کیا کورونا وبائی مرض ہے؟ :- ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

Share

کیا کورونا وبائی مرض ہے؟

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasmi.com)

2019 کے اواخر میں چین کے ووہان شہر سے پھیلا کورونا وبائی مرض پوری دنیا کو چپیٹ میں لے چکا ہے۔ اب تک 16 کروڑ سے زیادہ لوگ اس مرض سے متاثر ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں تین کروڑ سے زیادہ اور ہندوستان میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ افراد اس وبائی مرض سے متاثر ہوئے ہیں۔ دنیا میں 34 لاکھ سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہوکر وفات پاگئے۔ چین اور متعدد ممالک میں اس مرض کے ختم ہونے کے باوجود 2021 میں یہ مرض ہندوستان میں قہر بن کر سامنے آیا ہے۔

روزانہ چار لاکھ سے زیادہ مریض اور چار ہزار سے زیادہ مرنے والوں کی تعداد رہی، چند روز سے مریضوں کی تعداد یقینا کم ہوئی ہے لیکن مرنے والوں کی تعداد میں ابھی بھی کوئی کمی نہیں ہوئی۔
دل ودماغ کو جھنجھوڑنے والا سوال اطمینان بخش جواب کا متقاضی ہے کہ یہ مرض 2021 میں ہندوستان میں ہی اتنی تیزی سے کیوں پھیلا؟ جس پر سائنسداں، سیاسی مبصرین، ماہرین طب، اپوزیشن پارٹیاں، قوم وملت کے محسنین اور مذہبی پیشوا اپنی اپنی آراء پیش کررہے ہیں اور اس پر بحث ومباحثہ طویل عرصہ تک جاری رہے گا۔ دنیا میں کہیں بھی، حتی کہ پڑوسی ممالک میں بھی، یہ مرض اتنی تیز رفتار سے نہیں پھیلا۔ پڑوسی ممالک میں طبی سہولیات ہندوستان سے زیادہ نہیں ہیں، نیز وہاں احتیاطی تدابیر پر عمل ہندوستان سے زیادہ نہیں ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود صرف ہندوستان میں ہی اس مرض کے قہر بننے پر بے شمار سوالات کھڑے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق بھوٹان میں اب تک اس مرض سے صرف ایک فرد، سری لنکا میں ایک ہزار، میانمار میں 3 ہزار، نیپال میں 5 ہزار، بنگلادیش میں 12 ہزاراور پاکستان میں 19 ہزار لوگ مرے ہیں۔ ہندوستان میں اس وبائی مرض سے اب تک تقریباً 3 لاکھ لوگ مرچکے ہیں۔ بعض رپورٹ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ ملک کی موجودہ صورت حال میں رب العالمین اللہ جل جلالہ سے دعا مانگنی چاہئے کہ وہ اس وبائی مرض کے خاتمہ اور اس وبائی مرض سے ہم سب کی حفاظت کا فیصلہ فرمائے۔ آمین۔
کورونا وبائی مرض کے وجود کا ہی انکار کرنا عقلمندی نہیں ہے کیونکہ اس مرض کی وجہ سے مرنے والوں کی کثیر تعداد ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں علماء کرام، دانشورانِ قوم، اپنے اپنے فن کے ماہرین اور دوست واقارب اس مرض کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ ہاں اس مرض کے پیچھے کسی عالمی سازش ہونے کے شک وشبہات ضرور ہیں۔ نیز اس مرض کو جس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور اس پر حکومتوں کے اقدامات پر اعتراضات کئے جاسکتے ہیں۔
دنیا کے سائنسدانوں اور ماہرین طب کا اتفاق ہے کہ بعض امراض متعدی ہوتے ہیں، یعنی مرض ایک شخص سے دوسرے شخص، انسان سے جانور، جانور سے انسان اور ماحولیات (Environment) سے انسان وجانور میں براہ راست یا بالواسطہ منتقل ہوجاتا ہے۔ اطباء (ڈاکٹر حضرات) کا اتفاق رائے مشاہدات اور تجربات کے مطابق بھی ہے، اس لئے فی الحال اس موضوع پر مزید گفتگو کی ضرورت نہیں۔
شریعت اسلامیہ کی روشنی میں علماء ومفتیان کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر کے بغیر کوئی شخص نہ بیمار ہوسکتا ہے اور نہ کوئی مرض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ڈینگی، تب دق (TB)، نمونیا، کالی کھانسی، خسرہ، جذام، طاعون اور کورونا وغیرہ متعدی بیماریاں ایک شخص سے دوسرے شخص کو لگ سکتی ہیں۔ یعنی ہمارا یہ عقیدہ وایمان ہونا چاہئے کہ مرض فی نفسہ متعدی نہیں ہے، مرض میں متعدی ہونے کی تاثیر اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے، وہ اللہ کی مشیت سے مؤثر ہوتی ہے۔ مرض یا کسی بھی چیز میں کوئی تاثیر ذاتی نہیں ہوتی ہے۔ دوا بھی شفا دینے میں حکم الٰہی کا محتاج ہے، چنانچہ مشاہدہ ہے کہ ایک ہی دوا ایک مریض کی صحتیابی اور دوسرے کی عدم صحتیابی کا سبب بنتی ہے۔ جس طرح دوا کی تاثیر ذاتی نہیں ہے، اُسی طرح کسی مرض کا متعدی ہونا ذاتی نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل کے باوجود مرض سے شفایابی کے لئے دوا کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح اللہ کی مشیت سے بعض امراض متعدی ہوسکتے ہیں، یعنی ایک دوسرے کو لگ سکتے ہیں۔
