” پہلی بارش “ اور شمّی جالندھری :- افضل رضوی

Share

امن و آشتی اور فکر وخیال سے مزیّن

” پہلی بارش “ اور شمّی جالندھری

افضل رضوی
ایڈیلیڈ،آسٹریلیا

پنجاب کا لفظ فارسی کے پنج یعنی پانچ اور آب یعنی پانی سے ماخوذ ہے۔ اسی لیے اسے پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔یہ پانچ دریا؛دریائے بیاس، دریائے جہلم، دریائے چناب، دریائے راوی اوردریائے ستلج ہیں۔ آج کل ان میں سے تین دریا تو مکمل طور پر پاکستانی پنجاب کے علاقوں میں بہتے ہیں جبکہ دو دریاؤں کا مرکز بھارتی پنجاب ہے-

1947ء میں تقسیمِ ہند کے وقت پنجاب کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔پاکستانی پنجاب پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ لاہور اس کا دار الحکومت ہے۔یہ جنوب کی طرف سندھ، مغرب کی طرف خیبرپختونخواہ اور بلوچستان،شمال کی طرف کشمیر اور اسلام آباد اور مشرق کی طرف بھارتی پنجاب اور راجستھان سے ملتا ہے۔ اسی طرح پنجاب بھارت کی ایک ریاست ہے جسے عام طور پر مشرقی پنجاب یا بھارتی پنجاب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب میں پاکستان کے صوبہ پنجاب، شمال میں جموں و کشمیر، شمال مشرق میں ہماچل پردیش، جنوب میں ہریانہ، جنوب مشرق میں چندی گڑھ اور جنوب مغرب میں راجستھان سے ملتی ہیں۔اس کا دارالحکومت چندی گڑھ ہے جو پڑوسی ریاست ہریانہ کا بھی دارالحکومت ہے۔اس کی بیشتر آبادی سکھ مت کی پیروکار ہے۔دونوں اطراف کے رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں اور یہاں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے؛لیکن لکھتے ہوئے بھارتی پنجاب میں گرمکھی رسم الخط استعمال کیا جاتا ہے جب کہ پاکستانی پنجاب میں شاہ مکھی رسم الخط مروج ہے۔
تاریخی اعتبار سے پنجاب کا لفظ ابن بطوطہ کی تحریروں میں ملتا ہے جو اُس نے14ویں صدی عیسوی میں اس علاقے کی سیاحت کے دوران لکھیں، اس کا وسیع پیمانے پر استعمال سولہویں صدی کے نصف میں شائع ہونے والی کتاب ”تاریخ شیر شاہ سوری“ میں ملتا ہے۔ اس سے پہلے پنجاب کا تذکرہ مہابھارت کے قصوں میں بھی ہے جو پنجا ندا (پانچ ندیاں) کے حوالے سے ہے۔ آئین اکبری میں ابوالفصل نے پنجاب کو پنجند لکھا ہے۔ علاوہ ازین مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی اپنی تزک جہانگیری میں پنجاب کا لفظ استعمال کیا ہے۔
پنجاب کی مندرجہ بالامختصر تاریخ اس لیے دی گئی ہے تاکہ زیرِ تبصرہ کتاب کی زبان اور اس کے مصنف کا پسِ منظر ذہن میں رہے۔ سائمن شمّی جالندھری کا اصل وطن جالندھر ہے جسے ان کے پرکھوں نے اپنا مسکن بنائے رکھالیکن ان کے والدجناب عنایت صاحب برٹش آرمی میں خدمات سرانجام دیتے رہے اور بحیثیت آرمی آفیسر ان کا ٹرانسفر مختلف شہروں میں ہوتا رہا اسی لیے1971 میں شمّی کی پیدائش بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر”رورکی“ میں ہوئی؛ لیکن انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کے وطن پنجاب کے شہر جالندھر کی مناسبت سے اپنے نام کے ساتھ ”جالندھری“ لکھنے کو فوقیت دی اور اب وہ اسی نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔اگرچہ 2006 ء سے انہوں آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں سکونت اختیار کرلی ہے لیکن ان کی ثقافتی کڑیاں آج بھی پنجاب سے جڑی ہیں۔ قبل ازیں دو شعری مجموعے”غماں دا سفر“(2007)اور”وطنو دور“(2010)میں شائع ہو چکے ہیں اور اب ان کا تیسرا مجموعہ ئکلام ”پہلی بارش“ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ان کے گیت پاکستانی اور بھارتی گلو کا اپنی مدھر آوازوں میں ریکارڈ کراچکے ہیں اور ان کے کئی گیت بھارتی فلموں میں بھی لیے گئے ہیں۔
میری شمّی جالندھری سے پہلی ملاقات پانچ چھے سال قبل پاکستان -آسٹریلیا لٹریری فورم (پالف آسٹریلیا) کے سالانہ مشاعرے کے موقع پر ہوئی تھی اور تب سے ان کے ساتھ مراسم قائم ہیں اور یہ ہر سال مشاعرے میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں۔ میری اور ان کی ایک قدرے مشترک یہ ہے کہ میں بھی پنجابی ہوں اور یہ بھی پنجابی ہیں؛لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کی پنجابی لکھنے پڑھنے سے قاصر ہیں کیونکہ شمّی پنجابی گرمکھی میں لکھتے ہیں اورمیں شاہ مکھی میں ہی پڑھ سکتا ہوں؛لیکن بول چال میں چونکہ دونوں پنجابی لہجے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، اس لیے۔ یہ مسئلہ رومن میں لکھ کر حل کر لیا جاتاہے۔
شمّی جالندھری کی خوبی یہ ہے کہ پالف آسٹریلیا کے مشاعروں میں اردو میں بھی اپنا کلام سناتے ہیں۔ان کے اردو کلام سے چند نمونے یہاں درج کیے جارہے ہیں جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ وہ اردو میں بھی اچھے شعر کہہ سکتے ہیں:
توخدا سے اپنی دعاؤں میں کیوں اتنے سوال کرتا ہے
جو مانتے نہیں ہیں اس کو وہ ان کا بھی خیال کرتا ہے

زہر فضا میں پھیلا دیتی ہیں
اخباریں گھر جلا دیتی ہیں
بارود سے بھری پڑی ہیں قلمیں
لکھتے ہی شہر اڑا دیتی ہیں

خدا کی اگر مجھ پہ رحمت نہ ہوتی
میرے پاس سانسوں کی دولت نہ ہوتی
بناتا نہ بندہ جو خود کو خداوند
خدا کی زمیں پہ کوئی دہشت نہ ہوتی

رشتے اکثر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں
لوگ سفر میں ملتے اور بچھڑتے رہتے ہیں
محولہ بالا اشعار سے میرے موئقف کی یقینا تصدیق ہوتی ہے؛تاہم ان کا اصل میدان پنجابی شاعری ہی ہے۔گزشتہ دنوں انہوں نے مجھ سے گھر کا اڈریس مانگا اور پھر جیسے ہی ان کے نئے مجموعہئ کلام”پہلی بارش“ کی کچھ کاپیاں آسٹریلیا پہنچیں تو ایک کاپی مجھے بھی بذریعہ ڈاک ارسال کر دی۔ ”پہلی بارش“کو دیکھتے ہی مجھے ناصر کاظمی مرحوم یاد آگئے اور ان کی ”پہلی بارش“ کے اشعار بھی نہاں خانہئ دل و دماغ سے نکل کر ہونٹوں پر آگئے:
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
اور
