دیپک بُدکی کا افسانہ ’ دودھ کا قرض ‘ : تجزیہ :- ڈاکٹرشیخ صفیہ بانو

Share
دیپک بدکی

دیپک بُدکی کا افسانہ ’ دودھ کا قرض ‘ : تجزیہ

ڈاکٹرشیخ صفیہ بانو

روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں
ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں (انجم سلیمی ؔ)
ماں کے بارے میں نہ صرف انجم سلیمیؔ کا خیال عمدہ ہے بلکہ دیپک بدکی کا افسانہ’ دودھ کا قرض ‘ بھی اُسی بنیاد ی حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے۔

شاعر نے ماں سے جڑے جذبات کو دو مصروں میں کہہ دیا ہے لیکن یہی بات جب نثر نگار تحریر کرتا ہے اس میں مزید وضاحت اور ایقان کی ضرورت پڑتی ہے۔ افسانے کا پہلا ہی فقرہ، ”ساری بستی شعلوں میں لپٹی ہوئی تھی۔“ ۱؎قاری کے ذہن میں تباہی اور آتش زدگی کی تصویر کھینچتا ہے نیز اس کے تجسس کو انگیز کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کسی فساد یا لڑائی جھگڑے کی طرف اشارہ کرتا ہے مگربات جب کھل کر سامنے آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پس منظر کشمیر ہے جہاں آئے دن دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ دراصل اس افسانے کا مرکزی خیال امریکی ڈاکٹر ہووارڈ کیلی کی سچی گھٹنا سے مستعار لیا گیا ہے مگر اس کو کشمیر کے تناظر میں اس خوش اسلوبی سے نبھایا گیا ہے کہ بالکل نیا، حقیقی اور اچھوتا تھیم لگتا ہے۔ افسانے کا مدعا اس بات پر زور دیناہے کہ انسانیت آج بھی زندہ ہے اورہمیشہ زندہ رہے گی۔
اس کہانی کا مرکزی کردار اقبال ریشی ہے جو ایک کشمیری پنڈت ہے اور جس کا نام اس کے والد نے، جو اردو شاعر تھا، ’اقبال‘ رکھا ہے جبکہ ’ریشی‘ اُس کی عرفیت ہے۔کشمیر میں ’ریشی‘ صوفیوں سنتوں کو کہتے ہیں اور یہ کئی گھرانوں کی عرفیت بھی ہے۔ وادیِ کشمیر کو ’ریشی وآر‘ بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ’صوفیوں سنتوں کا چمن‘ہے۔ اس لیے لگتا ہے کہ کرداروں کے نام بھی ان کے اعمال کے حوالے سے چن کر رکھے گئے ہیں۔ دراصل بچپن میں پیش آئے حادثے نے اقبال کے نظریے کو بدل کر رکھ دیا،یہ اُس وقت کی بات ہے جب وہ صرف دس گیارہ برس کا تھا اور دہشت گردی کے سبب اُسے اپنے گھر اور اپنے والدین سے جدا ہونا پڑا۔ وہ لگاتار اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں بھاگتا رہا جس کو افسانے میں یوں بیان کیا گیا ہے:
”اس کمسن لڑکے کو کہاں جانا تھا، اسے معلوم نہ تھا۔ فقط دوڑے جا رہا تھا۔ مہیب اندھیروں کو پیچھے چھوڑ کر وہ روشنی کی تلاش میں بھاگ رہا تھا۔“ ۲؎
انسان چاہے کیسے بھی برے حالات سے کیوں نہ گزرے، کوئی نہ کوئی امید کی کرن اُسے راستہ دکھاتی ضرور ہے۔ افسانے میں جب اقبال اپنی جان بچانے کے لیے بھاگتا ہے بالآخر وہ ایک نئی بستی میں داخل ہوجاتا ہے جہاں اُس کی ملاقات رحمتی نامی ایک نیک خاتون سے ہوتی ہے۔ رحمتی بذات خود ایک ماں ہے جس کی نگاہ اچانک کمسن اقبال پر پڑتی ہے اس لیے وہ اپنے آپ کو روک نہیں پاتی۔ رحمتی کی ممتا ایسے امڈ پڑتی ہے جیسے اُس نے اپنے بیٹے کو دیکھ لیا ہو جو پناہ کا خواست گار ہے،وہ فوراً نیچے اترتی ہے اور اُسے سنبھالنے کی بھر پور کوشش کرتی ہے۔ماں کے دل میں قدرتی طور پر ممتا کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔اس کااپنے بچے سے ایسا واحد رشتہ ہوتا ہے جو ہر رشتے سے بالا ہوتا ہے۔یہی ممتا اس کو اقبال کی طرف فوراً کھینچتی ہے جس کے بارے میں افسانہ نگار تحریر کرتے ہیں:
