آرٹسٹ مزدور کی مفلوک الحالی – سرکارکی نظرعنایت کی منتظر :- عظمت علی

Share
عظمت علی

آرٹسٹ مزدور کی مفلوک الحالی
سرکارکی نظرعنایت کی منتظر

عظمت علی

کورونا جیسی بھیانک وبا کی آمد سے پوری دنیا اتھل پتھل ہوگئی ہے۔ حالات روز بروز بدسے بدتر ہوئے جا رہے ہیں۔ عظیم ترقی یافتہ ممالک بھی اس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔سپر پاور امریکہ تو حقیقت میں سپر ثابت ہوا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ایکٹیوکیس وہی پر ہیں۔ وقت تحریر،عالمی سطح پر 14.7 ملین کنفرم کیس جبکہ 8.29 ملین صحت یافتہ اور چھ لاکھ دس ہزار سے زائد مریض اپنی حیات سے محروم ہوچکے ہیں۔

اتنا سب ہونے کے باوجود ابھی تک عالمی بازار میں کوئی مؤثر دوا نہیں آئی ہے۔ ابھی تازہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ چند ممالک نے اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرلی ہے مگر عام استعمال کے لیے ابھی تک کوئی دوا منظر عام پر نہیں آئی۔ خود بیماری کے بارے میں سائنس داں تذبذب کا شکار ہیں۔پہلی ملاقا ت ہے بہرحال، دشواری کاسامنا کرنا پڑے گا۔مشترکہ باتیں جو ہماے ذہنوں میں پیوست کردی گئیں ہیں وہ یہ کہ نزلہ، کھانسی اور بخار، اس کی واضح علامات ہیں۔ اسی لیے داخلہ کے مقامات پر بخار کی پیمائش کی جاتی ہے۔پھر اسی نتیجہ پرجانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ کورونا پر تو ابھی ریسرچ چل رہی ہے۔اس کی تشخیص نہایت الجھا مسئلہ ہے۔
چین سے شروع ہونے والے اس کورونا نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اس کا سب سے پہلا حملہ انسان پر رہا۔ جب حالات اختیار سے باہر ہونے لگے تو پھر روزگار حیات پر کچھ سختی برتی جانے لگی۔ لاک ڈاؤن، سماجی فاصلے اور ماسک کو لازمہ قراردے دیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ عالمی منڈی میں بھی غربت گردش کررہی ہے۔پورے عالم کے اقتصادیات میں لرزہ طاری ہے۔ اس کو روکنے کی خاطرپوری دنیا کوبندش لگانی پڑی ہے۔ ہرملک نے دوسرو ں کے لیے اپنے درواے بند کردیئے۔ یوں ہر ملک کو عالمی پیمانہ پر شدید نقصان کا خطرہ ملحق ہوگیا۔ گرتے اقتصادیات کے ساتھ عوام کے مسائل کا حل بھی تلاشنا تھا،اس لیے اندرون ملک لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا۔ اب حالت مزید بدتر ہوگئی۔ جن کے پاس دولت کمانے کے ذرائع تھے،وہ بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب روزگار بند ہوچکے ہیں۔ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ مثبت بات یہ کہ اس وقت ہرانسان فرشتہ صفت ہونے لگا۔ اس سخت ترین دور میں ہر انسان کا اپنے تئیں غریبوں کی مدد کرنا، غیر معمولی اور ناقابل یقین کام تھا۔ اگر یہ مدد غریبوں تک نہ پہونچتی تو آج کورونا سے زیادہ غربت کی موت ہوتی۔لیکن یہ امداد کب تک۔۔۔؟! آخر ان کی بھی تو آمدنی پر روک لگی ہوئی ہے۔ چلئے متوسط طبقہ کسی طرح گزر بسر کرلے گا مگر جن کی کمائی کا دورانیہ ہر دن رہتا ہو۔ دن بھر کی کمائی سے پیٹ بھرتا ہو، ان کا انتظا م کون کرے۔ کتنے لوگوں کو تو اسی پریشانی کے باعث موت نے اپنی ہم نشین بنالیا۔ ایسامحسو س ہوتا ہے کہ یہ جسمانی بیماری سے زیادہ ذہنی مرض ہے اور یہی حقیقت بھی ہے۔ انسان بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔
بنکروں کی بات کریں تو ان کے ساتھ دوہری مشکلات ہیں۔ ایک تو انہیں آرٹسٹ نہ کہہ کر مزدور کہاگیا اور مزدور بھی ایسا کہ اگر دوچار دن کام نہ کرے تو رمق حیات،دستک دے جاتی ہے۔ ایک مدت کے بعد جب ان لاک کا عمل شروع ہوا تو کچھ لوگوں کے چہروں پر خوشی کی لہر کی آمدو رفت ہونے لگی لیکن بنکر ابھی بھی مایوس ہے۔ دوسرا، ان لاک بھی شروع ہوگیا پھر بھی بنکر کے چہرے بدستور اداسی چھائی ہوئی ہے مگر مایوسی کا رنگ ہلکا سا پھیکا ضرور پڑا ہے۔ راہیں ابھی بھی مسدود ہیں۔ یہ تو گرہست(ساڑی کا مالک) کا کرم ہے کہ اپنی ذاتی جیب سے نصف کمائی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔ صرف اس امید میں کہ اس کا بھی کاروبار کھل ہی جائے گا۔ یہ تصور کریں کہ تقریباً سبھی کاروبار کھل چکے ہیں مگر ساڑی کے کاروبار پر بدستو ر تالا لٹکا ہوا ہے، اب اس طرح کب تک روزگار حیات کو حیات ملتی رہے گی۔ گرہست بھی مجبور ہیں، آخری امید کو منقطع کردینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ اب ملک اور صوبہ کی سرکار کو ان کی مفلوک الحالی پر نظر کرنا چاہئے۔ اس صبر آزما دور میں ان کی امداد ضروری ہوجاتی ہے چوں کہ ایک مدت سے یہ ملک کی خدمت میں اپنا وقت صرف کرتے آئے ہیں۔اب حالات ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں۔سو یہ کسی مالی سہارا کے محتاج ہوگئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بے آسرا بنکر کوئی مایوسانہ اقدام اٹھائیں، سرکار کو چاہئے کہ ان کی پریشانیوں کا حل تلاش کرے۔

Share
Share
Share