سگریٹ نوشی ایک جان لیوا شوق

Share

ہر فکر کو دھویں میں اڑاتا چلاگیا ۔ ۔ ۔ مگراپنی جان کی ہی فکر نہ کی

عالمی تنظیم صحت کے سلسلے میں اپولو ہاسپٹلس کے فزیشین ڈائبالوجسٹ ڈاکٹراسیش چوہان نے کہا ہے کہ عالمی تنظیم صحت کے مطابق ہر سال تمباکو نوشی سے دنیا بھر میں تقریباً6ملین افراد کی موت ہوتی ہے۔
انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سگریٹ پینے والوں کی عمر دس سال کم ہوجاتی ہے اور وہ اپنی عمر سے دس سال پہلے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی جلد سے جلد ختم کرنے کے سلسلے میں اقدامات کرنے چاہئے۔سگریٹ نوشی سے یادداشت، سیکھنےاوراستدلال کی قوتیں متاثر ہوتی ہےاوراس کے باعث دماغ گل سڑ جاتا ہے۔
یہ تحقیق لندن کی کنگز کالج نے کی ہے اور یہ ایج اینڈ ایجنگ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیق میں پچاس برس سے زیادہ عمر کے 8800 افراد کا مشاہدہ کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ افراد کو بلڈ پریشر کی تکلیف اور موٹاپے سے بھی دماغ متاثر ہونے کے شواہد ملے۔لیکن یہ اثرات تمباکو نوشی سے ہونے والےاثرات سے کم تھے۔اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ طرزِ زندگی سے بھی جسم کے ساتھ
ساتھ دماغ متاثر ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں سائنسدانوں نےامراضِ قلب ہونے کےامکانات اور دماغی حالت کے درمیان روابط ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
تحقیق میں پچاس سال سے زائد عمر کے ایک گروپ کے طرزِ زندگی اور صحت کے باری میں اعداد و شمار لیے گئے۔ ان کا دماغی ٹیسٹ لیا گیا جس میں ان کو نئے الفاظ سیکھنے یاایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ جانوروں کے نام بتانے کا کہا گیا۔ان افراد کا یہی ٹیسٹ دوبارہ چار سال بعد اور پھر آٹھ سال بعد لیا گیا۔
مجموعی طور پر یہ دیکھا گیا کہ جن افراد کی سمجھ بوجھ کی قوت میں کمی آئی ان میں امراضِ قلب ہونے کے امکانات زیادہ تھے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ان ٹیسٹوں میں بری کارکردگی کا تعلق سگریٹ نوشی سے بنتا تھا۔
اس تحقیق میں شامل ایک سائنسدان ڈاکٹر ایلکس ڈریگن کا کہنا ہے ’سمجھ بوجھ کی قوت عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جاتی ہے جس کے باعث کئی افراد کو روز مرہ کی زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ تاہم اس کو روکا جا سکتا ہے اگر لوگ اپنی طرزِ زندگی کو تبدیل کرلیں۔امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے ایک جریدہ میں شائع اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ جو خواتین سگریٹ پینا چھوڑ دیتی ہیں، ان کی دل کے اچانک دورے سے ہلاکت کے امکانات چند ہی سالوں میں کم ہونے لگتے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران دل کے دورے سے اچانک ہلاکتوں کی تعداد تین سو پندرہ تھی۔
پینتیس سال اور اس سے کم عمر کے لوگوں میں ایسی ہلاکتوں کی وجہ عموماً خاندان میں دل کے مرض کی موجودگی ہوتی ہے مگر اس عمر سے زیادہ کے افراد میں یہ دل کے مرض کی پہلی علامت ہوتی ہے۔
تحقیق کے دوران ہلاک ہونے والی تین سو پندرہ ہلاکتوں میں سے پچہتر ایسی خواتین تھیں جو کہ سگریٹ نوشی جاری رکھے ہوئی تھیں، ایک سو اڑتالیس نے حال ہی میں سگریٹ نوشی چھوڑ دی تھی اور ایک سو اٹھائیس نے کبھی سگریٹ نہیں نوش کیا۔ڈاکٹر روپندر ساندھو کی تحقیقاتی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ جب دل کے امراض کی دیگر وجوہات جیسے کہ بلند فشارِ خون، کولسٹرول کی اونچی سطح اور خاندان میں اس مرض کی موجودگی کو مدِنظر رکھا جائے تو روزانہ ایک سے چودہ سگریٹ نوش کرنے والی خواتین کو اچانک دل کا دورہ پڑنے کا امکان دگنا ہے۔
