نئی قومی تعلیمی پالیسی اور حکومت کے تیقنات

Share

ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد
00919985210770

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں نئی قومی تعلیمی پا لیسی کی عمل آوری سے قبل وزیراعظم نریندرمودی نے قوم کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ حکومت مجوزہ تعلیمی پالیسی پر ہونے والے اعتراضات کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ انہوں نے گذشتہ پیر (7/ ستمبر 2020 ) کو نئی دہلی میں نئی قومی تعلیمی پالیسی کے رول کے بارے میں گورنرس کی کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ حکومت کی نہیں بلکہ ملک کی قومی تعلیمی پا لیسی ہے

لہذا ملک کو درپیش چیلنجس کے تناظر میں اس پالیسی کو دیکھنا چاہیئے۔ وزیراعظم نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر سوالات بھی ا ٹھائے جا رہے ہیں۔ حکومت ان سوالات پر توجہ دے رہی ہے اور کھلے ذہن کے ساتھ ہر فریق کی بات سُنی جا رہی ہے۔ ملک میں عنقریب نافذ ہونے والی قومی تعلیمی پا لیسی کے بارے میں وزیراعظم کی یہ یقین دہانی ایک خوش آ ئند علامت ہے۔ وزیراعظم کا یہ احساس کہ تعلیمی پالیسی کو روبہ عمل لانے کے بارے میں لچک کا مظاہرہ کر نے کی ضرورت ہے، وہ اس بات کا اشارہ کر تا ہے کہ وزیراعظم اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ جلد بازی میں اس پالیسی کے نفاذ سے ملک میں ایک نیا تعلیمی بحران پیدا ہو جائے گا۔ قوم کو اس بات کا یقین دلانا کہ تمام شبہات اور اندیشوں کو دور کرنے کے بعد ہی جدید تعلیمی پالیسی پر عمل آوری کے اقدامات کئے جائیں گے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود پالیسی سازوں کو اندازہ ہو گیا کہ تمام تر کو ششوں کے باوجود مجوزہ تعلیمی پالیسی غلطیوں سے مبّرا نہیں ہے۔ ملک کی کوئی بھی پالیسی قوم کی امنگوں اور ان کے آرزؤں کے مطابق ہونی چا ہیئے۔ اگر وہ قوم کے جذبات اور ان کے عزائم کی عکاّ سی نہیں کرتی ہے تو وہ پالیسی اپنی اہمیت اور افادیت کھودیتی ہے۔ خاص طور پر تعلیمی پالیسی کے بارے میں حکومتوں کو بہت ہی حقیقت پسندانہ اور لکچدار رویہ اختیار کر نا ضروری ہے۔ ہندوستان ایک کثیر مذہبی، ہمہ تہذیبی اور ہمہ لسانی ملک ہے۔ ملک کے سارے ہی طبقوں کی روایات اور ان کی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھ کر پا لیسیاں موون کی جاتی ہیں تو اس کے بہت ہی مفید اور دور رس نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ یہ اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ ملک کی پالیسیاں بھی بد لنے لگتی ہیں۔ اس لئے آزادیِ وطن کے سات دہے گذرجانے کے بعد بھی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں غیر معمولی ترقی کو ہوتے ہوئے نہ حکمرانوں نے دیکھا اور نہ عوام کی آنکھیں ملک کو ترقی کی منز لیں طے کرتے ہوئے دیکھ سکیں۔ یہ افسوسناک صورت حال اس لئے پیدا ہوئی کہ ہر سیاسی پارٹی اپنے سیاسی چشمہ سے پالیسیوں کو بنانے میں دلچسپی لیتی رہی۔ اس کے نتیجہ میں ہر پانچ یا دس سال میں پالیسیوں کی سمت بدلتی رہی اور ملک جہاں کا وہاں ٹہرا رہا۔ وہ ممالک جو پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں تباہ و برباد ہوئے آج وہ ہر شعبہ میں ہندوستان سے آگے نظر آ تے ہیں۔ جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے دو شہر ہیرو شما اور ناگا ساکی پر بم برساکر پوری انسانی آبادی کو تہس نہس کر دیا گیا۔ برسوں تک وہاں اپاہچ بچے پیدا ہوتے رہے۔ زمین زراعت کے قابل نہیں رہی۔ لیکن اب جاپان بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوا چکا ہے۔یہ سب کچھ دانشمدانہ پالیسیوں کو روبہ عمل لانے کا نتیجہ ہے۔ اور بھی بہت سارے ممالک ہیں جنہوں نے دشوار ترین حالات کا سا منا کر تے ہوئے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ہندوستان ہر لحاظ سے ترقی کے بھر پور مواقع و وسائل رکھتے ہوئے بھی دنیا کے ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے میں ناکام ہو گیا۔ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نر یندرمودی نے گورنرس کی جس کانفرنس سے گذ شتہ دنوں خطاب کیا، اسی کانفرنس کے افتتا حی سیشن سے خطاب کر تے ہوئے صدر جمہوریہ رام ناتھ کو و ند نے جن حقائق پر سے پردہ اٹھایا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری یکے بعد دیگر حکومتوں کی تر جیحات کیا رہیں۔ انہوں نے ملک میں تعلیم کو عام کرنے میں کتنی غفلت برتی جس کا خمیازہ پوری ہندوستانی قوم کو بھگتنا پڑا۔ صدر جمہوریہ نے انکشاف کیا کہ اس وقت تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری قومی آ مدنی کا محض صفر اشاریہ سات فیصد (0.7% ) ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اب تک بر سر اقتدار آ نے والی حکومتوں نے تعلیمی شعبہ کے ساتھ کیسی نا انصافی کی ہے۔ صدر جمہوریہ نے ملک کے حکمرانوں کو آ ئینہ بتاتے ہوئے ہندوستان کا تقابل دیگر ممالک سے بھی کر دیا۔ تعلیم کے شعبے میں دوسرے ممالک میں کی جانے والی سر مایہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ میں تعلیم پر 2.8%، ساوتھ کوریا میں 4.2%، اور اسرائیل میں 4.3%سر مایہ کاری کی جاتی ہے۔ اگر ان ممالک کے اعداد و شمار کو سا منے رکھتے ہوئے ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے کئے جانے والے خرچ کو دیکھا جائے توحکومتوں کے قول و فعل کا تضاد سا منے آ تا ہے۔ یہ بات سب ہی تسلیم کر تے ہیں کہ بہتر سماج کی تشکیل کے لئے تعلیم کا ہونا لازمی ہے۔ صدر جمہوریہ نے بھی اس بات کو مذکورہ کانفرنس میں دہراتے ہوئے کہا کہ تعلیم سے بڑھ کر کوئی اور شعبہ میں سرمایہ کاری قا بلِ تر جیح نہیں ہوسکتی ہے۔کیونکہ تعلیم سے ہی ملک کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک تعلیمی ترقی کے بہت سارے دعوے کئے گئے لیکن زمینی حقائق اس کے با لکل بر عکس ہیں۔ یہ دعوی کیا گیا حکومت تعلیم پر اپنی قومی آمدنی کا 6% (چھ فیصد) حصہ تعلیم پر خرچ کرے گی۔ یہ خواب آزادی کے 73سال گذر جانے کے بعد بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اس معا ملے میں اب بھی اپنی فراخدلی کا ثبوت دینے میں ناکام ہو گئیں ہیں۔ اوپر کی سطروں میں بتا یا گیا کہ محض صفر اشاریہ سات فیصد سرمایہ کاری تعلیم کے نام پر کی جا رہی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے پون صدی کے بعد بھی ہندوستان مکمل شرح خواندگی کے نشانہ پرنہیں پہنچ سکا۔ اس ملک کی 35%آبادی نا خواندہ ہے۔ جس ملک کے پیتیس فیصد لوگ جاہل اور ان پڑھ ہوں وہاں ترقی کی رفتار کیا ہو سکتی ہے؟ خواندہ افراد وہ ہوتے ہیں جو حروفِ تہجّی سے واقف ہوں اور شُد بُد پڑھنا لکھنا جا نتے ہوں۔ جس ملک کی حکومتیں تعلیم کے معاملے میں اتنی غفلت کا شکار رہی ہیں وہ کس طرح سے انقلابی تعلیمی ا صلاحات لانے کا دعوٰی کر سکتی ہیں۔تعلیم پر قومی آمد نی کا چھ فیصد حصہ خرچ کرنے کی بات 1968 کی قومی تعلیمی پالیسی سے ہوتی آرہی ہے لیکن ابھی بھی اس بات کے کوئی آ ثار نہیں ہے کہ اس پر عمل درآمد ہوگا۔ 2010سے ملک میں قانونِ حق تعلیم نافذ ہے۔ اس قانون کے ذریعہ بھی تعلیم کو عام کرنے کے بہت سارے دعوے کئے گئے۔ کہا گیا کہ چھ سے چودہ سال کے بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کا بندوست کیا جائے گا۔ آیا یہ خواب پورا ہوا؟ کیا آج بھی لاکھوں بچے تعلیم سے محروم نہیں ہیں؟ جن معصوموں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہیئے تھیں وہ ہاتھ ہم کو ہوٹلوں میں پیالیاں دھوتے ہوئے اور گاڑیوں کے پنکچر جوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حقِ تعلیم کے نفاذ کے بعد بھی ہزاروں بچوں نے اسکول کی صورت نہیں دیکھی۔ ا گر حقِ قانونِ تعلیم پر دیانتداری سے عمل کیا جاتا تو ملک کو آج کسی نئی تعلیمی پالیسی کی ضرورت باقی نہ رہتی۔ دس سال کا عرصہ گذرجانے کے باوجود تعلیمی شعبہ میں کوئی غیر معمولی ترقی کے امکانات اب بھی نظر نہیں آ تے۔ ایسے میں ایک نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کرکے حکومت سمجھ رہی ہے اس سے کوئی بہت بڑا انقلاب آئے گا۔