زمانہ جاہلیت میں بعض بیماریوں کے متعلق لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ جب کوئی تندرست آدمی کسی بیمار شخص کے پاس جاتا ہے، تو اس کی بیماری خود بخود منتقل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور مشیت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔تو سید البشر وسید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ”لَا عَدْوَی“ سے اس باطل عقیدے کی تردید فرمائی۔ (بخاری ومسلم) غرضیکہ اسباب کو مؤثر بالذّات ماننے کے بجائے مسبّب الاسباب اللہ جل جلالہ پر ایمان رکھا جائے، یعنی اللہ کے حکم کے بغیر کوئی مرض کسی دوسرے شخص کو نہیں لگ سکتا ہے۔ ہاں اللہ کی مشیت سے کوئی مرض ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے دارالعلوم دیوبند کا فتوی مذکورہ لنک کے ذریعہ پڑھا جاسکتا ہے:
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
بخاری شریف میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جُذام (کوڑھ) کے مریض سے بچو جیسے تم شیر سے بچتے ہو۔ اطباء کے اتفاق اور تجربات ومشاہدات کی روشنی میں جُذام (کوڑھ) کا مرض بھی متعدی ہے۔ اسی طرح مسلم شریف میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: بیمار کو تندرست سے الگ رکھا جائے۔ بخاری ومسلم کی ان دونوں واضح احادیث کے بعد بھی وبائی مرض کے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کا بالکلیہ انکار کرنا ہٹ دھرمی ہے۔ مسلم شریف میں مذکور فرمان رسول کی روشنی میں کورونا وبائی مرض سے متاثر شخص کو گھر یا ہسپتال میں قرنطینہ (Quarantine) کیا جاسکتا ہے۔ ہاں بیمار شخص کو اس کے حال پر چھوڑ کر بھاگ جانا ایک مسلمان کی شان نہیں کیونکہ اللہ کی مشیت سے یہ مرض بھاگنے کے بعد بھی لگ سکتا ہے۔ مسلم شریف کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نوویؒ نے تحریر کیا ہے کہ مرض کے متعدی ہونے کا جو انکار کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ مرض اللہ کی مرضی کے بغیر متعدی نہیں ہوسکتا، ہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مرض ایک سے دوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے۔ نیز مسلم شریف میں ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”لَا عَدْوَی“ فرماکر مرض کے متعدد ہونے کی نفی کی تو ایک دیہاتی نے سوال کیا: یا رسول اللہ! اونٹ ریگستان میں ہرن کی طرح اُچھل کود کررہے ہوتے ہیں کہ کوئی خارش زدہ اونٹ ریوڑ میں کھس جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں سارے اونٹ خارش کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: پہلے اونٹ کو خارش کہاں سے لگی؟ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس اہم موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ سلم نے مرض کے متعدی ہونے کی نفی نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف توجہ دلایاکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے۔ سوال وجواب سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ متعدی بیماری بھی اللہ ہی کے حکم سے کسی کو لگتی ہے۔

بخاری ومسلم وحدیث کی تمام کتابوں میں طاعون (جو ایک وبائی مرض ہے) سے متعلق احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے موجود ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کسی جگہ طاعون (وبا) پھیل جائے تو وہاں کے لوگ اُس بستی سے باہر نہ جائیں، اور دوسری جگہ کے لوگ اُس بستی میں نہ جائیں۔ صحابہ کرام کے عمل سے بھی طاعون وبا کے پھیلنے کی جگہ نہ جانے کا ثبوت کتب احادیث میں موجود ہے۔ اِن احادیث سے معلوم ہواکہ وبائی مرض منتقل ہوسکتا ہے، نیز وبائی امراض سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توکل اور اللہ پر ایمان کے خلاف نہیں ہے۔ جب پورے ملک میں یہ وبائی مرض پھیلا ہوا ہے تو سب کی حفاظت کے لئے بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلا جائے۔