پر پانچ سال کی مسلسل سگریٹ نوشی سے اس خطرے میں آٹھ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔
سگریٹ نوشی چھوڑ دینے والے شرکاء میں ان خطروں کے سطح معمول پر آنے میں بیس سال لگ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ساندھو کا کہنا ہے کہ سگریٹ چھوڑنا مشکل ہو سکتا ہے اور مگر اس کے فوائد سب افراد کے لیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کئی بار کوشش کرنی پڑ سکتی ہے۔
برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی دل کے امراض کے لیے سینیئر نرس ایلن مینسن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ دن میں صرف چند سگریٹ پینا بھی آپ کی صحت کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’نئے سال کی آمد پر ہم میں سے بہت سےافراد سگریٹ نوشی ترک کرنے کاارادہ کریں گے۔اگرآپ سگریٹ نوشی چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ تحقیق آپ کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہے۔‘
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تحقیق کے مطابق تیس سال کی عمر تک تمباکو نوشی ترک کر دینے والی خواتیں کو تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے ہلاکت کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لانسٹ جریدے میں شائع ہونے والے اس تحقیق کے نتائج کے مطابق تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت زندگی بھر تمباکو نوشی کرنے والے ایک دہائی پہلے ہلاک ہو گئے۔ تاہم جنھوں نے تمباکو نوشی شروع کی اور تیس سال کی عمر تک چھوڑ دی تو ان کی زندگی اوسطاً ایک مہینہ کم ہوئی اور جنھوں نے چالیس سال کی عمر تک تمباکو نوشی سے چٹکارا پایا ان کی زندگی ایک سال کم ہوئی۔
ایک عالمی تحقیق کے نتیجے میں یہ سامنے آیا ہے کہ سگریٹ نوشی پر پبلک مقامات پر پابندی سے بچوں کی صحت اور مثبت اثرات پڑے ہیں۔محققین کے مطابق اس قسم کے قوانین سے بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور بچوں میں دمے کے اثرات میں اس قانون کے لاگو ہونے کے بعد سے دس فیصد کمی واقع ہوئی۔
اس ٹیم نے شمالی امریکہ اور یورپ میں ماضی میں کی گئی گیارہ تحقیقات کا تجزیہ کیا۔
رائل کالج آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکالوجسٹس کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی پر پابندی سے جوانوں او بچوں کو فائدہ ہوا ہے۔یہ ان بڑی تحقیقات میں سے ایک ہے جو مختلف ممالک میں سگریٹ نوشی کے خلاف قوانین کے بچوں پر اثرات کا جائزہ لیتی ہے۔اس تحقیق میں برطانیہ، بیلجئیم اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے محققین نے اڑھائی لاکھ بچوں کی پیدائش اور ہسپتالوں میں اڑھائی لاکھ بچوں کے دمے کے نتیجے میں آمد کا جائزہ لیا۔
اس تحقیق میں حصہ لینے والے ڈاکٹر جیسپر بین جن کا تعلق بیلجیئم کی ماسٹریخٹ یونیورسٹی سے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ 12 سال سے کم عمر کے بچوں پر تحقیق کے نتائج بہت اہم تھے۔
ڈاکٹر جیسپر نے کہا کہ ’ہماری تحقیق واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی سے پابندی سے کم سن بچوں اور بچوں کی عمومی صحت پر بہترین اثرات مرتب کیے ہیں اور اس کے نتیجے میں عالمی ادارۂ صحت کی تجاویز جو سگریٹ نوشی سے پاک پبلک مقامات کے بارے میں ہیں کو تقویت ملتی ہے۔‘