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
”پہلی بارش“ ناصر کاظمی کے تیسر ے مجموعے کا نام ہے جب کہ شمّی جالندھری کا بھی یہ تیسرا مجموعہ ہی ہے۔یہ محض اتفاق ہے یا حسنِ اتفاق اس کا جواب ابھی تلاش کرنا باقی ہے۔
بایں ہمہ جیسے ہی کتاب پر نظر پڑی تو سرورق کے نیل گو پسِ منظر پر جلی حروف میں ”پہلی بارش“ لکھا نظر آیا۔مجموعہئ کلام کے عنوان اور شاعر کے نام کے درمیان تین مرجھائے ہوئے پتے اور ان پر بارش کے قطرے اس بات کا احساس دلارہے تھے کہ کوئی بہار کا اب بھی منتظر ہے۔144 صفحات پر مشتمل اس مجموعہئ کلام کوپروفیسر عاشق رحیلؔ نے گرمکھی سے شاہ مکھی میں بدل کر گلشنِ ادب پبلی کیشنز لاہور سے شائع کرایا ہے۔شمّی جالندھری نے کتاب کا انتساب قدرت، کائنات اور اس کے خالق کے نام لکھا ہے۔ناصر کاظمی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شمّی جالندھری نے بھی اس مجموعہئ کلام کی پہلی نظم ”پہلی بارش“ کے عنوان سے لکھی ہے اور یہی اس کے نام کی وجہ تسمیہ ہے۔اس نظم کا مزاج اردو زبان میں رقم کی جانے والی نظموں جیسا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
پہلی بارش
عشقے دی بارش ہے
ہر بوند وچ آتش ہے
ازلاں توں ورھ رہی اے
آدم دی خواہش ہے
فقیراں دی مستی اے
رنگاں دی بستی اے
پرلو طوفان اندر
ایہہ نوح دی کشتی اے
بلّھے دی صوف پگڑی
وارث شاہ دی ہے لوئی
میری روح دی مٹی تے
اج پہلی بارش ہوئی
میرے اندروں اٹھی اے
سوندھی سوندھی خوشبائی
”پہلی بارش“ کے”مکھ بند“(پیشِ لفظ) میں سکھن سرحدی نے شنمّی جالندھری کی نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
”دستک“ اتے ”فقیریاں“ وچ اپنی نویکلی اتے ادبی رس والی آواز وچ اپنیاں نظماں نوں آڈیو روپ دے کے جدوں ڈیجیٹل پلیٹ فارم اتے ریلیز کیتا گیا تاں کل سنسار دے شائستہ ادیباں نے ایس تکنیک بارے شاعری نوں انبراں وچ بولدے ستارے بن کے جھردے ویکھیا ایسے لئی مہمان شاعرڈاکٹر سرجیت پاتر،شمّی دی ”دستک“ لئی آکھدا اے کہ شمّی دی شاعری اتے اوسدی آواز وچ جیہڑی سلگن ہے، جیہڑا سیک اتے روشنی ہے میں اوسدا سواگت کرداہاں۔
پروفیسر عاشق رحیلؔ نے ”رحمت دی پہلی بارش“ کے عنوان سے اپنی تقریظ میں شاعرکے تخلیقی عمل اور اس میں داخل باطنی عوامل کا تذکرہ کرتے ہوئے شمّی کی شاعری کے بارے اظہار ِ خیال کیا ہے اور اسے انسانیت کا شاعر قرار دیا ہے۔
جدوں کوئی شاعر تخلیق دے عمل چوں لنگھدا اے تے اوہدی علاقیت دا آلے دوالے دا، اوتھے دیاں لوڑاں تھوڑاں دااثر غیر شعوری طور تے اوہدے کلام وچ آجاندا اے پرشمّی ہوراں دی ”پہلی بارش“دیاں نظماں میرے ایس خیال دی نفی کر دیاں نیں۔جیویں بارش ارادہ کرکے کسے خاص علاقے تے نیں ورہدی۔ او زرخیزیاں بنجر زمین نیں دیکھدی۔ جنگل، پہاڑ، سمندر تے شہراں توں بے نیاز ہو کے اپنے بے غرض ہون دا ثبوت دیندی اے۔ ایسے طرحاں شمّی ہوراں دی شاعری وی حداں بنیاں توں بے نیاز اے۔ ایہہ کسے مذہب، قوم یاں علاقے دی نمائندگی نہیں کردی بلکہ ایہدے وچ آفاقی قدراں قیمتاں دی بے مثال تصویر نظر آوندی اے۔ایس توں ایہہ وی اندازہ ہوندا اے کہ اوہ صرف انسانیت تے یقین رکھدے نیں تے پوری دنیا اوہناں دا دیس اے۔