”صحیح مسلم، کتاب السلام، باب اجتناب المجذوب ونحوہ“ میں وارد حدیث میں مذکور ہے کہ قبیلہ ثقیف کے وفد میں ایک مجذوم (کوڑھی) شخص تھا، یہ وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے لئے آیا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (مجذوم) کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم نے آپ سے بیعت کرلی۔ آپ واپس چلے جائیں۔ غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم (کوڑھی) کا ہاتھ پکڑکر بیعت نہ فرماکر اُن کو اپنا پیغام پہنچاکر زبانی بیعت کی اور انہیں واپس جانے کو کہا۔ محدث علامہ نوویؒ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کی روشنی میں علماء امت میں اس پر بھی اختلاف ہوا کہ جذام (کوڑھ) مرض سے متاثر اشخاص کو مساجد اور لوگوں سے میل وجول سے روک دیا جائے یا نہیں۔ اگر مرض متعدی ہوہی نہیں ہوسکتا ہے تو پھر علماء میں اس اختلاف کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

کتب حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دونوں طرح (مرض کا متعدی ہونا اور مرض کا متعدی نہ ہونا) کی روایات منقول ہیں۔ لیکن انہوں نے بعد میں مرض کے متعدی نہ ہونے والی حدیث کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا بند کردیا تھا، صرف وہ احادیث بیان فرماتے تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مرض متعدی ہوسکتا ہے۔ بخاری شریف کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجرؒ شیخ قرطبیؒ کا قول ذکر کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس خوف سے کہ جاہل دونوں احادیث میں (بظاہر) تضاد سمجھے، ”لَا عَدْوَی“ والی حدیث کو بیان کرنا بند کردیا تھا۔ ہاں ضرورت کے وقت وہ دونوں احادیث بیان فرماتے تھے۔ علامہ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اس موضوع پر جو تحریر کیا ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”لَا عَدْوَی“ کے ذریعہ اصل میں اُس عقیدہ کا انکار کیا ہے جو زمانہ جاہلیت میں لوگوں میں پیدا ہوگیا تھا کہ وبائی مرض اللہ کی مشیت کے بغیر بھی منتقل ہوجاتاہے۔

اس بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ”لَا عَدْوَی“ کا یہ مطلب مراد لینا کہ کوئی مرض متعدی ہوتا ہی نہیں ہے اور حفاظتی تدابیر کو توکل اور ایمان وعقیدہ کے خلاف سمجھنا غلط ہے۔ جس طرح پہلا شخص اللہ کی مشیت سے مریض ہوا ہے اُسی طرح یہ مرض اللہ کی مشیت سے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔ لہذا کسی وبائی مرض مثلاً کورونا سے متاثر شخص سے احتیاطی تدابیر کے طور پر بقدر ضرورت دوری بنائے رکھنا اور ماسک کا استعمال کرنا شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ فرمان رسول ہے: جذام کے مریض سے بچو جیسے تم شیر سے بچتے ہو۔ (بخاری) ہاں وبائی مرض سے متاثر شخص سے نفرت کرنے یا اُس کو اُس کے حال پر چھوڑدینے میں اللہ کی طرف سے گرفت ہوسکتی ہے کیونکہ ابن ماجہ کی حدیث میں وارد ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام کے مریض کو اپنے ساتھ بٹھاکرایک برتن میں کھانا کھلایا۔

اگر وبائی مرض سے متاثر کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو شریعت اسلامیہ کی روشنی میں مرنے والے شخص کا یہ حق ہے کہ غسل دے کر، کفن پہناکر، نمازجنازہ پڑھ کر اسے احترام کے ساتھ دفن کیا جائے۔ اسی لئے مفتیان کرام نے کورونا وبائی مرض کی وجہ سے مرنے والوں کے متعلق فرمایا کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے انہیں غسل دینے اور کفنانے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔ غسل کی اجازت نہ ملنے پر تیمم کی بھی گنجائش ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے تیمم بھی نہ کرایا جاسکے تب بھی نماز جنازہ ضرور پڑھنی چاہئے۔ چند افراد کا نماز جنازہ پڑھنا سب کی طرف سے کافی ہے کیونکہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی
Share
Share
Share