اس تحقیق کے ایک اور مصنف پروفیسر عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے نتیجے میں بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کی مزید مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسے کئی ممالک جن میں تمباکو نوشی کے خلاف قوانین موجود نہیں ہیں انہیں ان نتائج کے بعد صحت کے اس اہم شعبے پر توجہ دینی چاہیے۔‘
اس سے قبل کی جانے والی تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا بھر میں 40 فیصد بچے تمباکو کے دھویں کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں جسے سانس کی تکالیف اور دمے کے حملوں کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔
حالیہ یورپی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اس طرح تمباکو کے دھویں سے متاثر ہونے کے نتیجے میں شریانوں کے تنگ ہونے اور اس سے دل کی بیماریوں کے بڑھنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس طرح کے مسائل بچوں میں اس لیے زیادہ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پھیپھڑے اور قوتِ مدافعت ابھی نشونما پا رہی ہوتی ہے۔اس وقت دنیا کی 16 فیصد آبادی تمباکونوشی سے پاک قوانین والے ممالک میں رہتی ہے۔
تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی تنظیم فارسٹ کا کہنا ہے کہ ’یاد رہے کہ برطانیہ میں دمے کے مرض کا شکار افراد کی تعداد گزشتہ 40 سال میں تین گنا ہو چکی ہے اور اسی عرصے کے دوران تمباکونوشی کرنے والے افراد کی تعداد نصف ہو چکی ہے۔ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں ہونے والی تمام اموات میں سے دس فیصد کا باعث پھیپھڑوں کی بیماری کے باعث ہوتی ہیں اور اس کا بڑا سبب سگریٹ نوشی ہے۔
دوسری جانب ایک برطانوی ادارے کا کہنا ہے کہ پھیپھڑوں کی بیماری سے ہر چار میں سے ایک شخص ہلاک ہوتا ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود پھیپھڑوں کی بیماری کی روک تھام، علاج اور تحقیق کو ترجیح نہیں دی جاتی۔
عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق یورپ میں پھیپھڑوں کی چار بڑی مہلک بیماریاں پائی جاتی ہیں، نچلے نظامِ تنفس کے انفیکشن (مثلاً نمونیا)، سی او پی ڈی (پھیپھڑوں کی مزمن بیماری)، پھیپھڑوں کا سرطان اور تپِ دق (ٹی بی)، جو ہر دس میں سے ایک ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔
البتہ رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے 28 ملکوں میں یہ بیماریاں ہر آٹھ میں سے ایک موت کا باعث بنتی ہیں۔
صرف بیلجیئم، ہنگری، ڈنمارک اور آئرلینڈ ایسے ملک ہیں جہاں برطانیہ سے زیادہ لوگ پھیپھڑوں کی بیماریوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں۔
فن لینڈ اور سویڈن میں ان امراض کے باعث ہونے والی اموات کی شرح سب سے کم ہے۔
رپورٹ کے اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نظامِ تنفس کی بیماریوں پر آنے والی کل سماجی اور معاشی لاگت کا آدھا حصہ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ تمباکو نوشی ’یورپ میں صحت کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ہے،‘ اور تمباکو نوشی پھیپھڑوں کے سرطان، سی او پی ڈی اور دل کی رگوں کی بیماریوں کی ایسی سب سے بڑی وجہ ہے جس سے بچا جا سکتا ہے۔
2000 سے برطانیہ کا ادارۂ صحت این ایچ ایس لوگوں کو تمباکو نوشی ترک کرنے کے لیے مفت مشورے اور کونسلنگ فراہم کر رہا ہے۔‘‘

Share

One thought on “سگریٹ نوشی ایک جان لیوا شوق”

Comments are closed.

Share
Share