” پہلی بارش دا احساس “ کے عنوان سے ڈاکٹر محمود نے اپنے مختصر اظہاریے میں لکھا ہے،”شمّی دی شاعری پڑھ کے لگدا ہے کہ اوہ عالمی پنجاب دا شاعر ہے۔ اوہ چڑھدے تے لہندے پنجاب دیاں حداں اندر مھدود نہیں ہے۔ واقعی اوہدی شاعری بارش ورگی ہے تے بارش حداں بنّے دیکھ نہیں ورہدی“ جب کہ اشرف گل نے”شمّی جلندھری دی ”پہلی بارش“ تے دولفظ“ کے عنوان سے اپنی تقریظ میں کہا ہے کہ:
پھیر اوہ اپنی گل مکا ؤندا اے تے آکھدا اے میری روح دی مٹی تے اج عشقے دی پہلی بارش ہوئی۔پر کنارا کدھرے دور اے یان ہے ای نہیں، جیویں ساڈے وڈے فلاسفر علامہ محمد اقبال ہوراں کولوں کسے نے پچھیا: ڈاکٹر صاحب تسیں آکھدے او ہ عشق دی کوئی انتہا نہیں پھیر لکھ دے اوہ ’تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘۔ علامہ صاحب فرماوئندے نے:ایہہ عشق اجے پورا نہیں ہویا۔حوصلہ کرو شعر دی دوسری سطر وی سنو سمجھ آجائے گی۔پورا شعر ایس طرحاں اے:
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
نظم ”خماریاں“ میں شمّی نے عشق کے خمارکو بہت سی مثالوں سے واضح کیا ہے۔مثلاً، درختوں کا تھرکنا، پتوں کا مچلنا، آنکھوں کا نم ہونا وغیرہ لیکن شمّی کے یہاں عشق کا یہ خمار بہت وسعت رکھتا ہے کہ ماں کا بچے سے اظہارِ محبت کرنا، چڑیوں کا اپنے بچوں کے دانہ دنکا چگنا،ہرنوں کا جنگل میں مارے مارے پھرنا، کسی کا سروں پر رقص کرنااور لکھاریوں کا لکھنا سب عشق ہی کی بدولت ہے لیکن اس نظم کا عنوان ”خماریاں“ کے بجائے ”ایہہ عشق بلا کیہ چیز وے“ ہوتا تو ان کی مثالوں کا بہتر علمبردار ہو سکتا تھا۔اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
کیوں بوٹا بوٹا تھرکدا
کیوں پتا پتا مچلدا
کیوں دھپاں ورگی ناروے
نیناں وچ ساگر چھلکدا
کیوں ماواں بچے چمدیاں
چڑیاں ووٹاں لئی چگدیاں
کیوں جنگل جنگل ہرنیاں
کس واشنا پچھے گھمدیاں
کوئی سر تالاں تے نچدا
کوئی حرفاں دی اگ مچدا
زندگی کی حقیقت کو نظم ”جندڑی“ میں موضوع بناتے ہوئے شمّی پکار اٹھتا ہے۔
طمع دے انبراں تے چڑھے
صبر دیاں کونجاں پھڑ دی
نہ کونجاں ہتھیں لگن
ہواواں نال اے لڑ دی
سکون تسلی چین تے
حیاتی چشمے لبھدی
کدے پتھراں نوں چمے
کدے میخانے جا وڑ دی
کدے اگاں تے چڑھ کے
ہے لبھدی پانی سجرے
اور نظم ”تنہائی“ میں عقل پر پڑے پردوں کو اٹھاتے ہوئے شاعر کہتا ہے۔
میری تنہائی تینوں
ہرگھڑی آواز دیندی اے
جویں بارش نوں اک
سکی ندی آواز دیندی اے
چلو پردے اٹھائیے
جو پئے ہوئے نیں عقلاں تے
