افسانہ : وہ اکیس دن :- ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

افسانہ : وہ اکیس دن

ڈاکٹر صفیہ بانو .اے .شیخ

میں ڈاکٹر آکاش کی بیوی مِشا بول رہی ہوں۔آپ میری ڈاکٹر آکاش سے بات کرا سکتے ہے؟ راکیش کے کلینک کے کمپوڈر مگن نے یہ بتایا کہ میم صاحبہ ابھی ڈاکٹر صاحب ارجنٹ میٹنگ میں مصروف ہے آپ کو کوئی کام ہو تو کہہ دو میں ان سے کہہ دوں گا۔

مِشا نے مگن سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے کہنا کہ وہ آج شام گھر جلد ی آجائے ان کے بڑے بھائی پرکاش اور بھابھی پریتی آنے والے ہے۔ ٹھیک ہے میم صاحبہ کہہ کر مگن فون رکھ دیتا ہے۔ مِشا دراصل پریتی کی چھوٹی سگی بہن ہے۔مِشا ایک پڑھی لکھی اور با شعور لڑکی ہے حالانکہ وہ ڈاکٹر نہیں تھی وہ ایک فیشن ڈیزائنر تھی۔ پرکاش سے شادی ہوجانے کے بعد مِشا نے اپنی مصروفیت کے لیے کپڑوں کا شوروم کھول لیا تھا۔ مِشا اس روز اپنی بہن کے لیے تیار کردہ سوٹ لینے کے لیے اپنے شوروم پر گئی ہوئی تھی اور وہ کپڑے لے کر گھر کی طرف آ رہی تھی کہ اس کی گاڑی کا اکسیڈنٹ ہوجاتا ہے۔ اس حادثہ میں مِشا کو بہت سی اندرونی چونٹیں لگ جاتی ہیں علاج کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس کی دائیں ہاتھ کی کلائی اور بائیں پیر کی ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی۔ہڈی کے ڈاکٹر نے سمینٹ کا پلاسٹر باندھا اور تین ماہ تک بیڈ ریسٹ کرنا ہوگا سختی سے مِشا سے کہا۔ مِشا کو اس بات کا شدید دکھ ہوا لیکن ڈاکٹر آکاش نے اپنی بیوی مِشا کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ تمہاری جان سب سے زیادہ قیمتی ہے یہ چونٹیں بہت معمولی سی ہیں۔ مِشا کہتی ہے ویسے ہی تم کو وقت نہیں ملتا اور میں بھی تمہارے لیے بوجھ بن گئی ہوں۔ ڈاکٹر آکاش کہتا ہے میں اب تمہارے لیے وقت نکالا کروں گا۔ میری بڑی بہن پریتی بھی کہنے لگی ہم سب تمہارا خیال رکھیں گے تم بالکل بھی فکر مت کرو۔ ایک ہفتہ گزر گیا سب ساتھ تھے دن کٹ جاتا تھا مگر میں اس روز کو کیسے بھول سکتی ہوں کہ میری بہن کے شوہر پرکاش نے اچانک اپنے بیوپار کے لیے پریتی کو اپنے ساتھ امریکہ لے جانے کا ارادہ کر لیا۔ مِشا بہت دکُھی ہو چکی تھی پریتی اپنے شوہر کی بات کو انکار نہ کرسکی۔ پریتی نے میری کافی مدد کی مگر میں نے اپنے مطلب کے لیے اسے روکا تو بہت زیادتی ہوگی۔ میں نے اپنی بہن سے کہا کہ میں کوئی نرس وغیرہ کو یا کسی ہیلپر کو رکھ لوں گی۔ پریتی کو گئے ایک ہفتہ گزرچکا تھا۔ مِشا ایک ہی جگہ بیٹھ کر تنگ آگئی تھی۔ وہ باہر جانا چاہتی تھی مگر اس کا باہر جانا اس وقت مناسب نہ تھا۔ اس رات ڈاکٹر آکاش اپنے گھر نہیں آیا مِشا بہت پریشان ہوگی آخر آج آکاش گھر کیوں آیا؟ میں سوچتے سوچتے دواؤں کے اثر سے سو گئی صبح جب مِشا کی آنکھ کھُلی تو آکاش سے پوچھا کہ تم رات بھر کیوں گھر نہیں آئے۔ لیکن ڈاکٹر آکاش تو دنیا میں پھیلی وبا کے اندھیرے کو دور کرنے کی فکر میں غلطاں تھا اس نے اس وقت کوئی جواب نہیں دیا۔ مِشا کے لیے جو نرس رکھی گئی اچانک اسے کول آیا کہ ایمرجنسی ہوگئی ہے۔
