ کی شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر“ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹرعطا اللہ خان نے حیدرآباد کی تاریخ اور حکمرانوں سے متعلق اظہارخیال کیاہے۔وہیں ملا وجہی کا تذکرہ بھی شامل ہے۔صاحب کتاب نے محمدقلی قطب شاہ سے متعلق لکھا ہے کہ”یوں توانہیں رنگین مزاج‘عیش پرست اور شرابی شاہ کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے لیکن اسی رنگین مزاج سیکولر بادشاہ کی قومی شاعری پر بہت کم لکھاگیا ہے۔ اس کی قومی شاعری میں ہولی‘ بسنت‘بہار‘ مرگ‘نو روز‘ شب برات‘ چندرمکھاں‘ تھنڈکالا‘ محلات کی تعریف اوربارہ پیاریاں وغیرہ ملتی ہیں۔ محمدقلی قطب شاہ کے قلمی دواوین جوکتب خانہ سالارجنگ اور اوایم ایل میں محفوظ ہیں اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نظموں میں کوئی عنوان درج نہیں کیا۔راقم نے اس قلمی نسخوں کا بغورمطالعہ کیا ہے۔“
اس مضمون میں ڈاکٹرعطا اللہ خا ن نے قلی قطب شاہ کی نظموں کے حوالے پیش کیے ہیں اورمختلف موضوعات پر ان کے اظہار کو بیان کیاہے۔ قلی قطب شاہ کو قومی یکجہتی کا پیکر ہندوستانی کلچر اور ماحول کا دلدادہ قراردیا۔ کتاب کے اس حصہ میں شامل دیگر مضامین بھی کافی معلوماتی ہیں۔
زیر نظر کتاب کے دوسرے حصہ میں شامل پہلا مضمون”ساحرلدھیانوی کی ناکام محبتیں“کے عنوان سے شامل ہے جس میں موصو ف نے ساحرلدھیانوی کی نغموں کا تذکرہ کیاہے جوفلمی دنیا میں مقبول ہوئے تھے۔ڈاکٹر عطا اللہ خان نے اس مضمون میں ساحرلدھیانوی کی شخصیت،حالات زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے ساحرلدھیانوی کی محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ساحر کے معاشقے کوئی آٹھ دس لڑکیوں سے رہے۔ایک بھی کامیاب نہ ہوسکا،ان کی نغمگی بہت مشہورہوئی۔ ان فلموں میں پیاسا‘ سی آئی ڈی‘ تاج محل وغیرہ شامل ہیں“۔
اس کتاب میں شامل تبصروں میں ایک تبصرہ”شکاگومیں اردو“کے عنوان سے بھی شامل ہے جو پروفیسر میرتراب علی کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردودنیا میں شکاگو میں مقیم اردوداں اشخاص کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب کا ڈاکٹرعطا اللہ خان نے تنقیدی جائزہ لیا ہے اور طویل تبصرہ لکھا ہے۔ جس میں کتاب میں شامل مختلف موضوعات پرسیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب سے متعلق مبصر نے لکھا ہے کہ اس میں تقریباً 46 ادبی‘علمی شعراء اورسائنسداں حضرات سے فرداً فرداً مواد حاصل کیا اورانہیں زیورطباعت سے آراستہ کیا۔ہوسکتا ہے کہ اوربھی شخصیتیں شکاگواورامریکہ میں ہوں گی۔ شکاگو کے علاوہ دیگرریاستوں ہائے امریکہ میں بھی ہو ں گی۔پیش نظرمرقع اردومیں پہلا مضمون تعارف میں لکھاگیا ہے۔“
بہر حال ڈاکٹرعطا اللہ خان نے اس کتاب میں حیدرآباد دکن کی ممتاز ادبی شخصیات اوریہاں کی تہذیب وثقافت اوردکن کے حکمرانوں سے متعلق کافی تحقیقی مضامین اپنی سنجید کوشش اور لگن سے صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے،ساتھ ہی مختلف اور اہم کتابو ں پر گراں قدر تبصرے بھی کیے ہیں۔ ان مضامین وتبصروں سے ڈاکٹرعطا اللہ خان کی سنجیدہ فکر‘تحقیقی صلاحیتیں اور تنقیدی شعور کا علم ہوتا ہے۔ گراں قدر کتاب کی اشاعت پرڈاکٹرعطا اللہ خان کومبارک باد پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اپنے وطن اور اپنی اردودوستی کو نہیں بھولا اور وقتاً فوقتاً اپنی اس والہانہ محبت کواپنی تحریروں کے ذریعہ اردودنیا تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اس کتاب کو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیاہے۔ 236صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت 200 روپئے رکھی گئی ہے جو ہدیٰ بک ہاؤز پرانی حویلی حیدرآباد سے خریدی جاسکتی ہے۔
٭٭٭
Dr. Md. Ataullah Khan

فون ۔ 17732405046+
—-

ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
ڈاکٹر عزیز سہیل
Share
Share
Share