شمّی جالندھری کی شاعری میں تارا شعور کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ اس کی مثالیں ”تڑک پہر دا تارا“ اور ”چن تاریا“ میں دکھی جاسکتی ہیں۔اول الذکر نظم میں شاعر نے ستاروں کی چمک دمک اور ان کی ازلی ابدی موجودگی کا اظہار کیا ہے اور ان سے روشنی کی التجا کی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر راستے کا متلاشی ہے نیز یہ روشنی شعور وآگہی کی روشنی ہے اور محبت و عقیدت کی روشنی بھی ہوسکتی ہے۔اسی طرح ثانی الذکر نظم میں بھی شاعر روشنی کا متلاشی نظر آتا ہے۔ذیل میں دونوں نظموں کے نمونے درج کیے جارہے ہیں۔
تڑ ک پہر دے تاریا
ساریانبراں دا
ابدی نور ہیں تو
جو ازلوں آرہیا
اوہی دستور ہیں توں
اپنے سُر وچ وجے
اوہ طنبور ہیں توں
صدقے تیرے جاواں میں جاواں
تیرے اُتوں اپنا وے
میں دل واراں
تاریا وے تاریا
تھوڑا مینوں وی دے چانن
دے توں
تڑک پہر دیا تارا
اور
چن تاریا ساریاں نے تیتھوں
تھوڑا جیہا نور منگیا
تیری سادگی تازگی ادواں
تے نخرا فتور منگیا
ایک اور نظم میں شمّی نے بڑے واشگاف الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ شاید شعر لکھنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا اس میں استعمال ہونے والے لفظوں کے چناؤ کا ہے۔
کوِتا لکھنا
اینا اوکھا نہیں ہوندا
جنا اوکھا ہوندا ہے
لفظاں دے نال نال چلنا
شمّی جالندھری نے بعض نظموں میں خواب اور محبوب کو موضوع بنایا ہے۔ نیند کی حالت میں روح جہاں جاتی ہے اور جو کچھ کرتی، دیکھی اور سنتی ہے دماغ کو اس کی پوری اطلاع ملتی رہتی ہے اور اس اطلاع کو خواب کہہ سکتے ہیں۔ خواب میں انسان بہت سی ایسی باتیں دیکھتا ہے جنھیں وہ جسمانی طور پر نہیں دیکھ سکتا۔شمّی کی شاعری میں یہ تجربہ بہت عمیق ہے۔مثلاً، جب شاعر کو ”سرگھی لَو“میں خواب میں محبوب کا دیدار ہوتا ہے تو اس کی مہک اس کے سانسوں میں رچ بس جاتی ہے۔دیکھیے کس خوب صورتی سے اس کا اظہار کیا گیاہے۔
ہوئی ادھی راتیں سرگھی لَو
میرے خاباں چوں جد لنگھی اوہ
ساہاں وچ میرے کھلر گئی
اوہدے ساہواں دی صندلی خوشبو
یہی مضمون ”خوشبو“ میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جہاں شاعر کواب بھی اس خوشبوکا احساس ہوتا ہے جو اس نے خواب میں محسوس کی تھی لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ اب کہ اس خوشبوکا تعلق اس کے دیس پنجاب سے جڑا ہوا ہے۔
میری نیند وچ تیرے خاباں دی
حالے وہ خوشبو باقی اے
تیرے ہونٹھیں کرے گلاباں دی
حالے وہ خوشبو باقی اے
میں شاعر آں میری ہستی نوں
نہ ونڈ سکیاں اے سرحداں
میرے وچ دواں پنجاباں
حالے وہ خوشبو باقی اے
شمّی کے یہ خوبصورت جب نظم”سُپنے“ میں ٹوٹتے ہیں تو اسے دکھی کردیتے ہیں:
نیناں دے وچ سُپنے جمدے
جمدے ای کچھ مر جاندے نیں
مردے سُپنے نیناں نوں پھیر
اتھرو اتھرو کر جاندے نیں