نئی قومی تعلیمی پا لیسی کے تناظر میں اس بات پر غور کر نے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ تعلیمی پا لیسی سابقہ غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے ملک میں تعلیمی ترقی کے لئے کوئی ٹھوس ا صلاحات لانے میں کا میاب ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اکیسویں صدی کے تقا ضوں کی تکمیل کے لئے تعلیمی شعبے میں انقلابی اقدامات اب نا گزیر ہو گئے ہیں۔ فرسودہ تعلیمی نظام و نصاب قوم کی امنگوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔اس وقت ملک میں جو تعلیمی سسٹم رائج ہے اس نے بیروزگاروں کی ایک فوج تیار کردی ہے۔ روایتی نظام تعلیم سے آج کا نو جوان بھی مطمئن نہیں ہے۔ اس لئے ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ملک اور قوم کو ضرورت ہے جو ان دونوں کو عصری دور سے ہم آ ہنگ کر سکے۔ اگر مجوزہ تعلیمی پا لیسی قوم میں تعلیمی انقلاب لانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن جیسا کہ خود وزیراعظم نے گورنرس کانفرنس میں کہا کہ اس پالیسی کے تعلق سے ماہرین تعلیم کے ذہنوں میں کچھ اشکالات پائے جاتے ہیں۔ جب تک کسی پالیسی کے بارے شکوک و شبہات دور نہ کئے جائیں اس وقت تک اس پالیسی کے بہتر نتائج آنے کی تو قع نہیں رکھی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم نے تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے پہلے اس پر مباحث منعقد کرنے کی بھی گنجائش رکھی ہے۔ انہوں نے گورنررس سے خواہش کی کہ وہ یونیورسٹیوں میں 25/ ستمبر سے پہلے قومی تعلیمی پالیسی پر ورچول کانفرنس منعقد کرتے ہوئے اس پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر غور خوص کریں اور ماہرین تعلیم کی تجاویز کو حکومت کے پاس روانہ کریں۔صدرجمہوریہ اور وزیراعظم کی اس پہل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ سارے افراد جو تعلیم سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ملک میں نافذ ہو نے والے پالیسی کے بعض نکات سے اختلاف کرتے ہیں انہیں موقع ہے کہ وہ اپنی بات حکومت کے سامنے رکھ سکیں۔ یونیورسٹیوں اور حکومتی اداروں کی جانب سے قومی تعلیمی پالیسی پر جو بھی گفتگو ہوگی اس میں اس پالیسی کی خوبیاں ہی بیان کی جائیں گی۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ اس پالیسی کے نفاذ کے حق میں ہے۔ وہ یہ باور کرا رہا ہے ملک کی آزادی کے بعد ایک بہترین تعلیمی پالیسی ملک میں نافذ ہونے جارہی ہے۔ ان کا ادعا ہے کہ 1986کی قومی تعلیمی پالیسی جو اس وقت رائج ہے وہ اب ازکارِ رفتہ ہو چکی ہے۔ مودی حکومت نے ایک نئی تعلیمی پالیسی کو مدّون کر کے ایک زبردست کارنامہ انجام دیا ہے۔لیکن جن ماہرین تعلیم نے اس تعلیمی پالیسی کا نا قدانہ جائزہ لیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس تعلیمی پا لیسی میں بہت سارے نقائص ہیں۔ خاص طور پر اقلیتوں کے لئے یہ پالیسی نِت نئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ اس پالیسی کے ذریعہ جن عزائم کا اظہار کیا گیا وہ ملک کی متنوع روایات سے میل نہیں کھاتے۔ جمہوریت اور سیکولرازم، جو اس ملک کی پہچان ہے، اس کا تذکرہ سر سری طور پر کیا گیا۔ بھارتی کلچراور بھارتی علوم کی آڑ میں ایک مخصوص مذہب، تہذیب اور زبان کی ترقی کی را ہیں ہموار کی گئیں۔ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے اس کا اظہار واضح انداز میں کیا گیا لیکن یہ کہا گیا کہ صرف آٹھ علاقائی زبانوں میں ای۔مواد فراہم کیا جائے گا، اس میں اردو شا مل نہیں ہے۔ اسی طرح کا معا ملہ عربی کے ساتھ کیا گیا۔ غیرمعروف بیرونی زبانوں کو فہرست میں شامل کیا گیالیکن عربی کو فہرست سے خارج کر دیا گیا۔ زبانوں کے تعلق سے یہ تنگ دلی اس بات کی غماّز ہے کہ حکومت کو مسلمانوں کی تعلیمی ترقی سے کوئی خاص لگاؤ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے 900سا لہ دورِ حکمرانی کو بھی تاریخ کے صفحات سے حرفِ غلط کی طرح حذف کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے عقیدے اور ان کے تشخص کی بر قراری میں یہ تعلیمی پالیسی ایک بہت بڑی رکاوٹ بنے گی۔اس لئے اب بھی وقت ہے کہ حکومت سے نمائندگی اورمطا لبہ کرکے مسلمان اپنے تعلیمی حقوق کا تحفظ کر لیں ورنہ یہی ہوگا کہ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جائے گی۔

Share
Share
Share