افسانہ : شرمندہ :- مینا یوسف

Share
مینا یوسف

افسانہ : شرمندہ

مینا یوسف
صفاپورہ ، مانسبل

میرے مالک! میں بے سہارہ ہوں اُس کو کچھ دے نہیں سکتی۔میری بوڑھی آنکھیں اس کی بڑائی کے خواب دیکھتی ہیں۔یہ بوڑھی آنکھیں اس کی راہ دیکھتی ہیں۔میری دعائیں اس کے راستے میں آنے والی ہر مشکل کو دور کردے گی۔اے میرے خدا میرے بیٹے کو زندگی دے،میرے بڑھاپے کے سہارے کو تو ہمیشہ سہارا دینا۔

”اماں بہت بھوک لگی ہے زرا کھانا پروس دو“ریاض نے دروازے سے اندر آتے ہوئے اپنی ماں کو پکارتے ہوئے کہا۔بھوک تو بڑے زوروں کی لگی ہے،پیٹ میں چوہے اچھل کود کر رہے ہیں۔ماں جلدی سے کھانا دو۔
بیٹا میں جانتی ہوں کہ تم بہت محنت کرتے ہو۔دن بھر اپنے کندھوں پربوجھ اٹھا کر،خون پسینہ ایک کر کے روٹی کا انتظام کرتے ہو،کیا مجھے اس بات کا احساس نہیں؟
ارے ماں تم بھی نا! ”دیکھنا ایک دن میں بہت امیر آدمی بنوں گا“ریاض نے نوالہ ہاتھ میں لئے ہوئے اپنی ماں سے کہا۔
اُس کی ماں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو عرش کی طرف اٹھایا اور نم آنکھوں سے اپنے بیٹے کے لئے آمین کرنے لگی۔
ریاض نے کھانا ختم کیا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا اور اندر سے دروازے پر کنڈلی لگا دی۔کچھ دیر بعد وہ ہاتھ میں کچھ پیسے لئے باہر آیااور اپنی ماں سے کہا ”اماں میری آج کی کمائی،تمہیں جو چیزیں خریدنی ہیں ان پیسوں سے خریدلینا“۔
”بیٹا یہ گھر،گھر نہ ہوتابلکہ ایک کھنڈر ہوتا اگر تم ساری ذمہ داریاں نہ سنبھالتے۔خدا تمہیں ہمت دے،تمہیں دکھ درد سے محفوظ رکھے“ اماں نے نم آنکھوں سے اپنے بیٹے کو دعائیں دیتے ہوئے کہا اور اس کی پیشانی کو چوما۔
ارے اماں اپنے قیمتی آنسوں کو ایسے ضائع نہ کرو۔دیکھنا ایک دن میں ضرور بڑا آدمی بنوں گا۔
اگلے روز جب ریاض اپنے معمول کے مطابق گھر سے نکلا تو اُس نے اپنی ماں سے کہا کہ آج شاید مجھے آنے میں تھوڑی سی دیر ہو جائے۔
ماں کو یہ معلوم تھا کہ اُس کا بیٹا چاول کے گودام میں مزدوری کرتا ہے اور دن بھر چاول کی بوریاں گاڑیوں سے اُتار کر گودام میں رکھتا ہے اور کبھی کام کچھ زیادہ ہو تو اس کو دیر بھی ہوجاتی ہے۔
گھر سے نکلنے کے بعد ریاض ایک سونے کی دکان کے اندر گیا اور کچھ وقت گزر جانے کے بعدوہ وہاں سے باہر نکلا تو اُس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔اچانک پیچھے سے ایک آدمی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُس کو اپنے ساتھ ایک گلی میں چلنے کو کہا۔اُس آدمی نے ریاض سے اس کا بیگ مانگا،اس نے دینے سے انکار کر دیا۔غصے میں آکر اس آدمی نے جیب سے تیز دھار والا چاقو نکالا اور جیسے ہی اس نے ریاض پر وار کرنا چاہا اس نے اسے پیچھے دھکیل دیا اور گھبراہٹ میں وہ بیگ وہی چھوڑ کر بھاگ آیا۔
آج لیکن واقعی میں اُسے دیر ہوئی اور اس کی ماں دروازے پر اُسکا انتظار کر رہی تھی۔کچھ دیر بعد جب اماں نے اپنے بیٹے کو آتے ہوئے دیکھا تواٹھ کر کھانا پروسنا چاہا تو بیٹے نے ماں کا ہاتھ روکتے ہوئے کہا کہ ”اماں آج بھوک نہیں،آج کچھ اچھا نہیں لگ رہا“۔
اپنی ماں کو بٹھاتے ہوئے ریاض نے اپنی ماں کی گود میں سر رکھ دیا اور سوچ کے سفر میں غوطے مارنے لگا۔
ریاض یہ سوچ رہا تھا کہ وہ ماں جو اُس کے لئے ہمیشہ دعائیں مانگتی رہتی ہے،اس کی راہ دیکھتی رہتی ہے،وہ یہی سوچتی ہے کہ اس کا بیٹا حلال روزی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔دن بھر مزدوری کرتا ہے۔پسینہ بہاتا ہے۔آج اس نے موت کا سامنا کیا ہے اگر اس کو کچھ ہوجاتا تو اس کی ماں کا کیا ہوتا؟اس کی دیکھ بھال کون کرتا؟
اف خدایا۔۔۔ اب تک میں کیا کرتا رہا؟
میری ماں کی دعائیں ہی تھیں کہ وہ آج بچ گیا۔ وہ تو سو رہا تھا مگر آنکھوں سے گرم گرم آنسووں کے قطرے ماں کی گود کو بھگو رہے تھے۔
بیٹا تجھے کیا ہوگیا ہے؟ تُو کیوں رو رہا ہے؟سب خیریت تو ہیں نا؟
ہاں ماں۔ اب سب خیریت ہے۔
تو پھر یہ آنسو؟ ماں نے اسے سینے سے لگاتے ہوے پوچھا۔
کچھ نہیں ماں۔ کل سے دوسری نوکری کرنا ہے؟
دوسری نوکری؟ مگر کیوں؟
کچھ پسینہ بہانے کی۔۔۔
اب بھی تو مزدوری کررہا تھا نا۔۔۔
ہاں ماں۔کل سے اور محنت کروں گا۔۔۔۔ اب اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ اب وہ واقعی مزدوری کرے گا اور چوری کرنا ہمیشہ کے لیے چھوڑدے گا۔۔۔۔۔۔

Share
Share
Share