دریا بھی شمّی کی شاعری میں ایک علامت بن کر ابھرا ہے۔ وہ راوی، ستلج، جہلم، چناب،بیاس اور سندھ کو اس کے زمینی تعلق سے جوڑ کر اپنے اشعار کی زینت بناتا ہے۔اس تجربے کو اس کی نظم ”چنبے دی راوی“،”میں پنجاب ہاں“ اور ”میں پنجابی“میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جہاں شاعر کو لمحے لمحے پنجاب کے ندی نالوں، دریاؤں، قصبوں، شہروں اور اس دھرتی کے بزرگوں کا خیال آتا ہے توکبھی وہ وارث شاہ کو یاد کرتا ہے تو کبھی بلھے شاہ کو، کبھی بابا فرید کو تو کبھی بابا نانک کو، کبھی چناب سے باتیں کرتا ہے تو کبھی جہلم سے، کبھی راوی سے مخاطب ہوتا ہے تو کبھی بیاس کو اپنی داستانِ غم سناتا ہے۔کبھی جھنگ کو یاد کرتا ہے تو کبھی لاہور کی بات کرتا ہے اور کبھی جالندھر کو اپنا موضوع بنا لیتا ہے لیکن ان سب کو لانے کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ مقصد پیغامِ اخوت کا ہے، جس میں شاعر کامیاب نطر آتا ہے۔
جاندی اے روز بن ٹھن کے
جاندی اے ملن چناب نوں
راہے راہے جاندی
گل لاؤندی جاوے
لہندے تے چڑھدے پنجاب نوں
راوی جتھوں جتھوں لنگھے
خیراں سبھ دیاں منگے
راوی پڑھدی نمازاں ہر پہر تے
لیکن ”میں پنجابی“میں شاعر وارث شاہ کے عقیدے کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل عقیدہئ توحید کی بات کرتا ہے،جس کا مطلب ہے کہ ربّ تو ایک ہی ہے جو سب کا خالق ہے اور یہی عقیدہ بابا گورونانک کا بھی ہے۔
مینوں چمیا آن فریدا
مینوں عشق دمودر کیتا
نانک دی میں اسیں ہاں
باہو دا جین سلیقہ
بلھے دی صوفی بولنی
وارث دا میں عقیدہ
شاعر نے روح کا تذکرہ بھی ایک خاص پیرائے میں کیا ہے، یہاں تک کہ اس کے نزدیک یہ لفظ جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا، ان کی بھی روح ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے ان کے چہرے نہ ہونے کے باوجود ان کی پہچان کا احساس ہے۔ یہ بہت گہری بات ہے جس کا ادراک دلِ زندہ کا مالک ہی کر سکتا ہے۔
لفظاں دے چہرے نہیں ہوندے
پر پھیر وی ایہناں دی
اپنی پہچان ہوندی اے
ایہناں دا کوئی جسم نہیں ہوندا
پر روح ہوندی اے
ایک اور نظم میں شمّی کو شکوہ اور شکایت ہے کہ انسان مادیت میں الجھ کر اپنے آپ کو ربّ سمجھنے لگا ہے، اسی لیے اسے آدمی نظر ہی نہیں آتے کیونکہ ہر کوئی خدا بنا بیٹھا ہے۔اور ان جھوٹے خداؤں کا ایک ہی کام ہے اور وہ دوسروں کے عیب تلاش کرنااور اس کام میں وہ ایسے مگن ہیں کہ تھکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دوسرے لفظوں میں شاعر نے معاشرے کی بگڑتی صورت پر بہت گہری چوٹ کی ہے۔
ایتھے سارے ہی رب ہوگئے۔
آدمی کدھر ے لبھد انہیں
ہر کوئی ہر کسے شخص دے
عیب گِن گِن کے تھکدا نہیں
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا کہ شمّی جالندھری کی شاعری میں مختلف علامات ابھرتی ہیں اور کسی خاص سوچ اور فکر کی عکاسی کرتی ہیں۔ کہیں تشبیہات ہیں تو کہیں اشارے کنائے سے بات کی گئی ہے۔ ”رنگ فقیراں“ میں شاعر جب فقیروں کے رنگ ڈھونڈنے نکلتا ہے تو اس کا تخیل اسے ”جھنگ“ کے بیلوں میں لے جاتا ہے جہاں اس کو پنجاب کی لوک داستان کے مرکزی کردار ”ہیراور رانجھا“ فقیری رنگ میں ڈھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں شاعرکی قوتِ پرواز قابل دید بھی ہے اور قابلِ ستائش بھی۔