مِشا اس بات سے پریشان ہوگئی کہ آخر کوئی کچھ بتا کیوں نہیں رہا۔ اس نے جیسے تیسے دوسرے ملازموں کی مدد سے ٹی وی آن کرایا۔ ٹی وی پر بار بار بریکنگ نیوز کی خبریں سرخیاں بنا کر دکھائی جا رہی تھی کہ کورونا نامی وبا پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ اس لاعلاج بیماری سے ہندوستان بھی باقی نہیں رہا۔ لوگ زندگی سے ہار رہے ہے۔ اچانک ایک اور خبر نے مِشا کو سکتے میں ڈال دیا وہ یہ کہ ’وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں یہ بیماری کی ماہ ماری نہ پھیلے اس لیے اکیس دن کا لوک ڈاؤن پورے ملک بھر میں نافذ کرنے کا فیصلہ لیاگیاہے۔ میرے ذہن میں جہاں سوال اٹھ رہے تھے وہی مجھے اپنی بہن پریتی کا خیال آیا میں نے فوراً اسے فون ملایا اس نے کہا یہاں حالات بد سے بدتر ہوگئے ہیں ہم ہندوستان آنا چاہتے ہیں مگر اب ایک ملک سے دوسرے ملک جانے والی تمام فلائٹ کورونا وائرس کے چلتے مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے۔مِشا بہت گھبرا گئی۔ سبھی جگہوں پربار بار لوگوں کو ہدایتیں دی جارہی تھیں کہ وہ صابن سے اپنے ہاتھوں کو بار بار دھوئیں اوراپنے آس پاس صفائی رکھیں اورہاتھ ملانے کے بجائے نمستے کی عادت ڈال لے۔مِشا بہت رونے لگی کیونکہ اسے جن جگہوں پر چونٹیں لگیں تھیں اس حساب سے ذاتی کام کرنا یا اکیلے رہنا بڑا مشکل ہو رہا تھا مِشا نے طے کیا کہ ان اکیس دنوں کے حالات قلم بند کرکے رہے گی۔پہلا دن مِشا لکھتی ہے کہ میں نے اس دن ناشتہ کیا اور دوپہر تک آرام کیا۔ آرام کرنا بھی میرے لیے محال بنتا جارہا تھا۔ خالی گھر مجھے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ اس لوک ڈاؤن سے قبل پڑوس میں رہنے والی مالتی مجھ سے ملنے آجایا کرتی تھی مگر اب فون سے ہی رابطہ ہونے لگا تھا اس روز میں نے شام کو آکاش کو ٹی وی پر دیکھا مجھے بڑا فخر محسوس ہو رہا تھا کہ فیمیلی سے بڑھ کر دنیا کی خدمت کرنے میں اپنا یوگدان دے رہے ہیں۔پہلا دن بس یہی گزر گیا حالانکہ تکلیف تو مجھے چونٹیں لگنے پر تھیں جو میرے شوہر کی خدمت والی خبر نے کچھ حد تک کم کر دیا تھا۔دوسرا دن شروع ہی ہوا تھا کہ خبر آئی کہ جن ڈاکٹروں کو ہسپتال میں کام کرنا پڑھ رہا ہے ان کے گھر والوں کو کورن ٹائن کیا جائے گا۔ مِشا اک پل کے لیے گھبراگئی میں تو ویسے بھی ہڈیوں کی چونٹوں کے سبب پہلے ہی کورن ٹائن ہو کر رہ گئی ہوں۔مِشا اپنے سب سے پورانے ملازم کو فون کرکے بلاتی ہے چھگن آتا ہے اور ساتھ اپنی بیٹی کو لے کر کے آتا ہے۔ مِشا اپنا سارا حال چھگن سے بیان کرتی ہے چھگن نے فوراً اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کام کرنے کے لیے ہامی بھرتا ہے۔ غریبی نمک ادا کرنے کے موقع اس طرح بھی نکال لیتی ہے۔ چھگن اپنے دل میں یہ بات کہہ لیتا ہے۔ نمک کھایا ہے تو نمک ادا کرنا بھی ہوگا۔ مِشا لکھتی ہے کہ میرا دوسرا دن خوشی میں گزار اک پل کے لیے ایسا لگا جیسے ایشور نے میری سُن لی۔ چھگن کی بیٹی تانی بھی رہنے کو تیار ہوجاتی ہے۔ گھر میں ساری چیزیں مہیا پولیس والوں نے کردی تھی، اس کے پیچھے میرے شوہر ڈاکٹر آکاش کی خدمت کا سلہ ہے۔ تیسرے روز میں نے تانی سے کہا کہ تم کیا کیا کر لیتی ہو؟ تب اس نے کہا کہ میم صاحبہ میں سارے کام جانتی ہوں بس آپ حکم کیجئے۔ بس انگریزی والے کھانے بنانے نہیں آتے۔دیسی کھانے سب بنا لیتی ہوں۔ مِشا پوری طرح مورڈن تھی میری صبح بلیک گرین ٹی،اور دوپہر میں سوپ اور سلاڈ اور رات میں دودھ یا تازے پھل، مگر مجبوری انسان سے کیا کچھ نہیں بدلوا دیتی ہے۔ تیسرے روز میں نے کھانے میں دال سبزی کھائی جو شاید میں نے اپنی نانی کے گاؤں کڑی جانے پر کھائی تھی حالانکہ میں اس طرح کا کھانا کھانے کی عادی نہیں تھی مگر میں مجبور تھی۔ انسان کھانے کا کیڑا ہے جو وقت کے ساتھ اپنا کھانا تک بدل دیتا ہے۔ شام ہوتے ہوتے میرے پیٹ میں گڑ بڑ ہوگئی میں نے فوراً اپنی فیمیلی ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور دوائی منگوا کر کھائی جب جا کر کہی مجھے آرام ہوا۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں ہی اسے انگریزی کھانا سیکھا دو۔تیسرے روز میں نے تانی سے کہا کہ تم یہ دال سبزی کھانا مگر میں اس طرح کا کھانا نہیں کھاتی ہوں خیر میں تم کو سمجھا دوں گی کہ میں کیا کھاتی ہوں۔ تانی نے وہ سب سُنا جو میں نے کہا مگر تانی جو کہتی رہی مجھے تو برداشت نہیں ہو پا رہا تھا کہ اتنی باتیں کہا سے لے کرکے آتی ہوں گی؟ اس کی باتیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ چوتھے روز سے لے کر پندرہ روز تک یہی سب کچھ چلتا رہا۔سولہوے روز میں نے اپنے آپ میں رییلائز کیا کہ میرا وزن پہلے سے زیادہ دوگنا بڑھ گیا ہے میں جسمانی طور پر سوڈول تھی مگر اب بے ڈول دکھائی دے رہی تھی۔سترہوے روز میں نے جسمانی ورزش کرانے والے سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی لوک ڈاؤن کے سبب سب کچھ بند ہے اور ویسے بھی میری چونٹیں بھی ورزش کی ابھی اجازت نہیں دیتی ہے میں بہت مایوش ہوگئی تھی کہ پہلے تو میں لوگ ڈاؤن کے درمیان لیپ ٹاپ لے کر کام کرلیا کرتی تھی مگر اب میں کام سے اکتا گئی تھی میرا دل دماغ مایوشی کی طرف بڑھ رہا تھا اٹھاروے دن مجھے احساس ہونے لگا کہ میں نفسیاتی مرض میں مبتلا ہونے لگی ہوں۔میں فوراً ڈاکٹر نریش کو فون کیا وہ ایک نفسیاتی ڈاکٹر ہے انہوں نے میری ساری کہانی میری زبان سُنی اس کے بعد انہوں نے مجھے کچھ ہدایت اور مشورے دئے کہ آپ کتاب وغیرہ کی پڑھنے کی عادت ڈال لیں۔ آپ کااگر دل چاہے تو کبھی موسیقی سن لیا کرے یا پھر اپنے دوست،رشتہ داروں سے فون رابطہ بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ میں نے انیسوے دن اور بیسوے دن یہ سارے کام کیے جس سے مجھے تھوڑی راحت ہوئی۔ لوک ڈاؤن کے اکیسوے دن کو میں یہ جاننے کے لیے بے حد بے تاب تھی کہ کیا ہندوستان کورونا وائرس سے آزاد ہوگیا؟ میری بے تابی اور بے چینی اور بڑھی تب یہ خبر آئی کہ یہ ایک لمبی لڑائی ہے ہمیں بہت ہی ہمت سے کام لینا ہوگا ساتھ ہی بہت ساری احتیاط برتنی ہوں گی جیسے دوری بنائے رکھنے کی اس جنبش کو دہراتے رہنا ہوگا تاکہ اس وبا کا اثر کم ہوجائے اور جلد از جلد یہ وبا سے انسانی زندگی کی جان چھوٹ جائے۔میں اکثر سوچتی تھی کہ ہم کورونا وائرس سے تو راحت آج نہیں تو کل پا ہی لیں گے مگر ہم انسانی وائرس یعنی انسانی برائیاں، چوری،چکاری، زناکاری، قتل و غارت، سے کب نجات پائیں گے؟ ”وہ!اکیس دن“۔۔۔، ”وہ! اکیس دن“۔۔۔لکھتے لکھتے میری قلم رُک گئی۔
——-
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad

Share
Share
Share