”جونھی اس کی نظر لڑکھڑاتے ہوئے اس ننھے لڑکے پر پڑی اس کی ممتانے کروٹ لی اور وہ کچن سے پانی کا لوٹا اٹھاکر کودتی پھاندتی نیچے سڑک پر پہنچ گئی۔“ ۳؎
افسانے کا پہلا مرحلہ تب سامنے آتا ہے جب اقبال کو رحمتی اپنی حفاظت میں لے لیتی ہے اور اپنے گھر میں اطمینان سے بٹھلاتی ہے۔ اقبال خوف و ڈر میں مبتلا ہوتا ہے اُس کے باوجود رحمتی کے حُسن سلوک کو دیکھ کر اُسے اپنی ماں کی یاد آتی ہے جو کچھ ہی گھنٹے پہلے شوہر، پریم ناتھ پریمؔ سمیت دہشت گردی کا شکار ہوچکی تھی۔رات بھر ان خوفناک حالات سے جوجھ کر وہ ذہنی طور پر صدمے کا شکار ہوجاتا ہے اوربار بار ان کے بارے میں اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوتا ہے۔ اُس کی یہ حالت کسی ذہنی مریض سے کم نہیں ہوتی۔وہ رحمتی کو اپنے اوراپنے والدین کے بارے میں جس اضطراب کے ساتھ سارا واقع بیان کرتا ہے اس کی وجہ سے کبھی غش کھا کر گر پڑتا ہے اور کبھی کانپنے لگتا ہے۔ دیپک بدکی نے اس کی نفسیاتی کیفیت کو بڑے ہی ہمدردانہ اورہنر مندانہ انداز میں بیان کیاہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کو انسانی نفسیات اور جذبات کی تصویر کشی کرنے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
”اقبال تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کا ماتھا پسینے پسینے ہورہا تھا۔اندر گھستے ہی وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا او ر فرش پر دھڑام سے گر گیا۔ بدن میں کپکپاہٹ بدستور جاری تھی۔ رحمتی جلدی سے ٹھنڈے پانی کا ایک اورلوٹا لے آئی اور اس پر چھڑکنے لگی۔ چند لمحوں میں وہ سنبھل گیا۔“ ۴؎
اس وقت اقبال کا ہر لمحہ یادوں کا محتاج ہوتا ہے۔ اُسے اپنی ماں کی باتیں یاد آرہی تھیں۔اسے وہ واقعہ یاد آیا جب ایک روز اُس کے گھر رحمتی کی صورت جیسی ایک خاتون رابعہ آئی تھی،وہ اُس کی ماں کے ساتھ ہی اسکول میں پڑھاتی تھی۔رحمتی اور رابعہ دونوں مسلمان تھیں مگر اسے ان میں اور اپنی ماں میں زیادہ کوئی فرق معلوم نہیں ہوا تھا۔کشمیر کی مخلوط تہذیب کی اس طرح افسانہ نگار نے بڑی خوبی سے عکاسی کی ہے۔ افسانہ کا مندرجہ ذیل اقتباس اس بات کی گواہی دیتا ہے:
”ہمارے رہن سہن میں زیادہ فرق نہیں تاہم پوشاک سے ہم پہچان سکتے ہیں کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو؟ اب تو مغربی کلچر کے سبب وہ امتیاز بھی مٹتا جارہاہے۔ہاں اتنا ہے کہ ہم مندروں میں جاتے ہیں اور یہ مسجدوں میں۔“ ۵؎
اقبال رحمتی کورات کے واقعات کی تفصیل سناتا ہے کہ کس طرح اُس کے والدین دہشت گردوں کو رات بھر پناہ دینے کے لیے مجبور ہوگئے تھے، اُس کی والدہ نے انھیں کھانا پکا کر کھلایا تھا مگر جونہی ان کو پولیس کے چاروں طرف سے گھیر لینے کی خبر ملی، انھوں نے اقبال کے والدین کو ڈھال بنا کرکے بھاگ نکلنے کی کوشش کرلی اور اس کوشش میں والدین گولیوں کا نشانہ بن گئے۔اس دوران آگ اور دھوئیں کی آڑ میں اقبال اپنے آپ کو چھُپانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، صبح کا انتظار خوف و وحشت میں کرتا ہے اور جوں توں کرکے نئی بستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ رحمتی کے گھر میں پناہ لیتا ہے۔ان دل دہلانے والے واقعات کے باوجود وہ رحمتی کے پیار کے زیر اثر اپنی ماں کے نیک خیالات کو یاد کرتا ہے اور ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اقتباس:
”بیٹے ہم سب انسان ہیں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کا بھگوان ایک ہے، صرف پوجا کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ہمیں سب سے محبت کرنی چاہیے۔اور حاجت مندوں کی حاجت رفع کرنی چاہیے۔“ ۶؎
یہ کہانی کا دوسرا سنگ میل ہے۔ اقبال رحمتی کو اپنی بیتی باتیں سناتا ہے، رحمتی ایک نیک خاتون ہے جس کا خود اپنا بیٹا سجاّد ہے۔ رحمتی کے پوچھنے پر اقبال نے اسے بتایا کہ اُس کا ماما جنرل پوسٹ آفس سرینگر میں کام کرتا ہے، اُس کی ایک بہن بھی ہے جس کی شادی ہوچکی ہے اور اب وہ اپنی سسرال چنڈی گڑھ میں رہتی ہے۔اقبال رحمتی سے التجاکرتاہے کہ اسے کسی طرح اس کے ماما کے پاس پہنچا دیا جائے۔ رحمتی اپنے بیٹے سجاّد کو حکم دیتی ہے کہ وہ جلدی سے اقبال کو اپنے ماما کے حوالے کرکے واپس چلا آئے۔جانے سے پہلے رحمتی اقبال کو بڑے پیار سے دودھ کا ایک گلاس پلاتی ہے تاکہ اس کی گھبراہٹ دور ہو اور اس کی قوت بحال ہوجائے۔وہ کشمیری میں اس کو اپنا لخت جگر کہہ کر مخاطب ہوتی ہے اور ڈھیر ساری دعائیں دیتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”چومیانہ لالہ (پیو میرے لال)، ماں کے ہاتھ کا دودھ پی کر جاؤ۔خدا تمھیں لمبی عمر اور روشن مستقبل سے نوازے۔ میں تمھارے لیے ہر دم دعائیں کرتی رہوں گی۔“ ۷؎
اس طرح اقبال ماما کی وساطت سے اپنی بہن کے پاس چنڈی گڑھ پہنچ جاتا ہے اور خوب محنت و مشقت سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ وہ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کر کے ماسٹر آف سرجری(ایم ایس) کی پڑھائی مکمل کرتا ہے۔ تعلیم کے بعد وہ امریکہ جاتا ہے جہاں وہ سرطان کے مرض کے بارے میں سپیشلائزیشن کرتا ہے اور پھر واپس آکر دہلی کے شہرت یافتہ کینسر اسپتال میں لوگوں کا علاج کرتا ہے۔ یہ افسانے کا وہ موڑ ہے جہاں کہانی میں سسپنس آجاتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور پھرکلائمکس بھی سامنے آتاہے۔ اقبال محض اقبال نہیں رہتا بلکہ وہ ہمارے سامنے ڈاکٹر اقبال ریشی بن کر نمودار ہوتاہے۔
قسمت کی ستم ظریفی سمجھ لیجیے کہ رحمتی کو کینسر ہوجاتا ہے اور اسے آپریشن کرانے کی لیے دہلی بھیجا جاتا ہے۔ اس کا داخلہ اسی اسپتال میں ہوتا ہے جہاں ڈاکٹر اقبال ریشی سرجن سپیشلسٹ ہوتا ہے اور اسی کام پر معمور ہوتا ہے۔ مشورے کے دوران ڈاکٹر اقبال مریضہ کو پہچان جاتا ہے مگر اپنے بارے میں کچھ نہیں بولتا۔اسے وہ دن یاد آتا ہے جب ایک عورت نے اس کو موت کے منہ سے بچایا تھا، اسے ماں کا پیار دیا تھااور اس کو بہ حفاظت اپنے ماما کے پاس پہنچوایا تھا۔ اِدھر اسپتال میں آپریشن کے ا خراجات کو لے کر رحمتی اور اُس کا بیٹا سجاّد پریشاں ہورہے تھے۔ کئی بار پوچھنے کے بعد اسپتال نے تین لاکھ کا مجموعی تخمینہ بتایا۔ جوں توں کرکے سجاد نے رقم کا بندوبست کر لیااور اس طرح رحمتی کا آپریشن ہوگیا۔ آپریشن کامیاب ہوجاتا ہے اور رحمتی رفتہ رفتہ ہوش میں آجاتی ہے۔کچھ دن بعد اس کے ڈسچارج کا حکم دیا جاتا ہے جس سے قبل سجاد اسپتال کی ساری بلیں ادا کرنے کے لیے دفتر میں چلا جاتا ہے۔ وہاں اس کو بل دیکھ کر حیرانی ہوجاتی ہے کہ تخمینے سے بہت کم رقم اسے مانگی جاتی ہے، وہ بار بار ان سے پوچھتا ہے کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں کر رہے ہیں جس پر دفتر کا منیجر اس کو فائل دکھا دیتا ہے۔فائل پر ڈاکٹر کے ہاتھ سے لکھی ہوئی عبارت پڑھ کر اس پر اصلیت کا انکشاف ہوجاتاہے۔ عبارت یوں ہوتی ہے:
”ہسپتال اور ادویات کا جو بھی خرچہ ہو، وہ مریضہ سے وصول کر لیا جائے۔جہاں تک ڈاکٹر کی فیس کی رقم کا تعلق ہے وہ پینتیس سال پہلے ایک دودھ کے گلاس کی شکل میں وصول ہوچکی ہے۔ میں رحمتی کی صحتیابی کی دعا کرتاہوں۔ ڈاکٹر اقبال ریشی۔“ ۸؎
افسانہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر اقبال رحمتی یا اس کے لواحقین پر کوئی احسان نہیں جتانا چاہتا ہے اس لیے بنا کچھ بتائے ہوئے اور بغیر رحمتی سے ملے وہ اسی روز پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت امریکا کے ٹور پر چلا جاتا ہے۔رحمتی اور اس کی فیملی کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوتا ہے۔
افسانے کی منظر نگاری کشمیر کے کشیدہ ماحول کے حوالے سے بڑی حساسیت سے کی گئی ہے، نہ اس میں کہیں کئی جنونیت ملتی ہے اور نہ ہی کوئی غیر ضروری جذباتیت۔اس کے علاوہ کہیں کہیں پر مثبت سوچ اور باہمی رواداری کے منظر بھی سامنے آتے ہیں۔ جہاں تک کرداروں کا تعلق ہے اس افسانے کے دو کردار، رحمتی اور اقبال قاری پر دائمی اثر چھوڑ جاتے ہیں، رحمتی کی رحمت اور ڈاکٹر اقبال کے بلند اقبال کا ثانی ملنا مشکل ہے، اس لیے دونوں کردار امر ہوجاتے ہیں۔ مکالمے بھی اثر انگیز اور بر محل ہیں۔
دیپک بدکی ہر بار ہمیں ایسے افسانے دے کر سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔اِس افسانہ میں مصنف کا نقطہ نظر قابلِ تعریف ہے۔ کشمیر کے تناظر اور موجودہ ہندستانی معاشرے میں جو فرقہ وارانہ منافرت کا زہر پھیل چکا ہے اس میں ضروری ہے کہ ہم ایسے کرداروں کو ڈھونڈ نکا لیں جن کی سوچ مثبت ہواور جو انسانیت کے علم بردار ہوں۔انسانیت ہی زندگی کی امیدیں قائم رکھتی ہے۔ ضمنی طور پر یہ بھی عرض کروں کہ تخریب سے بڑھ کر تخلیق اور ناخواندگی سے بڑھ کر تعلیم پر قلم کار نے زور دیا ہے نہیں تو ڈاکٹر اقبال ریشی جیسے انسان معاشرے میں ناپید ہوجائیں گے۔
٭٭٭
حواشی:
(۱) افسانوی مجموعہ ’اب میں وہاں نہیں رہتا‘؛ مصنف: دیپک بدکی؛ ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،لال کنواں دہلی۔ 1100006؛ پہلا ایڈیشن: 2016ء؛ صفحہ: 32
(۲) ایضاً صفحہ : 32
(۳) ایضاً صفحہ : 32 تا 33
(۴) ایضاً صفحہ : 34
(۵) ایضاً صفحہ : 34
(۶) ایضاً صفحہ : 36
(۷) ایضاً صفحہ : 38
(۸) ایضاً صفحہ : 41
٭٭٭
Dr.Shaikh Sufiyabanu,
A.C- Ground Floor,Tajpalace, Kumbharwada,
380001. Jamalpur, Ahmedabad

Share
Share
Share