چل لبھئے رنگ فقیراں
جھنگ بیلے رانجھن ہیراں
چل لبھئے وچ ہواواں
ہو جایئے لیر ولیراں
چل سورج بوہے بیٹھئے
اگ بھنجئے سرخ شہتیراں
شمّی اس سے بھی آگے کی بات کرتا ہے اور وطن کی سرحدوں سے نکل کر آفاقیت کا ترجمان بن کر نمودار ہوتا ہے۔ پکار اٹھتا ہے کہ:
میں وساں لاہور جلندھر
کونا کونا دنیا اندر
ایک جگہ شاعر کو عشق کے بغیر زندگی ادھوری لگتی ہے چنانچہ وہ عشق کا ترجمان بن کر اس کی شان یوں بیان کرتا ہے۔
بناں عشق ادھوری
ساڈی سبھ دی کہانی
عشق پون
عشق مٹی
عشق اگ
عشق پانی
بناں عشق ادھوری
ساڈی سبھ دی کہانی
”اکھیاں“ میں ہجر کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور جب عشق اس کے جسم کے ایک ایک جزو کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ سے
مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
چل آپاں وی قلندر ہوئیے
مسجد گرجے مندر ہوئیے
تر پئے نانک دیاں پیڑاں
دھوڑمٹی رل انبر ہوئیے
چل آپاں وی قلندر ہوئیے
من تے لکھیاں آیتان پڑھئے
چھڈ ہوراں نوں خود نال لڑیئے
خود نوں جت سکندر ہوئیے
چل آپاں وی قلندر ہوئیے
شاعر نہ صرف قلندر ہونے کی خواہش کرتا ہے بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اپنے خوابوں کو بھی ملنگ بنا دیتا ہے۔”فقیریاں“میں اس کا اظہار دیکھیے۔
خیالاں دے چڑھ دے پتنگ وے
میرے سُپنے ہوئے ملنگ وے
ہوئیاں پھر دیاں باغی نیندراں
ڈاہے جدوں دے عشق پلنگ وے
ایہہ یاداں وانگ نمازاں دے
جان اکھاں بدو بدی بھیڑیاں
میر ی روح دا رنگ ہویا جوگیا
میرے روم روم فقیریاں
نظم”نی دھرتیئے“ مترنم نظم ہے جس میں شاعر نے دھرتی سے خطاب کرتے ہوئے اس کی صفات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔
نی دھرتیئے نی دھرتیئے
سورج دوالے گھمدیئے
تُری جانی اپنی چال توں
؎انبراں دے مکھڑے چمدیئے
کتے پانی ایں کتے ریت توں
کتے اگدے رزق دا کھیت توں
کتے جنگل جنگل ہری بھری
کتے برفاں بنی سفید توں
پھر ”دھوڑ مٹی“ میں شاعر کی اس دھرتی اور وطن سے محبت دیدنی ہے۔
اوہ راہاں بنیاں دی دھوڑ مٹی
ہے حالے وی میرے پیراں ہیٹھ لگی
میں سارا ہی جہاں گھم لیا
ایہہ مٹی آسمان چم لیا
ایس مٹی وچ یاداں بڑیاں
قلم دواتاں ہتھیں پھڑیاں
حالے وی زبان تے بیٹھیاں
نال بیلیاں کتاباں پڑھیاں
اوہ راہاں بنیاں دی دھوڑ مٹی
ہے حالے وی میرے پیراں ہیٹھ لگی
ایک نظم میں پرندے کی زبانی بھائی چارے اور اخوت و محبت کا پیغام دیا ہے جب کہ”زندگی“ میں شاعر کا خیال ہے کہ انسان ہی انسان کا دشمن بن گیا ہے نیز”نانک“میں دل کو صاف کرنے اور کدورتوں کو مٹانے کی بات کی گئی ہے۔
”عشق کائناتی“ میں شاعرکا خیال ہے کہ اگر انسان حلیم الطبع نہیں تو پھر چاہے وہ ہر روز سبیلیں لگا لگا کر لوگوں کی خدمت کرے یا قرآن اور انجیل پڑھے تو سب بے کار ہے۔
بھاویں لاتوں روز چھبیلاں
پڑھ وید قرآن انجیلاں
جے پلے نہیں حلیمی
ایہہ جھٹیاں سبھ دلیلاں
—–

افضل رضوی
Share
Share
Share